When attacked, Samjhauta Express train was headed from Delhi to ... after the heinous Samjhauta terror attacks makes a travesty of justice and ...
بلاسٹ کے مبینہ ماسٹر مائنڈ سنیل جوشی کی 2007 ء میں ہی پراسرار حالات میں موت ہو چکی تھی۔ دہلی ،لاہور سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین میں 18 فروری 2007ء کو پانی پت کے قریب 2 بم بلاسٹ ہوئے تھے جن میں 68 لوگ مارے گئے تھے،ان میں زیادہ تر پاکستانی تھے، نیز دیگر 12 شدید زخمی ہوگئے تھے۔استغاثہ کی طرف سے کل 299گواہوں کی فہرست پیش کی گئی تھی، جن میں 224کورٹ کے سامنے پیش ہوئے۔ ان میں سے 51 اہم گواہ اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔ 13 چشم دیدپاکستانی گواہ عدالت کے سامنے پیش ہی نہیں ہوئے۔ اسپیشل جج جگدیپ سنگھ نے اسکی تفصیلات اپنے آرڈر میں درج کی ہیں۔ ان کے مطابق تین بار سمن جار ی کرنے کے باوجود پاکستانی گواہان کو عدالت میں لانے کی کوئی سعی نہیں کی گئی۔ مارچ2017ء میں پہلی بار نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کو پاکستانی گواہ حاضر کرنے کیلئے کہا گیا۔ کئی ما ہ بعد وزارت خارجہ کا ایک مکتوب موصول ہوا کہ بیان درج کروانے کی تاریخ سے کم از کم چار ماہ قبل سمن ان کے پاس پہنچنا چاہئے۔ جولائی 2017ء میں پھر نومبر میں شنوائی کیلئے سمن جاری کئے گئے۔ یہ سمن وزارت داخلہ نے کئی ماہ بعد وزارت خارجہ کے سپرد کئے۔ جواب کا انتظار کرتے ہوئے، اپریل 2018ء میں عدالت نے تیسری بار گواہوں کو حاضر کروانے کیلئے حکم نامہ جاری کیا اور جولائی2018ء کو وزارت داخلہ کو اس کی یاد دہانی بھی کروائی۔ جس کے جواب میں بتایا گیا کہ سمن وزارت خارجہ کے ذریعے پاکستانی فارن آفس کے سپرد کئے گئے ہیں۔ بھارتی ذرائع کے مطابق پاکستانی حکام نے یہ سمن گواہوں تک پہنچانے کے بجائے واپس کردیئے۔ چند سال قبل ہریانہ کے سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس ( لاء اینڈ آرڈر) وکاس نارائن رائے نے راقم کو بتایا تھا کہ اس کیس کو حتی الامکان کمزورکرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ نارائن رائے، اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) کے سربراہ تھے، جس نے سمجھوتہ دھماکوںکی ابتدائی تفتیش کی تھی۔ ’’ہندو دہشت گردی‘‘ کے حوالے سے بھارت میں سرکاری ایجنسیوں پر دبائوبنایا جارہا تھا، کہ وہ اپنی تفتیش ختم کریں نیزعدالتی پیروی میں تساہل اور نرمی سے کام لیں۔ ابتدائی تفتیش میں بھارتی ایجنسیوں نے ان دھماکوں کے تعلق بھی مسلم نوجوانوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی، چند ایک کو حراست میں بھی لیا۔ میڈیا میں انڈین مجاہدین اور پاکستان میں سرگرم کئی تنظیموں کا بھی نام لیا گیا۔ مگر چند دیانت دار افسران کی بدولت اس دھماکہ میں ایک ہندو انتہا پسند تنظیم' ابھینوبھارت‘ کے رول کو بے نقاب کیا گیا۔سب سے زیادہ خطرے کی گھنٹی اس وقت بجی جب نومبر 2008ء میں ملٹری انٹیلی جنس کے ایک حاضر سروس کرنل پرساد سری کانت پروہت کے رول کی نشاندہی کرکے اس کو گرفتار کیا گیا۔اگلے دو سالوں میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے سوامی اسیما نند اور ایک انجینئر سندیپ ڈانگے کو حراست میں لے لیا۔ اسی دوران راجستھان کے انٹی ٹیررسٹ سکواڈ کے 806 صفحات پر مشتمل فرد جرم میں انکشاف کیاگیا ، کہ فروری 2006ء میں ہندو انتہا پسندوں نے وسطی بھارت کے ایک شہر اندور ایک میٹنگ کرکے سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔ اس میٹنگ میں ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوک سیوم سنگھ(آر ایس ایس) کے مقتدر لیڈر اندریش کمار بھی موجود تھے۔ اس سے قبل ان کا نام اجمیر شریف کی درگاہ میں ہوئے دھماکہ کی سازش میں بھی آیا تھا۔مگر ان کی کبھی دوران حراست تفتیش نہیں ہوئی۔ 12 فروری 2012ء میں این آئی نے آر ایس ایس کے کارکنوں راجندر پہلوان، کمل چوہان اور اجیت چوہان کر گرفتار کیا۔ ایجنسی کے بقول ان تین افراد نے ہی ٹرین میں بم نصب کئے تھے۔ گو کہ بھارت میں سرکاری ایجنسیاں دہشت گردی سے متعلق واقعات کا تعلق آنکھ بند کئے مسلمانوں سے جوڑتی آرہی ہیں، مگر 29 ستمبر 2008ء کو مہاراشٹرہ کے مالیگائوں شہر کے ایک مسلم اکثریتی علاقہ میں ہوئے دھماکوں اور اس میں ملی لیڈز نے مہاراشٹر کے اینٹی ٹیررسٹ سکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے کو چونکا دیا۔ اور ایک غیر جانبدارانہ تفتیش کے بعد اس نے ہندو دہشت گردی کا بھانڈا فاش کیا۔بدقسمتی سے کرکرے 2008ء کے ممبئی حملوں میں دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے، جس کے بعد یہ تفتیش مرکزی ایجنسی این آئی اے کے سپر د کی گئی۔ اس کے بعد تو حیدرآباد کی مکہ مسجد، اجمیر درگاہ، سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کے تار بھی ہندو دہشت گردی سے جڑتے گئے۔ جب کرکرے نے یہ نیٹ ورک بے نقاب کیا تھا تو بی جے پی اور شیو سینا کے متعدد رہنمائوں نے ان کے خلاف زبردست شور برپا کیا اور انہیں 'ملک کا غدار‘ قرار دیا تھا-
بہرحال کرکرے کی تحقیق کا یہ نتیجہ نکلا کہ دہشت گردانہ واقعات کے بارے میں جو عمومی تاثر پید اکردیا گیا تھا وہ کچھ حد تک تبدیل ہوا کہ اس کے پشت پر وہ عناصر بھی ہیں جو اس ملک کوہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں۔ ابتداء میں ان واقعات میں معصوم مسلم نوجوانوں کو ماخوذ کرکے انہیں ایذائیں دی گئیں اور کئی ایک کو برسوں تک جیلوں میں بند رکھا گیا۔ ایک معروف صحافی لینا گیتا رگھوناتھ نے یو پی اے حکومت کی ہند و دہشت گردی کے تئیں ' نرم رویہ‘ کو افشاں کیا تھا۔ لینا کے بقول ’’ تفتیشی ایجنسیوں کے ایک افسر نے انہیں نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وزارت داخلہ کو سونپی گئی ان خفیہ رپورٹوں کے مطالعے کی اجازت دی تھی۔ ان رپورٹوں میں مرکزی وزارت داخلہ سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ وہ آر ایس ایس کو ایک شو کاز ( وجہ بتائو) نوٹس جاری کرے کہ اس کے خلاف جو شواہد اور ثبوت ہیں کیوں نہ ان کی بنیاد پر اسے غیر قانونی اور ممنوع قرار دیا جائے؟‘‘ مہاراشٹر کی اسوقت کی کانگریس کی قیادت میں مخلوط حکومت نے بھی ابھینو بھارت اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں کو غیر قانونی قرار دینے کی سفارش کی تھی لیکن اس پر مرکزی حکومت نے عمل نہیں کیا۔ 2014ء میں وزیر اعظم مودی کے برسراقتدار میں آنے کے بعد سے متواتر ان مقدمات کو کمزور کروانے کی کوششیں کی گئیں۔ اس سلسلے میں مالیگائوں کے بم دھماکہ مقدمہ کی خصوصی سرکاری وکیل رو ہنی سالیان نے یہ سنسنی خیز انکشاف بھی کیا ، کہ سرکاری وکیلوں پر دبائو ڈالا جارہا ہے کہ وہ مقدمات کی پیروی میں سست روی اور نرمی سے کام لیں۔ اسکے علاوہ سرکاری گواہوں کو منحرف کرنے کا عمل شروع ہوا۔ سالیان کے مطابق نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کے ایک سینئر افسر نے (جو محض ایک پیغام رساں تھا) اپنے بالا افسروں کو یہ پیغام پہنچایا کہ وہ مقدمہ کی پیروی کے لئے پیش نہ ہوں۔ سالیان نے کہا کہ ’’اس کا مقصد (افسر کا لایا ہوا ہے پیغام) بالکل واضح ہے کہ ہم سے ہمدردانہ احکامات کی توقع نہ رکھیں۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ بی جے پی جب سے بر سر اقتدار آئی تو این اے آئی کا ایک افسر ان کے پاس آیا اور بات کی۔ سالیان کے بقول : ’’ اس نے کہا کہ وہ فون پر بات کرنا نہیں چاہتا، اس لئے وہ یہاں آیا اور پیغام سنایا کہ میں نرم رویہ اختیار کروں۔‘‘ مالیگائوں کیس میں سادھوی پرگیہ ٹھاکر، کرنل پروہت، سوامی اسیم نند( جس کے گجرات ضلع آنند میں واقع آشرم کو بی جے پی کے کئی بڑے رہنمائوں بشمول اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی سرپرستی حاصل تھی) اور دیگر کے مقدمات کے بارے میں محترمہ سالیان کو یہ ہدایت کہ وہ ’’نرمی اور تساہلی‘‘ سے کام لیں۔ یہ حقیقت بھی قابل تشویش ہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات کی چل رہی تحقیقات بھی روک دی گئی، جن میں آرایس ایس کے بڑے رہنما جیسے اندریش کمار وغیرہ کا نام نہ صرف ملزموں نے عدلیہ کے سامنے دیئے گئے اپنے اقبالیہ بیان میں دیا تھا بلکہ جانچ رپورٹوں میں بھی ان کے نام آئے تھے۔پچھلے چند سالوں میں گجرات کے تقریباً وہ تمام پولیس افسران جو ’’پولیس مقابلوں ‘‘ کے نام پر بے رحمانہ قتل کرنے کے الزامات کا سامنا کررہے ہیں رہا ہوچکے ہیں اور بعض کو دوبارہ ملازمت پر بحال کردیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ حکمراں جماعت کے موجودہ صدر امیت شاہ ، جن کے بارے میں قومی تفتیشی ایجنسی یعنی سی بی آئی نے اپنی چارج شیٹ میں یہ تک لکھ دیاتھا کہ ’’ ( پیسہ اینٹھنے کا)ریکٹ ان سے شروع ہوتا ہے اور ان پر ختم ہوتا ہے۔‘‘ وہ بھی سہراب الدین اور ان کی اہلیہ کے علاوہ دیگر انکائونٹر میں ’’ بری ‘‘ کردیئے گئے ہیں۔مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اجمیر درگاہ بلاسٹ کے 14گواہان منحرف ہوئے ۔ ان میںسے ایک گواہ رندھیر سنگھ نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی اور اسے جھارکھنڈ کی بی جے پی حکومت میں وزیر مقرر کیا گیا۔کرکرے نے جو ضخیم چارج شیٹ تیار کی تھی اس میں آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار، وشو ہندو پریشد کے پروین توگڑیا کے علاوہ کئی اور نام بھی شامل تھے۔ سوامی اسیم نند نے کاروان میگزین کو دیئے گئے اپنے طویل انٹرویو میں آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا بھی نام لیا تھا۔یہ تو طے تھا کہ بھارت کی موجودہ حکومت سمجھوتہ ، اجمیر اور مالیگائوں کیسوں کی پیروی میں ایک منصوبہ کے تحت تساہلی سے کام لیکر ہندو تنظیموں پر دہشت گردی کے داغ دھو رہی تھی، مگر خاص طور پر سمجھوتہ بلاسٹ کیس میں پاکستانی حکام کی سرد مہری سمجھ سے بالاتر ہے۔ جس طرح 2008 ء کے ممبئی دھماکوں میں یا حا ل میں جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کے سلسلے بھارت نے اقوام متحدہ تک کا دروازہ کھٹکھٹایا ، آخر پاکستانی حکام سمجھوتہ کیس کی مانیٹرنگ کرنے سے کیوں کترا رہے تھے۔ اگر کورٹ کا تجزیہ درست ہے کہ تین بار سمن جاری کرنے کے باوجود پاکستانی گواہان کو کورٹ میں پیش نہیں کیا گیا، تو اسکی ذمہ داری کا تعین ہونا چاہئے۔ بھارت کے علاوہ پاکستانی حکام کی بھی جوابدہی طے ہونی چاہئے اور ان کو بھی اپنی پوزیشن صاف کرنے کی ضرورت ہے۔