DESPITE some deadly terrorism attacks reported in 2018, the overall frequency across the globe has been on the decline in recent years. However, these dwindling numbers do not suggest, in any way, that the threat of terrorism has been eliminated. The latest audio message by the so called Islamic State group (IS) head Abu Bakr al Baghdadi, in which he called on his followers to keep fighting, vindicates the lingering threat of terrorist violence.
Certainly, most terrorist groups have been weakened but they are still present in physical and virtual spaces; in many instances, they have ungoverned territories to operate in. In Pakistan, too, despite justifiable claims of having significantly damaged terrorist infrastructure in the country, terrorist groups are able to trigger sporadic waves of violence albeit with a reduced frequency as compared to past years. A series of terrorist attacks before and during the election month of July hurt the image of Pakistan as a state effectively dealing with its internal security threats.... [........]
|
افغانستان میں بیک وقت طالبان کی امریکی افواج اور افغان حکام کے ساتھ جھڑپیں ، امریکی ڈرون حملے اور ان پہ پینٹاگون کی خاموشی بھی جاری ہے اور ساتھ ہی کئی ڈپلومیسی ٹریک بھی عمل پذیر ہیں۔ستمبر میں ہونے والی ماسکو امن کانفرنس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات متوقع ہیں جن میں شرکت سے تاحال امریکہ اور افغان حکومت نے معذرت ظاہر کردی ہے۔
افغانستان میں اصل فریق تو طالبان اور امریکہ ہیں ۔کسی ایک فریق کے بغیر آپ بارہ ممالک کا اجلاس بلا کر گڑ والی چائے تو پی سکتے ہیں مسئلے کا حل نہیں نکال سکتے۔معلوم ہوتا ہے مسئلے کا حل نکالنا مقصود بھی نہیں ہے۔ ورنہ مذاکرات کے لئے ماسکو کا انتخاب کرکے امریکہ کو مشتعل نہ کیا جاتا۔ اس طرح چین اور روس نے جن کے درمیان کم سے کم افغانستان کی حد تک گاڑھی چھن رہی ہے ، امریکہ اور افغان حکومت دونوں کو پیغا م دیا ہے کہ وہ اس مسئلے کے مستقل شراکت دار ہیں اور ان کے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ طالبان پہ پہلے ہی الزام ہے کہ انہیں چین اور روس اسلحہ فراہم کررہے ہیں۔ یہ الزام کسی حد تک درست بھی ہے۔
افغانستان کے سیکوریٹی ایڈوائزر حنیف اتمر استعفی دے چکے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ حنیف اتمر روس اور چین کی اس حرکت پہ مشتعل ہوئے ہیں حالانکہ ان پہ روس کے ساتھ قربت کا الزام بھی لگایا جاتا رہا ہے۔حنیف اتمر آئندہ سال صدارتی انتخابات میں امیدوار ہونگے لیکن اس کے لئے ابھی استعفیٰ دینا ضروری نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی میں مصروف رہے ہیں۔ گزشتہ سال ان کا دورہ روس بھی مبینہ طور پہ امریکی ایما پہ تھا اور وہ یہ پیغام لے کر گئے تھے کہ روس طالبان کے سر پہ سے ہاتھ اٹھالے۔انہوں نے حال ہی میں پرانے مجاہدین کی وطن واپس آنے والی جلا وطن قیادت سے ملاقاتیں بھی کیں جن میں آنے والے انتخابات میں ان جماعتوں کے مستقبل کا جائزہ لیا گیا تھا۔کل کے مجاہدین آج امریکہ کے زیر انتظام ہونے والے انتخابات کی تیاری میں ہیں اور طالبان ہیں کہ ہاتھ سے بندوق رکھنے پہ تیار نہیں۔ اس کے علاوہ یہی موصوف ملک کے ہر بڑے دن پہ امریکہ کا دامن پکڑ کر اسے کچھ اور دن افغانستان میں قیام کرنے کا عاشقانہ مطالبہ کرتے پائے گئے ہیں۔اب عین اس موقع پہ جبکہ روس نے چین ، پاکستان اور بھارت سمیت بارہ ممالک کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے ماسکو بلا لیا ہے، حنیف اتمر کا استعفی کچھ اور کہانی بیان کررہا ہے۔
ظاہر ہے وہ امریکہ کے ساتھ ہی مشتعل ہوگئے ہیں اور ملک میں چین اور روس کے کردار کو اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ادھر چین و روس نے امریکی انکار کو اپنے حق میں استعمال کیا اور کہا کہ وہ خطے میں امن چاہتا ہی نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ امن چاہتا ہے لیکن اپنی شرائط پہ چاہتا ہے اور جو طالبان نہیں چاہتے۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارت اور پاکستان کی شمولیت کے ساتھ ہی چین نے افغان پالیسی کا اعلان کر دیا تھا جس میں روس نے اس کی حمایت کی تھی۔ تب ہی فیصلہ ہوگیا تھا کہ اب امریکہ کو افغانستان سے نکلنے پہ مجبور کیا جائے گا لیکن کیا انہیں علم نہیں تھا کہ ایسا مطالبہ اگر چین اور روس کی طرف سے ہوگا تو وہ امریکہ کو مزید مشتعل ہی کرے گا اورہوا بھی یہی ہے اور مقصد بھی یہی تھا۔ چین اور روس امریکہ کو اس وقت تک افغانستان میں پھنسائے رکھنا چاہتے ہیں جب تک طالبان کا صفایا نہیں ہوجاتا یا وہ جنگ بندی کے کسی معاہدے پہ راضی نہیں ہوجاتے۔امریکہ نکل گیا تو اژدہوں کے اس ہار کو گلے میں کون ڈالے گا۔امریکہ کا طالبان سے مطالبہ چھوٹا سا ہے اور وہ ہے افغانستان میں مستقل عسکری اڈوں کی موجودگی۔ جس دن طالبان اس پہ راضی ہوگئے سارے مسئلے حل ہوجائیں گے۔آخر فلپائن ، کوریائی جزائر ، جاپان، افریقہ، شرق وسطی، خلیج ، آسٹریلیا اور کونسا بحر وبر ہے جہاں امریکی فوجی اڈے موجود نہیں خود افغانستان میں اس وقت بگرام ، ہیرات، مزارشریف، شنداد میں ائیربیس اور کم از کم سات مزید عسکری مستقر موجود ہیں۔کیا حرج ہے اگر طالبان اسے ان میں سے کچھ اڈوں کی حفاظت کی ضمانت دے دیں تاکہ چین اور روس کی موجودگی میں اس کی دال روٹی بھی چلتی رہے۔تب تک کیوں نا مذاکرات مذاکرات کھیلا جائے آخر امریکہ کلنٹن سے لے کر ٹرمپ تک یہی تو کرتا آرہا ہے ۔اب تک کم سے کم تیس بار امریکی انتظامیہ اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات ہوچکے ہیں۔
کلنٹن نے تو طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کئے تھے اور ان سے افغانستان میں القاعدہ کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ جواباً القاعدہ نے کینیا اور تنزانیہ میںا مریکی سفارت خانوں پہ حملہ کردیا تھا اور حملہ آور افغانستان سے نہیں کہیں اور سے گئے تھے۔نائن الیون کے بعد بش پالیسی نے تو دنیا بدل دی تھی اوباما نے چارج سنبھالتے ہی حقیقی امن کا ضامن افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کو قرار دیا لیکن امریکی فوجیوں کی تعداد تین گنا بڑھا دی۔اپنے دور صدارت کے آخری دنوں میں انہوں نے یہ تعداد کم کی لیکن صدر ٹرمپ نے فیصلہ کن جنگ کی ٹھان لی۔ مسئلہ لیکن وہ ہے ہی نہیں جو بتایا جاتا ہے اور جس کی بنیاد پہ پاکستان کی مشکیں کسی اور امداد میں کٹوتی کی جاتی ہے یعنی دہشت گردوں کا صفایا۔اصل مسئلہ ہے طالبان کو افغانستان میں امریکی موجودگی پہ راضی کرنا جس کے لیے پاکستان پہ دباؤ ڈالا جاتا ہے۔اب اگر ماسکو میں شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام ممالک مل کر طالبان سے امریکہ کی غیر موجودگی میں مذاکرات کر بھی لیتے ہیں تو ان کی حیثیت کیا ہوگی اس کا انداز ہ لگانا مشکل نہیں ہے۔اس کا اندازہ روس کو بھی ہے اور وہ جو پیغام دینا چاہتا ہے اس نے دے دیا ہے۔ طالبان امریکی افواج کی موجودگی میں افغانستان کے تقریبا ًنصف حصے پہ قابض ہوکر اور پینتیس فیصد اضلاع میں اپنی متوازی حکومت بنا کر روس اور چین کی گائڈلائن پہ چلنا چاہیں گے، یہ بعید از قیاس ہے۔انہوں نے حالات کے مطابق وہی پالیسی اپنائی جو کبھی سوویت روس کے خلاف ان کے بڑوں نے اپنائی تھی ۔جس وقت افغانستان میں روسی افواج پسپا ہو رہی تھیں ، پاکستان میں موجود سوویت روس کے جاں نثار ، افغان مجاہدین پہ امریکی پٹھو ہونے کاالزام لگاتے اور پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگاتے تھے۔ سوویت روس کو پسپا ہونا ہی پڑا۔اس جہاد میں امریکی اور امریکی ڈالر کب اور کس مقام پہ شامل ہوئے یہ کوئی راز کی بات نہیں۔خود امریکہ میں ایسے بے شمار گواہ اپنی تصنیفات ساتھ موجود ہیں جنہوں نے اعتراف کیا کہ یہ جنگ تو دراصل مٹھی بھر مجاہدین نے چند توڑے دار بندوقوں اور روس سے لوٹے گئے ان ٹینکوں کے ساتھ شروع کی تھی جنہیں گھات لگائے مجاہدین چکنی مٹی میں لپے کمبل پھینک کر ناکارہ بنا دیا کرتے تھے ۔
یہ کہانیاں نہیں تھیں نہ ہی نسیم حجازی کے کسی ناول کے اقتباسات تھے۔ یہ تاریخی حقائق ہیں جن سے صرف نظر وہی کر سکتا ہے جس کا کوئی نظریہ نہ ہو۔ مارکس اور لینن کے پیرووکاروں کو جو بالشویک انقلاب کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے،بولیویا کے چی گویرا اور کیوبا کے فیدل کاسترو کو ہیرو مانتے ہیں اور انقلاب فرانس کی عوامیت پہ لمبے لیکچر دیتے ہیں معلوم نہیں کیوں افغان عوام اور مجاہدین کی جدو جہد آزادی کو امریکی جہاد کا نام دے کر رد کر دیتے ہیں۔ اس جہاد میں جو خالص افغان عوام اور مجاہدین نے سویت روس کے خلاف شروع کیا اور جس میں بعد میں سعودی عرب ، پاکستان اور امریکہ نے اپنا حصہ ڈالا کہ ہر ایک کے اپنے مفادات تھے، امریکی جہاد کہناایک نظریے کی توہین ہی نہیں حقائق سے سنگین صرف نظر بھی ہے ۔
پاکستان کی خوش قسمتی یہ رہی کہ اس جنگ کے دوران اس کی پوزیشن مذہبی اعتبار سے مضبوط اور واضح رہی۔ ایک طرف جارح سویت روس تھا جو ایک عرصہ افغانستان میں اپنے نظریات کی آبیاری کرتا رہا تھا دوسری طرف وہ مجاہدین تھے جو اس جارح کافر ملک کے خلاف ہتھیار اٹھا کر صف آرا ہوگئے تھے۔ پاکستان کا جغرافیہ اور اخلاقیات دونوں پابند تھے کہ وہ مجاہدین کی دامے درمے سخنے مدد کریں۔ ادھر امریکہ کو روس کے ساتھ پرانے بدلے چکانے تھے یوں پاکستان کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہا۔ مجاہدین،پاکستان اور امریکہ ایک ہی پیج پہ اپنا اپنا کھیل کھیلتے رہے۔کل کے مجاہدین تو آج بھی امریکی آشیرباد میں ہونے والے انتخابات کی تیاری میں مصروف ہیں اور آج کے طالبان نے ہتھیار اٹھا رکھے ہیں جن پہ الزام ہے کہ ان کی پشت پناہی روس اور چین کررہے ہیں۔ ۔ یہ الزام لگانے والے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اب روس سپرپاور نہیں رہا پھر بھی امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کا راستہ نہیںمل رہا۔وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ مومن اللہ پہ بھروسہ کرلے تو وہ کسی کو بھی اس کا پشت پناہ بنا دیتا ہے۔ [قدسیہ ممتاز 92 نیوز]
Afghanistan | World | The Guardian
https://www.theguardian.com/world/afghanistan
2 days ago - Afghanistan: national security adviser quits, sparking cabinet resignations. Hanif Atmar's exit, amid worsening security situation, is followed by ...Afghanistan - The New York Times
www.nytimes.com/topic/destination/afghanistan
World news about Afghanistan. Breaking news and archival information about its people, politics and economy from The New York Times.
Related :