Featured Post

National Narrative Against Terrorism دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ تاریخی فتویٰ ’’پیغام پاکستان‘‘

National Narrative Against Terrorism دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ تاریخی فتویٰ ’’پیغام پاکستان‘‘ تمام مسالک ک...

Sunday, February 5, 2023

پاکستان کیا طاغوتی ہے یا اسلامی مملکت ؟ ?Is Pakistan not an Islamic Republic

پاکستان کے بعض دشمن عناصر معصوم نوجوانوں کو اس نعرے سے گمراہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں طاغوتی نظام رائج ہے اور حکومت کا ڈھانچہ اسلامی قانون کے مطابق نہیں ہے، اور دہشت گردی سے اسلام نافذ کیا جایے...Read more »
Some anti Pakistan elements mislead the innocent youth with the slogan that Taghoot  is prevalent in Pakistan and the government structure is not in accordance with Islamic law, this is false fabrication، there is no justification for terrorism on this pretext .... 
 یہ گمراہ کن فکر حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ قرارداد مقاصد پاکستان کی اسلامی اور جمہوری شناخت کی بنیاد ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان کے ۱۹۵۶ء ،  ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر میں اسے اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا اور طے کر دیا گیا کہ پاکستان میں قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون نہیں بنے گا۔ پاکستانی قوانین کی قرآن و سنت سے مطابقت کو یقینی بنانے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل ۱۹۶۲ء کے دستور کی رو سے قائم کی گئی۔ ۱۹۹۷ء میں اسلامی نظریاتی کونسل نے حکومت پاکستان کو اپنی فائنل رپورٹ جمع کروائی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ۹۵ فیصد قوانین میں قرآن و سنت سے متصادم کوئی چیز نہیں ہے جبکہ باقی قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے کونسل نے متعدد سفارشات دی ہیں۔ کونسل کی رپورٹ کے مطابق قوانین کا ۹۵ فیصد اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔ اس لیے اس بنا پر پاکستانی قوانین  کو غیر اسلامی قرار دینا نہ صرف صریح گمراہی ہے بلکہ یہ پاکستان کے دستور سے لاعلمی کی دلیل بھی ہے۔ پاکستان کی بہت ساری کامیابیوں کے باوجود پاکستان کو ابھی وہ ہدف حاصل کرنا ہے جس کا تعین قرار داد مقاصد میں کیا گیا تھا۔ اس ہدف کو حاصل کرنے میں اس وقت بعض چیلنجز  درپیش ہیں(تفصیل لنک http://bit.ly/2K7hBq6 )
اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے جس کے خلاف ہتھیار اٹھانا بغاوت و فساد ہے یہ اہم نقطۂ ہے کی  دستاویز کا ، جس پرعلماء امت مسلمہ پاکستان کا  اجماع ہو چکا ہے. 
اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ ، اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈائیرکٹر جنرل ڈاکٹر پروفیسیر ضیاءالحق کی کاوشوں سے پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے جید علماء جن میں مفتی جسٹس تقی عٹمانی اور 1800 علماء و ریسرچ سکالرز نےطویل میٹنگز کے بعد متفقہ بیانیہ وفتوی مرتب کیا ، مزید برآں اس دستاویز کی تیاری میں اہم پاکستانی جامعات اور پاکستان کے بڑے دینی مدارس دارالعلوم، وفاق المدارس العربیۃ، تنظیم المدارس اہلسنت، وفاق المدارس السلفیہ، وفاق المدارس الشیعیہ، رابطۃ المدارس پاکستان شامل ہیں۔
اجماع: دستاویز کو مفتی الازھر اور دس ہزار سے زیادہ علماء نے بھی اینڈورز کیا اور "پیغام پاکستان" پر "اجماع" ہو گیا۔ (تفصیل زیل)
"پیغام پاکستان"  قرآن و سنت میں موجود بنیادی اسلامی تعلیمات اور ۱۹۷۳ء کے متفقہ دستور کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے۔ یہ دستاویز ریاستِ پاکستان کی منظوری سے ایک بنیادی قومی لائحہ عمل کے طور پر عمل درآمد کے لیے شائع کی گئی ہے۔
بیانیہ کے مطابق ائین پاکستان اسلامی ہے اس کی مخالفت، بغاوت فساد ، حرام ہے اور افواج پاکستان دیشت گردوں کو کچلنے میں حق بجانب ہیں۔ 
"پیغام پاکستان" ، قرآن و سنت اور اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے دستور کی روشنی میں ریاست پاکستان کی اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ پیغام ریاستِ پاکستان کو درپیش مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے ایسے  لائحہ عمل کی بنیاد تجویز کرتا ہے جس کی بنا پر قراردادِ مقاصد میں دیے گئے اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں، نیز اس کے ذریعے پاکستان کو قوموں کی برادری میں ایک مضبوط، متحد، مہذب اور ترقی یافتہ ملک کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ یہ متفقہ دستاویز مملکت خداداد اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں اسلامی تہذیب و تمدّن کی برداشت، روحانیت، عدل و انصاف، برابری، حقوق و فرائض میں توازن جیسی  خوبیوں سےمزّین معاشرے کی تشکیل جدید میں ممدومعاون ہوسکتی ہے۔
"پیغام پاکستان" کو سب تک پہنچانا ہم سب کی مشترکہ زمہ داری ہے، اس جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں
        📖🌟🕌 🕋 
Lack of unity against Terrorism costing Lives
The state had taken more than a decade to construct and enact a rational, effective argument against terrorism. The tricky part was convincing ourselves that terrorism has no good or bad shades; it is destructive in all its forms. But it appears we failed to fully integrate the argument into our policy discourse, and the desire to play ‘good’ and ‘bad’ remained hidden in our hearts. When the Taliban reached Kabul, this distinction suddenly emerged. Pakistan did not take much time to reach out to the ‘defeated’ enemy, ie, the TTP. It was conceived that the Taliban victory was the ultimate achievement for all militant groups, and they would together construct Afghanistan. This was a flawed approach.
State and society had together constructed a counterterrorism narrative that also involved a section of religious scholars. Recently, the state invited the latter again, and they endorsed their previous decrees against the attacks in Pakistan. Many of the scholars had visited Afghanistan in a bid to convince the TTP leadership to lay down their arms. However, the TTP leadership had turned down their counsel respectfully and reminded them they had learned the lesson of ‘jihad’ in their institutions.
This is an old debate about the validity of the armed uprising against a Muslim ruler, and religious scholars had taken more than a decade to issue an unambiguous decree against terrorism. Their efforts aside, the resolve of the nation also built pressure on the religious scholars to denounce the TTP uprising. They had remained sympathizers of the Afghan Taliban and continued providing moral and ideological aid to them. The TTP argues on the same grounds that their struggle cannot be declared un-Islamic.
Any ambiguous approach sends a confused message at all levels. It affects the will of the counterterrorism apparatuses, and the powerful among them find an easy solution to shift the burden onto the weaker components, as is happening right now. Political parties also resort to bickering as the government and opposition blame each other for the upsurge in terrorist incidents in the country. Interestingly, they start off by stressing the need for national unity against terrorism. [Read more below]
اجماع
اجماع، امت (محمدیہ) کے مجتہدین کے اس اتفاق کا نام ہے جو حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانہ میں کسی بھی امر (بات) پر ہوا ہو،
«مجتہدین» کی قید سے مراد ماہر علما مراد ہیں، جنہیں فقہا بھی کہتے ہیں .
دلیل
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَاتَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَاتَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا"۔ (النساء:115)
ترجمہ: جو شخص رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی مخالفت کرے گا اس کے بعد کہ اس پر ہدایت واضح ہوچکی ہو اور اہلِ ایمان کے راستے کے علاوہ دوسرے راستہ کی پیروی کرے گا تو ہم اس کو اس طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھرگیا اور اسے جہنم میں داخل کریں گے۔ (قرآن 4:115)
آیت میں باری تعالٰیٰ نے رسول (صلى الله عليه وسلم) کی مخالفت اور سبیل مؤمنین کے علاوہ دوسروں کے سبیل کی اتباع پر وعید بیان فرمائی ہے اور جس چیز پر وعید بیان کی جائے وہ حرام ہوتی ہے ؛ لہٰذا رسول کی مخالفت اور غیر سبیل مؤمنین کی اتباع دونوں حرام ہوں گی اور جب یہ دونوں حرام ہیں تو ان کی ضد یعنی رسول کی موافقت اور سبیل مؤمنین کی اتباع واجب ہوگی اور مؤمنین کی سبیل اور اختیار کردہ راستہ کا نام ہی اجماع ہے ؛ لہٰذا اجماع کی اتباع کا واجب ہونا ثابت ہو گیا اور جب اجماع کا اتباع واجب ہے تو اس کا حجت ہونا بھی ثابت ہو گیا، قاضی ابویعلیؒ (متوفی:458ھ) اور علامہ آمدی نے اس آیت سے اجماع کی حجیت کے ثبوت پر بڑی نفیس بحث کی ہے جو لائقِ مطالعہ ہے۔ (الاحکام آمدی:1/287۔ اصول الفقہ ابوزہرہ:161۔ ارشاد الفحول:113)
حجیت اجماع احادیث سےترميم

حدیث: "عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَايَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْقَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ"۔

(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي لُزُومِ الْجَمَاعَةِ، كِتَاب الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:2093)

ترجمہ:حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ:اللہ تعالٰیٰ میری امت کو یا (راوی نے کہا) کہ محمد صلى الله عليه وسلم کی اُمت کو ضلالت وگمراہی پر مجتمع نہیں کریگا۔

نیز آپ (صلى الله عليه وسلم) کا فرمان ہے : "فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَعِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ وَمَارَأَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ"۔ (مسندِاحمد، حدیث نمبر3600)

ترجمہ:جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جس چیز کو مسلمان بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالٰیٰ کے نزدیک بھی بری ہے۔

ایک اور موقع سے آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: "مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْراً فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ"(مشکوٰۃ:31)

ترجمہ:جوشخص جماعت سے بالشت برابر جدا ہوا تواس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے الگ کردی۔

ایک جگہ ارشاد ہے : "مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةِ مَاتَ مَيْتَةً جَاهِلِيَّةً"۔ (مصنف عبد الرزاق، كتاب الصلاة، باب الأمراء يؤخرون الصلاة، حدیث نمبر:3779)

ترجمہ:جو جماعت سے الگ ہو جائے تواس کی موت جاہلیت کے طرز پر ہوگی۔

یہ تمام احادیث قدرے مشترک اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ
امت محمدیہ اجتماعی طور پر خطا سے محفوظ ہے، یعنی پوری امت خطا اور ضلالت پر اتفاق کرے ایسا نہیں ہو سکتا ہے اور جب ایسا ہو تو اجماع امت کے ماننے اور اس کے حجتِ شرعی ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے۔
پیغام پاکستان پر علماء کا اجماع ہے 
                                  📖🌟🕌 🕋 

 کھلے اختااف کے باوجود سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  جماعت سے الگ نہ ہوئے، امیر کی اطاعت میں ان کے ساتھ پوری اقتداء و اتباع کی
عبدالرحمٰن بن یزید نے کہا: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ منیٰ میں چار رکعت پڑھ چکے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس جگہ دو دو رکعتیں پڑھیں، اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی دو دو رکعتیں پڑھیں، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی دو دو رکعتیں پڑھیں، پھر تمہارے راستے جدا جدا ہو گئے، کاش چار رکعت کے بجائے میری دو رکعت ہی قبول کر لی جاتیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح،  (سنن دارمي، حدیث نمبر: 1912)[مكتبه الشامله نمبر: 1916]» قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1082]، [مسلم: 695]، [أبوداؤد 1965]، [ترمذي 882]، [نسائي 1444]، [أبويعلی 5194] 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کی حالت میں تھے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے منیٰ و عرفات و مزدلفہ میں ظہر، عصر اور عشاء کی نمازیں قصر پڑھیں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی شروع میں دو ہی رکعت پڑھا کرتے تھے، آخر میں چار رکعت پڑھیں، ان کا کہنا تھا کہ دور دور سے آنے والے لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ یہ نمازیں دو رکعت ہی فرض ہیں اس لئے پوری چار رکعت ادا کیں، 
 امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا استدلال مکہ میں شادی تھی اور وہمسافرنہیں تھے .. 
یہ امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا اجتہاد تھا جو سنّتِ نبوی کے مقابلے اور موجودگی میں قابلِ قبول نہیں، اسی لئے سیدنا ابن عمر و سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم نے اس پر برہمی کا اظہار کیا، لیکن امیر کی اطاعت میں ان کے ساتھ پوری اقتداء و اتباع کی اور جماعت سے الگ نہ ہوئے- سبق اتحاد امت ہے اور نفاق کی نفی ہے
لیکن آج کے مسلمان تو بس اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں ، اسی لیے نفاق ، فتنہ ، فساد اور بربا دی ہے- الله ہم کو معاف فرمایے اور نفاق ، فساد سے محفوظ رکھے -
   📖🌟🕌 🕋 
فاسق مسلمان حکمران کے خلاف خروج فتنہ و فساد جائز نہیں:

فاسق مسلمان حکمران کے خلاف تو خروج جائز نہیں ہے لیکن ظالم یا بے نماز مسلمان حکمران کے خلاف خروج کا جواز چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے لیکن فی زمانہ ان شرائط کا حصول مفقود ہونے کی وجہ سے ظالم اور بے نماز مسلمان حکمران کے خلاف خروج بھی جائز نہیں ہے >تفصیل >>>>

How “Islamic” is Pakistan’s Constitution?

During peace negotiations with the Tehreek-e-Taliban (TTP) in Pakistan, Taliban leaders declared that they did not accept the Constitution of Pakistan as “Islamic” and therefore did not believe in holding peace talks under it. Indeed, they alleged that there was not a single Islamic clause in the Constitution. On the other hand, the government argued that all talks must be held within the framework of the constitution and countered that the constitution was in fact, Islamic.
پاکستان کا آئین کتنا "اسلامی" ہے؟
پاکستان میں تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ امن مذاکرات کے دوران، طالبان رہنماؤں نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کے آئین کو "اسلامی" کے طور پر تسلیم نہیں کرتے اور اس لیے اس کے تحت امن مذاکرات کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ درحقیقت، انہوں نے الزام لگایا کہ آئین میں ایک بھی اسلامی شق نہیں ہے۔ دوسری طرف، حکومت نے دلیل دی کہ تمام مذاکرات آئین کے دائرہ کار میں ہونے چاہئیں اور اس کا جواب دیا کہ آئین درحقیقت اسلامی ہے۔

Such debates are not new: throughout the constitutional life of Pakistan, there have been recurring questions about the nature and function of Islam within the state. What does it mean to be an “Islamic” state? Was Islam meant to be a symbolic marker of national identity or was it intended as the foundational building block of the state itself? Was the founder a secular or an “Islamic democrat”? Over six decades and several constitutions and constitutional amendments later, these questions remain unsettled. And they’ve once again re-surfaced during these major peace talks.
اس طرح کی بحثیں نئی نہیں ہیں: پاکستان کی آئینی زندگی کے دوران، ریاست کے اندر اسلام کی نوعیت اور عمل کے بارے میں بار بار سوالات ہوتے رہے ہیں۔ "اسلامی" ریاست ہونے کا کیا مطلب ہے؟ کیا اسلام کا مقصد قومی تشخص کا علامتی نشان بنانا تھا یا اس کا مقصد خود ریاست کی بنیادی عمارت بنانا تھا؟ کیا بانی سیکولر تھا یا "اسلامی جمہوریت پسند"؟ سات دہائیوں سے زیادہ اور کئی آئینوں اور آئینی ترامیم کے بعد بھی یہ سوالات حل طلب ہیں۔ اور وہ ان اہم امن مذاکرات کے دوران ایک بار پھر منظر عام پر آئے ہیں۔

One can only wonder whether the TTP actually engaged in any thorough analysis of the constitution before attaccking its Islamic credentials; an allegation that Pakistan’s constitution is devoid of Islam seems all the more perplexing considering that sometimes foreign commentators are only too quick to casually declare Pakistan as “Islamized”.
کوئی صرف یہ سوچ سکتا ہے کہ آیا ٹی ٹی پی نے اپنی اسلامی اسناد پر حملہ کرنے سے پہلے آئین کے کسی مکمل تجزیے میں مصروف تھا یا نہیں؟ یہ الزام کہ پاکستان کا آئین اسلام سے خالی ہے اور زیادہ پریشان کن لگتا ہے کیونکہ بعض اوقات غیر ملکی مبصرین پاکستان کو اتفاق سے "اسلام زدہ" قرار دینے میں بہت جلدی کرتے ہیں۔

So, what is the correct answer? In our study investigating the “Islamicity” of constitutions of Muslim countries, my co-author, Moamen Gouda (Department of Economics, Philipps University Marburg) and I coded the constitution of every Muslim majority country to produce an ordinal ranking of Islamicity (based on a “model” Islamic constitution) in what we call the Islamic Constitutions Index (ICI). In this index, we found the Pakistani constitution to be very, very “Islamic”.

تو، صحیح جواب کیا ہے؟ مسلم ممالک کے آئینوں کی "اسلامیت" کی تحقیق کرنے والے ہمارے مطالعے میں، میرے شریک مصنف، مومین گوڈا (محکمہ اقتصادیات، فلپس یونیورسٹی ماربرگ) اور میں نے ہر مسلم اکثریتی ملک کے آئین کو اسلامییت کی ایک عام درجہ بندی تیار کرنے کے لیے کوڈ کیا (جس کی بنیاد پر ایک "ماڈل" اسلامی آئین) جسے ہم اسلامی آئین انڈیکس (ICI) کہتے ہیں۔ اس انڈیکس میں، ہم نے پاکستانی آئین کو بہت، بہت "اسلامی" پایا۔

Amongst other statements regarding Islam, the text declares Pakistan as an “Islamic Republic” (Article 1); it opens stating in the preamble that “sovereignty over the entire Universe belongs to Almighty Allah alone”; it makes Islam the state religion (Article 2); and the president and prime minister must be Muslim and must swear an oath referencing Islamic idiom (e.g. Article 41). Further, the oath declares that the president, prime minister and other ministers “will strive to preserve the Islamic Ideology which is the basis for the creation of Pakistan” (Articles 42, 91 and 92). Article 227 also declares that “no law shall be enacted which is repugnant to Islamic Injunctions”. Only 5 other countries in the Muslim world have such a strong form of an “Islamic supremacy” clause, according to a forthcoming article I’ve written in the Virginia Journal of International Law with Tom Ginsburg.

اسلام کے حوالے سے دیگر بیانات کے علاوہ، متن پاکستان کو "اسلامی جمہوریہ" قرار دیتا ہے (آرٹیکل 1)؛ اس کا آغاز تمہید میں یہ کہتے ہوئے ہوتا ہے کہ :
’’پوری کائنات پر حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے‘‘۔
 یہ اسلام کو ریاستی مذہب بناتا ہے (آرٹیکل 2)؛ اور صدر اور وزیر اعظم کا مسلمان ہونا ضروری ہے اور اسلامی محاورہ (مثلاً آرٹیکل 41) کے حوالے سے حلف لینا ضروری ہے۔
 مزید، حلف میں اعلان کیا گیا ہے کہ صدر، وزیر اعظم اور دیگر وزراء "اس اسلامی نظریہ کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے جو پاکستان کی تخلیق کی بنیاد ہے" (آرٹیکل 42، 91 اور 92)۔
آرٹیکل 227 یہ بھی اعلان کرتا ہے کہ "کوئی ایسا قانون نافذ نہیں کیا جائے گا جو اسلامی احکام کے منافی ہو"۔ 
مسلم دنیا کے صرف 5 دیگر ممالک میں "اسلامی بالادستی" کی ایسی مضبوط شکل موجود ہے، ایک آنے والے مضمون کے مطابق جو میں نے ٹام گنزبرگ کے ساتھ ورجینیا جرنل آف انٹرنیشنل لاء میں لکھا ہے۔

Further, in clauses that are unique only to the Pakistani constitution, the constitution declares that: “steps shall be taken to enable the Muslims of Pakistan, individually and collectively, to order their lives in accordance with the fundamental principles and basic concepts of Islam” (Article 31); that “the state shall eliminate riba (usury) as early as possible” (Article 38); members of parliament must have “adequate knowledge of Islamic teachings” and not be “commonly known as one who violates Islamic Injunctions” (Article 62); establishes a Federal Sharia Court to monitor the “Islamicity” of laws (Article 203C); and declares that “all existing laws shall be brought in conformity with the Injunctions of Islam as laid down in the Holy Quran and Sunnah” (Article 227).

مزید، ان شقوں میں جو صرف پاکستانی آئین کے لیے منفرد ہیں، آئین اعلان کرتا ہے کہ: 
’’پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اس قابل بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے کہ وہ اپنی زندگیاں اسلام کے بنیادی اصولوں اور بنیادی تصورات کے مطابق گزار سکیں‘‘۔ 
(آرٹیکل 31)؛ کہ "ریاست سود کو جلد از جلد ختم کرے گی" 
(آرٹیکل 38)؛ پارلیمنٹ کے اراکین کو "اسلامی تعلیمات کا مناسب علم" ہونا چاہیے اور "عام طور پر اسلامی احکام کی خلاف ورزی کرنے والے کے طور پر جانا نہیں جانا چاہیے"
 (آرٹیکل 62)؛ قوانین کی "اسلامیت" کی نگرانی کے لیے ایک وفاقی شرعی عدالت قائم کرتی ہے
 (آرٹیکل 203C)؛ اور اعلان کرتا ہے کہ "تمام موجودہ قوانین کو اسلام کے احکام کے مطابق لایا جائے گا جیسا کہ قرآن پاک اور سنت میں بیان کیا گیا ہے" (آرٹیکل 227)۔
Further, unlike any other constitution in the Muslim world, the constitution even defines who is a Muslim (Article 260), thereby excluding some unorthodox Muslim minority groups who declare themselves Muslim. Of course none of this is to say that the constitutional text reflects how the clauses are enforced on the ground, but based on our analysis, the TTP’s argument that the constitution is un-Islamic does not seem well founded.
مزید برآں، مسلم دنیا کے کسی بھی دوسرے آئین کے برعکس، آئین پاکستان یہاں تک کہ مسلمان کون ہے (آرٹیکل 260) کی وضاحت کرتا ہے، اس طرح کچھ غیر روایتی مسلم اقلیتی گروہوں کو چھوڑ کر جو خود کو مسلمان قرار دیتے ہیں۔ یقیناً اس میں سے کوئی بھی یہ کہنا نہیں ہے کہ آئینی متن اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح شقوں کو زمین پر نافذ کیا جاتا ہے، لیکن ہمارے تجزیے کی بنیاد پر، ٹی ٹی پی کا یہ استدلال کہ آئین غیر اسلامی ہے، بے بنیاد مضحکہخیز ہے۔

To sum it up, the Constitution tries very hard to be “Islamic”. In fact, in our index, only two countries (out of more than 40 Muslim majority countries we surveyed) have more “Islamic” constitutions than Pakistan: Saudi Arabia and Iran. Even the other perceivably more “Islamic” Arab states such as the United Arab Emirates, Qatar, Bahrain and others lag far behind Pakistan in terms of their formal incorporation of Islam into their constitutions. Presumably, the Taliban is not interested in establishing an Islamic state based on the Iranian constitution, due to stark opposition to Shia ideology – which, out of all Muslim majority countries, leaving only Saudi Arabia as a more Islamic Sunni state than Pakistan.
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آئین پاکستان  "اسلامی" ہونے کی بہت کوشش کرتا ہے۔ درحقیقت، ہمارے انڈیکس میں، صرف دو ممالک (40 سے زائد مسلم اکثریتی ممالک میں سے جن کا ہم نے سروے کیا) پاکستان سے زیادہ "اسلامی" آئین ہیں: سعودی عرب اور ایران۔ یہاں تک کہ دیگر ممکنہ طور پر زیادہ "اسلامی" عرب ریاستیں جیسے متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور دیگر اپنے آئین میں اسلام کو باقاعدہ شامل کرنے کے معاملے میں پاکستان سے بہت پیچھے ہیں۔ غالباً، شیعہ نظریے کی شدید مخالفت کی وجہ سے، طالبان ایرانی آئین کی بنیاد پر اسلامی ریاست کے قیام میں دلچسپی نہیں رکھتے - جو کہ تمام مسلم اکثریتی ممالک میں سے، صرف سعودی عرب کو پاکستان سے زیادہ اسلامی سنی ریاست کے طور پر چھوڑتا ہے۔
–Dawood Ahmed, University of Chicago
Suggested citation: Dawood Ahmed, How Islamic is Pakistan’s Constitution? IConnect Blog, May 17, 2014, available at http://www.iconnectblog.com/2014/05/how-islamic-is-pakistans-constitution/

How Anglo Saxan law conflict with Islam?

Anglo-Saxon law and Islam can conflict in some areas if they have different definitions or interpretations of certain concepts, such as the role of women, family law, and punishment for crimes.
However, it is important to note that the conflict between the two legal systems can also be resolved.
In many Western countries, including the UK and the US, there have been efforts to accommodate Muslim communities by incorporating Islamic legal principles, such as sharia, into the legal system. This can include allowing Islamic financial institutions, such as Islamic banks, to operate in accordance with Islamic law, and recognizing Islamic marriages and divorce proceedings.

اینگلو سیکسن قانون اسلام سے کیسے متصادم ہے؟
اینگلو سیکسن قانون اور اسلام کچھ معاملات  میں متصادم ہو سکتے ہیں اگر ان میں بعض تصورات کی مختلف تعریفیں یا تشریحات ہوں، جیسے خواتین کا کردار، عائلی قانون، اور جرائم کی سزا۔
تاہم، یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ دو قانونی نظاموں کے درمیان تنازعات کو بھی حل کیا جا سکتا ہے.
برطانیہ اور امریکہ سمیت بہت سے مغربی ممالک میں اسلامی قانونی اصولوں جیسے شریعت کو قانونی نظام میں شامل کرکے مسلم کمیونٹیز کو ایڈجسٹ کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ اس میں اسلامی مالیاتی اداروں جیسے اسلامی بینکوں کو اسلامی قانون کے مطابق کام کرنے کی اجازت دینا اور اسلامی شادیوں اور طلاق کی کارروائی کو تسلیم کرنا شامل ہو سکتا ہے۔

It's also important to recognize that the relationship between Islamic law and Western legal systems is complex and multifaceted, and will vary from country to country and from community to community. In some cases, Muslim individuals and communities may choose to follow Islamic law in personal matters, while in other cases they may choose to follow the local laws of the country they are living in.
Any law which is not in conflict with Sharia can be acceptable , lets say traffic laws, cyber crimes and many laws according to present environments,  however Sharia law takes precedence, but no compromise on Quran and Sunnah. 
یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ اسلامی قانون اور مغربی قانونی نظاموں کے درمیان تعلق پیچیدہ اور کثیر جہتی ہے، اور یہ ملک سے دوسرے ملک اور کمیونٹی سے مختلف ہوگا۔ کچھ معاملات میں، مسلم افراد اور کمیونٹیز ذاتی معاملات میں اسلامی قانون کی پیروی کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں، جبکہ دیگر معاملات میں وہ اس ملک کے مقامی قوانین کی پیروی کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں جس میں وہ رہ رہے ہیں۔
کوئی بھی قانون جو شریعت سے متصادم نہ ہو قابل قبول ہو سکتا ہے، چلیں ٹریفک قوانین، سائبر کرائمز اور موجودہ ماحول کے مطابق بہت سے قوانین، البتہ شریعت کو مقدم رکھا جاتا ہے، لیکن قرآن و سنت پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔
It us the lack of knowledge of some extremists who are bent upon not to accept anything contrary to their rigid orthodox views, who mentally live in 7th century. They cherry pick,  use modern tools and thoughts for themselves while also crticising denying it, a hypocratic approach.
یہ ہمیں کچھ انتہا پسندوں کے بارے میں علم کی کمی ہے جو اپنے سخت آرتھوڈوکس خیالات کے خلاف کسی بھی چیز کو قبول نہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، جو ذہنی طور پر 7ویں صدی میں رہتے ہیں۔ وہ چیری یک کرتے ہیں، اپنے لیے جدید آلات اور خیالات کا استعمال کرتے ہیں جبکہ اس سے انکار، تنقید بھی کرتے ہیں، یہ ایک منافقانہ انداز ہے۔

Did Caliph Umer accept anay Roman laws and customs ?

Caliph Umar, one of the companions of Prophet Muhammad (pbuh) and the second Caliph of Islam, did incorporate some Roman laws and customs into the Islamic legal system. This was done in order to create a stable and fair system of governance for the Muslim community. However, it is important to note that these laws and customs were modified and adapted to fit within the framework of Islamic principles and teachings. The ultimate source of law and guidance in Islam is the Quran and the Sunnah of Prophet Muhammad (pbuh)
کیا خلیفہ عمر(رض) نے رومی قوانین اور رسم و رواج کو قبول کیا تھا؟
خلیفہ عمر، جو پیغمبر اسلام (ص) کے اصحاب میں سے ایک اور اسلام کے دوسرے خلیفہ تھے، نے کچھ رومی قوانین اور رسم و رواج کو اسلامی قانونی نظام میں شامل کیا۔ یہ مسلم کمیونٹی کے لیے ایک مستحکم اور منصفانہ نظام حکومت بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔ تاہم، یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ ان قوانین اور رسوم و رواج کو اسلامی اصولوں اور تعلیمات کے دائرے میں فٹ ہونے کے لیے تبدیل کیا گیا تھا۔ اسلام میں قانون اور رہنمائی کا حتمی ماخذ قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

Economic Policy caliph Umar ibn Khattab and maslahah

According UNILA, that Islam in general economic planning as well as planning and other fields, namely to realize their dreams and goals in a period of time according to the circumstances that exist.(33) Umar's economic policies, based solely on maslahah the context of the time. These things do not conflict with Islamic law, the Koran and the Sunnah. 
(33) 33. UNILA, Naili, Omar Ibn Kaththab economic policy, (Mataram: Faculty of Sharia IAIN Mataram, tt.), Pp 9
MPRA Paper No. 87819, posted 11 Jul 2018 15:58 UTC
اقتصادی پالیسی خلیفہ عمر بن خطاب اور مصلح
UNILA کے مطابق، اسلام عمومی اقتصادی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ منصوبہ بندی اور دیگر شعبوں میں، یعنی موجودہ حالات کے مطابق اپنے خوابوں اور اہداف کو ایک مدت میں پورا کرنا۔ اگر وقت یہ چیزیں اسلامی قانون، قرآن اور سنت سے متصادم نہیں ہیں۔
Masalaha (مصلحت ) forms a part of extended methodological principles of Islamic jurisprudence (uṣūl al-fiqh) and denotes prohibition or permission of something, according to necessity and particular circumstances, on the basis of whether it serves the public interest of the Muslim community (ummah). 
The conception of maslahah is a method of extracting Islamic law which is based on aspects of benefit and goodness for humans as long as it does not conflict with Islamic sharia norms Maslahat is something that brings goodness, benefits and uses. Being benefit means having a meaning of usefulness, goodness, benefits, and interests.
مصالحہ (مصلحت) اسلامی فقہ (اصول الفقہ) کے توسیعی طریقہ کار کے اصولوں کا ایک حصہ ہے اور کسی چیز کی ممانعت یا اجازت کی طرف اشارہ کرتا ہے، ضرورت اور خاص حالات کے مطابق، اس بنیاد پر کہ آیا یہ مسلم کمیونٹی کے عوامی مفاد کے لیے کام کرتا ہے ۔
مصلح کا تصور اسلامی قانون کو اخذ کرنے کا ایک طریقہ ہے جو انسانوں کے لیے فائدے اور بھلائی کے پہلوؤں پر مبنی ہے جب تک کہ یہ اسلامی شرعی اصولوں سے متصادم نہ ہو مصلحت ایک ایسی چیز ہے جو خیر، فوائد اور استعمالات لاتی ہے۔ فائدہ ہونے کا مطلب ہے افادیت، اچھائی، فوائد اور مفادات کے معنی۔
Hazrat Umer (RA) - Pharaohs Taxes Allowed to Continue
Under the Pharaohs taxes on land in Egypt could be paid in cash or kind, and the settlement was for a period of four years at a time. When the Romans occupied Egypt the same system continued but besides the normal land revenue they levied additional levies "hereunder large quantities of grain were collected for presentation to the authorities at Constantinople. Umar abolished the additional levies and the system in vogue under the Pharaohs was allowed to continue. The rules about the method of collection were made simpler and milder. In the time of Umar the land revenue collected from Egypt amounted to twelve million dinars.
In other conquered countries no special settlements were carried out. In such countries the existing systems continued and the records in existence were adopted.
حضرت عمر رضی اللہ عنہ - فرعونوں کے ٹیکسوں کو جاری رکھنے کی اجازت
فرعون کے دور میں مصر میں زمین پر ٹیکس نقد یا قسم میں ادا کیا جا سکتا تھا، اور یہ (settlement) تصفیہ ایک وقت میں چار سال کی مدت کے لیے تھا۔ جب رومیوں نے مصر پر قبضہ کیا تو یہی نظام جاری رہا لیکن عام زمینی محصول کے علاوہ انہوں نے اضافی محصولات لگائے "اس کے تحت قسطنطنیہ کے حکام کو پیش کرنے کے لیے بڑی مقدار میں غلہ جمع کیا گیا۔ جمع کرنے کے طریقہ کار کے قواعد کو آسان اور ہلکا بنایا گیا،حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے زمانے میں مصر سے زمین کی آمدنی بارہ ملین دینار تھی۔ دوسرے مفتوحہ ممالک میں کوئی خاص آباد کاری نہیں کی گئی۔ ایسے ممالک میں موجودہ نظام جاری رہا اور موجود ریکارڈ کو اپنایا گیا۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی بھی قانون اگر عوامی مفاد میں ہے اور قرآن و سنت کے خلاف نہیں تو اس کو جاری رکھنے میں کوئی ممانعت نہیں- یہی آیین پاکستان میں کی سپرٹ ہے جس کو طاغوتی کہنا صرف لاعلمی و جہالت ہے-

Related :