جن دہشت گردوں سے دنیا واقف ہے، جیسا کہ القاعدہ، داعش، لشکر ِجھنگوی وغیرہ، وہ افریقہ یا برازیل کے جنگلوں میں پائے جانے والے ناخواندہ وحشی نہیں ہیں۔ اسامہ بن لادن کوئی لاعلم شخص ہرگزنہ تھا اور نہ ہی ابوبکر البغدادی ناخواندہ ہے، جو منہ سے بے معنی آوازیں نکالتا رہے۔ تکفیری فرقے کے اکابرین اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ہیں۔
To win this fight the ideology of the state, what the state stands for, has to be more powerful and compelling than the ideology of the suicide bomber and the terrorist. The state has to stand for something superior to the beliefs of the misguided jihadist. The state’s narrative has to hold a greater appeal for the poor, the impoverished, the disenfranchised, the sectors without power and privilege, than the simple, perverted nostrums of the bomb-thrower. The state must stand for justice, a measure of equality, a fairer distribution of resources, and for science and the power of reason if it hopes to eradicate the scourge of faith-based terrorism from its soil. Keep reading >>>>
کسی بھی قسم کا نظریہ ہو جیسا کہ صہیونیت، کمیونزم، جہادی سوچ، ہندو انتہا پسندی، اس میں جہالت کا عمل دخل نہیں، بلکہ ذہن کے مخصوص رجحان کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کسی ایک یا کئی ایک نظریات سے اختلاف رکھتے ہوں، آپ اس کے مخصوص پہلوئوں سے یا اس سے مجموعی طور پر نفرت کرتے ہوں، لیکن آپ اس نظریے کو محض لاعلمی کا شاخسانہ قرار دے کر رد نہیں کرسکتے۔ منظم دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے، خاص طور پر وہ جن کی دہشت گردی کو عقائد کی سوچ کا سہارا ہوتا ہے، زیادہ ترمخصوص فکری جھکائو رکھتے ہیں۔ اور یہی اس مسئلے کا سب سے خطرناک پہلو ہے،کیونکہ کسی وحشی کو تو اعصابی گیس یا رائفل کی گولی سے ہلاک کیا جاسکتا ہے؛ تاہم کسی نظریے کو اس طرح ختم کرنا مشکل ہے۔
سٹالن دور میں وسیع پیمانے پر پھیلایا گیا خوف کسی احمقانہ گروہ کا کام نہ تھا۔ انقلاب ِروس کے اہم ترین رہنما اعلیٰ پائے کے دانشور اور مفکر تھے۔ سٹالن خود بھی عقل و فہم رکھنے والا انسان تھا، اُس کے پاس ہمہ وقت کتابیں ہوتی تھیں۔ مائو دور میں خوف کی لہر بھی سٹالن دور میں چھائی خوف کی فضا سے کم لہُو رنگ نہ تھی۔ ہم سب جانتے ہیںکہ مائو ایک لکھاری اور مفکر تھا اور وہ اپنے کتب خانے میں سوتا، جہاں اُس کے جہازی سائزکے بیڈ پر ہمہ وقت کتابیں بکھری رہتیں (خیر اسی بیڈ پر وہ داد ِعیش بھی دیتا) تاہم اُس سے زیادہ سفاک اور یک جہت رجحان والا شاید ہی کوئی شخص ہو۔ جنہیں وہ اپنا دشمن سمجھتا، اُن پر ہر گز رحم نہ کھاتا۔ Liu Shaoqi چین کا صدر تھا لیکن ''ثقافتی انقلاب ‘‘ کے دوران اُس پر اور اُس کی بیوی پر جس قسم کا تشدد کیا گیا، اُسے پڑھ کر آج بھی آپ خوف سے لرز اٹھتے ہیں۔ اسی طرح ''خمر روگ‘‘ (Khmer Rouge) کے لیڈر بھی دانشور تھے، لیکن اگر آپ اُن کا حال پڑھیںکہ اُنھوں نے کمبوڈیا میں کس طرح وسیع پیمانے پر خوف وہراس پھیلایا تو ہوسکتا ہے کہ آپ کے لیے اس پر یقین کرنا مشکل ہو، لیکن اُن کے لیے نہیں جو اُس وقت کمبوڈیا میں موجود تھے۔
فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑنے والے صہیونی رہنما اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد تھے۔ وہ فلسطینیوںکو اُن کی آبائی سرزمین سے بے دخل کرکے وہاں اپنی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے اور اُنھوں نے نہایت سفاک یکسوئی سے یہ مقصد حا صل کیا۔ ایسا کرتے ہوئے فلسطینیوں کی ابتلا اور مصائب کا مطلق احساس نہ کیا۔ صہیونیت اپنے مقصد پر قائم رہنے والے اعلیٰ پائے کے دانشوروں کا فلسفیانہ نظریہ تھا۔ ہٹلر اور نازی ازم کو کون بھول سکتا ہے؟ جرمنی کا شمار دنیا کی مہذب ترین اقوام میں ہوتا ہے۔ صرف موسیقی کی دنیا کو ہی لے لیں، کون سی منزل ہے جو جرمنی کی پہنچ سے باہر رہی؟ ہٹلر بذات ِخود گہرے مطالعے کا ذوق رکھنے کے علاوہ پینٹنگ کے فن سے آشنا تھا۔ وہ اوپیرا کو پسند کرتا، خاص طور پر ویگنزکے اوپیرا کو، اور وہ اس کی تاریخ سے آشنا تھا۔ اور مت بھولیں، وہ کمال اتاترک کا مداح تھا۔ اگر وہ دوسری جنگ ِعظیم نہ چھیڑ بیٹھتا تو اُس کا شمار جرمن تاریخ کے عظیم ترین رہنمائوں میں ہوتا، فریڈرک اعظم سے بھی عظیم۔ لیکن وہ جرمنی کو جنگ کی راہ پر لے گیا اور پھر ہولوکاسٹ کے دوران یہودیوں کے منظم قتل ِعام کا بھی ذمہ دار تھا۔
امریکی جنوبی ویت نام میں گئے، لائوس (Laos) اور کمبوڈیا کے خلاف خفیہ جنگیں شروع کردیں۔ اُنھوںنے چھوٹی سی ریاست، لائوس میں اس سے کہیں زیادہ بم برسائے جتنے دوسری جنگ ِعظیم کے دوران مجموعی طور پر گرائے گئے تھے ۔ اور اگر ویت نام ماضی کی بات ہے، عراق ہمارے سامنے کی مثال ہے۔ وہاں پورے معاشرے کو تباہ اور لاکھوں افرا د کوبے گھر کردیا گیا، اور قہر یہ ہے کہ وہ جنگ ایک جھوٹ پر مبنی تھی، نیزاسے عراق پر مسلط کرنے والا ملک وہ تھا جو خود کو عالمی لبرل نظام کا لیڈر سمجھتا ہے۔ اس کے بعد یہ لبرل لیڈر لیبیا پر پل پڑا اور اُسے تباہ کرکے رکھ دیا۔ وہ شام کے لیے بھی ایسے ہی عزائم رکھتا تھا اگر ایران، حزب اﷲ اور روس، دمشق حکومت کا ساتھ نہ دیتے اور بشارالاسد خود بھی اپنے قدموں پر کھڑے نہ رہتے۔ ہوسکتا ہے کہ اسد نے اپنے شہریوں پر ظلم کیا ہو لیکن اُنھوں نے وہ جرأت دکھائی جو دنیا کے لبرل نظام کو پسند نہیں۔
مختصر یہ کہ لبرل اور روشن خیال یورپ نے لیبیا کی تباہی میں کردار ادا کیا، شام میں خانہ جنگی کے شعلوں کو ہوا دی اور پھر ان کے ہاتھوں تباہ ہونے والے عراق اور شام کی شورش زدہ فضا سے داعش جیسا عفریت نمودار ہوا۔ اب کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ روشن خیال اور تعلیم یافتہ یورپ کوئی وحشی یا جاہل لوگوں کو سر زمین ہے۔ جہاں تک داعش کا تعلق ہے تو اس کی قیادت کرنے والے افراد اسلامی علوم کے پوشیدہ نکات تک کی مہارت رکھتے ہیں۔ لیکن پھر آگ کے ساتھ کھیلنے کا یہی انجام ہوتا ہے۔ جب امریکیوں نے دروغ گوئی کے سہارے عراق پر فوج کشی کی تو کیا وہ جانتے تھے کہ اس کارروائی کے نتیجے میں کون سے خون آشام جن بوتل سے رہا ہو جائیں گے؟ کیا برطانیہ اور فرانس معمر قذافی کا تختہ الٹنے کے مضمرات سے واقف تھے؟ کیا نائن الیون کے بمباروں کو پتا تھا کہ وہ کن فتنوں کو جگانے جارہے ہیں؟ یا پھر اُن کا مقصد یہی تھا؟ وہ افراتفری اور شورش برپا کرنا چاہتے تھے؟ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ناپسندیدہ باتیں کی جارہی ہیں کیونکہ وہ ایک صدر جیسا رویہ نہیں رکھتے۔ وہ اپنے بولے گئے جملوں کی صلیب پر لٹکے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم اُنھوںنے کم از کم فی الحال کوئی جنگ شروع نہیں کی، بلکہ اُنھوں نے دوٹوک الفاظ میں عراق جنگ کی مذمت کی تھی۔ ہلیری کلنٹن سے اس رویے کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ اور مت بھولیں، جب لیبیا کو تباہ کیا گیا تو انتہائی مہذب، تعلیم یافتہ اور سمجھ دار دکھائی دینے والے بارک اوباما اقتدار میں تھے۔ تباہی اور موت پھیلانے کے بعد غیر ذمہ دارانہ بیان بازی اس سے بھی بدتر فعل ہے۔
پاکستان میںہم اُس وقت غلطی پر ہوتے ہیں جب کہتے ہیں کہ دہشت گردی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ لوگ بلامقصد اپنی جان نہیں دیتے ہیں۔ اُنہیں عقائد کے نام پر ہی اس راہ پر گامزن کیا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم اُن کے عقائد سے اتفاق نہ کریں اور کہیں کہ وہ سچے عقیدے کی فہم نہیں رکھتے، لیکن دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے ہمیں یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ وہ جو بھی کرتے ہیں کسی نہ کسی عقیدے، جو اُن کے تئیں درست ہوتا ہے،کے تحت کرتے ہیں۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کا نظریہ دہشت گردوں اور خود کش حملہ آوروں کے نظریے سے زیادہ طاقتور اور فعال ہو۔ چنانچہ ضروری ہے کہ ریاست مسخ شدہ جہادی عقائد سے برتر تصورات کی آبیاری کرے۔ ریاست کا بیانیہ غریب، بے کس اور لاچار عوام کے لیے خود کش بمباروں کے پیغام سے زیادہ پُرکشش ہو۔ ریاست کو انصاف، مساوات، وسائل کی منصفانہ تقسیم ، سائنس، معقول سوچ کو ارزاں کرتے ہوئے امید کی شمع روشن کرنا ہوگی۔ صرف اسی وقت ہم مسخ شدہ عقائد کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کے اندھیرے دور کرسکیں گے۔
مختصر یہ کہ لبرل اور روشن خیال یورپ نے لیبیا کی تباہی میں کردار ادا کیا، شام میں خانہ جنگی کے شعلوں کو ہوا دی اور پھر ان کے ہاتھوں تباہ ہونے والے عراق اور شام کی شورش زدہ فضا سے داعش جیسا عفریت نمودار ہوا۔
- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/ayaz-ameer/2017-03-04/18751/93231301#tab2