Featured Post

National Narrative Against Terrorism دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ تاریخی فتویٰ ’’پیغام پاکستان‘‘

National Narrative Against Terrorism دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ تاریخی فتویٰ ’’پیغام پاکستان‘‘ تمام مسالک ک...

Tuesday, December 4, 2018

Jihad and Fisad نفاذاسلام کاآغاز اور جہاد


آج دنیا بھر میں جہاد کے پھیل جانے کی دلچسپ کہانی سنانے بیٹھا ہوں...... مگر ایک بات جو کافی عرصے سے لکھنے کی کوشش ہے مگر وہ رہ جاتی ہے......اسکا کچھ تذکرہ ہوجاۓ...... مجاہدین کوجن چیزوں نےسخت نقصان پہنچایاہے....... ان میں سےایک یہ ہےکہ....... جہا دشروع کرتےہی اسلام نافذ کرنےکی بہت جلدی کی جاتی ہے....... اوراسلام کےبھی صرف وہ احکام نافذکرنےمیںتیزی دکھائی جاتی ہےجوفرائض کےدرجہ میں نہیں آتے....... 
اسلام میں سب سےپہلےکلمہ طیبہ....... یعنی ایمان اورعقیدہ کی اہمیت ہے....... اس کےبعد فرائض کادرجہ آتاہے....... اقامت صلوۃ،زکوۃ،حج،رمضان المبارک کےروزے...... اورجہادفی سبیل اللہ...... 
اگرکوئی مسلمان ان دومیں پختہ ہوجاۓ یعنی کلمہ اورفرائض...... توپھراسکےلئےباقی احکام پرعمل آسان ہوجاتاہے......
 مگردیکھایہ گیاکہ...... اسلام نافذ کرنےکا کام نائیوں،حجاموں کی دکانوں پربم پھاڑنے، یاویڈیو کی دکانوں کواڑانےسےہوتا ہے...... 
اگرآپ عوام کےساتھ جوڑ،محبت اورحسن سلوک کےساتھ پیش نہیں آتےتوپھرآپ کاجہاد زمین پرنہیں جم سکتا.......
 کچھ کم علم لوگ جن کودین کی بنیادی باتوں کا بھی علم نہیں ہے....... وہ جومسئلہ بھی سنتےہیںبس وہی انکےنزدیک دین اورعلم کی انتہا ہوتاہے....... 
داڑھی کاسنا تواب داڑھی منڈانے والوںکےلیےگولی ...... پردےکا سنا تواب بےپردہ عورتوں کےلیےتیزاب...... فلموںکا سنا تواب ویڈیووالوں کےلیےسزاۓموت......
 یہ بہت خطرناک صورتحال ہے......
 اسی طرح مال غنیمت کےمسائل میں بھی بہت غلطی ہے...... لوگوں سےزبردستی چندہ ،تاوان یازکوۃ وصول کرنے سےجہاد کوبےحد نقصان پہنچاہے...... 
ایک زمانہ کشمیرکےہرپہاڑپرایک "امیرالمؤمنین" بیٹھا تھا...... بکروال اپنےریوڑ لیکرنکلتےتوہر پہاڑپربیٹھایہ "حاکم" بکریاں گن کر"زکوۃ" نکال لیتا...... اوریوں جہاد کےاہم ترین معاونین "بکروال برادری" مجاہدین سے بدظن ہوگئی...... 
بے شک داڑھی منڈاناگناہ ہے...... بےشک ویڈیوکی دکانیں اسلامی معاشرے کےلیے خطرناک ہیں...... بےشک اسلام میں پردہ کاحکم ہے...... لیکن یہ وہ احکامات نہیں ہیں کہ جن سے...... نفاذاسلام کاآغاز کیاجاۓاورانہی مسائل کوسب کچھ سمجھاجاۓ.....
اوران غلطیوں پرقتل جیسے بھیانک فیصلے کیے جائیں......یا سکولوں کواڑانا ہی جہاد سمجھاجاۓ......

 مجاہدین کو چاہیےدین کاپختہ علم حاصل کریںی اپختہ علم والے علماء کرام کی اتباع کریں...... اپنی توجہ جنگ پررکھیں ان احکامات کونافذ کرنےکاوقت بعدمیں آۓ گا......
اپنےاعمال کابھی محاسبہ کریںکہ دوسروں کوجن چھوٹی باتوں پر قتل کرتے ہیں کہیں خود ان سے بڑی غلطیوں میں مبتلا تو نہیں......
( مولانا محمد مسعود ازہر صاحب کی تازہ ترین تحریر "رنگ و نور" سے اقتباس)

 http://dunya.com.pk/news/authors/detail_image/x4611_66031164.jpg.pagespeed.ic.E0_f597_Vt.jpg

دہشت گردوں کا معاشرے میں زندہ اور موجود رہنا علماء اور عوام کی اسلام اور قرانی تعلیمات سے نا واقفیت اور کم علمی ہے.   اگر
  میڈیا پر دہشت گردی کی ویڈیو کوریج کے نیچے صرف قرآن کی وہ آیات جو قتل ناحق سے منع کرتی ہیں پشتو اور اردو ترجمے کے ساتھ  پٹی چلا دیں تو کم از کم جو طالبان دہشت گردوں کے ھمدرد ہیں جن کو جاہل قسم کے علماء نے دھوکے میں رکھا ہے ان کا دماغ میں واضح ہو گا کے کون قرآن پر عمل کر رہا ہے ور کون قرآن کو رد کر رہا ہے .

کچھ آیات اور ترجمہ درج زیل ہے :

اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ "جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی"
 مگر اُن کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے در پے ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے پھر بھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں. جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں اُن کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا اُن کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں، یہ ذلت و رسوائی تو اُن کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں اُن کے لیے اس سے بڑی سزا ہے
5: 31-32 سورة المائدة

 وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ
اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کردیا ہے ہرگز ناحق قتل نہ کرنا
(Quran;17:33)

وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا

اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے
.(Quran;4:93)

 وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ
 فتنہ قتل سے بھی بڑا گناه ہے
[Qur'an;2:217]

أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا

 یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا اس لیے اُن کے سارے اعمال ضائع ہو گئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے
 (Quran;18:105)

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّـهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ

اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، گو ان کے باپ دادے بےعقل اور گم کرده راه ہوں
(Quran;2:170) Also see Quran;32:21, 43:22,23)

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

جو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وه قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاوں کاٹ دیئے جائیں، یا انہیں جلاوطن کر دیا جائے، یہ تو ہوئی ان کی دنیوی ذلت اور خواری، اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے
“(Quran; 5:33)

وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّـهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ‌ فِيهَا اسْمُ اللَّـهِ كَثِيرً‌ا ۗ وَلَيَنصُرَ‌نَّ اللَّـهُ مَن يَنصُرُ‌هُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ

 اور اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے) صومعے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں خدا کا بہت سا ذکر کیا جاتا ہے ویران ہوچکی ہوتیں۔ اور جو شخص خدا کی مدد کرتا ہے خدا اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔ بےشک خدا توانا اور غالب ہے (Quran 22:40)

مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ

جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبا ل اُسی پر ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا
(Quran;17:15)

مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا

جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہ
.(Quran;4:85)

Monday, December 3, 2018

فاسق وظالم حکمرانوں کے خلاف خروج : ایک تحقیقی جائزہ


فاسق مسلمان حکمران کے خلاف خروج فتنہ و فساد جائز نہیں:فاسق مسلمان حکمران کے خلاف تو خروج جائز نہیں ہے لیکن ظالم یا بے نماز مسلمان حکمران کے خلاف خروج کا جواز چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے لیکن فی زمانہ ان شرائط کا حصول مفقود ہونے کی وجہ سے ظالم اور بے نماز مسلمان حکمران کے خلاف خروج بھی جائز نہیں ہے۔
ایسے حکمرانوں کو وعظ و نصیحت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجب ہے لیکن ا للہ کے رسول ۖ کے فرامین کے مطابق کسی فاسق و فاجرمسلمان حکمران کے خلاف خروج حرام ہے کیونکہ اس میں مسلمانوں کا اجتماعی ضرر اور فتنہ و فساد ہے۔ ہاں اگر کسی پر امن طریقے مثلاً احتجاجی سیاست وغیرہ سے ان حکمرانوں کی معزولی اوران کی جگہ اہل عدل کی تقرری ممکن ہو تو پھر ان کی معزولی اور امامت کے اہل افراد کی اس منصب پر تقرری بھی اُمت مسلمہ کا ایک فریضہ ہو گی-
فاسق و فاجرحکمرانوں کے خلاف خروج کی حرمت کے دلائل درج ذیل ہیں۔ آپ کا ارشاد ہے:
١) ''ألا من ولی علیہ وال فرآہ یأتی شیئاً من معصیة اللہ فلیکرہ ما یأتی من معصیة اللہ ولا ینزعن یدا من طاعة.'' (صحیح مسلم' کتاب الامارة' باب خیار الأئمة و شرارھم)
''خبردار! جس پر بھی کوئی امیر مقررہوا اور وہ اس امیر میں اللہ کی معصیت پر مبنی کوئی کام دیکھے تو وہ امیر کے گناہ کو تو ناپسند کرے لیکن اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے۔''
٢) ''من کرہ من أمیرہ شیئا فلیصبر علیہ فنہ لیس من أحد من الناس یخرج من السلطان شبرا فمات علیہ لا مات میتة جاھلیة.''(صحیح مسلم' کتاب الامارة' وجوب ملازمة جماعة المسلمین عند ظھور الفتن ؛ صحیح بخاری' کتاب الفتن' قول النبی سترون بعدی أمورا تنکرونھا)
جسے اپنے امیر میں کوئی برائی نظر آئے تو وہ اس پر صبر کرے کیونکہ کوئی بھی شخص جب حکمران کی اطاعت سے ایک بالشت برابر بھی نکل جاتا ہے اور اسی عدم اطاعت پر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔
٣) '' ومن خرج علی أمتی یضرب برھا وفاجرھا ولا یتحاش عن مؤمنھا و لا یفی لذی عھد عھدہ فلیس منی ولست منہ.'' (صحیح مسلم' کتاب الامارة' وجوب ملازمة جماعة المسلمین عند ظھور الفتن)
''اور جو شخص بھی میری امت پر خروج کرے اور اس کے نیک و بدکار دونوں کو مارے اور امت کے مومن سے کو بھی اذیت دینے سے نہیں بچتا (جیسا کہ آج کل کے خود کش حملوں میں معصوم اور دیندار شہریوں کی بھی ہلاکت ہو جاتی ہے)۔ اور نہ ہی کسی ذمی کے عہد کا لحاظ کرتا ہے تو نہ ایسے شخص کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔ ''
٤) ''مَنْ حَمَلَ عَلَیْنَا السَّلَاحَ فَلَیْسَ مِنَّا.''(صحیح بخاری' کتاب الفتن' باب قول النبی من حمل علینا السلاح فلیس منا)
''جس نے ہم پر(یعنی مسلمانوں پر) ہتھیار اٹھائے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔''
٥) ''سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر.''(صحیح بخاری' کتاب الایمان' باب خوف المؤمن من أن یحبط عملہ)
''کسی مسلمان کو گالی دینا فسق و فجور ہے اور اس کا قتل کفریہ فعل ہے۔''
٦) '' اذا التقی المسلمان بسیفیھما فالقاتل والمقتول فی النار.''(صحیح بخاری' کتاب الایمان' باب قولہ تعالی وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا)
''جب دو مسلمان آپس میں اپنی تلواروں(یعنی ہتھیاروں) سے آمنے سامنے ہوں تو قاتل ومقتول دونوں آگ میں ہوں گے۔''
٧) ''لا ترجعوا بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض.''(صحیح بخاری' کتاب الفتن' باب قول النبیۖ لا ترجعوا بعدی کفارا)
تم میرے بعد کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جانا۔
٨) عن عدیسة بنت ھبان بن صیفی الغفاری قالت: جاء علی بن أبی طالب لی أبی فدعاہ للخروج معہ' فقال لہ أبی: ان خلیلی و ابن عمک عھد لی اذا اختلف الناس أن اتخذ سیفا من خشب فقد اتخذتہ فن شئت خرجت بہ معک قالت: فترکہ.''(سنن الترمذی' کتاب الفتن عن رسول اللہ' باب جاء فی اتخاذ سیف من خشب فی الفتنة)
'' عدیسہ بنت ھبان فرماتی ہیں کہ حضرت علی میرے والد صاحب کے پاس آئے اور انہیں اپنے ساتھ (حضرت معاویہ کے خلاف جنگ میں) نکلنے کی دعوت دی۔ تو میرے والد نے حضرت علی سے کہا : بے شک میرے دوست اور آپ کے چچازاد(یعنی محمد ۖ) نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ جب مسلمانوں میں باہمی اختلاف ہو جائے تو تم لکڑی کی ایک تلوار بنا لینا۔ پس میں نے لکڑی کی ایک تلوار بنا لی ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں اس تلوار کے ساتھ آپ کے ساتھ جانے کو تیارہوں۔ عدیسہ بنت ھبان فرماتی ہیں: اس بات پر حضرت علی نے میرے والد کو ان کی حالت پر چھوڑدیا۔''علامہ ألبانی نے اس روایت کو 'حسن صحیح ' کہا ہے۔(صحیح ابن ماجة :٣٢١٤)
٩) کسروا فیھا قسیکم و قطعوا أو تارکم و اضربوا بسیوفکم الحجارة فان دخل علی أحدکم فلیکن کخیر ابنی آدم۔(سنن أبی داؤد' کتاب الفتن و الملاحم' باب فی النھی عن السعی فی الفتنة)
فتنوں کے زمانے میں اپنی کمانیں توڑ دو۔ اور ان کی تانت ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔ اور اپنی تلواریں پتھروں پر دے مارو۔ پس اگر تم میں کسی ایک پر کوئی چڑھائی کرے تو وہ آدم کے دو بیٹوں میں سے بہترین کی مانند ہو جائے۔ علامہ ألبانی نے اس روایت کو 'صحیح' کہا ہے۔ (صحیح ابن ماجة:٣٢١٥)
حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اس بھائی کی مانند ہو جانا کہ جس نے قتل ہونا تو پسند کر لیا تھا لیکن اپنے بھائی کو قتل کرنے سے انکار کر دیا تھا جیسا کہ سورۃ المائدۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ ۖ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ رَ‌بَّ الْعَالَمِينَ ﴿٢٨﴾
'' البتہ اگر تو نے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تاکہ تو مجھے قتل کرے تو میں اپنا ہاتھ تیری طرف بڑھانے والا نہیں ہوں تاکہ تجھے قتل کروں۔ بے شک میں تمام جہانوں کے رب سے ڈرنے والا ہوں۔ بے شک میں یہ چاہتا ہوں کہ تم (یعنی قاتل) میرے اور اپنے گناہوں کے ساتھ لوٹ جاؤ اور اس کے سبب سے جہنم والوں میں سے ہوجاؤ۔''
١٠) ''وان اللہ لیؤید ھذاالدین بالرجل الفاجر.''(صحیح بخاری' کتاب الجھاد والسیر' باب ن اللہ یؤید الدین بالرجل الفاجر)
''بے شک اللہ سبحانہ و تعالی اس دین اسلام کی تائیدو نصرت فاسق و فاجر آدمی کے ذریعے کرتا ہے۔''
پڑھتے جائیں >>>>>>

Related :

Jihad, Extremism

    Sunday, September 16, 2018

    Oppression of Muslims in China 穆斯林在中国的压迫 چین میں مسلمانوں پر ظلم و جبر اور امت مسلمہ کی خاموشی ؟


    Xi Jinping’s government has decided to declare Islam a contagious “ideological illness,” and quarantine 1 million Uighurs in reeducation camps, according to an estimate from the United Nations. In interviews, former inmates from these camps say that they were made to renounce their faith, sing Communist Party songs, consume pork, and drink alcohol; other reports suggest some of the truly “ideologically sick” have been tortured and killed.
    Read full at Source :  http://nymag.com/…/china-muslims-camps-uighur-communist-par…
    چین میں  یغور نسل سے تعلق رکھنے والے 20 لاکھ  مسلمانوں کو ’’انسداد انتہا پسندی ‘‘ کے لیے قائم کیمپوں میں اسلام سے دور کرنے اور کمیونسٹ دھریہ ملحد بنانے کے لئیے کیمپوں میں رکھا جارہا ہے‘‘ یہ انفارمیشن اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کی ایک رپورٹ سے ملی ہے- مگر افسوس کا مقام ہے کہ امت مسلمہ اس ظلم و جبر پر خاموش ہے؟  پڑھتے جائیں >>>>>
    中国是巴基斯坦的好朋友,但我们必须为中国穆斯林兄弟的人权发声! 据联合国估计,习近平政府决定宣布伊斯兰教是一种具有传染性的“意识形态疾病”,并在劳教所内隔离100万维吾尔族人。在采访中,来自这些营地的前囚犯说,他们被迫放弃信仰,唱共产党歌曲,吃猪肉,喝酒;其他报道表明,一些真正“意识形态病态”的人遭受了折磨和杀害。 阅读Source的完整内容

    Related :

    Jihad, Extremism

      Sunday, September 9, 2018

      سب کا پاکستان ایک خواب Inclusive Pakistan


      ماہرین اس بات پر گہرائی سے غور و فکر کر رہے تھے کہ ایک ایسا ملک جس کے پاس مذہبی قومی نسلی تعصبات سے بالاتر ہو کر شہریوں کو باہم شیر و شکر کرنے والا آئین ہو اس ملک کے بدترین مذہبی تعصب میںمبتلا ہونے کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں ۔

      AFTER the despicable Gojra riots in Punjab’s Faisalabad district that targeted Christians living in the area, a few Muslim scholars attempted to grapple with the issue of constitutionalism in Pakistan. The disturbances had badly damaged the country’s image. It was 2009 when Pakistan faced the maximum number of attacks for any year. The scholars were trying to understand how a country with such an inclusive Constitution could suffer some of the worst forms of religious bigotry. Keep reading at the end .....

      کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ماضی میں ریاست کی طرف سے علاقائی حالات کے باعث ملک میں مذہبی عصبیت کے فروغ دینے کا ردعمل ہے۔ کچھ اس صورت حال کو نظریاتی انتہا پسندی کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو کچھ کا خیال ہے کہ اس کی وجہ عسکری اور سیاسی قیادت میں عدم توازن کے باعث معاملہ پر توجہ نہ دیا جانا ہے۔ تاہم تمام مباحثے پاکستانی معاشرہ میں انتہا پسندی کی وجوہات کا احاطہ کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر اس قسم کے غورو فکر کے نتیجے میں اس بات پر اتفاق دکھائی دیتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ میں شدت پسندی اور تقسیم کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشرہ اور ریاست مجموعی طور پر جدت پسندی اور قدامت پسندی کے مابین بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ 

      گوجرہ ہنگاموں‘ جن میں عیسائی برادری کو ٹارگٹ کیا گیا تھا‘ کے بعد کچھ مسلمان دانشوروں نے اس معاملہ پر قابو پانے کے لیے آئینی حدود میں رہتے ہوئے کوششوں کا آغاز کیا تھا۔ فیصل آباد واقعہ نے ملک کا بین الاقوامی سطح پر تاثر بری طرح متاثر کیا تھا۔2009ء تو ایسا سال تھا جس میں اقلیتوں پر سب سے زیادہ حملے ہوئے۔ 

      ایک عام پاکستانی ایک مخصوص فریم میں رہتے ہوئے ترقی پسند بننا چاہتا ہے۔ ریاست بھی بین الاقوامی کمیونٹی میں اپنے اداروں میں اصلاحات کے بغیر اہم مقام کی خواہاں ہے یہ ظاہری تضاد ہمارے رویوں میں دوغلا پن پیدا کر رہا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک شخص اپنے گزشتہ موقف سے ہٹے بغیر ہی مکمل یوٹرن 
      لے لیتا ہے۔ اسی سنڈروم میں بظاہر ہماری نئی حکومت مبتلا محسوس ہوتی ہے۔ 

      اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے ریاست نے ایسے اقدامات بھی کئے ہیں جن سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ماضی کی غلطیوں کی تصحیح کا فیصلہ کیا جا چکا ہے اور معاشرہ میں اجتماعیت کے رویہ کے فروغ کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس طرح کی ایک کوشش رواں برس کی ابتدا میں پیغام پاکستان کی صورت میں کی گئی۔ پیغام پاکستان معاشرہ میں بڑھتی انتہا پسندی اور تشدد کے خلاف متبادل بیانیہ ہے جو مذہبی علماء کے فتوئوں پر مشتمل ہے۔ 

      اس ڈیکلریشن میں ملک بھر کے 1800سے زائد علماء کا اتفاق ہوا تھا ۔پیغام پاکستان کو ریاست اور معاشرہ کی مشترکہ اجتماعی سوچ کا عکاس قرار دیا جا رہا تھا اور یہ کام آئین پاکستان اور قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کیا گیا تھا۔ پیغام پاکستان کے بعد ہی سکیورٹی اداروں نے تعلیمی اداروں میں شعور کی بیداری کی مہم کا آغاز کیا تھا جس کو پاکستان کا روڈ میپ قرار دیا جا رہا تھا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اس ڈیکلریشن کو چند کالعدم تنظیموں نے یرغمال بنانے کی کوشش بھی کی۔ ان تنظیموں کی قیادت اس ڈیکلریشن کی افتتاحی تقریب کے وقت صدارتی محل میں بھی موجود تھی تاہم اس پیغام کو پھیلانے کیلئے ملک بھر میں سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ بظاہر یہ ایک مثبت عمل محسوس ہو رہا تھا کہ کالعدم تنظیمیں اور تشدد پسند تنظیمیں بھی پیغام پاکستان کی پاسداری اور حمایت پر آمادہ ہیں مگر اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ ردعمل میں ایک فرقہ نے اس ڈیکلریشن کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اس ڈیکلریشن کی صورت میں کالعدم تنظیموں کو محفوظ راستہ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ جو اس وقت شدید دبائو میں تھیں۔ 

      تحریک لبیک پاکستان کا شمار بھی ان جماعتوں میں ہوتا ہے جنہوں نے پیغام پاکستان کی تائید و حمایت نہیں کی۔ بہت سے مذہبی حلقوں کا خیال تھا کہ کالعدم تنظیمیں اہل سنت والجماعت اور جماعت الدعوہ اس دستاویزکو عوام میں اپنی قانونی حیثیت کے لیے استعمال کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ’’ پیغام پاکستان‘‘ ملک میں کوئی واضح تاثر پیدا کرنے میں ناکام رہا۔ جہاں تک پیغام پاکستان کے مواد کا تعلق ہے‘یہ جامع اور مذہبی دلائل سے بھر پور ہے مثال کے طور پر اس میں پاکستانی معاشرہ کی تنظیم نو کی بات کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستانی نہ دوسروں کے مذاہب کی تذلیل کریں گے نا ہی ان مذاہب کے پیشوائوں کی بے توقیری اور توہین کی جائے گی۔ مسلمانوں پر لازم ہو گا کہ وہ دوسرے مذاہب کے افرادکو تبلیغ اور دلائل سے قائل کر کے اسلام کی جانب راغب کریں گے۔ 

      جبکہ دیگر مذاہب کو اپنے مذہبی عقائد اور عبادات کی مکمل آزادی ہو گی۔ پیغام پاکستان میں آئین پاکستان میں مذہبی آزادی کی شقوں کوبھی قرآن و سنت کے عین مطابق اور ہم آہنگ قرار دے کر ان کی تائید کی گئی ہے۔ 
      پیغام پاکستان میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ریاست اخلاقی اور قانونی حدود میں رہتے ہوئے دیگر تمام مذاہب کو مذہبی آزادی کی گارنٹی دیتی ہے۔
      ان حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ ریاست کی نظر میں تمام شہری برابر ہوں گے، سب کو مساوی مواقع حاصل ہوں گے۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہوں گے، ان کو برابر سماجی معاشی حقوق‘ سیاسی انصاف‘ آزادی اظہار اورعبادت کی آزادی حاصل ہو گی۔ اسی طرح اس ڈیکلریشن میں فرقہ وارانہ تعصب ‘مسلح تصادم اور بزور طاقت دوسروں پر اپنے مخصوص عقائد مسلط کرنے کی مذمت بھی کی گئی ہے۔ اس ڈیکلریشن ‘جس پر تمام علماء کے دستخط موجود ہیں‘ میں یہ لکھا گیا ہے کہ وہ معاشرہ میں جمہوری اصول کے فروغ کے لیے مل کر کام کریں گے اس سماج کی بنیاد رکھنے میں اپنا حصہ ڈالیں گے جس میں آزادی ‘ مساوات، برداشت، ہم آہنگی اور باہمی احترام موجود ہو اور انصاف کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کے رویے کو فروغ دینے میں معاونت فراہم کریں گے۔ 

      ڈیکلریشن کے تناظر میں دیکھا جائے تو پیغام پاکستان یہ دعویٰ کرتا دکھائی دیتا ہے کہ آج کے جدید دور میں پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مجموعی طور پر قانون سازی بھی اسلامی قوانین اور تعلیمات کی روشنی میں کی گئی ہے۔ ڈیکلریشن کی تفصیل میں اہم شقیں شامل ہیں مگر مجموعی طور پر مذہبی حلقے اس دستاویز کو اپنے مدارس اور مساجد میں ضابطہ کار کے طور پر لاگو کرنے سے احتراز کرتے محسوس ہوتے ہیں۔

      پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ایک کامیاب جنگ لڑی ہے مگر بدقسمتی سے بہت سے مذہبی رہنما اس جنگ کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دینے پر تلے ہوئے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک مخصوص اور مقبول فرقہ کے خلاف جنگ تھی۔ اس بیانیہ کے ذریعے ملک میں مختلف تشدد پسند تنظیموں کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہی بیانیہ دوسرے مسالک اور مذاہب کے خلا ف نفرت کو بڑھوتری، معاشرہ میں تقسیم اور تشدد پسند مذہبی گروہ کو تقویت دے رہے ہیں۔ جبکہ ملکی ادارے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے اس بیانیہ کے رد کے لیے اقدامات کے حوالے سے گریزاں ہیں۔ پاکستان اس وقت مختلف اقسام کی انتہا پسندی کی زد میں ہے۔ مخصوص مذہبی رہنما اور گروپ معاشرہ کو ایک تباہی کے دھانے اور بحران کی طرف لے جانے کی قیادت کر رہے ہیں ریاست ہمیشہ سے سٹیٹس کوکو برقرار رکھنے اور بحران کو قابو کرنے میں جتی ہوئی ہے مگر اب تک ریاست کی یہ حکمت عملی موثر ثابت نہیں ہو سکی۔ ریاستی سطح پر صورتحال اس سے بھی بدتر ہے مگر معاشرہ کی سطح پر تشدد کی مذمت کی جاتی ہے۔ اس کے پیچھے خاص طور پر مختلف عقائد کے حامل لوگوں کے خلاف نفرت کی سوچ کارفرما ہے جو کبھی کبھار معاشرہ میں ظاہر ہوتی ہے۔ جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ عقائد کی بنیاد پر امتیاز کی یہ فکر کسی ایک طبقہ فرقہ یا تعلیمی پس منظر یا گروہ تک محدود نہیں یہاں تک کہ یہ صورتحال اپنی ہیئت میں بھی متضاد محسوس ہوتی ہے۔عوام الناس میں مذہبی تعصب اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ نفرت کا یہ بیانیہ اکثریتی مائنڈ سیٹ کو فروغ دے رہا ہے۔ [Muhammad Amir Rana]




        Inclusive Pakistan


      AFTER the despicable Gojra riots in Punjab’s Faisalabad district that targeted Christians living in the area, a few Muslim scholars attempted to grapple with the issue of constitutionalism in Pakistan. The disturbances had badly damaged the country’s image. It was 2009 when Pakistan faced the maximum number of attacks for any year. The scholars were trying to understand how a country with such an inclusive Constitution could suffer some of the worst forms of religious bigotry.
      The debates put forth many explanations, from how the state’s strategic priorities had backfired to how a hostile regional environment was fuelling bigotry. Some weighed in on the ideological aspect of extremism, and others on how it goes unchecked amid the civil-military divide. However, the debates failed to fully present the reasons behind the exclusive nature of Pakistani society.
      In totality, nevertheless, the discussion exposed the dichotomies and paradoxes in our social milieu. The state and society are largely caught between modernisation and conservatism: an average Pakistani wants to be progressive but within a conservative framework. The state desires to stand tall in the international community, but without reforming its institutions.
      Certain religious leaders and groups are pushing society towards chaos.
      To satisfy its own conscience, the state sometimes takes initiatives that give an impression as if it has decided to break with the past and move towards an inclusive society. A similar attempt was made early this year in the shape of the Paigham-i-Pakistan (message of Pakistan), a counter-narrative declaration or fatwa against increasing religious intolerance and violence.
      A unanimous declaration by 1,800 religious scholars across the country, the Paigham-i- Pakistan was projected as a reflection of the Pakistani state and society’s collective thinking, and prepared in accordance with the injunctions of the Holy Quran, the Sunnah and the Constitution. Following this, the security institutions launched a countrywide awareness campaign in educational institutions about Paigham, which was presented as a blueprint of an inclusive Pakistan.
      Interestingly, a few banned organisations tried to hijack the declaration. Their leadership was not only present at the launch of the declaration held at President House, but even at organised seminars to spread the ‘message’.
      It might seem a positive development that banned sectarian and militant organisations became the Paigham-i-Pakistan’s custodians. However, it proved counterproductive, as opponent sectarian groups outright rejected the document, labelling it an attempt to provide safe passage to those banned organisations, which were under severe pressure at the time. The Tehreek-i-Labbaik Pakistan (TLP) is among those which have not endorsed the Paigham-i-Pakistan. Many believed that banned groups like Ahle Sunnat Wal Jamaat and Jamaatud Dawa were using it to acquire legitimacy in the public domain.
      So far, the Paigham-i- Pakistan has failed to create any significant impact.
      As far as the contents of the declaration are concerned, it seems very comprehensive and well argued. For example, it talks about the reconstruction of Pakistani society and says: “Pakistanis neither demean other religions nor humiliate the founders of other religions. It is imperative for Muslims to bring others towards Islam only through convincing argumentation while practising their own religion independently and freely.” The Paigham also endorses the constitutional clauses on religious freedom and declares them as being in accordance with the basic principles of Islam. It says: “All citizens are guaranteed fundamental rights within the parameters of law and ethics. These rights include equality in status and opportunities, equality before the law, socioeconomic and political justice, the rights of expression, belief, worship and freedom of assembly.”
      Similarly, the declaration condemns sectarian hatred, armed sectarian conflict and the imposition of one’s ideology on others by force. The religious scholars who signed the declaration pledged they would work for a society based on the principles of democracy, liberty, equality, tolerance, harmony, mutual respect and justice to achieve a congenial atmosphere for peaceful coexistence.
      Describing the context of the declaration, the Paigham-i-Pakistan claims that maximum legislation according to Islamic teachings and principles has taken place in this country. However, the religious clergy is still reluctant to adopt the document as a manual for their mosques and madressahs. As mentioned earlier, controversies created by a few religious groups have also compromised Paigham-i-Pakistan, reflecting the religious clergy’s narrow vision.
      Pakistan has fought a successful war against terrorism, but it is unfortunate that many religious leaders and groups have given a sectarian colour to the war, saying it was against particular sects. This narrative has provided political and social space to new radical forces in the country. It has also empowered new hate narratives against minority sects, communities, and religions. These leaders and groups have nurtured a new blend of extremism, while state institutions remain in tactical denial where it comes to countering the terrorists’ anti-Pakistan arguments.
      Pakistan is caught in a vicious cycle of extremism, where state institutions and leaderships have become hostage to hate narratives. Certain religious leaders and groups are pushing society towards chaos. The state wants to both maintain the status quo and control the chaos, but its strategies have not proved effective yet.
      On the societal level, the situation is even worse and often takes the form of discrimination against weak religious communities. While militant violence is condemned, the underlying mindset, especially where it pertains to people of different faiths, is rarely addressed. This makes faith-based discrimination seem like a pervasive phenomenon, not restricted to any one class, ethnicity, educational background, or group; so much so that even the solutions to such issues are deemed controversial in nature.
      The state is hesitant to control religious hatred. Deep-rooted hate narratives have developed a majoritarian mindset, which creates insecurity among the very tiny religious minorities. Even ‘naya Pakistan’ has not yet shown the courage to break the vicious cycle of this hatred.
      By Amir Rana , The writer is a security analyst.[edited]

      US government misleading Americans on Afghanistan: New York Times report • Salaam One سلام

      US government misleading Americans on Afghanistan: New York Times report

      The US government misleads its public to justify the 17-year-old war in Afghanistan, routinely using inflated data to justify its stay, The New York Times reported on Saturday. The report compares the US government`s data with those provided by various international aid agencies and with NYT`s own research and concludes that Washington does not want Americans to know the real situation in Afghanistan.
      While the US government says the Taliban control or contest 44 per cent of districts in Afghanistan, the NYT report claims that the insurgents actually control or contest about 61pc area. Since 2017, the Taliban have held more Afghan territory than at any stage since the American invasion in October 2001.

      Tuesday, August 28, 2018

      Islamic Extremism is a Product of Western Imperialism


      It is important that we understand the causes of such extremism. After all, Islamic extremism was virtually unknown fifty years ago and suicide bombings were inconceivable. And yet today it seems that we are confronted with both on a daily basis. 

      So what happened to bring Islamic fundamentalism to the forefront of global politics? 

      While there are many factors involved, undoubtedly one of the primary causes is Western imperialism. Western intervention in the Middle East over the past century to secure access to the region’s oil reserves established a perfect environment in which Islamic fundamentalists could exploit growing anti-Western sentiment throughout the Islamic world with some establishing violent extremist groups. The most recent consequence of this process is the terrorist group known as the Islamic State, which emerged out of the chaos caused by the US invasion of Iraq.
      In order to understand the rise of the Islamic State we must first briefly review the history of Western intervention in not only the Middle East but throughout the world to reveal that Islamic extremism in not a unique phenomenon. For the past 500 years, peoples throughout the world have resorted to acts of violence that today would be classified as terrorism in efforts to resist Western imperialism. Indigenous peoples in the Americas often used violent tactics to defend themselves against the brutal European colonizers. There were also many violent slave revolts by Blacks who had been shipped from Africa to the Americas in the service of Western imperialism.

      In Southeast Asia, the Filipino people first violently resisted the Spanish and then rose up again when the United States became the new colonial ruler of the Philippines in 1898. Apparently, Washington’s newest colonial subjects didn’t appreciate President William McKinley’s concern for their well-being when he arrogantly declared that since Filipinos “were unfit for self-government, … there was nothing left for us to do but to take them all, and to educate the Filipinos, and uplift and civilize and Christianize them.” Meanwhile, in South Africa, the Zulu people were resorting to violence in an effort to resist British attempts to “civilize” them in the late 1800s. Back then, those who violently resisted Western imperialism weren’t labelled “terrorists,” we just called them “savages.” These are just a few examples of the countless attempts throughout the global South to resist the violent and often brutal expansion of Western imperialism, which included not only the imposition of Western values and culture on people, but also Christianity.

      One of the reasons that Islamic extremism has only come to the fore in recent decades is the fact that Western imperialism in the Middle East is a relatively recent occurrence. Western imperialism didn’t begin to make serious headway in the Middle East until the early 20th century. Consequently, we haven’t yet succeeded in our quest to violently subjugate the peoples of that region to the degree that we have peoples throughout most of the rest of the world. In american leech some Middle Eastern nations, Western imperialism initially took the form of traditional colonialism, which involved direct rule. In other countries, it has constituted a neo-colonial approach utilizing international institutions such as the UN Security Council, the International Monetary Fund and the World Bank as well as direct US and European intervention in the forms of military coups and outright war.

      While European nations, particularly Britain, had made some inroads into the Middle East in the late 1800s, it was the discovery of oil in Iran in 1908 that marked the arrival of Western imperialism. The London-based Anglo-Persian Oil Company (APOC) gained the rights to Iran’s oil and, because its major shareholder was the British government, Britain effectively controlled Iran’s oil sector. During the ensuing decades there were major protests by the Iranian people who were unhappy with foreign ownership of the country’s oil and the fact that Iran was receiving only 16 percent of its own oil wealth. In 1950, the Iranian parliament finally responded to popular demands and voted to nationalize the country’s oil sector. The following year, Prime Minister Mohammed Mosaddegh established the National Iranian Oil Company.

      Unhappy with Iran’s decision to claim ownership of its own oil resources and to use them for the benefit of the Iranian people, the United States and Britain orchestrated a coup to oust the moderate, secular and democratically-elected Mosaddegh government. Shah Reza Pahlavi was installed in power and the new pro-Western dictator immediately re-opened the door for Western companies to return to Iran. And to ensure that the Shah maintained iron-clad control over the population, the United States provided him with military aid as well as training for his secret police force, which would brutalize the Iranian people for the next 26 years.

      Under the Shah, Western oil workers flooded into Iran and the country’s capital Tehran became a decadent playground for high-paid foreign oil workers who engaged openly in un-Islamic activities including alcohol consumption, casino gambling and prostitution. And while the country’s oil wealth was flowing into the pockets of foreigners and the Shah and his cronies, most Iranians were struggling to survive in poverty. Not surprisingly, Islamic fundamentalists began pointing to Western imperialism and Western decadence as an affront both to Islam and to the Iranian people. It was a narrative that began to resonate with many impoverished Iranians who had traditionally been moderates. In 1979, under the leadership of the Ayatollah Khomeini, a popular revolution overthrew the Shah’s repressive regime and established an Islamic state.

      Reflecting on the US role in Iran, former US Secretary of State Madeleine Albright stated, “In 1953 the United States played a significant role in orchestrating the overthrow of Iran’s popular Prime Minister Mohammad Mosaddegh. The Eisenhower Administration believed its actions were justified for strategic reasons; but the coup was clearly a setback for Iran’s political development. And it is easy to see now why many Iranians continue to resent this intervention by America in their internal affairs.”

      The first significant success for Islamic fundamentalism directly resulted from the United States and Britain overthrowing a democratically-elected and secular government and their subsequent support for a brutal dictatorship, all in the name of securing access to oil. Today, we are not only still dealing with the consequences of this Western imperialism in our relations with Iran, but also with Iran’s support for other fundamentalist groups in the region such as Hezbollah.

      The same year that Iran became an Islamic state, the Soviet Union invaded Afghanistan to defend that country’s unpopular Soviet-backed regime from a growing insurgency. The mujahideen rebels, like the Islamic revolutionaries in Iran, were fighting against a Western-backed dictatorship. This time it was the atheist communists of the Soviet Union that were the imperialists. The Soviet invasion of Afghanistan only boosted the strength of the mujahideen as recruits flocked from throughout the Islamic world to help liberate the country from the foreign infidels. Many of the tens of thousands of recruits came from Saudi Arabia, which contributed to the fundamentalist movement known as Wahhabism expanding from being a fringe sect of Islam that primarily existed in Saudi Arabia to a major religious force throughout the Sunni Islamic world.

      The United States viewed the Soviet occupation of Afghanistan through a Cold War lens and began providing weapons and training to the Islamic fundamentalist mujahideen rebels. During the 1980s, Washington supplied the mujahideen with $4 billion in arms that significantly strengthened the fundamentalists and President Ronald Reagan publicly referred to them as “freedom fighters.” One of the mujihadeen beneficiaries of US aid was a Saudi named Osama bin Laden. The primary objective of the war for this particular “freedom fighter” was the removal of a Western military from Islamic lands. The mujahideen succeeded in their holy war in 1989 when the Soviet Union withdrew its forces. And then, in 1996, following a civil war between various factions of the mujahideen, the recently-formed Taliban emerged victorious and established a fundamentalist government.

      As a 1993 article in the British daily Independent made clear, Osama bin Laden was viewed by the West as a warrior, not a terrorist, for his role in the mujahideen. The article, titled “Anti-Soviet Warrior Puts His Army on the Road to Peace,” described bin Laden’s work building roads in the impoverished nation of Sudan in the early 1990s. But bin Laden was not only building roads, he was also establishing a new organization with his mujahideen fighters that would eventually be called al-Qaeda. The mission of al-Qaeda essentially remained the same as that of the mujahideen in Afghanistan: to drive Western military forces out of Islamic lands. This time the target was US troops based in Saudi Arabia and Kuwait following the first Gulf War. Consequently, bin Laden went from being a “freedom fighter” to a “terrorist” virtually overnight even though his mission hadn’t changed, only the target.

      From the perspective of Washington, bin Laden was a “freedom fighter” when he was fighting against the Soviet military presence in Afghanistan but was a “terrorist” when he fought against the presence of US military forces in the Islamic world. From the perspective of bin Laden and his Islamic extremist followers, however, nothing had really changed. Whether it was Soviet soldiers or US troops, both constituted Western military forces that had to be removed from Islamic soil.

      Ultimately, Western intervention in the Islamic world gave birth to al-Qaeda. First, Soviet military support for a puppet regime in Afghanistan, then US backing of the Islamic fundamentalists who constituted the mujahideen rebels, and, finally, the establishment of US military bases in Saudi Arabia and Kuwait during the first Gulf War. As a consequence of these imperialist actions, Islamic extremists in the form of the Taliban and al-Qaeda emerged as powerful forces with the latter feeding off the growing disenchantment among Muslims angry at Western militarism in the Islamic world, Western backing for corrupt governments in the Middle East, and US support for Israel and its illegal occupation of Palestinian territories.

      Following al-Qaeda’s terrorist attacks against New York City and Washington, DC on September 11, 2001, the United States launched its war on terror and targeted the Islamic extremist group in Afghanistan. However, the Bush administration also sought to exploit the 9/11 attacks to justify ousting Saddam Hussein from power in Iraq. Top Bush administration officials launched a massive propaganda and misinformation campaign to convince the American people that Hussein was directly involved in the 9/11 attacks and linked to al-Qaeda, both of which were untrue. They also portrayed Hussein as a terrorist threat because he possessed weapons of mass destruction, which was another lie.

      As the reports by UN weapons inspectors had made clear, Iraq no longer possessed any chemical or biological weapons; they had been destroyed in accordance with UN Security Council resolutions following the first Gulf War in 1991. Furthermore, the Bush administration’s propaganda campaign conveniently ignored the fact that the weapons of mass destruction that Iraq had possessed and used during the 1980s were supplied to it by the United States when Hussein was an ally against the fundamentalist regime that had come to power in Iran.

      In March 2003, President George W. Bush ordered the US military to invade Iraq without authorization from the UN Security Council and in direct violation of international law. Four days before the invasion, Vice-President Dick Cheney declared, “From the standpoint of the Iraqi people, my belief is we will, in fact, be greeted as liberators.” But one year later an extensive nationwide poll in Iraq showed that 71 percent of Iraqis saw the US troops as “occupiers” rather than “liberators.” Such a response should not have been surprising given that some 100,000 Iraqis had been killed as a result of the invasion and occupation.

      The military occupation gave rise to an insurgency that sought to oust the foreign occupying troops. Prior to the US invasion there had been no Islamic extremist groups operating in the country. But the emergence of the broad-based insurgency and the post-invasion chaos opened the door for al-Qaeda to enter Iraq. And it was out of both the insurgency and al-Qaeda that the fundamentalist Islamic State (originally known as the Islamic State of Iraq and Syria, or ISIS) emerged in 2006.

      Following the invasion, the United States dismantled Saddam Hussein’s military and many of the unemployed former officers ended up joining the insurgency. Some of these military officers conspired with a breakaway faction of al-Qaeda in Iraq to form the Islamic State. The new extremist group sought to establish an Islamic caliphate in northern Iraq and Syria. The Syrian civil war in 2011 allowed the Islamic State to cross into Syria where it grew dramatically stronger and began to consolidate control over territory. It then re-focused its efforts on Iraq and easily defeated the new US-trained Iraqi army and consolidated its control over northern parts of that country in 2014. Meanwhile, the West’s military intervention in Libya in 2011 helped turn that country into a failed state and opened the door for the Islamic State to establish a foothold in that part of North Africa.

      The Islamic State has had significant success recruiting disenchanted Muslims from around the world to join its ranks and to carry out terrorist attacks in Western nations such as France and Belgium. Last year, even former British Prime Minister Tony Blair acknowledged “there are elements of truth” in claims that the invasion of Iraq led to the creation of the Islamic State. As Blair admitted, “Of course, you can’t say those of us who removed Saddam in 2003 bear no responsibility for the situation in 2015.”

      Once again, Western imperialist actions in the Middle East had given rise to Islamic extremism. But the rise of the Islamic State should not have come as a surprise to anyone. That the Bush administration’s illegal invasion of Iraq laid the foundation for the emergence of the Islamic State was entirely predictable. After all, the West’s ouster of the moderate and secular Mosaddegh and its backing of the Shah’s ruthless regime in Iran had given birth to that country’s Islamic fundamentalist revolution. And Washington’s military support of fundamentalist rebels in Afghanistan and its establishment of military bases in Saudi Arabia and Kuwait ensured the emergence of al-Qaeda.

      Meanwhile, Western imperialism in other parts of the Middle East over the past century has also contributed to the rise of Islamic fundamentalism. While most of the Arab states in the region gained independence following World War Two, the United States and Britain essentially handed over most of Palestine to European Jews so they could create the Jewish state of Israel. And, ever since, Israel has received unconditional US support to brutally repress the Palestinian people and to repeatedly violate international law, which has generated widespread anti-Western sentiment throughout the Middle East. It wasn’t until after almost 40 years of Israeli rule over Palestinian lands that Islamic fundamentalism and the tactic of suicide bombing finally made inroads among the traditionally moderate Palestinian population. This occurred when Hamas was formed in the Occupied Territories in the mid-1980s. Similarly, it was Israel’s US-supported invasion of Lebanon that gave birth to the fundamentalist group Hezbollah during the same decade.

      Over the past one hundred years, the Middle East has been targeted by Western imperialism in the violent manner that the rest of the world has endured for centuries. Nowadays we use politically correct terms such as “democracy promotion” and “human rights” instead of “civilize” and “Christianize,” but they essentially mean the same thing because they are simply the latest justifications for stealing resources and imposing Western values on other cultures. Not surprisingly, as has been the case throughout the rest of the world over the past 500 years, there is widespread resentment and anger towards the West for its imperialist policies in the Middle East. And, also not surprisingly, some fundamentalist Muslim resisters to Western imperialism have resorted to extreme tactics.

      Finally, perhaps one of the most disturbing aspects of Western imperialism in the Islamic world is the fact that each consequence has been more extreme than the previous one. Al-Qaeda and the Taliban were far more extremist than the Islamic government that came to power in Iran. And the Islamic State is even more extremist than al-Qaeda. Which begs the question: What new and even more extremist monstrosity are we currently creating with our ongoing military interventions and imperialist policies in the Islamic world?

      By Garry Leech, an independent journalist and author of numerous books including How I Became an American Socialist (Misfit Books, 2016), Capitalism: A Structural Genocide (Zed Books, 2012); Beyond Bogota: Diary of a Drug War Journalist in Colombia (Beacon Press, 2009); and Crude Interventions: The United States Oil and the New World Disorder (Zed Books, 2006). ). He also teaches international politics at Cape Breton University in Nova Scotia, Canada and Javeriana University in Cali, Colombia. For more information about Garry’s work, visit garryleech.com


      Related :

      Jihad, Extremism.... [........]

        Uri Avnery: Israeli journalist whose voice of dissent was radical until the end


        One of the first advocates of a two-state solution in Israel, he was shunned by the establishment whose unreason he was never afraid to call out. Avnery was a dominant and divisive figure in Israel, where he called for secularism in the country’s politics, negotiations with the Islamist group Hamas, recognition of the right of Palestinians to establish their own state and shared control of Jerusalem.


        Once dubbed “Government Enemy No 1” by the chief of Israel’s internal security service, he spent four decades as editor in chief of the news magazine Haolam Hazeh (This World), a now-defunct weekly that published exposés of government corruption alongside left-wing political columns and, on its back cover, photos of scantily clad women. Keep reading [.......]

        Related :

          Kashmiris’ struggle for freedom from India ‘overwhelmingly homegrown’: The New York Times


          The Kashmiri people’s struggle for freedom from India’s rule is “overwhelmingly homegrown”, The New York Times said in an in-depth dispatch from Indian occupied Kashmir where the Hindu nationalist Bharatiya Janata Party’s (BJP) anti-Muslim policies have “spurred more people to turn against the government.”

          “The conflict today is probably driven less by geopolitics than by internal Indian politics, which have increasingly taken an anti-Muslim direction,” Times’ Correspondent Jeffrey Gettleman wrote from Qasbayar, a Kashmiri village.

          The report said that most of the fighters are young men who draw support from a population “deeply resentful of India’s governing party and years of occupation.”

          “Kashmir sits on the frontier of India and Pakistan, and both countries have spilt rivers of blood over it, correspondent Gettleman wrote.

          “Three times, they have gone to war, and tens of thousands of people have been killed in the conflict. It is one of Asia’s most dangerous flash points, where a million troops have squared off along the disputed border. Both sides now wield nuclear arms. And the two sides are divided by religion, with Kashmir stuck in the middle,” he said. [Keep reading ........]

          Related :

          Kashmir freedom struggle >>>>>

            Myanmar's military accused of genocide in damning UN report

            Myanmar's military accused of genocide in damning UN report: Mission concludes army has carried out ‘gravest crimes’ against Rohingya in Rakhine and minorities elsewhere.... 


            Myanmar’s military has been accused of genocide against the Rohingya in Rakhine state in a damning UN report that alleged the army was responsible for war crimes and crimes against humanity against minorities across the country.

            The UN report said it found conclusive evidence that the actions of the country’s armed forces, known as the Tatmadaw, “undoubtedly amounted to the gravest crimes under international law” in Rakhine as well as in Kachin and Shan, states also riven by internal conflicts. [Read full story by The Guardian ..... ]



            Related :

            Jihad, Extremism

              افغانستان میں امن کی کوششیں? Is Peace in Afghanistan possible



              DESPITE some deadly terrorism attacks reported in 2018, the overall frequency across the globe has been on the decline in recent years. However, these dwindling numbers do not suggest, in any way, that the threat of terrorism has been eliminated. The latest audio message by the so called Islamic State group (IS) head Abu Bakr al Baghdadi, in which he called on his followers to keep fighting, vindicates the lingering threat of terrorist violence.

              Certainly, most terrorist groups have been weakened but they are still present in physical and virtual spaces; in many instances, they have ungoverned territories to operate in. In Pakistan, too, despite justifiable claims of having significantly damaged terrorist infrastructure in the country, terrorist groups are able to trigger sporadic waves of violence albeit with a reduced frequency as compared to past years. A series of terrorist attacks before and during the election month of July hurt the image of Pakistan as a state effectively dealing with its internal security threats.... [........]

              افغانستان میں بیک وقت طالبان کی امریکی افواج اور افغان حکام کے ساتھ جھڑپیں ، امریکی ڈرون حملے اور ان پہ پینٹاگون کی خاموشی بھی جاری ہے اور ساتھ ہی کئی ڈپلومیسی ٹریک بھی عمل پذیر ہیں۔ستمبر میں ہونے والی ماسکو امن کانفرنس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات متوقع ہیں جن میں شرکت سے تاحال امریکہ اور افغان حکومت نے معذرت ظاہر کردی ہے۔ 

              افغانستان میں اصل فریق تو طالبان اور امریکہ ہیں ۔کسی ایک فریق کے بغیر آپ بارہ ممالک کا اجلاس بلا کر گڑ والی چائے تو پی سکتے ہیں مسئلے کا حل نہیں نکال سکتے۔معلوم ہوتا ہے مسئلے کا حل نکالنا مقصود بھی نہیں ہے۔ ورنہ مذاکرات کے لئے ماسکو کا انتخاب کرکے امریکہ کو مشتعل نہ کیا جاتا۔ اس طرح چین اور روس نے جن کے درمیان کم سے کم افغانستان کی حد تک گاڑھی چھن رہی ہے ، امریکہ اور افغان حکومت دونوں کو پیغا م دیا ہے کہ وہ اس مسئلے کے مستقل شراکت دار ہیں اور ان کے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ طالبان پہ پہلے ہی الزام ہے کہ انہیں چین اور روس اسلحہ فراہم کررہے ہیں۔ یہ الزام کسی حد تک درست بھی ہے۔

              افغانستان کے سیکوریٹی ایڈوائزر حنیف اتمر استعفی دے چکے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ حنیف اتمر روس اور چین کی اس حرکت پہ مشتعل ہوئے ہیں حالانکہ ان پہ روس کے ساتھ قربت کا الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے۔حنیف اتمر آئندہ سال صدارتی انتخابات میں امیدوار ہونگے لیکن اس کے لئے ابھی استعفیٰ دینا ضروری نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی میں مصروف رہے ہیں۔ گزشتہ سال ان کا دورہ روس بھی مبینہ طور پہ امریکی ایما پہ تھا اور وہ یہ پیغام لے کر گئے تھے کہ روس طالبان کے سر پہ سے ہاتھ اٹھالے۔انہوں نے حال ہی میں پرانے مجاہدین کی وطن واپس آنے والی جلا وطن قیادت سے ملاقاتیں بھی کیں جن میں آنے والے انتخابات میں ان جماعتوں کے مستقبل کا جائزہ لیا گیا تھا۔کل کے مجاہدین آج امریکہ کے زیر انتظام ہونے والے انتخابات کی تیاری میں ہیں اور طالبان ہیں کہ ہاتھ سے بندوق رکھنے پہ تیار نہیں۔ اس کے علاوہ یہی موصوف ملک کے ہر بڑے دن پہ امریکہ کا دامن پکڑ کر اسے کچھ اور دن افغانستان میں قیام کرنے کا عاشقانہ مطالبہ کرتے پائے گئے ہیں۔اب عین اس موقع پہ جبکہ روس نے چین ، پاکستان اور بھارت سمیت بارہ ممالک کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے ماسکو بلا لیا ہے، حنیف اتمر کا استعفی کچھ اور کہانی بیان کررہا ہے۔

              ظاہر ہے وہ امریکہ کے ساتھ ہی مشتعل ہوگئے ہیں اور ملک میں چین اور روس کے کردار کو اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ادھر چین و روس نے امریکی انکار کو اپنے حق میں استعمال کیا اور کہا کہ وہ خطے میں امن چاہتا ہی نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ امن چاہتا ہے لیکن اپنی شرائط پہ چاہتا ہے اور جو طالبان نہیں چاہتے۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارت اور پاکستان کی شمولیت کے ساتھ ہی چین نے افغان پالیسی کا اعلان کر دیا تھا جس میں روس نے اس کی حمایت کی تھی۔ تب ہی فیصلہ ہوگیا تھا کہ اب امریکہ کو افغانستان سے نکلنے پہ مجبور کیا جائے گا لیکن کیا انہیں علم نہیں تھا کہ ایسا مطالبہ اگر چین اور روس کی طرف سے ہوگا تو وہ امریکہ کو مزید مشتعل ہی کرے گا اورہوا بھی یہی ہے اور مقصد بھی یہی تھا۔ چین اور روس امریکہ کو اس وقت تک افغانستان میں پھنسائے رکھنا چاہتے ہیں جب تک طالبان کا صفایا نہیں ہوجاتا یا وہ جنگ بندی کے کسی معاہدے پہ راضی نہیں ہوجاتے۔امریکہ نکل گیا تو اژدہوں کے اس ہار کو گلے میں کون ڈالے گا۔امریکہ کا طالبان سے مطالبہ چھوٹا سا ہے اور وہ ہے افغانستان میں مستقل عسکری اڈوں کی موجودگی۔ جس دن طالبان اس پہ راضی ہوگئے سارے مسئلے حل ہوجائیں گے۔آخر فلپائن ، کوریائی جزائر ، جاپان، افریقہ، شرق وسطی، خلیج ، آسٹریلیا اور کونسا بحر وبر ہے جہاں امریکی فوجی اڈے موجود نہیں خود افغانستان میں اس وقت بگرام ، ہیرات، مزارشریف، شنداد میں ائیربیس اور کم از کم سات مزید عسکری مستقر موجود ہیں۔کیا حرج ہے اگر طالبان اسے ان میں سے کچھ اڈوں کی حفاظت کی ضمانت دے دیں تاکہ چین اور روس کی موجودگی میں اس کی دال روٹی بھی چلتی رہے۔تب تک کیوں نا مذاکرات مذاکرات کھیلا جائے آخر امریکہ کلنٹن سے لے کر ٹرمپ تک یہی تو کرتا آرہا ہے ۔اب تک کم سے کم تیس بار امریکی انتظامیہ اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات ہوچکے ہیں۔

              کلنٹن نے تو طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کئے تھے اور ان سے افغانستان میں القاعدہ کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ جواباً القاعدہ نے کینیا اور تنزانیہ میںا مریکی سفارت خانوں پہ حملہ کردیا تھا اور حملہ آور افغانستان سے نہیں کہیں اور سے گئے تھے۔نائن الیون کے بعد بش پالیسی نے تو دنیا بدل دی تھی اوباما نے چارج سنبھالتے ہی حقیقی امن کا ضامن افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کو قرار دیا لیکن امریکی فوجیوں کی تعداد تین گنا بڑھا دی۔اپنے دور صدارت کے آخری دنوں میں انہوں نے یہ تعداد کم کی لیکن صدر ٹرمپ نے فیصلہ کن جنگ کی ٹھان لی۔ مسئلہ لیکن وہ ہے ہی نہیں جو بتایا جاتا ہے اور جس کی بنیاد پہ پاکستان کی مشکیں کسی اور امداد میں کٹوتی کی جاتی ہے یعنی دہشت گردوں کا صفایا۔اصل مسئلہ ہے طالبان کو افغانستان میں امریکی موجودگی پہ راضی کرنا جس کے لیے پاکستان پہ دباؤ ڈالا جاتا ہے۔اب اگر ماسکو میں شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام ممالک مل کر طالبان سے امریکہ کی غیر موجودگی میں مذاکرات کر بھی لیتے ہیں تو ان کی حیثیت کیا ہوگی اس کا انداز ہ لگانا مشکل نہیں ہے۔اس کا اندازہ روس کو بھی ہے اور وہ جو پیغام دینا چاہتا ہے اس نے دے دیا ہے۔ طالبان امریکی افواج کی موجودگی میں افغانستان کے تقریبا ًنصف حصے پہ قابض ہوکر اور پینتیس فیصد اضلاع میں اپنی متوازی حکومت بنا کر روس اور چین کی گائڈلائن پہ چلنا چاہیں گے، یہ بعید از قیاس ہے۔انہوں نے حالات کے مطابق وہی پالیسی اپنائی جو کبھی سوویت روس کے خلاف ان کے بڑوں نے اپنائی تھی ۔جس وقت افغانستان میں روسی افواج پسپا ہو رہی تھیں ، پاکستان میں موجود سوویت روس کے جاں نثار ، افغان مجاہدین پہ امریکی پٹھو ہونے کاالزام لگاتے اور پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگاتے تھے۔ سوویت روس کو پسپا ہونا ہی پڑا۔اس جہاد میں امریکی اور امریکی ڈالر کب اور کس مقام پہ شامل ہوئے یہ کوئی راز کی بات نہیں۔خود امریکہ میں ایسے بے شمار گواہ اپنی تصنیفات ساتھ موجود ہیں جنہوں نے اعتراف کیا کہ یہ جنگ تو دراصل مٹھی بھر مجاہدین نے چند توڑے دار بندوقوں اور روس سے لوٹے گئے ان ٹینکوں کے ساتھ شروع کی تھی جنہیں گھات لگائے مجاہدین چکنی مٹی میں لپے کمبل پھینک کر ناکارہ بنا دیا کرتے تھے ۔ 
              یہ کہانیاں نہیں تھیں نہ ہی نسیم حجازی کے کسی ناول کے اقتباسات تھے۔ یہ تاریخی حقائق ہیں جن سے صرف نظر وہی کر سکتا ہے جس کا کوئی نظریہ نہ ہو۔ مارکس اور لینن کے پیرووکاروں کو جو بالشویک انقلاب کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے،بولیویا کے چی گویرا اور کیوبا کے فیدل کاسترو کو ہیرو مانتے ہیں اور انقلاب فرانس کی عوامیت پہ لمبے لیکچر دیتے ہیں معلوم نہیں کیوں افغان عوام اور مجاہدین کی جدو جہد آزادی کو امریکی جہاد کا نام دے کر رد کر دیتے ہیں۔ اس جہاد میں جو خالص افغان عوام اور مجاہدین نے سویت روس کے خلاف شروع کیا اور جس میں بعد میں سعودی عرب ، پاکستان اور امریکہ نے اپنا حصہ ڈالا کہ ہر ایک کے اپنے مفادات تھے، امریکی جہاد کہناایک نظریے کی توہین ہی نہیں حقائق سے سنگین صرف نظر بھی ہے ۔

              پاکستان کی خوش قسمتی یہ رہی کہ اس جنگ کے دوران اس کی پوزیشن مذہبی اعتبار سے مضبوط اور واضح رہی۔ ایک طرف جارح سویت روس تھا جو ایک عرصہ افغانستان میں اپنے نظریات کی آبیاری کرتا رہا تھا دوسری طرف وہ مجاہدین تھے جو اس جارح کافر ملک کے خلاف ہتھیار اٹھا کر صف آرا ہوگئے تھے۔ پاکستان کا جغرافیہ اور اخلاقیات دونوں پابند تھے کہ وہ مجاہدین کی دامے درمے سخنے مدد کریں۔ ادھر امریکہ کو روس کے ساتھ پرانے بدلے چکانے تھے یوں پاکستان کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہا۔ مجاہدین،پاکستان اور امریکہ ایک ہی پیج پہ اپنا اپنا کھیل کھیلتے رہے۔کل کے مجاہدین تو آج بھی امریکی آشیرباد میں ہونے والے انتخابات کی تیاری میں مصروف ہیں اور آج کے طالبان نے ہتھیار اٹھا رکھے ہیں جن پہ الزام ہے کہ ان کی پشت پناہی روس اور چین کررہے ہیں۔ ۔ یہ الزام لگانے والے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اب روس سپرپاور نہیں رہا پھر بھی امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کا راستہ نہیںمل رہا۔وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ مومن اللہ پہ بھروسہ کرلے تو وہ کسی کو بھی اس کا پشت پناہ بنا دیتا ہے۔ [قدسیہ ممتاز 92 نیوز]

              Afghanistan | World | The Guardian

              https://www.theguardian.com/world/afghanistan
              2 days ago - Afghanistan: national security adviser quits, sparking cabinet resignations. Hanif Atmar's exit, amid worsening security situation, is followed by ...

              Afghanistan - The New York Times

              www.nytimes.com/topic/destination/afghanistan
              World news about Afghanistan. Breaking news and archival information about its people, politics and economy from The New York Times.
              Related :

              Jihad, Extremism