Fifty people have been killed and at least 20 others grievously injured when white supremacist Christian gunmen entered two mosques in Christchurch, New Zealand, and opened indiscriminate fire at worshippers, including women and children, who had gathered for Friday prayers. This is the worst attack in the Pacific country’s history.... Keep reading ..... [.....]
Updates ….. […….]
Fifty people have been killed and at least 20 others grievously injured when white supremacist Christian gunmen entered two mosques in Christchurch, New Zealand, and opened indiscriminate fire at worshippers, including women and children, who had gathered for Friday prayers. This is the worst attack in the Pacific country’s history.... Keep reading ..... [.....]
Updates ….. […….]
نیوزی لینڈ کی 2 مساجد میں دہشت گرد حملے، 49 افراد جاں بحق ……[……..]
کرائسٹ چرچ: حملہ آور کو روکنے والا پاکستانی کون تھا؟
آسٹریلیا کے وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے نیوزی لینڈ کی مسجد پر حملہ کرنے والے شخص برینٹن ٹارنٹ کو دائیں بازو کا ایک دہشت گرد قرار دیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے پولیس کمشنر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلوی پولیس یا سکیورٹی اداروں کے پاس اس شخص کے بارے میں کوئی تفصیلات یااطلاعات نہیں تھیں۔ حملہ آور جس نے سر پر لگائے گئے کیمرے کی مدد سے النور مسجد میں نمازیوں پر حملے کو فیس بک پر لائیو دیکھایا، اپنے آپ کو اٹھائیس سالہ آسٹریلین برینٹن ٹارنٹ بتایا۔ اس فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح النور مسجد کے اندر مرد، عورتوں اور بچوں پر اندھادھند فائرنگ کر رہا ہے-نیوزی لینڈ کی پولیس کا کہنا ہے کہ اس حملے کے سلسلے میں پولیس نے ایک گھر پر چھاپہ مارا ہے۔ملک کی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ یہ واضح طور پر ایک دہشت گرد حملہ ہے۔اپنی ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ کرائسٹ چرچ کی مساجد میں جو بھی ہوا ہے وہ ایک نا قابلِ قبول عمل ہے اور ایسے واقعات کی نیوزی لینڈ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
مسلمانوں کےخلاف نفرت پھیلانےوالےسیاستدان اور میڈیا بھی ’ذمہ دار‘
کرائسٹ چرچ حملے: مساجد میں ہونے والے حملوں پر بعض انڈین جشن کیوں منا رہے ہیں؟
کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں قتل عام کے واقعے کی جہاں ساری دنیا میں مذمت کی جا رہی ہے وہیں انڈیا کے بعض سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر جشن منایا جا رہا ہے۔
اس بات کا اعتراف 'انتہا پسندی' اور 'دہشت گردی' کے لیے مسلمانوں کو ہمیشہ مورد الزام ٹھیرانے والے پاکستانی نژاد کینیڈا کی معروف شخصیت طارق فتح نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی کی ہے۔
انھوں نے لکھا: 'جس ظالمانہ انداز میں بعض ہندوستانی نیوزی لینڈ میں ہونے والے قتل عام کا جشن منا رہے ہیں وہ قابل نفرت ہے۔
رورو یا روزی نام کی ایک دوسری صارف نے 'نیوزی لینڈ ٹریرسٹ اٹیک' نامی ہیش ٹیگ کے ساتھ لکھا: 'جو کچھ ہوا اس پر اسلام فوبیا زدہ جاہل لوگ بہت زیادہ خوش ہیں۔ ذرا تو انسانیت کا مظاہرہ کریں۔ آپ کو شرم آنی چاہیے۔ وہ معصوم تھے۔ انتہا پسندوں کو عام مسلمانوں کا مترادف قرار دینا بند کریں۔ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں۔'
کرائسٹ چرچ مساجد میں ہونے والے حملے اور اس پر بعض جگہ خوشی منانے کے معاملے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں واقع جواہر لعل نہرویونیورسٹی میں استاد اور ماہر عمرانیات ڈاکٹر تنویر فضل نے کہا کہ سوشل میڈیا کا مسئلہ ذرا پیچیدہ ہے۔
'اول تو سارے اکاؤنٹس ویریفائڈ نہیں ہیں اور بہت سی باتیں فیک اکاؤنٹس سے پھیلائی جاتی ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض حلقے میں اس پر خوشی پائی جاتی ہے اور وہ اس کے اظہار سے گریز بھی نہیں کرتے۔'
انھوں نے مزید کہا کہ 'انتہا پسندی یا دہشت گردی کے حوالے سے اب تک جو بیانیہ تھا وہ مغربی بیانیہ تھا اور ہم سب کہیں نہ کہیں اسے من و عن اٹھا چکے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں انڈیا میں جو ایک ڈسکورس چل نکلا ہے وہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے واقعے سے مسلمانوں کو جوڑا جائے اور اس کا مرکز پاکستان کو بنایا جائے۔'
انھوں نے مزید کہا: 'میں اس ضمن میں کسی کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا لیکن ہمارے بعض صحافی اور دانشور ایسے ہیں جو اس خیال کو ظاہر کرنے میں ذرا بھی گریز نہیں کرتے کہ دہشت گردی اور اسلام میں فرق نہیں کیا جانا چاہیے۔'
انھوں اس جانب بھی اشارہ کیا کہ جب یورپی ممالک یا کسی اور جگہ حملہ ہوتا ہے اور اس میں مسلمان شامل ہوتے ہیں تو اسے دہشت گردانہ حملہ کہا جاتا ہے لیکن جب کوئی دوسرے مذہب کا ہوتا ہے تو اسے مخبوط الحواس یا جنونی شخص کہا جاتا ہے۔
'یہ لون وولف (تنہا بھیڑیا بھی ہوسکتا ہے یا پھر اس کے پس پشت کوئی منظم گرہ بھی ہو سکتا ہے۔'
انھوں نے کہا کہ اسی بیانیے کا نتیجہ ہے کہ 'ہمارے سامنے اس قسم کی چیز آئے دن آتی رہتی ہے لیکن اس معاملے میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دہشت گردی کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اس کو اس طرح دیکھا یا بیان کیا جانا چاہیے۔'
کولکتہ کے محمد حسیب نے اپنے فیس بک صفحے پر گھنشیام لودھی نامی صارف کی پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
'خوشی کے آنکھ میں آنسو کی بھی جگہ رکھنا
برے زمانے کبھی پوچھ کر نہیں آتے'
گھنشیام لودھی نے لکھا: 'نیوزی لینڈ کی مسجد پر حملہ، سوچا خبر کر دوں کہ خوشی اکیلے نہیں سنبھلتی۔'
ترک وزیراعظم رجب طیب اردغان نے بھی ٹوئٹ میں لکھا کہ یہ حملہ نسل پرستی اور اسلام مخالف جذبات کی تازہ مثال ہے۔انھوں نے لکھا کہ وہ النور مسجد میں ہونے والے حملے کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔
دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر رضوان قیصر نے کہا کہ 'انگریزی میں اس کے لیے ایک لفظ وکیریئس پلیزر ( vicarious pleasure) ہے۔ یعنی ہندوستان میں ایسے لوگ ہیں جو اس بات سے خوش ہیں کہ دنیا میں ان کے ہم نوا افراد ہیں اور ان پر کوئی آنچ آئے بغیر وہ ان کا کام کر رہے ہیں۔ یہاں پر پچھلے دنوں جس طرح سے ’بیف لنچنگ‘ اور دوسرے طرح کا مسلم مخالف تشدد کا ماحول بنا یہ اس کا مظہر ہے۔'
رضوان قیصر نے مزید کہا کہ 'ہندوستان میں اسلام فوبیا کا ماحول نہیں بننا چاہیے کیونکہ یہاں مسلمان ہزاروں سال سے آباد ہیں۔ یہاں جو تشدد کا ماحول بنا ہے تو ان کو لگتا ہے کہ ان کا کام کسی اور نے کردیا اس لیے وہ اس کا جشن منا رہے ہیں۔'
انھوں نے مزید کہا کہ 'ساری دنیا میں ایک نفرت کا ماحول نظر آتا ہے۔ آئے دن ہم سنتے ہیں کہ امریکہ میں کسی یونیورسٹی میں کسی سکول میں کسی نے معصوموں کو گولی کا نشانہ بنایا۔ نیوزی لینڈ واقعے کے حملہ آور آسٹریلیا سے تعلق رکھتے ہیں اور وہاں حالیہ برسوں میں مذہبی اور نسلی رجحان پروان چڑھتا نظر آیا ہے جس میں یہ دیکھا گيا ہے کہ انھوں نے ہندوستانی نژاد کے لوگوں پر حملہ کیا ہے۔‘