پاک فوج نے دہشت گردی پر انتہائی کاری ضرب لگانے کے لئے ''ردّالفساد‘‘ کے عنوان سے آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ افواجِ پاکستان کو حکم دیا ہے کہ ملک کے اندر یا باہر جہاں سے بھی دہشت گرد پاکستان کو نشانہ بنائیں ان کو نظریاتی اور جسمانی طور پر کچل کر رکھ دیا جائے۔ فساد کے حوالے سے قرآن میں مذکور آیات کو دیکھنا شروع کیا تو معلوم ہوا اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں آٹھ مقامات پر فساد کا لفظ استعمال فرمایا پہلے چھ مقام ملاحظہ ہوں اللہ کریم فرماتے ہیں:
(1) وہ جب (دہشت کا دنگا پھیلانے کو) اپنا رخ بدلتا ہے تو زمین میں بھاگ دوڑ شروع کر دیتا ہے تاکہ ملک میں دہشت گردی کرے (معاشی) فصل اور انسانی نسل کو ہلاک کر کے رکھ دے۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ فساد (دہشت گردی) کو پسند نہیں فرماتے۔ (البقرہ:205)
یاد رہے! اقتصادی کوریڈور پاکستان کی معاشی فصل ہے، دشمن نے اپنا رخ اسی فصل کو کاٹنے کی طرف کیا ہے۔
(2) آدمؑ کے دو بیٹوں میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا اس پر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے فرمایا ''اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ ایک انسان نے کسی انسان کو قتل بھی نہیں کیا مگر اس کے باوجود ایسے انسان کو جس نے قتل کر دیا، یا ایک انسان نے زمین میں فساد بھی نہیں پھیلایا اس کے باوجود اس (معصوم) کو جس نے قتل کر دیا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے ایک انسان کی زندگی کا سامان کر دیا اس نے گویا ساری انسانیت کو زندگی بخش دی (المائدہ:32)
یاد رہے ! مذکورہ آیت کے دوسرے حصے میں بم ڈسپوزل کے ماہرین جو بموں کو ناکارہ کرتے ہیں اور سکیورٹی فورسز کے لوگ جو دہشت گردوں سے معصوم لوگوں کو بچاتے ہیں، انٹیلی جنس کے لوگ جو معلومات حاصل کر کے بروقت خبردار کرتے ہیں، سب کے لئے خوشخبری ہے کہ وہ انسانیت کو زندگی بخشنے کا کام کرتے ہیں۔
(3) وہ لوگ کہ جنہوں نے کفر کا ارتکاب کیا ان کے بعض لوگ بعض کے دوست ہیں۔(آج کے دور میں انڈیا کے حکمران سرفہرست ہیں جو افغانستان میں براجمان امریکی اور یورپی ایجنسیوں سے مل کر خارجیوں کے ذریعے پاکستان پرحملے کرواتے ہیں۔) یاد رکھو! اگر تم نے (باہم ایک ہو کر) ان کے نیٹ ورک کو نہ توڑا تو (پاکستان کی) زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد پھیل جائے گا۔ (الانفال:73)
(4) (اے مسلمانو!) ''تم سے پہلے جو امتیں ہو گزریں آخر ان میں ایساکیوں نہ ہوا کہ ستھرے کردار کے حامل دانشور لوگ اٹھ کھڑے ہو جاتے، زمین میں فساد بپا کرنے سے روکنے لگ جاتے۔‘‘ (ھود:116)۔ جی ہاں! وہ صحافی اور علماء جو دہشت گردی کے خلاف قلم اور زبان سے جہاد کر رہے ہیں وہ مراد ہیں۔
(5) (حضرت موسیٰؑ نے قارون سے کہا) ''دولت خرچ کر کے احسان کر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے دولت دے کر احسان کیا ہے۔ زمین میں فساد پھیلانے کے راستے تلاش نہ کر۔ یاد رکھ! اللہ تعالیٰ فسادیوں کو پسند نہیں فرماتے۔ (القصص:77)
اس سے معلوم ہوا جو لوگ قارون جیسی دولتوں کے ڈھیر دنیا کے مختلف مقامات پر لگائے بیٹھے ہیں اور ان کی دولت دہشت و فساد کا باعث ہے تو ایسے مکروہ کردار کو بھی معاشی دہشت گردی کی صف میں لانا ہو گا کیونکہ اللہ کے قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بیان یہی بتلا رہا ہے۔ آگے نیشنل ایکشن پلان کے ذمہ داران کی مرضی ہے جس کو چاہیں دہشت گردی کی صف میں شامل کر لیں جس کو چاہیں شامل نہ کریں۔ لیکن یاد رکھیں، اللہ تعالیٰ کی مدد میرٹ اور عدل وانصاف سے ہی ملے گی۔
(6) ''خشکی اور سمندر میں فساد واضح ہو کر سامنے آ گیا۔ اس کی ایک وجہ صاحبِ اقتدار لوگوں کا کردار ہے۔ اب اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ان کی کرتوتوں کا کچھ مزہ چکھائے گا جس کا انہوں نے ارتکاب کیا۔ ایسا اس وجہ سے ہے تاکہ یہ لوگ باز آ جائیں۔‘‘ (الروم:41)
جی ہاں! معاشرے کے بااثر اور مقتدر لوگوں کو غور کرنا ہو گا کہ یہ جو دہشت گردی ہمارے سروں پر مسلط ہے یہ کن کرتوتوں کی وجہ سے ہے۔ اس کا ایک اہم ترین سبب وہ سیاسی اور مذہبی تنظیمیں بھی ہیں جو معاشرے کے بے گناہ لوگوں کو قتل کرتی رہیں اور اپنے اندر بھی اختلاف رائے کی بنیاد پر اپنے ہی لوگوں کو ٹارچر کر کے جان سے مارتی رہیں اور ریاست کے حکمران مصلحت کی چادر اوڑھے سوئے رہے۔ اب ایسی کرتوتوں سے توبہ تائب ہو کر باز آئیں گے تو دہشت و فساد سے اللہ تعالیٰ بچائیں گے۔
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے دہشت گردی کے خاتمے کا حل بھی بتایا ہے اس سلسلے میں رہنمائی کے لئے صحیح بخاری اور مسلم میں تفصیل سے وہ واقعہ موجود ہے کہ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست میں عُکَل اور عرینہ قبیلے کے چند لوگوں نے مدینہ شہر کے نواح میں سرکاری اہلکار حضرت یسار نوبی رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا اور سرکار کی ملکیت کے اونٹوں کو ہانک کر لے گئے۔ وہ گرفتار ہوئے تو حضورﷺ نے ان کو سخت سزا دی اور سرعام سزا دی۔ سزا کے لئے اللہ نے قرآن اتارا، ملاحظہ ہو۔ فرمایا! ''جو لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کرتے ہیں اور (مدینہ کی اسلامی ریاست کی) زمین میں فساد (دہشت گردی) کرنے کی بھاگ دوڑ کرتے ہیں۔ ان کی سزا یہ ہے کہ بری طرح سے قتل کر دیئے جائیں یا سُولی پر لٹکا دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمت سے کاٹ دیئے جائیں یا انہیں اس سرزمین سے نکال دیا جائے۔ ایسی سزا ان کے لئے دنیا میں رسوائی کا باعث ہے جبکہ اگلے جہان میں بھی ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔‘‘ (المائدہ: 33)
ہے! مندرجہ بالا آیت کو ''محاربہ‘‘ کہا جاتا ہے یعنی وہ لوگ جو اسلامی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں اور سرکاری اہلکاروں اور عام لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دیں تو ان کی سزا ''آیت محاربہ‘‘ کے مطابق ہونی چاہئے۔ حضور نبی کریمﷺ نے مدنی ریاست کے خلاف برسرپیکار باغیوں کے ہاتھ پائوں مخالف سمت سے کاٹ کر انہیں صحرا کی دھوپ میں پھنکوا دیا تھا جہاں وہ سب مر گئے تھے۔ سزا سرعام ہو تو عبرت ناک ہوتی ہے اور معاشرے کو امن و سکون کی نعمت ملتی ہے۔
اب ''ردّالفساد‘‘ بھی اسی تسلسل کا ایک وسیع ہوتا ہوا پروگرام ہے اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پاک فوج اسلامی اصطلاحات اور قرآنی الفاظ کو اپنے مقاصد کا عنوان بناتی ہے تو یہ پیغام دیتی ہے کہ منبع، مصدر اور سرچشمہ وہی ہے جس کے بارے میں حضرت قائداعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ پاکستان میں مدینہ کی ریاست کا تجربہ ہو گا۔
اے مولا کریم! میرے ملک پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا کہ جہاں خوشحالی کا دور دورہ ہو۔ پاک چین دوستی کا جدید عنوان جو اقتصادی شاہراہ ہے وہ اہل پاکستان کے فخر کا ضامن ہو۔ (آمین)
- See more at: http://m.dunya.com.pk/index.php/author/ameer-hamza/2017-03-03/18747/52235731#sthash.VCJVV7vI.dpuf