فاسق مسلمان حکمران کے خلاف خروج فتنہ و فساد جائز نہیں:فاسق مسلمان حکمران کے خلاف تو خروج جائز نہیں ہے لیکن ظالم یا بے نماز مسلمان حکمران کے خلاف خروج کا جواز چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے لیکن فی زمانہ ان شرائط کا حصول مفقود ہونے کی وجہ سے ظالم اور بے نماز مسلمان حکمران کے خلاف خروج بھی جائز نہیں ہے۔
ایسے حکمرانوں کو وعظ و نصیحت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجب ہے لیکن ا للہ کے رسول ۖ کے فرامین کے مطابق کسی فاسق و فاجرمسلمان حکمران کے خلاف خروج حرام ہے کیونکہ اس میں مسلمانوں کا اجتماعی ضرر اور فتنہ و فساد ہے۔ ہاں اگر کسی پر امن طریقے مثلاً احتجاجی سیاست وغیرہ سے ان حکمرانوں کی معزولی اوران کی جگہ اہل عدل کی تقرری ممکن ہو تو پھر ان کی معزولی اور امامت کے اہل افراد کی اس منصب پر تقرری بھی اُمت مسلمہ کا ایک فریضہ ہو گی-
فاسق و فاجرحکمرانوں کے خلاف خروج کی حرمت کے دلائل درج ذیل ہیں۔ آپ کا ارشاد ہے:
١) ''ألا من ولی علیہ وال فرآہ یأتی شیئاً من معصیة اللہ فلیکرہ ما یأتی من معصیة اللہ ولا ینزعن یدا من طاعة.'' (صحیح مسلم' کتاب الامارة' باب خیار الأئمة و شرارھم)
''خبردار! جس پر بھی کوئی امیر مقررہوا اور وہ اس امیر میں اللہ کی معصیت پر مبنی کوئی کام دیکھے تو وہ امیر کے گناہ کو تو ناپسند کرے لیکن اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے۔''
٢) ''من کرہ من أمیرہ شیئا فلیصبر علیہ فنہ لیس من أحد من الناس یخرج من السلطان شبرا فمات علیہ لا مات میتة جاھلیة.''(صحیح مسلم' کتاب الامارة' وجوب ملازمة جماعة المسلمین عند ظھور الفتن ؛ صحیح بخاری' کتاب الفتن' قول النبی سترون بعدی أمورا تنکرونھا)
جسے اپنے امیر میں کوئی برائی نظر آئے تو وہ اس پر صبر کرے کیونکہ کوئی بھی شخص جب حکمران کی اطاعت سے ایک بالشت برابر بھی نکل جاتا ہے اور اسی عدم اطاعت پر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔
٣) '' ومن خرج علی أمتی یضرب برھا وفاجرھا ولا یتحاش عن مؤمنھا و لا یفی لذی عھد عھدہ فلیس منی ولست منہ.'' (صحیح مسلم' کتاب الامارة' وجوب ملازمة جماعة المسلمین عند ظھور الفتن)
''اور جو شخص بھی میری امت پر خروج کرے اور اس کے نیک و بدکار دونوں کو مارے اور امت کے مومن سے کو بھی اذیت دینے سے نہیں بچتا (جیسا کہ آج کل کے خود کش حملوں میں معصوم اور دیندار شہریوں کی بھی ہلاکت ہو جاتی ہے)۔ اور نہ ہی کسی ذمی کے عہد کا لحاظ کرتا ہے تو نہ ایسے شخص کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔ ''
٤) ''مَنْ حَمَلَ عَلَیْنَا السَّلَاحَ فَلَیْسَ مِنَّا.''(صحیح بخاری' کتاب الفتن' باب قول النبی من حمل علینا السلاح فلیس منا)
''جس نے ہم پر(یعنی مسلمانوں پر) ہتھیار اٹھائے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔''
٥) ''سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر.''(صحیح بخاری' کتاب الایمان' باب خوف المؤمن من أن یحبط عملہ)
''کسی مسلمان کو گالی دینا فسق و فجور ہے اور اس کا قتل کفریہ فعل ہے۔''
٦) '' اذا التقی المسلمان بسیفیھما فالقاتل والمقتول فی النار.''(صحیح بخاری' کتاب الایمان' باب قولہ تعالی وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا)
''جب دو مسلمان آپس میں اپنی تلواروں(یعنی ہتھیاروں) سے آمنے سامنے ہوں تو قاتل ومقتول دونوں آگ میں ہوں گے۔''
٧) ''لا ترجعوا بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض.''(صحیح بخاری' کتاب الفتن' باب قول النبیۖ لا ترجعوا بعدی کفارا)
تم میرے بعد کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جانا۔
٨) عن عدیسة بنت ھبان بن صیفی الغفاری قالت: جاء علی بن أبی طالب لی أبی فدعاہ للخروج معہ' فقال لہ أبی: ان خلیلی و ابن عمک عھد لی اذا اختلف الناس أن اتخذ سیفا من خشب فقد اتخذتہ فن شئت خرجت بہ معک قالت: فترکہ.''(سنن الترمذی' کتاب الفتن عن رسول اللہ' باب جاء فی اتخاذ سیف من خشب فی الفتنة)
'' عدیسہ بنت ھبان فرماتی ہیں کہ حضرت علی میرے والد صاحب کے پاس آئے اور انہیں اپنے ساتھ (حضرت معاویہ کے خلاف جنگ میں) نکلنے کی دعوت دی۔ تو میرے والد نے حضرت علی سے کہا : بے شک میرے دوست اور آپ کے چچازاد(یعنی محمد ۖ) نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ جب مسلمانوں میں باہمی اختلاف ہو جائے تو تم لکڑی کی ایک تلوار بنا لینا۔ پس میں نے لکڑی کی ایک تلوار بنا لی ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں اس تلوار کے ساتھ آپ کے ساتھ جانے کو تیارہوں۔ عدیسہ بنت ھبان فرماتی ہیں: اس بات پر حضرت علی نے میرے والد کو ان کی حالت پر چھوڑدیا۔''علامہ ألبانی نے اس روایت کو 'حسن صحیح ' کہا ہے۔(صحیح ابن ماجة :٣٢١٤)
٩) کسروا فیھا قسیکم و قطعوا أو تارکم و اضربوا بسیوفکم الحجارة فان دخل علی أحدکم فلیکن کخیر ابنی آدم۔(سنن أبی داؤد' کتاب الفتن و الملاحم' باب فی النھی عن السعی فی الفتنة)
فتنوں کے زمانے میں اپنی کمانیں توڑ دو۔ اور ان کی تانت ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔ اور اپنی تلواریں پتھروں پر دے مارو۔ پس اگر تم میں کسی ایک پر کوئی چڑھائی کرے تو وہ آدم کے دو بیٹوں میں سے بہترین کی مانند ہو جائے۔ علامہ ألبانی نے اس روایت کو 'صحیح' کہا ہے۔ (صحیح ابن ماجة:٣٢١٥)
حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اس بھائی کی مانند ہو جانا کہ جس نے قتل ہونا تو پسند کر لیا تھا لیکن اپنے بھائی کو قتل کرنے سے انکار کر دیا تھا جیسا کہ سورۃ المائدۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ ۖ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ ﴿٢٨﴾
'' البتہ اگر تو نے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تاکہ تو مجھے قتل کرے تو میں اپنا ہاتھ تیری طرف بڑھانے والا نہیں ہوں تاکہ تجھے قتل کروں۔ بے شک میں تمام جہانوں کے رب سے ڈرنے والا ہوں۔ بے شک میں یہ چاہتا ہوں کہ تم (یعنی قاتل) میرے اور اپنے گناہوں کے ساتھ لوٹ جاؤ اور اس کے سبب سے جہنم والوں میں سے ہوجاؤ۔''
١٠) ''وان اللہ لیؤید ھذاالدین بالرجل الفاجر.''(صحیح بخاری' کتاب الجھاد والسیر' باب ن اللہ یؤید الدین بالرجل الفاجر)
''بے شک اللہ سبحانہ و تعالی اس دین اسلام کی تائیدو نصرت فاسق و فاجر آدمی کے ذریعے کرتا ہے۔''
پڑھتے جائیں >>>>>>
فاسق مسلمان حکمران کے خلاف خروج فتنہ و فساد جائز نہیں:فاسق مسلمان حکمران کے خلاف تو خروج جائز نہیں ہے لیکن ظالم یا بے نماز مسلمان حکمران کے خلاف خروج کا جواز چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے لیکن فی زمانہ ان شرائط کا حصول مفقود ہونے کی وجہ سے ظالم اور بے نماز مسلمان حکمران کے خلاف خروج بھی جائز نہیں ہے۔
ایسے حکمرانوں کو وعظ و نصیحت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجب ہے لیکن ا للہ کے رسول ۖ کے فرامین کے مطابق کسی فاسق و فاجرمسلمان حکمران کے خلاف خروج حرام ہے کیونکہ اس میں مسلمانوں کا اجتماعی ضرر اور فتنہ و فساد ہے۔ ہاں اگر کسی پر امن طریقے مثلاً احتجاجی سیاست وغیرہ سے ان حکمرانوں کی معزولی اوران کی جگہ اہل عدل کی تقرری ممکن ہو تو پھر ان کی معزولی اور امامت کے اہل افراد کی اس منصب پر تقرری بھی اُمت مسلمہ کا ایک فریضہ ہو گی-
فاسق و فاجرحکمرانوں کے خلاف خروج کی حرمت کے دلائل درج ذیل ہیں۔ آپ کا ارشاد ہے:
١) ''ألا من ولی علیہ وال فرآہ یأتی شیئاً من معصیة اللہ فلیکرہ ما یأتی من معصیة اللہ ولا ینزعن یدا من طاعة.'' (صحیح مسلم' کتاب الامارة' باب خیار الأئمة و شرارھم)
''خبردار! جس پر بھی کوئی امیر مقررہوا اور وہ اس امیر میں اللہ کی معصیت پر مبنی کوئی کام دیکھے تو وہ امیر کے گناہ کو تو ناپسند کرے لیکن اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے۔''
٢) ''من کرہ من أمیرہ شیئا فلیصبر علیہ فنہ لیس من أحد من الناس یخرج من السلطان شبرا فمات علیہ لا مات میتة جاھلیة.''(صحیح مسلم' کتاب الامارة' وجوب ملازمة جماعة المسلمین عند ظھور الفتن ؛ صحیح بخاری' کتاب الفتن' قول النبی سترون بعدی أمورا تنکرونھا)
جسے اپنے امیر میں کوئی برائی نظر آئے تو وہ اس پر صبر کرے کیونکہ کوئی بھی شخص جب حکمران کی اطاعت سے ایک بالشت برابر بھی نکل جاتا ہے اور اسی عدم اطاعت پر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔
٣) '' ومن خرج علی أمتی یضرب برھا وفاجرھا ولا یتحاش عن مؤمنھا و لا یفی لذی عھد عھدہ فلیس منی ولست منہ.'' (صحیح مسلم' کتاب الامارة' وجوب ملازمة جماعة المسلمین عند ظھور الفتن)
''اور جو شخص بھی میری امت پر خروج کرے اور اس کے نیک و بدکار دونوں کو مارے اور امت کے مومن سے کو بھی اذیت دینے سے نہیں بچتا (جیسا کہ آج کل کے خود کش حملوں میں معصوم اور دیندار شہریوں کی بھی ہلاکت ہو جاتی ہے)۔ اور نہ ہی کسی ذمی کے عہد کا لحاظ کرتا ہے تو نہ ایسے شخص کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔ ''
٤) ''مَنْ حَمَلَ عَلَیْنَا السَّلَاحَ فَلَیْسَ مِنَّا.''(صحیح بخاری' کتاب الفتن' باب قول النبی من حمل علینا السلاح فلیس منا)
''جس نے ہم پر(یعنی مسلمانوں پر) ہتھیار اٹھائے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔''
٥) ''سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر.''(صحیح بخاری' کتاب الایمان' باب خوف المؤمن من أن یحبط عملہ)
''کسی مسلمان کو گالی دینا فسق و فجور ہے اور اس کا قتل کفریہ فعل ہے۔''
٦) '' اذا التقی المسلمان بسیفیھما فالقاتل والمقتول فی النار.''(صحیح بخاری' کتاب الایمان' باب قولہ تعالی وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا)
''جب دو مسلمان آپس میں اپنی تلواروں(یعنی ہتھیاروں) سے آمنے سامنے ہوں تو قاتل ومقتول دونوں آگ میں ہوں گے۔''
٧) ''لا ترجعوا بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض.''(صحیح بخاری' کتاب الفتن' باب قول النبیۖ لا ترجعوا بعدی کفارا)
تم میرے بعد کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جانا۔
٨) عن عدیسة بنت ھبان بن صیفی الغفاری قالت: جاء علی بن أبی طالب لی أبی فدعاہ للخروج معہ' فقال لہ أبی: ان خلیلی و ابن عمک عھد لی اذا اختلف الناس أن اتخذ سیفا من خشب فقد اتخذتہ فن شئت خرجت بہ معک قالت: فترکہ.''(سنن الترمذی' کتاب الفتن عن رسول اللہ' باب جاء فی اتخاذ سیف من خشب فی الفتنة)
'' عدیسہ بنت ھبان فرماتی ہیں کہ حضرت علی میرے والد صاحب کے پاس آئے اور انہیں اپنے ساتھ (حضرت معاویہ کے خلاف جنگ میں) نکلنے کی دعوت دی۔ تو میرے والد نے حضرت علی سے کہا : بے شک میرے دوست اور آپ کے چچازاد(یعنی محمد ۖ) نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ جب مسلمانوں میں باہمی اختلاف ہو جائے تو تم لکڑی کی ایک تلوار بنا لینا۔ پس میں نے لکڑی کی ایک تلوار بنا لی ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں اس تلوار کے ساتھ آپ کے ساتھ جانے کو تیارہوں۔ عدیسہ بنت ھبان فرماتی ہیں: اس بات پر حضرت علی نے میرے والد کو ان کی حالت پر چھوڑدیا۔''علامہ ألبانی نے اس روایت کو 'حسن صحیح ' کہا ہے۔(صحیح ابن ماجة :٣٢١٤)
٩) کسروا فیھا قسیکم و قطعوا أو تارکم و اضربوا بسیوفکم الحجارة فان دخل علی أحدکم فلیکن کخیر ابنی آدم۔(سنن أبی داؤد' کتاب الفتن و الملاحم' باب فی النھی عن السعی فی الفتنة)
فتنوں کے زمانے میں اپنی کمانیں توڑ دو۔ اور ان کی تانت ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔ اور اپنی تلواریں پتھروں پر دے مارو۔ پس اگر تم میں کسی ایک پر کوئی چڑھائی کرے تو وہ آدم کے دو بیٹوں میں سے بہترین کی مانند ہو جائے۔ علامہ ألبانی نے اس روایت کو 'صحیح' کہا ہے۔ (صحیح ابن ماجة:٣٢١٥)
حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اس بھائی کی مانند ہو جانا کہ جس نے قتل ہونا تو پسند کر لیا تھا لیکن اپنے بھائی کو قتل کرنے سے انکار کر دیا تھا جیسا کہ سورۃ المائدۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَئِن بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ ۖ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ ﴿٢٨﴾
'' البتہ اگر تو نے میری طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تاکہ تو مجھے قتل کرے تو میں اپنا ہاتھ تیری طرف بڑھانے والا نہیں ہوں تاکہ تجھے قتل کروں۔ بے شک میں تمام جہانوں کے رب سے ڈرنے والا ہوں۔ بے شک میں یہ چاہتا ہوں کہ تم (یعنی قاتل) میرے اور اپنے گناہوں کے ساتھ لوٹ جاؤ اور اس کے سبب سے جہنم والوں میں سے ہوجاؤ۔''
١٠) ''وان اللہ لیؤید ھذاالدین بالرجل الفاجر.''(صحیح بخاری' کتاب الجھاد والسیر' باب ن اللہ یؤید الدین بالرجل الفاجر)
''بے شک اللہ سبحانہ و تعالی اس دین اسلام کی تائیدو نصرت فاسق و فاجر آدمی کے ذریعے کرتا ہے۔''
پڑھتے جائیں >>>>>>