"whoever kills a human being, unless it is in the course of justice for murder or bloody crimes on the earth, it shall be as if he killed all mankind. And whoever saves one life it would be as if he saved the life of all mankind: [Quran;5:32]
مشرقِ وسطیٰ میں آج مذاہب کی جنگ نہیں،ظالم اور مظلوم کی معرکہ آرائی ہے۔وہ لوگ فساد فی الارض پھیلانے کے مرتکب ہوں گے جو اسے مذہبی جنگ بنائیں گے۔مشرق و مغرب میں بیٹھے رائے سازجو اسے مذہبی جنگ ثابت کرنا چاہتے ہیں، کیااس بارے میں متنبہ ہیں؟
انسانی سماج اور اس کے اختتام کے بارے میں ایک مقدمہ مذہبی ہے۔ہم بطور مسلمان مانتے ہیں کہ اس نظمِ حیات کو ایک دن ختم ہو نا اور پھرحشربرپا ہو نا ہے۔رسالت مآبﷺ اللہ کے آ خری رسول ہیں۔اب کسی پیغمبر کو نہیں، قیامت کو آنا ہے۔یہ کب آئے گی، قرآن مجید نے بتا یا ہے کہ اس کی خبر اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔اللہ نے اس کے بارے میں کسی نبی اور کسی فرشتے کو بھی نہیں بتایا۔ اس کی صرف ایک متعین نشانی ہے جو قرآن مجید نے بتائی ہے۔یہ یاجوج ماجوج کا خروج ہے۔(الانبیا:97,96)۔قدیم صحائف میں بھی ان کا ذکر ہے۔یاجوج ماجوج سیدنا نوح کے بیٹے یافث کی اولاد ہے جوایشیا کے شمالی علاقوں میں آ باد ہوئی۔ان کے چند قبائل بعد کے ادوار میں یورپ پہنچے اورامریکہ اور آسٹریلیا کو آباد کیا۔یوحنا عارف کے مکاشفے سے معلوم ہو تا ہے کہ ان کے خروج کی ابتدا رسالت مآب ﷺ کی بعثت سے ایک ہزار سال بعدہوگی۔''ان کا شمار سمندر کی ریت کے برابر ہوگا اور وہ تمام زمین پر پھیل جائیں گے‘‘۔
اس کے علاوہ عمومی نشانیاں ہیں جن کاروایات میں ذکر ہے۔ جیسے ایک روایت میں ہے کہ لونڈی اپنے آقا کو جنم دے گی۔یہ غلامی کے بطور ادارہ ختم ہو نے کا بیان ہے۔اسی روایت میں ہے کہ تم عرب کے ان ننگے پاؤں، ننگے بدن پھرنے والے کنگال چرواہوں
کو بڑی بڑی عمارتیں بنانے میںایک دوسرے کا مقابلہ کرتے دیکھو گے۔یہ مسلم کی روایت ہے اور ان دونوں نشانیوں کا ظہور ہو چکا۔ایک روایت میں ایک خلیفہء فیاض کی آ مد کا ذکر ہے۔قدیم دور سے اہلِ علم اس کا مصداق متعین کرتے رہے ہیں اور کم و بیش یہ طے ہے کہ اس سے مراد سیدنا عمر بن عبدالعزیزہیں۔گویا یہ نشانی بھی پوری ہو چکی۔رسالت مآب ﷺ نے ایک باراپنی بعثت اور قیامت کے فاصلے کو اپنی دو انگلیوں کے درمیانی فاصلے سے تعبیر فرمایا۔یہ ختم نبوت ہی کا بیان ہے۔ان سب روایات سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ عمومی نشانیوں کا وقتاً فوقتاًظہور ہو تارہے گا اور لوگوں کو یاد دلا تا رہے گاکہ قیامت قریب ہے۔
تمام ابراہیمی مذاہب میں چونکہ ایسی روایات مو جود ہیں،اس لیے ان کوبعض لوگ کسی تحقیق کے بغیرقبول کرتے اور پھر ان سے اپنے عہد کے واقعات کو من پسندمعنی پہنا تے ہیں۔یہ عجیب بات ہے کہ جس قیامت کا برپاہو نا یقینی ہے، اس کی تیاری کوئی نہیں کرتا اور جو نشانیاں کسی مصدقہ ذریعے سے نہیں پہنچیں، سب ان کا مصداق بننے کی تگ و دو میں ہیں۔ ان میں سے اکثریت کی دلچسپی اس سیاسی منظر نامے سے ہے، جس کی پیش گوئی مذہبی روایات میں کی گئی ہے۔یوں وہ ہر واقعے کو اسی تناظر میں دیکھتے اور پھر ان کو مذہبی رنگ دیتے ہیں۔چونکہ یہ محض قیاس اور تخمینہ ہے، اس لیے مصداق کے تعین میں ہونے والی غلطی عالمِ انسانیت کے لیے ایک
عذاب بن جا تی ہے۔اسی وجہ سے ہماری تاریخ میں بے شمار لوگوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور لوگوں کو گمراہ کیا۔ یہ غلطی بعض یہودی کر تے ہیں اور بعض مسلما ن بھی۔اسی حوالے سے آج فلسطین میں ہونے والے مظالم کو بھی دیکھا جا رہا ہے۔یہ ہماری نادانی ہو گی کہ ہم چند یہودیوں کی بات کو سچا ثابت کرنے کے لیے اسے ایک مذہبی معرکہ بنا دیں اور یوں ان کا خواب پورا ہو جائے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ان واقعات کوغیر مذہبی انداز میں دیکھا جائے کیونکہ اس کی مذہبی تعبیر کی اساس کوئی یقینی خبر نہیں ہے۔
چند حقائق واضح ہیں۔مثال کے طور پر تمام یہودی اس بات کو نہیں مانتے کہ انہیں یہ مقدمہ مذہبی بنیادوں پر لڑنا ہے۔اسرائیل بھی دنیا کے سامنے خو دکو مظلوم کہتا ہے۔وہ اپنی جنگ مذہبی بنیادوں پر نہیں لڑ رہا۔ امریکہ میں اس وقت یہودیوں کا ایک موثر گروہ وجود میں آ چکا ہے‘ جو اسرائیل کوظالم کہتا ہے۔نوم چومسکی جیسے دانش وریہودی ہونے کے باوجود اسرائیل کو ظلم کی علامت سمجھتے ہیں۔آج دنیا بھر میں اسرائیلی مظالم کے خلاف لوگ احتجاج کر رہے ہیں اور ان میں اکثریت مسیحیوں کی ہے۔ان میں یہودی بھی شامل ہیں۔پھر یہ کہ فلسطینیوں میں سب مسلمان نہیں ہیں۔اس وقت غزہ میں رہنے والوںمیں چھ فی صد مسیحی ہیں۔لیلیٰ خالد بھی مسیحی تھی۔یاسر عرفات کی اہلیہ مسیحی ہیں۔مسلمانوں کو خاص طور پر اس تعبیر سے بچنا ہے کہ اس کا نتیجہ مسلمانوں کے خلاف مسیحیوں اور یہودیوں کو مجتمع کرنا ہوگا۔ دنیا کو ایسے فتنہ پرور یہودیوں سے بچانا چاہیے جو اسلام کے خلاف بنی اسرائیل کو منظم کرنا اور اس حسد کو زندہ کرنا چاہتے ہیں جس کا مظاہرہ ان کے بڑوں نے عہدِ رسالت مآب ﷺ میں کیا تھا۔
اس معاملے کو ایک دوسرے زاویے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مو جودہ تمدنی اور معاشی ضروریات اور جبر نے دنیا میں ایک غیر مذہبی معاشرت کو جنم دیا ہے جس کے نتیجے میں مذہبی کثرت (pluralism) وجود میں آئی ہے۔اب ساری دنیا میں مختلف مذاہب کے لوگ مل کر رہ رہے ہیں ۔اگر ہم ان سیاسی و علاقائی اختلافات کو مذہبی رنگ دیں گے تو اس کے نتیجے میں ساری دنیا ایک انتشار میں مبتلا ہو جائے گی۔پھر ہر ملک میں لڑا ئی ہو گی۔خلیج کی جنگ کو بھی کچھ لوگوں نے اسی طرح مذہبی بنانے کی کوشش کی تھی۔ یا 9/11 کے بعد پیش آنے والے واقعات کو بھی اس حوالے سے بیان کیا۔یہ ایک غلطی تھی اور میرا خیال ہے کہ اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہوا۔ہم نے ان لوگوں کو بھی اپنا دشمن بنا لیا جو اس معرکے میں غیر جانب دار تھے۔جیسے چین یا روس۔
فلسطینیوں کا مقدمہ غیرمذہبی بنیادوں پرپوری طرح ثابت ہے۔ انہیں اپنی سرزمین سے بے دخل کیا گیا اور پھر دوسرے علاقوں سے لائے گئے لوگوں کو وہاں آ باد کیا گیا۔دنیا کے ہر قانون اور ضابطے کے تحت اس سرزمین پر ان کا حق فائق ہے۔جو لوگ اسرائیل کے وجود کو جائز کہتے ہیں، وہ بھی اس بات کی نفی نہیں کر سکتے۔اگر اس مقدمے کو مذہبی بنیادوں پر کھولا گیا تو پھر مسلمانوں کے لیے جو مسائل پیدا ہوں گے انہیں سمجھا جا سکتا ہے۔میں دانستہ ان کی تفصیل سے گریز کر رہا ہوں کہ عقل مند کے لیے اشارہ کافی ہو تا ہے۔یہ مقدمہ اس وقت ثابت ہوگا جب اسے فلسطینیوں کا مقدمہ بنایا جائے گا۔ اسے اسلام بمقابلہ یہودیت نہیں، اہلِ فلسطین بمقابلہ صہیونیت دیکھا جا نا چاہیے۔اگر ہم نے اسے مذہبی رنگ دیا تو یہ ان یہودیوں کی تائید کے مترادف ہو گا جو اسی بنیاد پراس معرکے کوآگے بڑھا نا چاہتے ہیں اور نتیجتاً پہلے یہودیوں اور دوسرے مرحلے میں یہودیوں اور مسیحیوں کو متحد کر نا چاہتے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ اتحاد مسلمانوں کے خلاف ہوگا۔
مسلمانوں کو آج جس بات کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہ مسائل کی تفہیمِ نو ہے۔امت کے سیاسی وجود سے لے کر مسائل کی مذہبی تعبیر تک بہت سے معاملات نئی سوچ کے متقاضی ہیں۔ چند مفروضوں کو حقیقت مان کر اس کا تعاقب کیا جارہا ہے۔ یوں ہر دن ترقی معکوس کا آئینہ دار ہے۔
قیامت کی نشانیاں اللہ نے ظاہر کرنی ہیں ہم نے نہیں۔ہمیں تو حشر میںحاضری کی تیاری کر نی ہے۔دنیا میں ترقی اور عافیت چند الہی سنن کے تابع ہے۔ان کو سمجھے بغیر دنیا میں کامیابی نہیں مل سکتی۔واقعات کی مذہبی تعبیر کرنے والے جس بات کو سب سے زیادہ نظر انداز کرتے ہیں، وہ یہی ہے۔
In the days since the Islamic State in Iraq and Syria (ISIS) took control of much of northern Iraq, Western leaders and analysts have expressed alarm at what they have called a powerful new form of jihadism. Some have likened ISIS to a new al-Qaeda. Both assessments are wrong.
In its rapid advance toward Baghdad, ISIS has already eliminated national boundaries between Iraq and Syria, captured significant arms and weapons caches, caused a spike in global oil prices, reinvigorated ethnic and sectarian conflict across the Arab world, and given Islamic extremism a dramatic new source of appeal among many young Muslims. On June 30, the first day of Ramadan, ISIS also declared that it was reestablishing the “Caliphate,” long an aspiration of other jihadist groups.
Yet despite these accomplishments, ISIS may not be as unusual as it has been described. Nor does it seem primarily interested in global jihad. In many ways, what the group is doing to Syria and Iraq resembles what the Taliban did in Afghanistan and Pakistan in the early 1990s.
Like the Taliban, ISIS’s war so far has been about conquering territory rather than launching an al-Qaeda-style global jihad or issuing fatwas to bomb New York or London. Although it has attracted some three thousand foreigners to fight for it, ISIS’s real war is with fellow Muslims, and in particular Shias, against whom it has called for a genocidal campaign. Just as the Taliban changed the contours of Islam in south and central Asia so ISIS intends to do the same in the Middle East. ISIS is also seeking territorial control of the central Middle East region.
There are several instructive parallels between the two groups. The hardcore forces of ISIS probably number fewer than 10,000 trained fighters; the Taliban never numbered more than 25,000 men—even at the height of the US surge when there were over 150,000 Western troops in Afghanistan and twice that many Afghan soldiers.
Like the Taliban, ISIS successes are built around military competence that includes excellent command and control, sound intelligence, well prepared logistics support, training, high mobility, and rapid speed of maneuver. Just as ISIS, after years of preparation and recruiting in Iraq and Syria, has overrun Mosul and other important Iraqi cities in a matter of weeks, Taliban conquered all of southern and eastern Afghanistan in a blitzkrieg offensive in a few months in 1994. The main strategy of both groups is the frontal assault combined with outflanking movements, as well as night attacks. And both organizations are also prepared to play a long game. In 1996, after the Taliban had laid siege to Kabul from the south for two years without success, they used a flanking movement from the east to finally surprise the government and conquer the city.
An even more effective innovation of both groups is to wage battle across several countries and borders, creating multiple logistic centers and sources for recruits, while confounding national responses to them. Thus the Pakistani and Afghan Taliban treat their two countries as virtually one when it comes to fighting their opponents, while ISIS is now using tactics it perfected in Syria to capture cities in Iraq. And just as the Afghan Taliban established sanctuaries in Pakistan, where it could regroup and reequip, ISIS is now able to use territories in both Syria and Iraq to make their survival much easier and their defeat more difficult.
Both groups are preoccupied with capturing territory rather than promoting global jihad, but their militarism and their extreme Islamism renders them ill-equipped to govern the areas they control. Like the Taliban, ISIS’s political outlook is distinct from both traditional Islamic fundamentalist parties, such as the Muslim Brotherhood, and global terrorism organizations like al-Qaeda. The primitive and extreme version of Islam it imposes—already on view in ISIS-controlled Syria cities like Raqqa—terrifies local populations and demoralizes armies and governments. But as the Taliban showed before it, this way of ruling cannot constitute a viable political program in the long term.
By 2001, after the Taliban had been in power for five years, there was a massive exodus of Afghans out of the country, as people exhausted by food shortages and the lack of jobs were forced to flee. Much the same could quickly happen to ISIS—which is why ISIS is appealing for educated and skilled Muslims to join it to rebuild the caliphate. Already in northern Iraq, hundreds of thousands of Iraqis, including Christians, Shia, Kurds, and Turkmen, have fled to Kurdistan out of fear of persecution.
Unfortunately, neither mainstream Muslim leaders nor their Western allies have learned much from the experience of fighting the Taliban. No contemporary army in the Muslim world is trained to deal with ISIS or can match the level of mobility and preparedness it has demonstrated in recent weeks. Even US Special Forces who have fought the Taliban and give training in counterterrorism to foreign armies do not seem able to handle such forces.
But military competence is not the main issue. A larger failure of Western governments is that they continue to view the collapse of Muslim states as something to be countered by military action and counterterrorism operations, rather than by creating new regional alliances and engaging Muslim leaders themselves to deal with the problem. So far President Obama’s only concrete answer to the present global crisis is to dispatch someseven hundred US troops to Baghdad and announce the creation of a $5 billion fund for US Special Forces to train foreign armies in counterterrorism.
However, where the lack of leadership is most visible is in the Muslim world itself—from politicians, generals, and senior religious leaders in each country. Instead of a vast public movement to condemn ISIS and other such groups, there is silence, helplessness, and hopelessness. Across the region, leaders like Nouri al-Maliki in Iraq, Gulf regimes like Saudi Arabia, and many African governments, are autocratic, corrupt, cowardly, and incompetent; and nowhere is civil society strong enough to demand greater action against extremism. Rather than present Islam as a tolerant religion capable of building a modern social contract, each state blames outsiders for conspiring against it. The most commonly accused culprits are obviously the Americans, followed closely by Israel, Europe, and neighbors.
Still more dangerously, some Muslim states, including both Iraq and Pakistan, also blame minorities for state failure, and so do not defend them when they are attacked by extremists such as the Taliban or ISIS. The Sunni extremist movements that are murdering civilians today in Africa and Asia are all fighting for a deeply intolerant interpretation of Islam, seeking to impose a ruthless system of justice and punishment that targets women and adherents of other branches of Islam—especially Shias.
The ISIS campaign against Shias has surpassed anything carried out by the Taliban or al-Qaeda. In its so-called bid to cleanse all schisms from Islam, ISIS represents the worst kind of schism. If ISIS succeeds in attacking Shia holy sites in the Iraqi cities of Karbela and Najaf as it has promised to do, then the Islamic world will be plunged into a sectarian war of unimaginable dimensions. If such actions are taken we can expect conflict between Sunni and Shia that could last for years to come. Already, there is an ominous rapid growth of Shia militias in Iraq in response to the ISIS advances.
The primary political task of the United States and its allies is to get Iran and Saudi Arabia to end their hostility and come together to deal with the present crisis in the wider Muslim world. Both countries are more responsible than others for creating the current wave of extremism, including in Iraq. Since its 1979 revolution Iran has funded, armed, and trained Shia militias, terrorist groups, and Shia activists in many parts of the Muslim world, particularly Pakistan, Afghanistan, and Lebanon.
Since the 1970s the Saudis have used their extraordinary wealth to arm and fund extremist Sunni movements everywhere, of many different stripes and shades. Any group opposed to Shias and purporting a Sunni sectarian view or ideology considered close to the Saudi sect of Wahhabism has been deemed sufficiently sympathetic to receive Saudi funding—whether it was in Pakistan, Afghanistan, Africa or across the Middle East. (While there is not clear evidence of direct Saudi support for ISIS, Saudi funding of Islamic groups fighting in Syria has helped strengthen the jihadist cause.)
The Organization of the Islamic Conference and the Arab League should both be taking major steps to end state-sponsored sectarianism and bring Iran and the Arab world closer together. Together, Muslim states have to have a policy no tolerance for terrorism, rather than offering a nod and wink to favorite extremist groups. The alternative is the possible break-up of many states, a global oil crisis, and extremists getting their hands on chemical, biological, or nuclear weapons technology...
جب سے آئی ایس آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ ان عراق اینڈ سیریا)نے شمالی عراق کے زیادہ ترحصوں کو زیر ِنگیں کیا ہے، مغربی طاقتیں اور تجزیہ کار ایک امنڈتے ہوئے خطرے کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ ان جہادی قوتوں کے نئے اور طاقتور ارتکاز کو ایک مہیب خطرہ مان رہے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ آئی ایس آئی ایس دراصل القاعدہ کا ہی نیا روپ ہے۔ تاہم یہ دونوں جائزے ہی درست نہیں۔ آئی ایس آئی ایس نہ تو القاعدہ ہے اور نہ ہی عالمی جہاد کا حصہ بن رہی ہے۔ اس کے کچھ اپنے مقاصد ہیں اور ان کا ہدف مغربی ممالک نہیں۔
بغداد کی طرف تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے آئی ایس آئی ایس نے شام اور عراق کی سرحدوں کو ختم کردیا ۔ انہوں نے بھاری تعداد میں جدید ہتھیارحاصل کیے اور تیل پیدا کرنے والے علاقوںپر قبضہ کرلیا۔ اس سے عالمی سطح پر تیل کی قیمت بڑھ گئی۔ اس کے بعد انہوں نے دنیا ئے عرب میں قبائلی، گروہی اور فرقہ واریت پر مبنی منافرت ابھار ی اور اسلامی انتہا پسندی کو نئے معانی دیتے ہوئے نوجوان مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کیا۔ آج اس کی صفوں میں مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ مسلم نوجوان بھی بڑی تعداد میں شامل ہورہے ہیں۔ دراصل مغربی ممالک کو ایک خطرہ یہ بھی ہے کہ اگر اس عراقی جہاد میں حصہ لینے والے ان کے شہری واپس اپنے وطن آجاتے ہیں تو ان جہاد آزما لڑکوںسے کیسے نمٹا جائے گا؟ وہ مسلسل مسلم والدین سے اپیلیں کررہے ہیں کہ اپنے بچوں کو جنگ کا ایندھن بننے سے بچائیں اور ان کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھیں۔ آئی ایس آئی ایس سوشل میڈیا کو بھی بہت موثر طریقے سے استعمال کررہی ہے۔
یکم رمضان، تیس جون ، کو آئی ایس آئی ایس نے خلافت کے قیام کا اعلان کردیا۔ خلافت کا قیام جہادی گروپوں کی دیرینہ خواہش رہی ہے ۔ وہ جدید ریاست ، جمہوریت اور عوامی حقوق کو تسلیم نہیں کرتے۔ اپنے اپنے ممالک میں یہ گروہ حکومتوںسے اسی لیے برسر پیکار ہیں کیونکہ وہ وہاں سے روایتی ریاستی ڈھانچہ ختم کرکے وسیع اسلامی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم ان ''کامیابیوں ‘‘ کے باوجود آئی ایس آئی ایس دنیا کے اس خطے میںکوئی نئی پیش رفت نہیں اور نہ ہی ایسے گروہوں کا وجود میں آنا کوئی انہونی یا انوکھی بات تھی۔ ایک اور بات، القاعدہ کے برعکس آئی ایس آئی ایس کو عالمی جہاد میں دلچسپی نہیں۔ یہ اپنے جنگجو کسی اور ملک میں نہیں بھیج رہی، ہاں دیگر ممالک سے جنگجو اس کی صفوںمیں ضرور شامل ہورہے ہیں۔ اسے بڑی حد تک طالبان ، جو 1990ء کی دہائی سے پاکستان اور افغانستان میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں، سے مشابہت دی جاسکتی ہے۔ طالبان کی طرح آئی ایس آئی ایس کامقصد ایک علاقے پر قبضہ کرتے ہوئے خلافت قائم کرنا ہے۔ یہ القاعدہ کی طرح لندن یا نیویارک کو بم سے اُڑانے کی دھمکی نہیںدیتی اور نہ ہی اس مقصد کے لیے فتوے جاری کرتی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک آئی ایس آئی ایس کی صفوں میں تین ہزار غیر ملکی جنگجو شامل ہوچکے ہیں لیکن اس کا ہدف غیر مسلم نہیں بلکہ دیگر مسلمان، خاص طور پر اہل تشیع ہیں۔ اس کا ماٹو اس خطے سے اہل ِ تشیع کا خاتمہ اور خالص سنی خلافت کا قیام ہے۔ جس طرح طالبان نے جنوبی اور وسطی ایشیا میں اسلام کی جہت تبدیل کردی، بالکل اسی طرح آئی ایس آئی ایس مشرق ِ وسطیٰ میں اپنی مرضی کا اسلام نافذ کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ آئی ایس آئی ایس مشرق ِ وسطیٰ کے دیگر علاقوں کا کنٹرول بھی چاہتی ہے ۔ اس کے ارادے یہ دکھائی دیتے ہیں کہ عراق اور شام کو زیر ِ نگین کرکے پھر دیگر خطوں کی طرف بڑھا جائے۔ پاکستانی طالبان بھی ملاعمر کو اپنا امیر مانتے ہیں۔ وہ بھی ان دونوں ممالک کو یکجا کرکے خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
طالبان اور آئی ایس آئی ایس کے درمیان بہت سی دیگر قدریں بھی مشترک ہیں۔ آئی ایس آئی ایس کے سخت جان جنگجوئوں کی تعداد دس ہزار کے قریب ہے جبکہ طالبان جنگجوئوں کی تعداد بھی کبھی پچیس ہزار سے تجاوز نہیں کرپائی۔ دراصل جس طرح کی جنگ وہ کررہے ہیں، اس کے لیے بھاری بھرکم فوج کی ضرورت نہیں۔ جب ایک لاکھ پچاس ہزار سے زائد مغربی افواج اور اس سے کہیں زیادہ افغان دستے جنگ میں حصہ لے رہے تھے تو بھی بیس سے پچیس ہزار کے قریب طالبان ان کو مصروف رکھے ہوئے تھے۔ طالبان کی طرح آئی ایس آئی ایس کی صفوں میں بھی انتہائی شاندار کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم موجود ہے۔ اس کے سخت جان، پرعزم اور سفاک جنگجو اعلیٰ تربیت یافتہ جنگ آزما ہوتے ہیں۔طالبان کی طرح ان کے پاس بھی لاجسٹک کی سہولت موجود ہے اور وہ بہت تیزی سے حرکت کرسکتے ہیں۔ دونوں گروہ نئے خون کو خوش آمدید کہتے ہیں اوربھرتی ہونے والے نوجوانوں کی تربیت کے لیے محفوظ مقامات پر ٹریننگ کیمپ رکھتے ہیں۔
آئی ایس آئی ایس نے کئی سالوں کی تیاری، اسلحے کی سپلائی اور نوجوانوں کی بھرتی اور ٹریننگ کے بعد چند ہفتوں کے اندر اندر موصل اور کچھ اور اہم عراقی شہر فتح کرلیے۔ طالبان نے بھی اسی طرح تیار ی کی اور 1994ء میں چند ماہ کے اندر افغانستان کے جنوبی اور مشرقی علاقوں کو تسخیر کرلیا۔ ان دونوں گروہوں کی بنیادی حکمت ِعملی یہ ہے کہ کبھی یہ دشمن پر سامنے آکر کاری ضرب لگاتے ہیں تو کبھی گھات لگا کر وار کرتے ہیں۔ دونوں گروہ ہنگامی اقدامات کی بجائے طویل المدت اسٹریٹجی کے تحت لڑ رہے ہیں۔ دونوں وقت کا انتظار کرتے ہیں یہاں تک کہ حریف نرمی دکھائے اور پھر وہ اس پر ضرب لگائیں۔ 1996ء طالبان نے دوسال تک کابل کا گھیرائو کیے رکھا لیکن اُنہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیںملی۔ پھر انہوں نے مشرق میں چھاپہ مار کارروائیاں شروع کردیں۔ جب حریف کی توجہ اُس طرف ہوئی تو انہوں نے یکا یک کابل پر حملہ کرکے اسے فتح کرلیا۔
طالبان اور آئی ایس آئی ایس کی سب سے موثر حکمت ِعملی بیک وقت کئی شہروں اور قصبوں میں کارروائیاں شروع کرنا ہے۔ اس کے لیے ان کے پاس لاجسٹک اور بھرتی کی سہولت میسر رہتی ہے۔یہ مختلف جگہوں پر اپنی مرضی کا محاذ کھول سکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سرکاری افواج کنفیوژن کا شکار رہتی ہیں کیونکہ وہ اپنے وطن میں کھلم کھلا جنگ نہیں چھیڑ سکتیں۔ انہوں نے صرف جوابی کارروائی کرنا ہوتی ہے۔طالبان اور آئی ایس آئی ایس کو ملنے والی کامیابیوں کے پیچھے ایک راز یہ بھی ہے کہ حریف کو ان کی اگلی حرکت کاعلم نہیںہوپاتا۔
جس طرح آئی ایس آئی ایس نے شام اور عراق کی سرحد کو ختم کردیا ہے، بالکل اسی طرح طالبان بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان کسی بارڈر کو نہیں مانتے۔ اُن کی دونوں ممالک میں آزادانہ حرکت اور کارروائیاں جاری رہتی ہیں۔ آئی ایس آئی ایس نے شام میں تیاری کی اور عراق کے شہر فتح کرلیے۔ اسی طرح افغان طالبان پاکستانی علاقوں میں اپنی پناہ گاہوں میں رہتے ہیں اور پھر وہ اپنی مرضی سے لائن عبور کرکے افغانستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی طالبان بھی آپریشن کی صورت میں افغانستان میں پناہ لے لیتے ہیں اور پھر موقع پاتے ہی واپس آکرتخریبی کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ آئی ایس آئی ایس اور طالبان جیسے گروہوں کو دوایسے ہمسایہ ممالک کی ضرورت رہتی ہے جہاں وہ سرحدی علاقوں کو کنٹرول کرتے ہوئے اپنی نقل و حرکت کو آزاد اور محفوظ رکھیں۔ اس وقت جبکہ پاکستانی فورسز شمالی وزیرستان میں آپریشن کررہی ہیں، یہ دیکھاجانا ہے کہ وہ اس طرح کی حرکت کو کس طرح روک پاتی ہیں۔ خبریں ہیں کہ اہم پاکستانی طالبان افغانستان میں پناہ لے چکے ہیں۔ اس آپریشن کی کامیابی صرف اس صورت میں ممکن ہے جب طالبان کو میسر اس ''سہولت‘‘ کاخاتمہ ہوسکے۔ بہرحال اگر پاکستان عراق جیسے حالات سے دوچار نہیں ہوسکا تو اس کی واحد وجہ اس کی عسکری قوت ہے۔ تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا اس مرتبہ اس فسادی گروہ کا خاتمہ ہوتا ہے یا پھر وہ افغانستان میں وقت گزار کر پھر پاکستانیوں کو ہلاک کرنا شروع کردیتے ہیں؟ Ahmed Rasheed, Dunya.com.pk