Featured Post

National Narrative Against Terrorism دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ تاریخی فتویٰ ’’پیغام پاکستان‘‘

National Narrative Against Terrorism دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ تاریخی فتویٰ ’’پیغام پاکستان‘‘ تمام مسالک ک...

Tuesday, December 24, 2013

ردِّ بدعات ومنکرات Bidah, Prohibition of Inovations in Islam

خانہ ساز تاریخ کی ستم ظریفی بلکہ سنگدلی یہ ہے کہ ان پر شرک وبدعت اور فروغِ منکرات کی پھبتی کسی گئی، طَعن وتَشنیع کا نشانہ بنایا گیا، لیکن یہ سب اِتِّہامات واِلزَامات محض مفروضوں کی بنیاد پر عائد کیے گئے ، نہ کوئی حوالہ دیا گیا اور نہ ہی اُن کے فتاویٰ اور تصانیف کو پڑھنے کی کوشش کی گئی۔ بقولِ شاعر ؎

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے

امام احمد رضا قادری نَوَّراللہ مَرقدَہٗ کثیرالجہات،جامع العلوم اورجامع الصفات شخصیت تھے۔ وہ اپنے عہد کے عظیم مُفسِّر ، محدِّث ، فَقِیہ ،مُتَکلّم، مؤرّخ اور مُصلح تھے

اہلسنت وجماعت کو قبوری، قبر پرست اور قبروں کو سجدہ کرنے والے کہا جاتارہا ہے ،امام احمد رضاقادری لکھتے ہیں:''مسلمان ! اے مسلمان!اے شریعتِ مصطفوی کے تابعِ فرمان! جان کہ سجدہ حضرتِ عزّتِ جلّ جلالہٗ کے سوا کسی کے لیے نہیں ، اس کے غیر کو سجدۂ عبادت تو یقیناً اجماعاً شرکِ مہین وکفر مبین اور سجدۂ تَحِیَّۃ (تعظیمی) حرام وگناہِ کبیرہ بالیقین ، اِس کے کفر ہونے میں اِختلافِ عُلمائِ دین، ایک جماعتِ فُقہاء سے تکفیر منقول‘‘۔
سجدۂ عبادت تو بہت دور کی بات ہے ، اُنہوں نے سجدۂ تعظیمی کے حرام ہونے پر قرآن وسنت کی نُصوص سے استدلال کرکے ''اَلزُّبْدَۃُ الزَّکِیَّہ فِی حُرْمَۃِ السَّجْدَۃِ التَّحِیََّۃ‘‘ کے نام سے ایک باقاعدہ رسالہ لکھا ۔ امام احمد رضانے فقہِ حنفی کے مُسلّمہ فتاویٰ واَئِمَّۂ اَحناف کے حوالے سے لکھا:''عالموں اور بزرگوں کے سامنے زمین چُومنا حرام ہے اور چُومنے والا اور اِس پر راضی ہونے والا دونوں گناہگار ، کیونکہ یہ بت پرستی کے مُشابِہ ہے‘‘۔ مزید لکھتے: ہیں '' زمین بوسی حقیقۃً سجدہ نہیں کہ سجدے میں پیشانی رکھنا ضرور ہے ، جب یہ اس وجہ سے حرام اور مُشابِہِ بت پرستی ہوئی کہ صورۃً قریبِ سجود ہے ، تو خود سجدہ کس درجہ سخت حرام اور بت پرستی کا مُشابہ ِ تامّ ہوگا ، وَالْعَیَاذُبِاللّٰہ تَعَالٰی ‘‘ ۔ 
مزید لکھتے ہیں:'' مزارات کو سجدۂ (تعظیمی) یااس کے سامنے زمین چومنا حرام اور حدِّ رکوع تک جھکنا ممنوع ‘‘، اولیائِ کرام کے مزارات کی بات تو چھوڑیے ،وہ لکھتے ہیں :'' زیارتِ روضۂ انور سیدِ اطہر ﷺ کے وقت نہ دیوارِ کریم کو ہاتھ لگائے، نہ چُومے، نہ اُس سے چمٹے، نہ طواف کرے، نہ زمین کو چومے کہ یہ سب بدعتِ قبیحہ ہیں‘‘۔ شَرحِ لُباب کے حوالے سے لکھا:'' رہا مزار کو سجدہ، تووہ حرامِ قطعی ہے، تو زائر جاہلوں کے فعل سے دھوکہ نہ کھائے بلکہ علمائِ باعمل کی پیروی کرے ، مزار کو بوسے میں (علماء کا )اختلاف ہے اور چُھونا، چِمٹنا اِس کے مثل،اَحوَط(یعنی شریعت کا محتاط ترین حکم) منع اور عِلّت(یعنی ممانعت کا سبب ) خلافِ ادب ہونا‘‘۔ فقہی حوالے کے ساتھ مزید لکھا:'' مزار کو سجدۂ (تعظیمی) تو درکنار، کسی قبر کے سامنے اللہ عزّ وجل کو سجدہ جائز نہیں،اگر چہ قبلے کی طرف ہو (یعنی یہ بت پرستی کے مشابہ ہے)، قبرستان میں نماز مکروہ ، کہ اس میں کسی قبر کی طرف رُخ ہوگا اور قبر کی طرف نماز مکروہ ہے ، البتہ قبرستان میں مسجد یا نماز کی جگہ بنی ہو تو اس میں حرج نہیں ہے۔ قبر کی اونچائی کی بابت ان سے سوال ہواتولکھا:''خلافِ سنت ہے، میرے والدِ ماجد، میری والدۂ ماجدہ اور بھائی کی قبریں دیکھیے، ایک بالشت سے اُونچی نہ ہوںگی‘‘۔
امام احمد رضاقادری سے مزاراتِ اولیاء کرام کے طواف کی بابت سوال ہواتو اُنہوں نے لکھا:''بلاشبہ غیرکعبۂ مُعَظّمَہ (بشمول روضۂ رسول)کا طوافِ تعظیمی ناجائز ہے اورغیر خداکو (تعظیماً ) سجدہ ہماری شریعت میں حرام ہے اور بوسۂ قبر میں علماء کو اختلاف ہے اورمحتاط ترین قول ممانعت کاہے،خصوصاً مزاراتِ طیّبہ اولیائے کرام کہ ہمارے علماء نے تصریح فرمائی کہ کم ازکم چار ہاتھ کے فاصلے پرکھڑاہو،یہی ادب ہے،پھر تَقبِیل(چومنا) کیسے مُتصَوّر ہوسکتاہے، یہ وہ ہے جس کا فتویٰ عوام کودیاجاتاہے اور تحقیق کا مقام دوسراہے‘‘ ۔
امام احمد رضا سے سوال ہواکہ بعض وظائف میں آیات اور سورتوں کو مَعکوس (اُلٹ) کرکے پڑھنا کیساہے ؟اُنہوں نے فرمایا:''حرام اور اَشدّ حرام ،کبیرہ اور سخت کبیرہ (گناہ )،کفرکے قریب ہے،یہ تودرکنارسورتوں کی صرف ترتیب بدل کر پڑھنا ،اِس کی نسبت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کیاایسا کرنے والا ڈرتانہیں کہ اللہ اس کے قلب کو اُلٹ دے ،چہ جائیکہ آیات کو بالکل معکوس (اُلٹ ) کرکے مُہمل(بے معنیٰ) بنادینا‘‘۔
آج کل جاہل پیرومُرشِد بنے ہوئے ہیں،دین کے علم سے بے بہرہ ہیں،اپنی جہالت کا جواز اِس طرح کی باتیں بناکر پیش کرتے ہیں کہ طریقت باطنی اور روحانی اَسرارورمُوزکا نام ہے،علماء توصرف الفاظ اورظاہرکو جانتے ہیں،اُن کے دل نورسے خالی ہیں،گویا طریقت اور شریعت کو ایک دوسرے کی ضد قراردیتے ہیں،امام احمد رضا قادری نے لکھا: ''شریعت اصل ہے اورطریقت اُس کی فرع،شریعت مَنبع ہے اورطریقت اس سے نکلاہوا دریا،طریقت کی جدائی شریعت سے مُحال ودشوارہے،شریعت ہی پرطریقت کا دَارومَدَارہے ،شریعت ہی اصل کاراورمَحَکّ ومعیار ہے،شریعت ہی وہ راہ ہے جس سے وصول اِلَی اللہ ہے ،اس کے سوا آدمی جوراہ چلے گا، اللہ تعالیٰ کی راہ سے دور پڑے گا ،طریقت اس راہ کا روشن ٹکڑا ہے،اِس کا اُس سے جداہونا محال ونامناسب ہے۔طریقت میں جوکچھ منکشف ہوتاہے،شریعتِ مُطہرہ ہی کے اِتّباع کا صدقہ ہے،جس حقیقت کو شریعت رَد فرمائے،وہ حقیقت نہیں،بے دینی اورزَندقہ ہے‘‘۔امام احمد رضا قادری سے پوچھاگیا کہ ایک شخص شریعت کا عامل نہیں ہے،اَحکامِ شریعت کا تارک ہے،اُس کا مُؤاخَذہ کیاجائے توکہتاہے:''اَحکامِ شریعت تووصول الی اللہ کا ذریعہ ہیںاورمیں تو واصل ہوچکا ہوں،یعنی منزلِ حق پرپہنچا ہواہوں،لہٰذا میں اب اَحکام کا مُکلّف(جواب دہ ) نہیں ہوں،اُنہوں نے امام الصوفیاء حضرت عبدالوہاب شعرانی اورسیّدُ الطائفہ جنید بغدادی رحمہما اللہ تعالیٰ کے حوالے سے بتایاکہ:''ہاں! واصل (پہنچاہوا)توضرور ہے مگر جہنم میں‘‘۔مزید لکھتے ہیں: '' صوفیائے کرام فرماتے ہیں :صوفیِ بے علم مسخرۂ شیطان اَست۔ وہ جانتاہی نہیں شیطان اُسے اپنی باگ ڈور پر لگالیتاہے،حدیث میںارشاد ہوا:'' بغیر فقہ کے عابد بننے والا ایساہے جیسے چکی میں گدھا ‘‘ کہ محنتِ شاقّہ کرے اورحاصل کچھ نہیں ‘‘۔
لغت میں بدعت ہرنئی چیزکو کہتے ہیں اوراصطلاح شرع میں ''دین میں ایسی چیز اختراع کرناجس کی اصل دین میں نہ پائی جائے،بدعت ہے،یعنی ہروہ چیز جوکسی دلیلِ شرعی کے مُعارِض (مُتصادم) ہو،بدعت ِ شرعیہ ہے‘‘۔
امام احمد رضا سے سوال ہواکہ کیا فلاحِ آخرت کے لیے مُرشِد ضروری ہے،اُنہوں نے جواب میں لکھا کہ یہ ضروری نہیں ہے،ایک مُرشِد عام ہوتاہے،فلاح ظاہر ہو یا فلاحِ باطن ،اس مُرشِد سے چارہ نہیں،جواس سے جداہے،بلاشبہ کافر ہے یا گمراہ اور اس کی عبادت تباہ وبرباد۔اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا: عوام کارہنما۔۔۔کلامِ عُلماء ، علماء کا رہنما۔۔۔ کلامِ اَئِمَّہ ،اَئِمَّہ کا رہنما۔۔۔ کلام ِرسول اور رسول اللہ کا رہنما۔۔۔ کلام اللہ عَزَّوَجلّ ۔ شیخ ایصال اور مُرشِد کامل کے لیے انہوں نے چارکڑی شرائط بیان کی ہیںجن پر لفظاً ومعناً پورااترنا ہرایک کا منصب نہیں ہے ۔اس لیے اُنہوں نے بیعت کا معنی ومفہوم،بیعت کی اقسام ثلاثہ یعنی بیعتِ برکت،بیعتِ ارادت اور بیعتِ منفعت اوران کی تفصیل اوراَحکام بیان کیے ہیں،جن کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ماہِ صفرالمظفرکے آخری بدھ کے بارے میں لوگوں میں رائج رسومات کی بابت لکھتے ہیں:''آخری چہارشنبہ کی کوئی اصل نہیں،نہ اس دن صحت یابی حضور سید عالم ﷺ کا کوئی ثبوت بلکہ مرض اقدس جس میں وفات مبارکہ ہوئی،اس کی ابتدا اسی دن سے بتائی جاتی ہے اورایک حدیث مرفوع میں آیاکہ ''ابتدائی اِبتَلائے سیدنا ایوب علیہ الصلوٰۃ والسلام اِسی دن تھی اور اسے نَحِس سمجھ کر مٹی کے برتن توڑدینا گناہ اور مال کا ضائع کرناہے۔ بہرحال یہ سب باتیں بے اصل وبے معنی ہیں‘‘۔ 
پیرزادہ علامہ سید محمد فاروق القادری رحمہ اللہ تعالیٰ نے ''فاضلِ بریلوی اوراُمورِ بدعات‘‘کے عنوان سے ایک گرانقدرکتاب تالیف مرتب کی ہے،علمی ودینی ذوق رکھنے والوں کواس کا بغورمطالعہ کرنا چاہیے۔

Monday, December 9, 2013

جہاد اور جماعت اسلامی Jihad, Modudi and Jamat Islami


سید منور حسن کے اس دھماکہ خیز بیان کے بعد کہ ریاست کے باغی حکیم اللہ محسود کو شہید کی حیثیت حاصل ہے‘ ایک بلاوجہ کی بحث چھڑ گئی۔ مناسب ہوتا کہ سید صاحب اپنے دلخراش بیان سے رجوع فرما لیتے۔ لیکن جماعت اسلامی کا زیادہ تر ریکارڈ یہی ہے کہ یہ عوام الناس کے عمومی رحجان کے خلاف موقف اختیار کرتی ہے اور پھر اکثریت کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے کبھی عوام میں مقبولیت حاصل نہیں ہوئی اور اس نے کبھی کوئی الیکشن نہیں جیتا ۔ سید صاحب نے ایک ایسے وقت میں تکلیف دہ بیان جاری کیا جب کہ پاک فوج اپنے وطن اور عوام کی حفاظت کے لئے باغیوں اور عوام دشمنوں کے خلاف برسرپیکار ہے اور پاکستان میں سرگرم دہشت گردوں کی سب سے بڑی تنظیم کے سربراہ کی امریکی ڈرون کے حملے میں ہلاکت کو شہادت قرار دے ڈالا۔ اس بات کا موقع محل سے کوئی تعلق نہیں۔ عوام اپنی فوج اور ریاست کے باغیوں کے بارے میں واضح خیالات رکھتے ہیں۔ انہیں ایک نئی بحث میں الجھانے کا مطلب صرف ایک ہو سکتا ہے کہ بے گناہ شہریوں کی شہادتوںاور وطن کی حفاظت کے لئے عوام کے اندر جو یکجہتی پائی جاتی ہے‘ اس کی جگہ انتشار پھیلایا جائے اور ظاہر ہے انتشار کا فائدہ ہمیشہ دشمن اٹھاتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان محمد نوازشریف کو داد دینا پڑے گی کہ فوج کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر سید صاحب نے جو زخم لگایا تھا‘ انہوں نے بلاتاخیر اس پر مرہم رکھنے کے لئے شہدا کی یادگار پر پھول چڑھائے اور دعا مانگی۔ جنرل کیانی ان کے ساتھ تھے۔ وزیراعظم کی اس بروقت حاضری نے لاکھوں شہیدوں کے پسماندگان اور ساتھیوں کے شکستہ دلوں کو پھر سے مضبوط کیا۔ ان کے ماند پڑتے حوصلوں کو تقویت دی اور اسلام کے نام پر گمراہی پھیلانے کی جو کوشش کی جا رہی تھی‘ اسے مٹی میں ملا دیا۔ نوازشریف کے بروقت اقدام نے اس زہریلے بیان کے اثرات ماند کر دیئے‘ جو محض دلوں کو دکھانے کے اذیت پسندانہ طرزعمل کا نتیجہ تھا۔ یہاں پر مجھے قاضی حسین احمد بہت یاد آئے۔ جماعت اسلامی کی زندگی میں اگر اسے کبھی منتخب ایوانوں میں قابل ذکر نشستیں ملیںیا شریک اقتدار ہونے کا وقت آیا‘ تو یہ سارے واقعات قاضی حسین احمد مرحوم کے زمانے میں ہوئے۔ وہ ہمیشہ عوامی رحجانات کا لحاظ رکھتے۔ شدید مخالفانہ بیانات کے جواب میں انتہائی شائستگی سے کام لیتے۔ یہاں تک کہ جو مولانا فضل الرحمن آج جماعت اسلامی سے دوردور رہتے ہیں‘ ان کے ساتھ متحدہ محاذوں میں شامل رہے اور مخلوط حکومتوں میں بھی شرکت کی۔ اب میں ایک تاریخی انٹرویو کا حوالہ پیش کروں گاجو سید ابوالاعلیٰ مودودی نے 17اگست 1948ء کو دیا تھا۔ جب قائد اعظمؒ حیات تھے۔ یہ انٹرویو جماعت اسلامی کے ترجمان سہ روزہ ’’کوثر‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ کل ایک کالم میں اس کا سرسری سا ذکر آیا۔ آج میں ریاست کے باغیوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے بارے میں مولانا مودودی مرحوم کے خیالات نقل کر تے ہوئے ان کے جانشینوں کو کچھ یاد دلانا چاہتا ہوں۔ مولانا سے سوال ہوا تھا کہ ’’ایک ذمہ دار خطیب نے آپ پر الزام عائد کیا ہے کہ آپ نے کشمیر میں شہید ہونے والوں کی موت کوحرام قرار دیا اور انہیں جہنمی کہا۔ کیا واقعتا ایسا ہے؟‘‘ جواب تھا’’یہ بات میں نے کبھی نہیں کہی۔ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ جب تک حکومت پاکستان نے حکومت ہند کے ساتھ معاہدانہ تعلقات قائم کر رکھے ہیں‘ پاکستانیوں کے لئے کشمیر میں‘ ہندوستانی فوجوں سے لڑنا ازروئے قرآن جائز نہیں۔ میرے اس قول کو لے کر ایک منطقی ہیرپھیر کے ذریعے یہ نتیجہ نکال لیا گیا ہے کہ جب ایسا کرنا جائز نہیں‘ تو جو لوگ وہاں لڑ کر مارے جاتے ہیں‘ وہ ضرور حرام موت مرتے ہیں اور جہنمی ہیں۔ پھر اپنے نکالے ہوئے اس نتیجے کو زبردستی مجھ پر تھوپ دیا گیا کہ یہ میرا قول ہے۔یہ دراصل تکفیر بازوں کا پرانا حربہ ہے کہ کسی شخص کی کہی ہوئی اصل بات پر اگر لوگوں کو اشتعال نہ دلایا جا سکے‘ تو اس میں سے ایک دوسری بات خود نکال کر‘ اس کی طرف منسوب کر دی جائے۔ درآنحالیکہ اس نے وہ بات نہ کہی ہو۔مثلاً ایک گروہ کے نزدیک‘ ایک چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور دوسرے کے نزدیک نہیں ٹوٹتا۔ اب بڑی آسانی سے اول الذکر گروپ پر تھوپ دیا جا سکتا ہے کہ وہ موخرالذکر گروہ کے تمام لوگوں کی نمازوں کو باطل قرار دیتا ہے۔ اس طرح کھینچ تان سے کام لے کر بارہا مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑایا جا چکا ہے اور مجھے افسوس ہے کہ فتنہ پردازی کا یہ فن اب تک تازہ ہے۔ (تازہ کیا؟ نشوونما پا کر پاکستان میں انتشار کو مسلسل فروغ دے رہا ہے۔ ناجی)سیدھی سی بات یہ ہے کہ میں اس معاملے میں اپنی ایک رائے رکھتا ہوں اور دلائل کے ساتھ اسے ظاہر کر دیتا ہوں۔ دوسرے علما کچھ اور رائے رکھتے ہیں اور وہ بھی اپنی رائیں بیان کر دیتے ہیں۔ اب جسے میری رائے پر اطمینان ہو‘ وہ اس پر عمل کرے اور جسے دوسرے علما کے فتوے پر بھروسہ ہو‘ وہ اس پر عمل کر لے۔ کسی کی عاقبت کے متعلق پیش گوئی کرنا اور کسی کو جنت اور کسی کو دوزخ بانٹنا میرا کام ہے اور نہ کسی دوسرے عالم کا۔ یہ خدا کا کام ہے کہ وہ اپنے جس بندے کو چاہے جنت دے دے اور جسے چاہے دوزخ میں جگہ دے۔ میں کسی مسئلے پر جس حد تک اظہار رائے کر سکتا ہوں‘ وہ صرف اس قدر ہے کہ ایساکرنا شرعاً صحیح ہے یا نہیں اور اپنی رائے پر بھی مجھے اصرار نہیں ہو گا کہ ضرور اسی کو مانا جائے۔ اگر کوئی عالم دین دیانتداری کے ساتھ اس رائے سے اختلاف رکھتا ہو اور خود عمل کرے یا اس کے فتویٰ پر کوئی دوسرا شخص عمل کر دے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ البتہ میں جس سچ چیز کو صحیح سمجھتا ہوں‘ اس پر خود عمل کرتا ہوں اور دو سروں کو وہی رائے دے سکتا ہوں اور جب تک اس کے خلاف کوئی دلیل مجھے مطمئن نہ کر دے‘ اپنی رائے دیانتاً واپس نہیں لے سکتا۔ اجتہادی مسائل میں علما کا قدیم سے یہی طریقہ چلا آ رہا ہے اور کبھی کسی ذمہ دار عالم نے اپنی اجتہادی رائے کے متعلق ایسا اصرار نہیں کیا کہ جو لوگ کچھ دوسری رائے رکھتے ہیں‘ ان کے عمل کوباطل قرار دیں اور ان کے جنتی یا جہنمی ہونے کا پیشگی فیصلہ صادر کریں۔‘‘(یہی سید منور حسن نے کیا ہے۔ انہوں نے خدائی اختیار استعمال کرتے ہوئے‘ ایک دہشت گرد کو شہید قرار دے دیا‘ جس کا مقام جنت ہوتا ہے اور پاک فوج کے جانیں قربان کرنے والے سپاہیوں اور افسروں کو شہادت کا درجہ دینے سے انکار کر دیا۔ناجی) یہاں پر آ کر مولانا سے دریافت کیا گیا کہ آپ کے متعلق یہ بات کہی جاتی ہے کہ’’ آپ جہاد کشمیر کو جہاد ہی نہیں مانتے۔ اگر ایسا ہے تو آپ کی رائے کی بنیاد کیا ہے؟‘‘ مولانا نے فرمایا ’’میں بارہا اس بات کو واضح کر چکا ہوں کہ کشمیر کے لوگوں کو اپنی مدافعت کے لئے لڑنے کا پورا حق حاصل ہے اور ان کی لڑائی جہاد کے حکم میں ہے۔ اب جو لوگ کوئی غلط بات مجھ سے منسوب کرتے ہیں۔ وہ خود اس کے ذمہ دار ہیں۔‘‘ مولانا سے پوچھا گیا کہ ’’آپ کے متعلق اس بات کا بھی عام چرچا کیا جا رہا ہے کہ آپ کشمیری مجاہدین کو مدد دینے کے خلاف ہیں۔ چنانچہ اس طرح کی باتوں سے پاکستانیوں میں بھی اور آزاد قبائل میں بھی بہت بددلی پھیلائی جا رہی ہے؟‘‘ مولانا کا جواب تھا ’’آزاد قبائل کے جو لوگ پاکستان کے شہری نہیں ہیں۔ وہ قطعاً کسی ایسے معاہدے کے پابند نہیں جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہے۔ وہ اگر کشمیری مجاہدین کی امداد کے لئے جائیں‘ تو ان کو حق پہنچتا ہے اور ان کا اسلامی فرض ہے کہ وہ‘ ان کی مدد کریں۔ البتہ انہیں یہ کام حسن نیت کے ساتھ کرنا چاہیے اور اسلامی حدود کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔رہا پاکستان کے لوگوں کی طرف سے امداد کا سوال‘ تو میں نے اس معاملے میں جو کچھ رائے ظاہر کی ہے‘ وہ جنگی امداد کے متعلق ہے اور جنگی امداد میں صرف دو چیزیں آتی ہیں۔ ایک اسلحہ فراہم کرنا۔ دوسرا لڑنے کے لئے آدمی بھیجنا۔ یہ دو قسم کی مدد دینا میں اس وقت تک جائز نہیں سمجھتا‘ جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ دونوں حکومتوں کے درمیان کسی طرح کے معاہدانہ تعلقات نہیں تھے یا اب نہیں رہے۔ان دو قسم کی اعانتوں کے سوا ہم آزاد کشمیر کے لوگوں اور ان کی مدد کرنے والوں کو غلہ‘ کپڑا‘ دوائیں‘ مرہم پٹی کا سامان‘ طبی امداد کے لئے ڈاکٹر اور تیماردار سب کچھ بھیج سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر وہ پاکستان میں آکر اسلحہ خریدیں تو ان کے ہاتھ وہ بھی فروخت کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں خود جماعت اسلامی بھی خاموشی کے ساتھ کچھ نہ کچھ کر رہی ہے اور یہ چیز اصولاً معاہدانہ تعلقات کے خلاف نہیں ہے۔‘‘ 

مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے انٹرویو کی بنیاد پر لکھے گئے کالم کی پہلی قسط آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ دوسری قسط کی ابتدا انہی کے الفاظ سے کر رہا ہوں۔’’ذاتی طور پر میری اور بحیثیت مجموعی جماعت اسلامی کی مستقل پالیسی یہ ہے کہ ہم اپنے اصل مقصد یعنی نظام اسلامی کے قیام کے سوا کسی اور مسئلے کو اپنی جدوجہد کا محور نہیں بناتے۔ دوسرے مسائل اگر پیش آتے ہیں‘ تو ان پر زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی کیا جاتا ہے کہ ہم اپنے نزدیک جو کچھ حق سمجھتے ہیں‘ اس کو بیان کر دیتے ہیں۔‘‘ جماعت اسلامی نے شہادت کے مسئلے پر اپنے موجودہ امیر کے دفاع میں جو بیان جاری کیا ہے‘ اسے بانی جماعت کے مندرجہ بالا الفاظ کی روشنی میں پڑھئے اور آپ کو بانی جماعت اور اس کی موجودہ قیادت کا فرق معلوم ہو جائے گا۔ اب میں جہاد کشمیر کے حوالے سے مولانا کے مزید کچھ خیالات پیش کرتا ہوں۔ ’’سوال: کہا جا رہا ہے کہ آپ نے اور آپ کی جماعت نے جہاد کشمیر کو کمزور کرنے کے لئے ایک مستقل معرکہ شروع کر رکھا ہے اور اس سے محاذ کشمیر کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں خلل آ رہا ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ شرعاً آپ کے لئے ایسی مہم جاری کرنا لازم ہے؟ جواب:یہ مہم جاری کرنے کا الزام قطعاً بے بنیاد ہے۔ میں نے تو ایک شخص کے اصرار پر ایک پرائیویٹ صحبت میں محض اپنی رائے ظاہر کر دی تھی۔ اس کے بعد اس رائے کو پھیلانے کی پوری مہم ان لوگوں نے خود اپنے ذمے لے لی‘ جنہیں کشمیر کو بچانے کی اتنی فکر نہیں جتنی مجھے بدنام کرنے کی فکر ہے۔ ذاتی طور پر میری اور بحیثیت مجموعی جماعت اسلامی کی مستقل پالیسی یہ ہے کہ ہم اپنے اصل مقصد یعنی نظام اسلامی کے قیام کے سوا کسی اور مسئلے کو اپنی جدوجہد کا محور نہیں بناتے۔ دوسرے مسائل اگر پیش آتے ہیں تو ان پر زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی کیا جاتا ہے کہ ہم اپنے نزدیک جو کچھ حق سمجھتے ہیں‘ اس کو بیان کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد اس کی تبلیغ اور اس کے لئے کوئی جدوجہد نہ میں خود کرتا ہوں اور نہ جماعت کے لوگ۔ میں نے پچھلے چند مہینوں میں متعدد تقریریں کی ہیں جنہیں ہزاروں آدمیوں نے سنا ہے اور کوئی سامع یہ شہادت نہیں دے سکتا کہ مسئلہ کشمیر کے متعلق میں نے کچھ بھی اظہار رائے کیا ہو۔ صرف لائل پور میں چند الفاظ مجبوراً اس لئے کہے تھے کہ مجمع عام میں مجھ سے سوال کیا گیا اور میں نے جب کہا کہ سائل صاحب نجی صحبت میں مجھ سے آ کر دریافت کر لیں‘ تو اصرار کیا گیا کہ مجمع عام ہی میں جواب دیا جائے۔ جماعت کے دوسرے لوگوں کے متعلق میں نے پوری طرح تحقیق کر لیا ہے کہ انہوں نے نہ بطور خود اس مسئلہ کو کسی کے سامنے چھیڑا ہے‘ نہ کہیں اس کی تبلیغ کی ہے لیکن اس کا کیا علاج کیا جائے؟ جب ہم نظام اسلامی کی دعوت پیش کرنے کے لئے لوگوں کے سامنے جاتے ہیں تو فتنہ پسند لوگ جان بوجھ کر خود اس سوال کو چھیڑتے ہیں۔ معذرت کی جائے تو اصرار کرتے ہیں اور جب مجبوراً جواب دیا جائے تو الزام عائد کرتے ہیں کہ تم نے اس کے لئے مہم شروع کر رکھی ہے‘ حالانکہ مہم خود ان لوگوں نے شروع کر رکھی ہے‘ جو اخبارات میں اور خطبوں اور تقریروں میں اس سوال کو چھیڑتے چلے جا رہے ہیں۔ سوال:یہ بات آپ کے علم میں آ چکی ہو گی کہ تقریر و تحریر کے ذریعے عام طور پر کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کوئی معاہدانہ تعلقات نہیں ہیں اور اس بات کے کہنے والوں میں بعض پبلک اہمیت رکھنے والے حضرات بھی شامل ہیں۔ نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قرآن کی جس آیت سے آپ نے استدلال کیا ہے اس میں لفظ ’’میثاق‘‘ آیا ہے دوسری طرف عدم محاربہ (Non Aggression) کے معاہدے یا حلیفانہ (Alliance) کے لئے استعمال ہوتا ہے نہ کہ چند اشیا کے تجارتی تبادلے کے سمجھوتوں کے لئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر آپ کس بنا پردونوں کے درمیانہ معاہدانہ تعلقات ہونے کی رائے رکھتے ہیں؟ جواب:میں جس بنا پر یہ رائے رکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ اولاً دونوں حکومتوں کی پیدائش ہی ایک معاہدے کے ذریعے سے ہوئی ہے جو برطانوی حکومت کی پیش کردہ تجویز کو قبول کر کے مسلمانوں اور ہندوئوں کے نمائندوں نے باہم طے کیا تھا۔ اس معاہدے میں یہ بات آپ سے آپ شامل تھی کہ دونوں مملکتیں ایک دوسرے کی دشمن اور ایک دوسرے کے خلاف برسرجنگ نہیں ہیں‘ بلکہ پرامن طریقے سے ملک کی تقسیم پر متفق ہو رہی ہیں۔ اس کے بعد دونوں حکومتوں کے درمیان فوراً سفارتی تعلقات قائم ہو گئے اور ہائی کمشنروں کا تبادلہ ہوا۔ سفارتی تعلقات ہمیشہ سے حالت جنگ (STATE OF WAR) کے نہ ہونے کی دلیل سمجھے جاتے رہے ہیں اور آج بھی سمجھے جاتے ہیں۔ پھر دونوں حکومتوں کے درمیان مالی اور تجارتی معاملات اور مہاجرین کے مختلف مسائل‘ اغوا شدہ عورتوں کی بازیافت اور کرنسی کے معاملات کے متعلق مسلسل سمجھوتے ہوتے رہے ہیں اور یہ تمام سمجھوتے اس بات کی دلیل ہیں کہ ان کے درمیان حالت جنگ قائم نہیں ہے ۔ دنیا کی کوئی قوم بھی کسی دوسری قوم سے مالی اور تجارتی لین دین اس حالت میں نہیں کرتی جبکہ وہ اسے اپنے خلاف برسرجنگ سمجھتی ہو۔ اس کے بعد ابھی اپریل 1948ء میں دونوں حکومتوں کے درمیان کلکتے کا معاہدہ ہوا ہے‘ جس میں اور مسائل پر سمجھوتہ کرنے کے ساتھ اس امر پر بھی سمجھوتہ طے ہوا تھا کہ دونوں حکومتیں اپنے اپنے ملک کے اخبارات کو ہدایات کریں گی کہ وہ کوئی ایسی بات شائع نہ کریں جس سے یہ معنی نکلتے ہوں کہ ان دونوں کے درمیان جنگ ناگزیر ہے یا اعلان جنگ ہونا چاہیے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ دونوں حکومتیں باہم مصالحانہ تعلقات رکھتی ہیں اور انہیں جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں اس سمجھوتے کا حوالہ دیتے ہوئے پنڈت نہرو کی معاندانہ تقریروں کے خلاف حکومت پاکستان نے احتجاج کیا ہے کہ یہ تقریریں میثاق کلکتہ کی اسپرٹ(یہاں کچھ بے ربطی ہے میں قیاساً تین الفاظ شامل کر رہا ہوں)’’ کے خلاف ہیں‘‘۔ شکایت کی بنیاد ہی یہ ہے کہ ریاستوں کے متعلق تقسیم کے معاہدے ہیں لہٰذا جو بات طے ہوئی تھی‘ اس کی رو سے ریاست جونا گڑھ پاکستان میں شرکت کی دستاویز پر دستخط کرنے کے بعد پاکستان کاحصہ ہو چکی ہے اور اس کی پروا نہ کرتے ہوئے انڈین یونین نے اس پر زبردستی قبضہ کیا ہے۔ آخر انڈین یونین کے اس فعل کو بدعہدی قرار دینے کے سوا کیا کہا جاتا؟کہ دونوں کے درمیان کوئی معاہدانہ تعلق تھا جس کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ یہ ساری باتیں بھی اگر کسی کے نزدیک معاہدے کی تعریف میں نہ آتی ہوں تو وہ اپنی رائے کا مختار ہے۔ میں اب تک یہی سمجھتا ہوں کہ دونوں حکومتوں کے درمیان ایسے معاہدانہ تعلقات ہیں جن کو قائم رکھتے ہوئے ہم انڈین یونین کے خلاف شرعاً کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’’میثاق‘‘ کا اعلان صرف اس معاہدے پر ہوتا ہے جس میں عدم محاربہ کی تصریح ہو یا جس میں باہم حلیفانہ تعلق کا عہدوپیمان ہو‘ وہ نہ قرآن سے کوئی دلیل پیش کر سکتے ہیں‘ نہ لغت عرب سے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے اور انبیاء سے جو اقرار لئے تھے ان کے لئے لفظ ’’میثاق‘‘ ہی کو استعمال کیا ہے۔ آخر ان دونوں میں سے کون سا مفہوم ان مواقع پر مراد ہے؟‘‘ قارئین!آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ نصف صدی میں میرا تعلق اس مکتبہ فکر سے رہا ہے‘ جو پاکستان کو ترقی پسند‘ خوشحال اور مستحکم ملک کی حیثیت میں دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ میرا شعبہ صحافت رہا اور جتنی میری بساط تھی‘ اس کے مطابق مندرجہ بالا مقاصد حاصل کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرتا رہا۔ اسی مکتبہ فکر کی سیاست میں بھی حصہ لیا مگر میں زندگی میں اپنے خوابوں کی تعبیر نہیں دیکھ پایا۔ مستقبل قریب میں بھی اس کی امید نہیں۔ مولانا مودودیؒ ایک دوسری طرز فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے لئے ایک ایسی معاشرت چاہتے تھے‘ جس میں وہ اپنی دینی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ اسی مقصد کے لئے انہوں نے اپنی جماعت قائم کی لیکن خواب ان کے بھی پورے نہ ہوئے۔ پاکستان کا خواب قائد اعظمؒ نے دیکھا تھا۔ جغرافیائی اعتبار سے تو ان کا خواب پورا ہو گیا ۔ لیکن وہ پاکستان میں کیسا نظام حیات چاہتے تھے؟ اس کی انہوں نے کبھی جامع تعریف نہیں کی اور نہ ہی اس موضوع پر کوئی مکمل تحریر چھوڑی۔ نتیجہ یہ ہے کہ قائداعظمؒ کا نام لینے والے اپنے اپنے خیالات کو ان سے منسوب کر کے‘ اپنا اپنا نظریہ پاکستان پیش کرتے رہتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی اکثریت اپنے نظریئے کے مطابق خطے کو علیحدہ کر کے پاکستان سے الگ ہو گئی۔ باقی ماندہ پاکستان میں رہنے والوں نے اپنے اپنے ذہن کے مطابق قیام پاکستان کے جداجدا مقاصد مرتب کر رکھے ہیں۔ کاش! قائد اعظمؒ زندگی میں پاکستان کو ایک دستور دے جاتے یامسلم لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی میں اتفاق رائے سے نئی ریاست کو چلانے کے لئے متصورہ نظام کے بنیادی نکات رہنما اصولوں کی صورت میں مرتب کر لیے جاتے‘ جن پر نئی ریاست کے امور کو چلانا مقصود ہوتا۔ ان میں سے کوئی بھی کام نہ ہوا۔ اس موضوع پر پھر کبھی لکھوں گا۔ مولانا مودودی سے جس موضوع پر زیربحث انٹرویو لیا گیا‘ وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ نئی نسل کے لئے میں مکمل انٹرویو روزنامہ ’’دنیا‘‘ کے سنڈے میگزین میں شائع کر رہا ہوںتاکہ یہ تاریخی دستاویز زیادہ لوگوں کے ہاں محفوظ ہو جائے۔
By Nazir Naji
http://dunya.com.pk/index.php/author/nazeer-naji/2013-11-15/5015/62691861#tab2
http://e.dunya.com.pk/magazine/index.php?e_name=LHR&m_date=2013-12-01

Aljihad Fil Islam By Syed Abulala Maududi Pages: 600

Idara Tarjuman ul Quran http://tazkeer.org/scan/?itemid=1664
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
Who can declare Jihad?
1) Just as punishments of amputation of hands and flogging despite being unmistakable injunctions of the Qur'an cannot be implemented by individuals, similarly Jihad cannot be done by people on their own. In both cases, an Islamic State is a precondition. However, while people are willing to accept the condition of the State for the implementation of punishment, they are not willing to accept the condition for the purpose of Jihad. What he says is that if the leader of the Jihad movement cannot be given the right to enforce Islamic punishments on his soldiers on committing crimes, how can he be allowed to lead them to fight and risk their lives?

2) The scholar also claims that the understanding that an Islamic State with an Amir is a necessary condition for doing jihad is an understanding which almost all earlier scholars agreed to. This is so because it was realised by the scholars that the permission to do Jihad, like in the case of punishments, was given to the prophet, Allah's mercy be on him, and his companions only after he had migrated to Madina where he was able to create an Islamic State. It is only in the recent times that there has emerged a tendency amongst religious leaders to lead people in Jihad without the power of the State.

3) If the condition of Islamic state is not recognised and it is conceded that any well-meaning Muslim leader can declare Jihad against the enemies, then there is a potential danger of the creation of conditions of utter chaos and bloodshed in the name of Jihad. One religious group may consider another as worthy of being fought against. In fact, many of such groups have sometimes shown the tendency of doing 'Jihad' against fellow Muslim groups as well, because they don't consider those others as Muslims. Most of the killings in the Sunni-Shia disputes take place in the name of Jihad. This tendency has not only led to unnecesary bloodshed, it has also badly damaged the good name of Islam, because many people blame Islam for whatever is going on in the name of Jihad.

I find all these arguments of the scholar convincing and worthy of our attention. I therefore am inclined to believe that even if Muslims of the present times are being subjected to difficulties by non-Muslims, they should endure them patiently and continue to live as good Muslims. This attitude is likely to bring many non-Muslims closer to Islam. If matters go beyond limits, they should either migrate to an Islamic State or urge that state to declare Jihad against the tyrant rulers who are causing hardship for Muslims. However, under no circumstances should stray groups of Muslims resort to armed struggle for independence. They can, however, defend themselves with arms if attacked by the enemy.
Views: 1405
http://www.khalidzaheer.com/qa/255
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

Who Can Declare Jihad?


Muhammad Munir 


Department of Law, International Islamic University, Pakistan

April 14, 2012

Research Papers, Human Rights Conflict Prevention Centre (HRCPC) Vol. XII. no. 1-2 (2012), pp. 1279-1294. 

Abstract:      

Non-state Islamic actors are engaged in their war against the West, Muslim states, and in some cases against their own states. Among the propaganda campaign raised by these Jihadis for winning support of fellow Muslims is that jihad can be declared by any jihadi group within a Muslim state and there is no need for the head of such a Muslim state for such a declaration. How does Islamic law look at the complex relations between jihadis operating from within a Muslim state and whether the state might be blamed for their attacks and other activities outside such a state? This paper explains relationship between jihadi groups inside a Muslim state which has necessary military and political authority but which has not given any explicit permission to such groups to operate. It is concluded that classical Islamic law does not authorize the operations of jihadi groups without the permission of the Imam. In addition, under Islamic law such a state is responsible for the acts of jihadi groups operating from its territory.
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

Monday, November 11, 2013

​ امریکہ کیوں تحریک طالبان سے امن کے خلاف ہے ?Why USA is against peace with Pakistani Taliban

ہمارے میڈیہ کے بیشتر مبصرین بڑے سادہ لوح ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ امریکہ کی سوچ وہی ہے جو ان کے خیال میں اس کی سوچ ہے اور یہ بدلتی بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے  کہ امریکہ کی سوچ اس کی اپنی ہوتی ہے اور وہ حالات کے ساتھ بدل بھی جاتی ہے۔ مبصرین کا ایک اور مسئلہ بھی ہے، جس کی بنا پر بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں۔ پورا سچ کوئی نہیں بول رہا ہوتا کیوں کہ ہر ایک کا اپنا اپنا ایجنڈہ ہے۔
سوچنے کی اصل بات یہ ہے کہ امریکہ کیوں ڈرون حملے بند نہیں کر رہا۔ ظاہر ہے کہ وہ تحریک طالبان کو کمزور کرنے کے لیئے اس کے لیڈروں کو چن چن کر قتل کر رہا ہے۔ حکیم اللہ محسود کے پیشرو اور جانشین دونوں اس کی زد میں آتے رہے اور آتے رہیں گے۔
پہلے مختصر طور پر تحریک طالبان کا پس منظر۔ تحریک طالبان امریکہ اور ہندوستان کا مشترکہ منصوبہ تھا۔ مقصد یہ تھا کہ پہلے "اسلامی امارت وزیرستان" بنائی جائے۔ پھر اسے باقی فاٹا تک پھیلایا جائے۔ اس کے بعد پورے صوبہ کو شامل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس طرح جو ملک وجود میں آئے اس کا نام "پختون خوا" رکھا جائے۔ اسے ہندوستان اور افغانستان فوری طور پر تسلیم کر لیں۔ امریکہ بھی عملی طور پر ساتھ دے۔ اس طرح وہ افغانستان سے نکل کر وہاں مستقل طور پر بیٹھ جائے گا اور پھر امریکہ اور ہندوستان مل کر تمام ہمسایہ ممالک (ایران، وسطی ایشیا، روس، چین اور پاکستان) میں اپنے اپنے مفادات کے لیئے مداخلت کرتے رہیں۔
امریکہ نے افغانستان میں پائوں جماتے ہی عوامی نیشنل پارٹی سے کہا کہ وہ شمال مغربی سرحدی صوبہ کا نام بدل کر "پختون خوا" رکھوائے، جو بعد میں نئے ملک کا نام بن جائے گا۔ (علیحدگی کے لیئے نام پہلا قدم ہوتا ہے۔ عوامی لیگ نے 1956 کے آئین کے مسودہ پر بحث کے دوران "مشرقی پاکستان" کا نام "بنگلہ دیش" رکھنے کے لیئے ترمیم پیش کی تھی۔)
امریکہ تحریک طالبان پاکستان کو پیسہ اور اسلحہ دینے لگا اور ہندوستان دہشت گردی کی تربیت دینے اور منصوبہ بندی کرنے میں لگ گیا۔ جب سوات پر طالبان کا قبضہ ہو گیا تو دونوں ملکوں کو اپنا مقصد پورا ہوتا نظر آیا۔ ان کا اندازہ ٹھا کہ فوج صورت حال سے نبٹ نہیں سکے گی اور نہ ہی سوات کے بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگ واپس جا سکیں گے۔ جلد ہی سندھ دریا کے شمال میں سارا علاقہ ان کے کنٹرول میں آ جائے گا۔ صوبہ میں عوامی نیشنل پارٹی نے طالبان کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی سے گریز کیا۔ (پارٹی کو اسی لیئے حکومت دلائی گئی تھی۔)
امریکہ کا اب کیا منصوبہ ہے؟
امریکہ کی خصوصیت ہے کہ کسی منصوبہ کی ناکامی پر پالیسی بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتا۔ جب ہماری فوج نے نہ صرف سوات سے طالبان کو نکال دیا بلکہ لاکھوں افراد کو تھوڑی سی مدت میں ان کے گھروں میں بحال کر دیا تو امریکہ کو یقین ہو گیا کہ فوج کے ہوتے ہوئے "پختون خوا" کا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ دوسری طرف، اسے نظر آیا کہ تحریک طالبان افغان طالبان اور بچی کھچی القاعدہ کی مدد کر رہی ہے تو وہ اس کا دشمن ہو گیا۔ صورت حال یوں بنی کہ امریکہ کھلم کھلا تحریک طالبان کو ختم کرنے کے لیئے کوشش کرنے لگا۔ ڈرون حملوں کا آغاز بھی اسی لیئے ہوا۔
تاہم ہندوستان بدستور جہاں تک ہو سکا اپنے وسائل سے تحریک کی مدد کرتا رہا، کہ نیا ملک نہ سہی لیکن دہشت گردی سے پاکستان کو کمزور تو کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی جمیعت علماء اسلام (فضل الرحمان گروپ) اور دوسرے ایجنٹوں کے ذریعہ مذہبی لوگوں کو قائل کرنے لگا کہ تحریک طالبان کامیاب ہو گئی تو پاکستان ان کی خاہش کے مطابق اسلامی ملک بن جائے گا۔ سیکولر حکومتوں سے نالاں بہت سے سادہ لوح افراد پراپیگنڈہ کا شکار ہو گئے۔ مذہبی جماعتوں سے خّوف زدہ حکومتیں تحریک کے خلاف کاروائی سے گریز کرتی رہیں۔ فوج کے مصلحت کوش سربراہ نے بھی عالم بے عمل ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کوئی کاروائی نہ کی، حالانکہ دہشت گردوں نے نہ صرف بہت سے فوجی ٹھاکانوں بلکہ جی۔ ایچ۔ کیو۔ تک پر حملے کیئے۔ سیاسی لوگ کہتے ہیں کہ پرویز مشرف نے فاٹا میں فوج بھیجی اور ڈرون حملوں کی بھی غیررسمی طور پر اجازت دی۔ لیکن یہ سوال نہیں کرتے کہ جنرل کیانی نے چھ سال میں دونوں فیصلے منسوخ کیوں نہ کیئے۔ غلط فیصلہ ہو گیا تو کیا اسے واپس لینا ممکن نہیں تھا؟
تحریک طالبان کیوں ڈرون حملے بند کرانے کے لیئے کوشاں ہے؟
تحریک طالبان کو ہماری فوجی کاروائیوں سے کہیں زیادہ نقصان ڈرون حملوں سے ہو رہا ہے۔ جہاں ہماری فوج نہیں پہنچ سکتی وہاں ڈرون اس کے سرکردہ افراد کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے مختلف گروہوں کے سربراہ ایک دوسرے سے نہ مل سکتے ہیں اور نہ ان کے درمیان رابطہ آسان ہے۔ طالبان اتنے پریشان ہیں کہ مذاکرات کے لیئے ان کی سب سے اہم شرط ہے کہ ڈرون حملے بند کرائے جائیں۔
تحریک طالبان کو نظر آ رہا ہے کہ امریکہ کے چلے جانے کے بعد ہندوستان بھی ہاتھ کھینچ لے گا۔ جب ایک طرف نہ پیسہ ملے گا اور نہ اسلحہ اور دوسری طرف اوپر سے ڈرون اور نیچے سے فوج انھیں نشانہ بنائے گی تو کب تک بچیں گے۔ چنانچہ بیشتر طالبان چاہتے ہیں کہ گھروں کو چلے جائیں۔ البتہ کچھ گروپ اغوا برائے تاوان اور دوسرے جرائم کے سہارے زندہ رہنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ اگر انھیں مقبوضہ کشمیر میں داخل کرا دیا جائے تو وہ وہاں وہی کچھ ہندوستان کے خلاف کریں گے جو ہمارے خلاف کر رہے ہیں۔ ہندوستان کی فلمی زبان مں "پیسہ لے کر سالہ کچھ بھی کرے گا۔"
تحریک طالبان کے ہندوستان کے زیراثر گروہوں کی امن کی خاہش بھی ایک چال ہے۔ ان کی بڑی شرائط دیکھیں: ڈرون حملے بند کیئے جائیں، فوج فاٹا سے نکل جائے اور مذاکرات آئیِن کے تحت نہ ہوں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انھیں نئے سرے سے جتھہ بندی اور منصوبہ بندی کے لیئے مہلت مل جائے تاکہ وہ الگ ملک کے لیئے کوشش کرتے رہیں۔
امن کے بدلہ ہمیں کیا ملے گا؟
کچھ بھی نہیں! بس کچھ طالبان گھروں کو چل دیں گے، بغیر ہتھیار ڈالے۔ خود کش حملوں کے ختم ہونے کی بھی ضمانت نہ ہوگی کیوں کہ کچھ گروپ ہندوستان کی سرپرستی میں دہشت گردی جاری رکھ سکتے ہیں۔
پھر سیاست کار کیوں امن کے لیئے بے چین ہیں؟ وہ چاہتے ہیں کہ بغیر کچھ کیئے امن ہو جائے۔ انھیں احساس نہیں کہ باغیوں سے کبھی مذاکرات نہیں کیئے جاتے اور نہ ان کی امن کی پیشکش قبول کی جاتی ہے۔ سری لنکا میں 30 سال تک تامل باغیوں کے خلاف کاروائی ہوتی رہی۔ اس وقت ختم ہوئی جب بغاوت کا پوری طرح خاتمہ ہو گیا۔
اگر کبھی کوئی امن معاہدہ ہو بھی گیا، جس میں بیشتر گروپ شامل ہوں، تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ تحریک طالبان دہشت گردی اور خودکش حملے بند کر دے گی اور دوسری طرف حکومت کسی قسم کی فوجی کاروائی نہیں کرے گی۔
امریکہ کیا چاہے گا؟
یہ "بقاء باہمی" امریکہ کو قبول نہیں ہوگی۔ وہ جاتے ہوئے حکومت طالبان کے حوالہ نہیں کرے گا (گو انھیں حکومت میں شریک بنانے کی کوشش کر سکتا ہے) ممکن ہوا تو اپنی کچھ فوج بھی چھوڑ جائے گا۔ امن کی صورت میں اسے خطرہ رہے گا کہ تحریک طالبان افغان طالبان کو ہر قسم کی مدد دیتی رہے گی، جس سے اس کے لیئے مشکلات پیدا ہوتی رہیں گی۔ چنانچہ امریکہ چاہتا ہے کہ امن مذاکرات نہ ہوں بلکہ ہماری فوج بھرپور کاروائی کرے اور تحریک طالبان کو پوری طرح کچل دے۔ ہماری فوج بھی اس کی ہم خیال لگتی سسہے۔ اس طرح امریکہ کا مقصد پورا ہو جائے گا اور ہمیں دہشت گردی سے نجات مل جائے گی۔ نہ امن معاہدہ ہوگا اور نہ ڈرون حملے بند ہوں گے۔ البتہ سیاست کار شور مچاتے رہیں گے، خاص طور پر فرقہ ورانہ جماعتوں کے۔
الله حافظ!
محمّد عبد الحمید 
مصنف، "غربت  کیسے مٹ سکتی ہے" (کلاسک پبلشر، لاہور)
"دنیا" میں میرے کالموں کے لیئے www.mahameed-dunya.blogspot.com
 

Sunday, November 10, 2013

Can a Terrorist, killer of innocent people be called Shaheed Martyr?



Any leader who die for the power is not Shaheed, Only who is killed for the cause of Allah is Shaheed. The terrorists who kills innocent Muslims violates Quran how can he be Shaheed? Moulana Fazal says even "DOG KILLED BY USA IS SHAHEED" ..... MUAZ ALLAH ... THEY HAVE GONE SO LOW TO EQUATE DOG WITH SHUHADA OF ISLAM ... HAZRAT HAMZA, OMAR, USMAN, ALI. HUSSAIN R.A AND MILLIONS . MUST REPENT .....
They are creation of USA, now they hate them, yet are serving the cause of USA, India, Israel and enemies of Islam, Muslims and Pakistan ......


About Shaheed Allah has mentioned:
Surah No. 2, Al Baqr, Ayat No. 154

وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ

Translation :
Those who are killed in the cause of Allah: Do not call them dead." In fact ! they are living, though you can not perceive that life.
Surah No. 3, Al Imraan, Ayat No. 169
وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ
Translation :
Do not think of those who are killed in Allah's cause as dead. Nay! they are alive, and they are given sustenance from their Sustainer.
NOW WE CAN EASILY DEDUCE AS TO WHO IS KILLING MUSLIMS FOR THE CAUSE OF ALLAH. WHO SAYS:

جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی"- سورة المائدة، آیت Quran 5:32
if anyone whoever slays a soul, unless it be for manslaughter or for mischief in the land, it is as though he slew all mankind; and whoever keeps it alive, it is as though he kept alive all mankind[Quran 5:32]
SO FOR THOSE WHO CLEARLY VIOLATE COMMANDMENTS OF ALLAH , HOW CAN THEY BE CALLED SHAHEED. THIS REFLECTS OUR IGNORANCE OF COMPLICITY ?

طالبان دہشت گردوں کے ھمدرد ہیں جن کو جاہل قسم کے علماء نے دھوکے میں رکھا ہے ان کا دماغ میں واضح ہو گا کے کون قرآن پر عمل کر رہا ہے ور کون قرآن کو رد کر رہا ہے .

کچھ آیات اور ترجمہ درج زیل ہے :

اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ "جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی"

مگر اُن کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے در پے ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے پھر بھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں. جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں اُن کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا اُن کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں، یہ ذلت و رسوائی تو اُن کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں اُن کے لیے اس سے بڑی سزا ہے

5: 31-32 سورة المائدة

وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ

اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کردیا ہے ہرگز ناحق قتل نہ کرنا

(Quran;17:33)

وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا

اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے

.(Quran;4:93)

وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ

فتنہ قتل سے بھی بڑا گناه ہے

[Qur'an;2:217]

أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا اس لیے اُن کے سارے اعمال ضائع ہو گئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے

(Quran;18:105)

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّـهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ

اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، گو ان کے باپ دادے بےعقل اور گم کرده راه ہوں

(Quran;2:170) Also see Quran;32:21, 43:22,23)

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

جو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وه قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاوں کاٹ دیئے جائیں، یا انہیں جلاوطن کر دیا جائے، یہ تو ہوئی ان کی دنیوی ذلت اور خواری، اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے

“(Quran; 5:33)

وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّـهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ‌ فِيهَا اسْمُ اللَّـهِ كَثِيرً‌ا ۗ وَلَيَنصُرَ‌نَّ اللَّـهُ مَن يَنصُرُ‌هُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ

اور اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے) صومعے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں خدا کا بہت سا ذکر کیا جاتا ہے ویران ہوچکی ہوتیں۔ اور جو شخص خدا کی مدد کرتا ہے خدا اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔ بےشک خدا توانا اور غالب ہے (Quran 22:40)

مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ

جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبا ل اُسی پر ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا

(Quran;17:15)

مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا

جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہ

.(Quran;4:85)

اگر آپ متفق ہینن تو شئیر کریں

 http://dunya.com.pk/news/authors/detail_image/x4951_12000479.jpg.pagespeed.ic.06dTBfcpfY.jpg
شائد میڈیا چینلز اور حکومت تک بات پہنچ جائے . بحر حال آپ نے اپنا فرض ادا کر دیا .
From FACEBOOK



http://takfiritaliban.blogspot.com

Saturday, November 9, 2013

Pakistani Taliban and Mullah Fazal Ullah Mullah Radio

Updates on TTP: >>>>>

Target: Pakistan: New TTP chief

WITH a single appointment, the TTP has sent across a host of unwelcome messages. First, it has signalled that its... >>>>>>>
"Jihad ? " by Taliban against Muslims and Islam 
A damaged mosque is seen at the site of a bomb attack in the Spin Tal region of Hangu district, bordering North Waziristan in October 3, 2013. (Reuters )

The divides over drones

WHAT the drone strike last week has achieved is that it has removed the recent confusion in the opposing camps in... >>>>>>>

Reality and self-delusion

HERE’S some folk wisdom from Kentucky that is good advice for sensible people: there’s no education to be had... >>>>>>

To what end?: Talks with the Taliban

THE government wanted it and the opposition has granted it, but no one has quite been able to explain any of it:... >>>>>
http://dunya.com.pk/news/authors/detail_image/x4952_23718742.jpg.pagespeed.ic.XRYcEmikDY.jpg
http://dunya.com.pk/news/authors/detail_image/x4955_17306692.jpg.pagespeed.ic.axExwU3-Zr.jpg
http://dunya.com.pk/news/authors/detail_image/x4951_12000479.jpg.pagespeed.ic.06dTBfcpfY.jpg

Wednesday, November 6, 2013

Wednesday, October 16, 2013

Who are the Khawarij in Pakistan? A critical note on TTP and their ideology


 

Read this post slowly and carefully and seek protection of Allah from Shaitan when you read this. No one will dare to tell you this in Pakistan.We Muslims of Pakistan will have to address the gravest threat to our faith, unity and ideology maturely now. We have many threats and enemies have surrounded us from all sides but the real threat is within. We will have to address and attack the Khawarij with full force. The entire nation must know who they are within the Pakistani nation.Our mission is to protect our Islamic ideology and Pakistani identity. We do not divide the millat inreligious or political sects nor we divide the Ummah on arrogance of Jahilia to divide them on ethnic, regionalor linguistic lines. We are only Muslims as an Ummah and Pakistanis as an identity within it.The biggest threat to Pakistan now is from Khawarij and their deviant murderous ideology. Indeed Khawarij are a great fitnah which our nation does not realize. Rasul Allah (sm) has advised and warned the Ummah strongly in over 100 Ahadees about Khawarij. Imam Ibn Taimiya says that Khawarij will always be present in Muslim society but you will only identify them when they pick up weapons and start to kill Muslims ruthlessly otherwise they would live like pious religious men with Quran and Salat within the Muslims. So it becomes extremely difficult to identity
Khawarij until it’s too late, when they wage their war against the Ummah.Understand this that Khawarij is NOT a sect. It is a mentality of anarchy and chaos. They are Takfiris who call Muslims as Kafirs and apply the verses of Quran on Muslims which have come for non-Muslims. They would side with Mushriks and wage war against Muslims. They would call Muslim leaders as Kafirs, Muslim state as Kafir but would never wage a war against Jews, Zionists and Hindus.They would be extremely religious with long beards and praying all night and fasting all day but they would be the "dogs of hell".

 In Muslims history, Khawarij have come from various sects in various times at various places.Sectarian differences and religious disagreements are present all over the Muslim world in entire history but they cannot be called Khawarij until they wage a war on the entire Muslim ummah and start to kill and slaughter the Muslims due to religious differences. Sects or groups can be
deviant, sinful, confused, “Gumrah” but to call them Khawarij, certain very strict conditions 
have to be met. This is critical to understand.In the past, Khawarij killed Hazrat Ali (RA). They waged a waragainst Sultan Salahuddin Ayyubi and today men like Ayman alZawahiri and Hakeem ullah mehsud are doing the same.Today, they are the TTP in Pakistan. They call Quaid e Azam as Kafir,Allama Iqbal as Kafir. Pakistan as Kafiristan and are on a mission todestroy or take over Pakistan to make it easy for the Hindus toslaughter us as they did in 1947. Khawarij are the most dangerousweapon in the hands of Hindus and Zionists.But who are the TTP and from where they have emerged? This iscritical to understand.Within the Muslims, there are many sects. Shias and Sunnis are twolarge ones but there are many sub sects within them also. For example in Pakistan, we have AsnaAshari Shias, Ismaili Shias, Ahl Hadees sect, Deobandis, Barelvis, Sufis etc. Within Sunnis, PirJamaat Ali Shah, ameer e millat was a Faqeer of Ahl sunnat wal Jamaat and the entire Muslimnation followed him to support Quaid e Azam. Raja sahib Mehmood abad and many top Muslimleague leaders were Shias and supported the Pakistan movement also. Muslim league wasformed by Sir Agha Khan, who was an Ismaili, even though in the times of Crusades andSalahuddin Ayyubi, the Ismaili sect was known to be Khawarij and Assasins but not today.
We do not approve of sectarian divides within Muslims but mentioning this just to explainour point.
 When Pakistan was created all Muslims from all sects supported Pakistan strongly except apolitical party Jamiat e Ulama e Hind from Deobandi school. They decided to side with theHindus and were thus called as Congressi Muslims in history. These are historical facts andcannot be denied. Till this day, despite the slaughter of millions of Muslims at the hands of Hindus, the Congressi Mullahs of Deoband India still support Hindus and Congress. AllamaIqbal had fiercely attacked the deobandi leader Maulvi Hussain Ahmed Madni and taunted him
harshly that they are following the path of “Abu Lahab”. Again, this entire episode is part of
Kalam e Iqbal and cannot be denied.
 Within the Deobandi school, two groups were created. One was pro-Pakistan and supportedQuaid e Azam. Other was anti-Pakistan and remain at war with Muslims to this day. MaulanaAshraf Ali Thanvi and Maulana Shabbir Ahmed usmani were blessed in this way that they brokeranks from Deoband and rebelled against JUH to join Quaid e Azam. Allama shabbir AhmedUsmani even saw Rasul Allah (sm) in his dream and Rasul Allah (sm) called Quaid e Azam ashis soldier and thus Allama Shabbir Ahmed Usmani became a loyal and faithful Deobandi to jointhe Pakistan movement. Maulana Ashraf Ali Thanvi resigned from Deoband and supported causeof Pakistan after Gandhi was invited in that Madrassa for speech. This is also a fact that whenthese two great scholars from Deoband broke ranks, they faced extreme anger, rage, resistance and humiliation from Congressi Mullahs of Deoband.
When Pakistan was created, Deoband was already divided into two camps. Pro-Pakistan Deobandi who made Pakistan their home with
love and over the years, have defended Pakistan, Pakistan’s ideology, Quaid e Azam and true Jihad in Afghanistan and Kashmir. Jamaat e Islami had also opposed Pakistan in the beginning but when Pakistan was created, they have always defended Pakistan at all levels and have even given blood for Pakistan, just like pro-Pakistan Deobandis.But, there was also a group of Congressi JUH mullahs of Deobandwho came to Pakistan and even though they still live in Pakistan,they have never accepted Pakistan as a state for Muslims. They always
speak against Pakistan’s ideology, against two nations
theory, against Allama Iqbal, call Quaid e Azam as Kafir and have now been armed by the NATO and RAW to wage war against Pakistan. They were here for the last 65 years but never had weapons, training camps and bases to start their war against Pakistanand Muslims. Now they have and thus we see this ruthless war against all Muslims
 –
against allsects, against all Pakistanis and against Pak army. TTP are anti-Pakistan deobandi gangs waging a war against Muslims and are the Khawarij of today. Their brothers and friends are present in political parties of Pakistan,in government, in media and in many deobandi scholars of Pakistan. Their militant arm is TTP but they also have many political, religious and government arms who silently spread
venom and poison against Pakistan’s ideology.
Remember the words of Mufti Mehmood, father of JUI chief Fazlur Rehman, when he said that “we were not part of the sin of making Pakistan”? This is the mentality we are talking about.

The Khawarij of today are threatening all Muslims who are opposed to suicide bombings and war against Pakistan.Majority of deobandis in Pakistan are pro-Pakistan and are NOT khawarij butare too afraid to speak against these takfiri Fasadis. Great scholars from deoband who spoke against TTP and suicide bombings have been assassinated by these Kharjis. Great scholars of Ahl-Sunnat and Barelvis,Ahl-Hadees and Shias who have spoken against TTP have also been killed.
All sects in Pakistan have spoken passively and weakly against suicide bombings but no onedares to call TTP as Khawarij, except Dr. Tahir ul Qadri but then he had to leave the country forsecurity reasons. It is the most serious responsibility of Pakistani Deoband Ulama to speak against TTP and call them Khawarij. In a religious environment divided between sects, it is important that the scholars who belong to the sect of the TTP must speak out loudest. Pakistani iDeoband ulama must also condemn the Congressi Mullahs of India of JUH and ask them to do tauba for their rebellion against Rasul Allah (sm), for supporting slaughter of Muslims at the hands of Hindus and for waging a war against Medina e Sani Pakistan, as Allama Iqbal had said clearly that they were following the path of Abu Lahab.Khawarij of TTP are the biggest threats for all Muslims of all sects. It is NOT a sectarian issue. Itis an issue of a fitnah which have risen in Pakistan and incidentally this gang of killers belong to Congressi Deobandi school. In Libya, Syria and other places, these Khawarij are from other sects also. So, again, we say, it is NOT a sectarian issue. It is a religious issue of a deviant dangerous Takfiri ideology which is attacking all Muslims today in Pakistan. Ulama of Deoband have the most highest responsibility as TTP and their likes in Pakistan belong to Deoband school of Congressi Mullahs who have always opposed Pakistan. There are political terrorists in Pakistan also like MQM, ANP, BLA etc but they are terrorists but NOT Khawarij. Rasul Allah (sm) hadclearly given definition of Khawarij which only applies to TTP today, NOT to Afghan Mujahideen, NOT to Kashmiri Mujahideen, NOT to Hamas, NOT to Chechens, NOT to Hizbullah, NOT to Iraqi resistance. The so called Al-Qaeda and TTP are the same gangs of Khawarij. Understand this clearly and fight against them or be killed at their hands.
May Allah have mercy upon our souls and protect us from the Fitnah of Khawarij. May Allah protect Pakistan, Muslims and Pak army from their sharr. May Allah destroy them at the handsof Pakistan army and bring peace in the country. Ameen Ya Rabbul alimeen.
  1. http://www.scribd.com/doc/104336098/Who-Are-Khawarij-in-Pakistan-a-crtiical-note-on-TTP-and-their-ideology
  2. URDU - http://www.scribd.com/doc/104856868/Pakistan-Ke-Khawarij-Urdu-Version 
  3. Rise of the Tehrik-i-Taliban Pakistan
  4. Illogical Logic غیر منطقی منطق of Takfiri Taliban to kill innocent people in Pakistan- Refuted
  5. The Dreadful Doctrine of Terror : Takfeer عقيدة المروعة
     

Monday, July 1, 2013

The Ostrich شتر مرغ

http://dunya.com.pk/index.php/author/muhammad-izhar-ul-haq/2013-07-01/3446/69326508#.UdE9hDssUwI

Monday, March 11, 2013

Man with Knowledge of Unseen -Rijal ul Ghaib رجال الغیب

عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ﴿٢٧﴾ لِّيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَىٰ كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا  

 وہ عالم الغیب ہے، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا (26) سوائے اُس رسول کے جسے اُس نے (غیب کا کوئی علم دینے کے لیے) پسند کر لیا ہو، تو اُس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے (27) تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے، اور وہ اُن کے پورے ماحول کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے" (28

[God] Knower of the unseen, and He does not disclose His [knowledge of the] unseen to anyone, Except whom He has approved of messengers, and indeed, He sends before each messenger and behind him observers. That he may know that they have conveyed the messages of their Lord; and He has encompassed whatever is with them and has enumerated all things in number. 

قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ 

ا ے محمدؐ! ان سے کہو، "میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے" پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟

Say: "I tell you not that with me are the treasures of Allah, nor do I know what is hidden, nor do I tell you I am an angel. I but follow what is revealed to me." Say: "can the blind be held equal to the seeing?" Will ye then consider not? (Quran;6:50)
Explanation from Tafheem ul Quran by Syed Abu Ala Modudi:
Feeble-minded people have always entertained the foolish misconception that the more godly a man is, the more liberated he should be from the limitations of human nature. They expect a godly person to be able to work wonders. By a mere sign of his hand, whole mountains should be transmuted into gold. At his command, the earth should begin to throw up all its hidden treasures. He should have miraculous access to all relevant facts about people. He should be able to point out the locations of things which have been lost, and show how they can be retrieved. He should be able to predict whether or not a patient will survive his disease; whether a pregnant woman will deliver a boy or a girl. Moreover, he should be above all human disabilities and limitations. How can a genuinely godly person feel hunger or thirst? How can he be overcome by sleep? How can he have a wife and children? How can he engage in buying and selling to meet his material requirements? How can he be impelled by force of circumstances to resort to such mundane acts as making money? How can he feel the pinch of poverty and paucity of resources? False conceptions such as these dominated the minds of the contemporaries of the Prophet (peace be on him). When they heard of his claim, in order to test his veracity they asked him regarding things that lie beyond the ken of human perception and to work wonders, and blamed him when they saw him engaged in such acts as eating and drinking, and taking care of his wife and children, and walking about the bazaars like other ordinary human beings. It is misconceptions such as these that this verse seeks to remove.
The statement of a Prophet in such matters amounts to a testimony based on first-hand observation. For the truths which a Prophet propounds are those which he himself has observed and experienced and which have been brought within the range of his knowledge by means of revelation. On the contrary, those who are opposed to the truths propounded by the Prophets are blind since the notions they entertain are based either on guess-work and conjecture or on blind adherence to ideas hallowed by time. Thus the difference between a Prophet and his opponents is as that between a man who has sound vision and a man who is blind. Obviously the former is superior, by dint of this gift of knowledge from God rather than because he has access to hidden treasures, because of his knowledge of the unseen world, and because of his freedom from physical limitations.





http://dunya.com.pk/news/authors/detail_image/2154_40172997.jpg

Read more: Sufism, mysticism >>>>

Wednesday, March 6, 2013

Talking sense?

إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ
 یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے
Verily, the worst of all creatures in the sight of God are those deaf, those dumb people who do not use their intellect.(Quran;8:22)
 لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ
جو ہلاک ہو، دلیل پر  ہلاک ہو اور جو زنده رہے، وه بھی دلیل پر زنده رہے

http://jang.com.pk/jang/mar2013-daily/06-03-2013/editorial/col3.gif

Saturday, March 2, 2013

Talks with TTP mean talks with LeJ,


While an All Parties Conference has supported talks with the Tehrik-e-Taliban Pakistan, the security establishment believes that holding a dialogue with the TTP would be like negotiating with the Lashkar-e-Jhangvi (LeJ) since there was barely any difference between the two al-Qaeda-linked groups.
They believe the two jointly plan and carry out terror strikes across Pakistan in pursuance of their common agenda — targeting the state of Pakistan and making it surrender to their whims and wishes.
A majority of mainstream parties attending the All Parties Conference (APC) organised by the Jamiat Ulema-e-Islam-Fazl (JUI-F) asked the government through a resolution to respond positively to the Taliban’s talks offer. But intriguingly enough, the APC resolution didn’t even ask the Taliban to lay down arms and renounce militancy.
On the other hand, the TTP chief, Hakimullah Mehsud, had already made it clear while extending his offer of talks in a video message: “We are willing to negotiate with the government but would not disarm.”
Well-placed sources in the security establishment say the February 28 APC was more of an attempt on part of Maulana Fazlur Rehman, Nawaz Sharif and Munawar Hassan to appease the TTP leadership which had named them as guarantors of the proposed peace talks while expressing no-confidence in the Pakistan Army.
In fact, Fazlur Rehman’s APC has overshadowed the Awami National Party’s February 14 APC in Islamabad which had resolved that attaining peace through talks should be the first priority but there will be no dialogue until and unless the Taliban lay down arms, renounce militancy and accept the supremacy of the state to show their seriousness in talks. Significantly, the 157th Corps Commanders’ conference that was also held on February 14 in Rawalpindi reportedly rejected any unconditional talks with the Taliban, as the participants argued that conceding to their demands without making them surrender would amount to admitting the defeat of the state against the al-Qaeda-linked extremists.
The security establishment is at pains to point out that the TTP has been making peace offers to the government ever since the army has revised its doctrine and declared the internal threat (from the Taliban) as the biggest threat to national security — bigger than India. Many key political leaders at JUI-F’s APC, especially Nawaz Sharif, backed talks with the Taliban and argued that if the US could talk to the Taliban in Afghanistan, why Pakistan couldn’t talk to the TTP. But according to the Khaki circles, the politicians simply ignore the hard fact that the Afghan Taliban are a political movement which had governed Afghanistan and that is still trying to fight out the ‘foreign occupation forces’ to get hold of the government in Kabul once again. On the other hand, the Khaki circles point out that the Pakistani Taliban are al-Qaeda-linked non-state actors; they neither recognise the territorial boundaries of Pakistan nor its government; they have waged an open war against the state of Pakistan and are fighting against the Pakistani security forces.
Even otherwise, the security establishment pleads, the government will have no moral justification to hold talks with the TTP when it has already ordered a major crackdown against the LeJ, which is an integral and most lethal module of the TTP. The crackdown was ordered in the wake of the brutal massacre of Shia Hazaras in Quetta, with Interior Minister Rehman Malik stating on February 24 in the federal capital that the TTP and LeJ have known links with each other. The TTP has its roots in anti-Shia violence in Pakistan and the LeJ had acted as the training ground for its chief, Hakimullah Mehsud, who is extremely sectarian and has a violently anti-Shia agenda.
As with most Sunni sectarian and militant groups, almost the entire LeJ leadership is made up of people who have fought in Afghanistan and most of its cadre strength has been drawn from Deobandi madrassas in Pakistan. Pakistani intelligence findings show that al-Qaeda has been involved with training of LeJ members, many of whom had also fought together with the Taliban against the Northern Alliance troops in Afghanistan. The LeJ was long al-Qaeda’s principal ally, even years before the emergence of the Pakistani Taliban phenomenon. After the 2001 invasion of Afghanistan, the LeJ returned to Pakistan’s tribal areas along with its al-Qaeda allies and assisted in their relocation to Pakistan.
The LeJ militants later sought to exploit the 2003 Pakistani military operation in South Waziristan to convince the Pashtun tribal Jihadi elements in the northwestern Pakistan to join forces and rebel against the state of Pakistan. This culminated in the birth of the TTP in 2005 and the subsequent insurgency against the state that began in 2006, with LeJ serving as a significant nexus between al-Qaeda and the TTP. The Punjabi militants of LeJ, who were an essential segment within the Punjabi Taliban landscape, actually played a significant role in founding the TTP, with key TTP leaders and associates of Baitullhah Mehsud coming from the LeJ, especially Hakimullah Mehsud, Qari Hussain Mehsud, Mattiur Rehman, etc.
Both the LeJ and TTP are anti-Shia and anti-US and they employ similar tactics — mainly suicide bombings and fidayeen attacks — to achieve their targets. Their motives and objectives are also the same — targeting the state institutions, law enforcement agencies, secular liberal political leadership, the Shia community as well as the Western interests in Pakistan. Both the groups are al-Qaeda-linked and have jointly launched numerous terrorist attacks against the Pakistani military installations while using highly-trained al-Qaeda militants from Central Asia and Middle East.
Like the TTP, the LeJ has not only been implicated in terrorist attacks in Pakistan, it has been found involved in conducting terrorist operations across the border in Afghanistan. Afghan President Hamid Karzai had accused the LeJ (on December 7, 2011) of having carried out the massacre of over 55 Shias in Afghanistan on the 10th of Muharram. His claim was eventually confirmed by none other than the LeJ by claiming responsibility of the attack.
Some of the major coordinated terrorist attacks jointly carried out by the TTP and LeJ in Pakistan include the December 2007 assassination of Benazir Bhutto in Rawalpindi (claimed by al-Qaeda, saying the operation was carried out by LeJ men); the September 2008 suicide attack that destroyed Marriott Hotel in Islamabad (meant to avenge the death of TTP founder Baitullah Mehsud); the May 2009 fidayeen attack on the General Headquarters of the Pakistan Army (with the ring leader being an LeJ militant Aqeel alias Usman); the March 2009 attempt to hijack a bus in Lahore carrying the Sri Lankan cricket team (to seek the release of the LeJ’s Malik Ishaq); the March 2010 twin suicide bombing targeting the ISI offices in Lahore (to avenge the death of LeJ’s Qari Zafar); the May 2011 fidayeen attack on the PNS Mehran naval base in Karachi (which destroyed two surveillance aircraft and killed 15 security forces men); the August 2012 fidayeen attack on Kamra Air Base (which destroyed a Saab-2000 aircraft fitted with an Airborne Early Warning system); and the December 2012 fidayeen attack on a PAF Base inside the Bacha Khan International Airport in Peshawar (which killed five security forces personnel).
http://images.thenews.com.pk/02-03-2013/ethenews/t-21315.htm