مصر کے صوبے شمالی سیناء میں العریش کے نزدیک ایک مسجد پر دہشت گردوں کا حملہ گذشتہ ہفتے الریاض میں دہشت گردی مخالف اسلامی فوجی اتحاد کے وزرائے دفاع کے اجلاس کا سب سے نمایاں موضوع رہا ہے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے وزرائے دفاع کے اجلاس سے خطاب کرتےہوئے دو نکات پر زوردیا: اتحاد کے اکتالیس رکن ممالک کے درمیان روابط کا فروغ اور اسلام کے تشخص کو سخت گیروں کے ہاتھوں داغ دار ہونے سے بچانا۔اس اجلاس کا مرکزی موضوع تو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے عسکری اور سراغرسانی کے شعبوں میں تعاون اور ہر جگہ دہشت گردی کا تعاقب تھا۔ سعودی ولی عہد نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ روئے زمین سے دہشت گردوں کا مکمل استیصال کیا جائے گا۔
یہ وزارتی اجلاس اپنے نتائج کے اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔2015ء کے آخر میں تشکیل پانے والے عسکری اتحاد نے باضابطہ طور پر تنظیمی اور عملی بنیادوں پر کام کا آغاز کردیا ہے اور اس کے اثرات ہم آنے والے دنوں میں دیکھیں گے۔
اس وقت معاشروں کو لاحق مختلف روگوں میں سے دہشت گردی سب سے بد ترین ہے۔اس کے علاوہ غُربت ، قحط اور دیگر مختلف امراض لاحق ہیں لیکن دہشت گردی ایک ایسا بنیادی خطرہ ہے جس طرح کی کوئی اور ہلاکت آفریں آفت ہوسکتی ہے۔ہم کوئی نصف صدی تک خونیں دہشت گردی کی بات کرتے رہے ہیں لیکن اب دانشورانہ ، ثقافتی اور تعلیمی سطح پر حکمت عملیوں پر غور کیا جارہا ہے کہ ہم کیسے دہشت گردی کی اس لعنت کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور اس سے بچ سکتے ہیں لیکن اس سمت میں ابھی تک حکومتی اور ادارہ جاتی سطح پر کام نہیں ہوا ہے۔
دنیا کے ممالک کی حکومتیں برسوں سے دہشت گردی کا مقابلہ سکیورٹی اور سراغرسانی کے شعبوں میں کام کے ذریعے کرتی چلی آرہی ہیں مگر وہ ایک سیل کا قلع قمع کرتی ہیں تو دوسرا دوستانہ ماحول میں سر اٹھا لیتا ہے۔دہشت گردوں کے سیل ختم کرنے والا فوجی ادارہ بھی دراصل وہی فریق ہے جو اُن نرسریوں کا تحفظ کرتا ہے جو سرکاری تعلیمی اداروں اور مذہبی اداروں میں ان سیلوں کی آبیاری کرتی ہیں۔یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کا دلیری سے مقابلہ کیا جانا چاہیے تاکہ اسی سوراخ سے بار بار ڈسنے سے بچا جاسکے اور جہاں سے پہلے ڈنک کھایا جاتا ہےوہاں دوبارہ ہاتھ نہ رکھا جائے اور العریش کی طرح کے قتل عام کے واقعے کا دوبارہ اعادہ نہ ہو ۔مصر میں نمازیوں کے قتل عام کے اس ہولناک واقعے نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پرانی حکمت عملی سے متعلق بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے ۔
مصر کے صوبے شمالی سیناء میں العریش کے نزدیک ایک مسجد پر دہشت گردوں کا حملہ گذشتہ ہفتے الریاض میں دہشت گردی مخالف اسلامی فوجی اتحاد کے وزرائے دفاع کے اجلاس کا سب سے نمایاں موضوع رہا ہے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے وزرائے دفاع کے اجلاس سے خطاب کرتےہوئے دو نکات پر زوردیا: اتحاد کے اکتالیس رکن ممالک کے درمیان روابط کا فروغ اور اسلام کے تشخص کو سخت گیروں کے ہاتھوں داغ دار ہونے سے بچانا۔اس اجلاس کا مرکزی موضوع تو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے عسکری اور سراغرسانی کے شعبوں میں تعاون اور ہر جگہ دہشت گردی کا تعاقب تھا۔ سعودی ولی عہد نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ روئے زمین سے دہشت گردوں کا مکمل استیصال کیا جائے گا۔
یہ وزارتی اجلاس اپنے نتائج کے اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔2015ء کے آخر میں تشکیل پانے والے عسکری اتحاد نے باضابطہ طور پر تنظیمی اور عملی بنیادوں پر کام کا آغاز کردیا ہے اور اس کے اثرات ہم آنے والے دنوں میں دیکھیں گے۔
اس وقت معاشروں کو لاحق مختلف روگوں میں سے دہشت گردی سب سے بد ترین ہے۔اس کے علاوہ غُربت ، قحط اور دیگر مختلف امراض لاحق ہیں لیکن دہشت گردی ایک ایسا بنیادی خطرہ ہے جس طرح کی کوئی اور ہلاکت آفریں آفت ہوسکتی ہے۔ہم کوئی نصف صدی تک خونیں دہشت گردی کی بات کرتے رہے ہیں لیکن اب دانشورانہ ، ثقافتی اور تعلیمی سطح پر حکمت عملیوں پر غور کیا جارہا ہے کہ ہم کیسے دہشت گردی کی اس لعنت کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور اس سے بچ سکتے ہیں لیکن اس سمت میں ابھی تک حکومتی اور ادارہ جاتی سطح پر کام نہیں ہوا ہے۔
دنیا کے ممالک کی حکومتیں برسوں سے دہشت گردی کا مقابلہ سکیورٹی اور سراغرسانی کے شعبوں میں کام کے ذریعے کرتی چلی آرہی ہیں مگر وہ ایک سیل کا قلع قمع کرتی ہیں تو دوسرا دوستانہ ماحول میں سر اٹھا لیتا ہے۔دہشت گردوں کے سیل ختم کرنے والا فوجی ادارہ بھی دراصل وہی فریق ہے جو اُن نرسریوں کا تحفظ کرتا ہے جو سرکاری تعلیمی اداروں اور مذہبی اداروں میں ان سیلوں کی آبیاری کرتی ہیں۔یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کا دلیری سے مقابلہ کیا جانا چاہیے تاکہ اسی سوراخ سے بار بار ڈسنے سے بچا جاسکے اور جہاں سے پہلے ڈنک کھایا جاتا ہےوہاں دوبارہ ہاتھ نہ رکھا جائے اور العریش کی طرح کے قتل عام کے واقعے کا دوبارہ اعادہ نہ ہو ۔مصر میں نمازیوں کے قتل عام کے اس ہولناک واقعے نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پرانی حکمت عملی سے متعلق بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے ۔
مہلک فتوے
دہشت گردی کے مہلک فتووں کے ا جرا کا سلسلہ جاری ہے ۔انتہا پسند مفتی مختلف پلیٹ فارمز سے نمودار ہوتے ہیں اور لوگ سے خطاب کرتے ہیں۔مسلم علماء کی بین الاقوامی یونین کو جرائم آلود کیا جانا اس ضمن میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔بعض دانش مند لوگوں نے اس یونین کے خطرناک کردار کا ادراک کر لیا تھا اور انھوں نے قبل ازوقت ہی اس کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ان میں شیخ عبداللہ بن بیاہ اور بعض دوسرے علماء شامل ہیں۔
اس یونین کا کردار ابھی تک مشتبہ ہے۔اس نے تباہ کن فتاویٰ جارے کیے ہیں جن سے دہشت گردوں کو غیر مسلح شہریوں کو موت کی نیند سلانے کے اجازت نامے مل گئے تھے۔جب اس یونین کے سربراہ یوسف القرضاوی سے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران میں خود کش بم دھماکوں کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو انھوں نے اس کا جواب کچھ یوں دیا تھا:’’اس کا انحصار افراد نہیں بلکہ گروپ پر ہے‘‘۔ انھوں نے گروپ کے فیصلے کی اہمیت پر زوردیا تھا اور کہا تھا کہ یہ فیصلہ افراد کے بجائے گروپ کے مفادات پر مبنی ہونا چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ فتوے اسی طرح کسی روک ٹوک یا پابندی کے بغیر جاری ہوتے رہیں گے؟
1951ء میں مفکر ایرک ہوفر نے اپنی مشہور کتاب ’’ حقیقی معتقد‘‘ شائع کی تھی۔مسلح اسلامی گروپوں کے ظہور سے قبل انھوں نے انتہا پسند وں کی نفسیاتی حالت کے بارے میں گفتگو کی تھی اور یہ انتہا پسند اپنے لیے مرنے کی سوچ اور عقیدہ رکھتے تھے۔انھوں نے یوسف القرضاوی کے گروپ اور افراد کے بارے میں بیانات پر بھی گفتگو کی ہے۔
ہوفر لکھتے ہیں:’’ ایک فرد کو اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار کرنے کی غرض سے اس کو ذاتی شناخت سے محروم کردیا جائے۔اس کو جارج ہانس ، ایفان اور تداؤ بنا دیا جائے ۔ یعنی ایک انسانی ایٹم ، جس کا وجود پیدائش اور موت سے جڑا ہوا ہے۔ اس نتیجے کو حاصل کرنے کا سب سے انتہا پسندانہ طریق یہ ہے کہ فرد کو ایک اجتماعی جسم میں ضم کردیا جائے۔ اس طرح کا مکمل مجذوب شخص خود کو اور دوسروں کو انسان ہی نہیں سمجھتا ہے۔اس سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ وہ کون ہے؟ تو اس کا رٹا رٹایا خود کار جواب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک جرمن ، روسی ، جاپانی ، عیسائی اور مسلمان ہے اور وہ ایک خاص قبیلے یا خاندان کا فرد ہے۔اس کا اجتماعی جسم کے سوا کوئی انفرادی مقصد یا منزل نہیں ہوتی ہے۔جب تک یہ جسم زندہ رہتا ہے تو وہ مر نہیں سکتا ہے۔ایک احساس ملکیت سے عاری شخص کے لیے محض سادہ زندگی کوئی قدرو قیمت نہیں رکھتی ہے‘‘۔
دہشت گردی کے مہلک فتووں کے ا جرا کا سلسلہ جاری ہے ۔انتہا پسند مفتی مختلف پلیٹ فارمز سے نمودار ہوتے ہیں اور لوگ سے خطاب کرتے ہیں۔مسلم علماء کی بین الاقوامی یونین کو جرائم آلود کیا جانا اس ضمن میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔بعض دانش مند لوگوں نے اس یونین کے خطرناک کردار کا ادراک کر لیا تھا اور انھوں نے قبل ازوقت ہی اس کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ان میں شیخ عبداللہ بن بیاہ اور بعض دوسرے علماء شامل ہیں۔
اس یونین کا کردار ابھی تک مشتبہ ہے۔اس نے تباہ کن فتاویٰ جارے کیے ہیں جن سے دہشت گردوں کو غیر مسلح شہریوں کو موت کی نیند سلانے کے اجازت نامے مل گئے تھے۔جب اس یونین کے سربراہ یوسف القرضاوی سے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران میں خود کش بم دھماکوں کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو انھوں نے اس کا جواب کچھ یوں دیا تھا:’’اس کا انحصار افراد نہیں بلکہ گروپ پر ہے‘‘۔ انھوں نے گروپ کے فیصلے کی اہمیت پر زوردیا تھا اور کہا تھا کہ یہ فیصلہ افراد کے بجائے گروپ کے مفادات پر مبنی ہونا چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ فتوے اسی طرح کسی روک ٹوک یا پابندی کے بغیر جاری ہوتے رہیں گے؟
1951ء میں مفکر ایرک ہوفر نے اپنی مشہور کتاب ’’ حقیقی معتقد‘‘ شائع کی تھی۔مسلح اسلامی گروپوں کے ظہور سے قبل انھوں نے انتہا پسند وں کی نفسیاتی حالت کے بارے میں گفتگو کی تھی اور یہ انتہا پسند اپنے لیے مرنے کی سوچ اور عقیدہ رکھتے تھے۔انھوں نے یوسف القرضاوی کے گروپ اور افراد کے بارے میں بیانات پر بھی گفتگو کی ہے۔
ہوفر لکھتے ہیں:’’ ایک فرد کو اپنی جان قربان کرنے کے لیے تیار کرنے کی غرض سے اس کو ذاتی شناخت سے محروم کردیا جائے۔اس کو جارج ہانس ، ایفان اور تداؤ بنا دیا جائے ۔ یعنی ایک انسانی ایٹم ، جس کا وجود پیدائش اور موت سے جڑا ہوا ہے۔ اس نتیجے کو حاصل کرنے کا سب سے انتہا پسندانہ طریق یہ ہے کہ فرد کو ایک اجتماعی جسم میں ضم کردیا جائے۔ اس طرح کا مکمل مجذوب شخص خود کو اور دوسروں کو انسان ہی نہیں سمجھتا ہے۔اس سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ وہ کون ہے؟ تو اس کا رٹا رٹایا خود کار جواب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک جرمن ، روسی ، جاپانی ، عیسائی اور مسلمان ہے اور وہ ایک خاص قبیلے یا خاندان کا فرد ہے۔اس کا اجتماعی جسم کے سوا کوئی انفرادی مقصد یا منزل نہیں ہوتی ہے۔جب تک یہ جسم زندہ رہتا ہے تو وہ مر نہیں سکتا ہے۔ایک احساس ملکیت سے عاری شخص کے لیے محض سادہ زندگی کوئی قدرو قیمت نہیں رکھتی ہے‘‘۔
نفسیاتی تجزیہ
یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے افراد ان کے گروپ میں ڈھل جاتے ہیں اور وہ ایک ایسی ڈھال بن جاتے ہیں جس کو دوسرے اپنے طے شدہ مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔حتیٰ کہ وہ خود کو دوسرے لوگوں کے درمیان دھماکوں سے اڑا دیتے ہیں۔انتہا پسندوں کو ایک اہم مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ان کی نمائندگی اعتدال پسند کرتے ہیں۔
قرآن اور تلوار کے موضوع پر جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کے لیڈر یوسف العائری کا لیکچر ہوفر کے پیش کردہ نفسیاتی تجزیے کی ایک مثال ہے۔
ہوفر اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں :’’ ایک حقیقی پیروکار کی اصل صلاحیت یہ ہے کہ وہ اپنی آنکھیں اور کان بند رکھے تاکہ وہ ان حقائق کو سن اور دیکھ نہ سکے جو اس کی غیر ثانی وفاداری اور مضبوطی کا ذریعہ ہیں۔اس کو خطرے سے ڈرایا جاسکتا ہے اور نہ رکاوٹوں سے اس کا دل چھوٹا کیا جاسکتا ہے اور نہ تضادات سے اس کو مخمصے کا شکار کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ ان کے وجود سے انکاری ہوتا ہے۔عقیدے کی مضبوطی ،جیسا کہ برگساں نے نشان دہی کی ہے،پہاڑ کے حرکت پذیر ہونے سے ظاہر نہیں ہوتی ہے بلکہ پہاڑ کو حرکت کرتا ہوا نہ دیکھنے سے ظاہر ہوتی ہے۔
اسلامی عسکری اتحاد نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے جو ویژن پیش کیا ہے، وہ امیدافزا ہے۔بالخصوص اس تناظر میں بھی جب ہم دانش ورانہ اور نظری سطحوں پر دہشت گردی کو شکست دینے میں ناکام رہے ہیں۔ہم میں خونریزی اور ہلاکتوں کے بارے میں تو کافی حساسیت پائی جاتی ہے اور ہم تجزیوں اور وضاحتوں سے بھی تھک ہار چکے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ حکومتیں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ، مختلف پلیٹ فارموں اور پوڈیمز کو صاف کریں، دہشت گردوں کی کمین گاہوں اور خفیہ ٹھکانوں کو نشانہ بنائیں اور تعلیم کو ایلیمنٹری سے اعلیٰ سطح تک از سر نو استوار کریں۔اس کے لیے بہت سی کوششیں درکار ہوں گی لیکن اتحاد کے رکن اکتالیس ممالک کے لیے اجتماعی طور پر یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ جب یہ سب کام ہوجائے گا تو پھر ہی ہم یہ امید کرسکیں گے کہ اب ایسے قتل عام کا اعادہ نہیں ہوگا جس میں بے گناہ لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔ ہمیں دہشت گردی کے خلاف ایک مکمل جنگ کی ضرورت ہے۔
پال ڈوموشیل اپنی کتاب ’’ دا بیرن سیکریفائس‘‘ ( بنجر قربانی) میں لکھتے ہیں: ’’تشدد کو افراد کی جانب سے بڑھائے جانے والے تنازعات اور مقابلوں میں مدغم کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جتنا یہ دوسروں کو اپنی جانب راغب کرتا ہے،اتنا ہی اس کو پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے ،جتنی اس میں چکا چوند ہوتی ہے،اتنی اس میں تشویش بھی پنہاں ہوتی ہے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فہد سلیمان الشقیران ایک سعودی لکھاری اور محقق ہیں۔ وہ الریاض فلاسفر گروپ کے بانی سربراہ ہیں۔ان کی تحریریں العربیہ ڈاٹ نیٹ اور پان عرب اخبار الشر ق الاوسط میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔
یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے افراد ان کے گروپ میں ڈھل جاتے ہیں اور وہ ایک ایسی ڈھال بن جاتے ہیں جس کو دوسرے اپنے طے شدہ مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔حتیٰ کہ وہ خود کو دوسرے لوگوں کے درمیان دھماکوں سے اڑا دیتے ہیں۔انتہا پسندوں کو ایک اہم مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ان کی نمائندگی اعتدال پسند کرتے ہیں۔
قرآن اور تلوار کے موضوع پر جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کے لیڈر یوسف العائری کا لیکچر ہوفر کے پیش کردہ نفسیاتی تجزیے کی ایک مثال ہے۔
ہوفر اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں :’’ ایک حقیقی پیروکار کی اصل صلاحیت یہ ہے کہ وہ اپنی آنکھیں اور کان بند رکھے تاکہ وہ ان حقائق کو سن اور دیکھ نہ سکے جو اس کی غیر ثانی وفاداری اور مضبوطی کا ذریعہ ہیں۔اس کو خطرے سے ڈرایا جاسکتا ہے اور نہ رکاوٹوں سے اس کا دل چھوٹا کیا جاسکتا ہے اور نہ تضادات سے اس کو مخمصے کا شکار کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ ان کے وجود سے انکاری ہوتا ہے۔عقیدے کی مضبوطی ،جیسا کہ برگساں نے نشان دہی کی ہے،پہاڑ کے حرکت پذیر ہونے سے ظاہر نہیں ہوتی ہے بلکہ پہاڑ کو حرکت کرتا ہوا نہ دیکھنے سے ظاہر ہوتی ہے۔
اسلامی عسکری اتحاد نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے جو ویژن پیش کیا ہے، وہ امیدافزا ہے۔بالخصوص اس تناظر میں بھی جب ہم دانش ورانہ اور نظری سطحوں پر دہشت گردی کو شکست دینے میں ناکام رہے ہیں۔ہم میں خونریزی اور ہلاکتوں کے بارے میں تو کافی حساسیت پائی جاتی ہے اور ہم تجزیوں اور وضاحتوں سے بھی تھک ہار چکے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ حکومتیں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ، مختلف پلیٹ فارموں اور پوڈیمز کو صاف کریں، دہشت گردوں کی کمین گاہوں اور خفیہ ٹھکانوں کو نشانہ بنائیں اور تعلیم کو ایلیمنٹری سے اعلیٰ سطح تک از سر نو استوار کریں۔اس کے لیے بہت سی کوششیں درکار ہوں گی لیکن اتحاد کے رکن اکتالیس ممالک کے لیے اجتماعی طور پر یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ جب یہ سب کام ہوجائے گا تو پھر ہی ہم یہ امید کرسکیں گے کہ اب ایسے قتل عام کا اعادہ نہیں ہوگا جس میں بے گناہ لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے۔ ہمیں دہشت گردی کے خلاف ایک مکمل جنگ کی ضرورت ہے۔
پال ڈوموشیل اپنی کتاب ’’ دا بیرن سیکریفائس‘‘ ( بنجر قربانی) میں لکھتے ہیں: ’’تشدد کو افراد کی جانب سے بڑھائے جانے والے تنازعات اور مقابلوں میں مدغم کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جتنا یہ دوسروں کو اپنی جانب راغب کرتا ہے،اتنا ہی اس کو پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے ،جتنی اس میں چکا چوند ہوتی ہے،اتنی اس میں تشویش بھی پنہاں ہوتی ہے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فہد سلیمان الشقیران ایک سعودی لکھاری اور محقق ہیں۔ وہ الریاض فلاسفر گروپ کے بانی سربراہ ہیں۔ان کی تحریریں العربیہ ڈاٹ نیٹ اور پان عرب اخبار الشر ق الاوسط میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔