Featured Post

National Narrative Against Terrorism دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ تاریخی فتویٰ ’’پیغام پاکستان‘‘

National Narrative Against Terrorism دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ تاریخی فتویٰ ’’پیغام پاکستان‘‘ تمام مسالک ک...

Sunday, November 24, 2019

Norway Terror - Quran burning ناروے میں توہین قرآن - دہشت گردی



ناروے میں قرآن کو جلنے سے بچانے والے عمر نے اب دوسرا حملہ کیا ہے، پر زور، پر تاثیر! مجھے نہیں معلوم نتائج کے اعتبار سے عمر کا کون سا حملہ زیادہ موثر ثابت ہوگا۔ عمر نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک طویل تحریر پیش کی ہے۔
SIAN called this demonstration “SIAN Stand in Kristiansand – Burning the Qur’an”, and had made clear in advance that their plan was exactly that – to burn the Qur’an. Our local politicians responded by demanding a reassessment of the demonstration, and they withdrew the permit. The reactions were everything from extreme happiness, to people accusing the politicians and the police to ignore the freeedom of speech. It turned out to be a huge discussion, and it all ended up with SIAN getting their permission to demonstrate, but any use of open fire was prohibited for security reasons. The police also made a very clear statement that if they still tried to burn the Qur’an, they would stop the demonstration immediately. This made us confident that the police would intervene if they still tried to set fire to the Qur’an. It made us feel calm and safe.
When SIAN was setting up for their demonstration, they put the Qur’an on a disposable grill. This was removed by police before the demonstration started. Several flags and tabs that counter-protesters had included were removed as they could potentially pose a danger if riots were to occour. An understandable assessment. We feel confident that the police will take the demonstration seriously and that the police are in control. Even after SIAN-leader Arne Tumyr tells the media the same morning that despite the ban on open fire, they have a plan B, we feel calm.
The police had assured us that they would intervene. Keep reading >>>>>

یہ اس کے اس واقعہ کے حوالے سے جذبات ہیں، یہ وہ مقدمہ ہے جو عمر نے مغربی دنیا کے سامنے بطور مسلمان رکھا ہے۔ اس نے بالاصرار کہا کہ کوئی دوسرا موقع آیا تو وہ پھر یہی دہرائے گا، اسے اس پر کوئی ندامت نہیں، بلکہ وہ یہی کرے گا اگر قرآن کی جگہ کوئی دوسری مقدس کتاب نذرِ آتش کرے۔ اس نے کہا شام میں، لبنان میں اور یہاں ناروے میں ،وہ عیسائیوں ، بت پرستوں، شیطان کے پیروکاروں اور ملحدوں کے ساتھ رہ چکا ہے، وہ دوسروں کے خیالات کا احترام کرنا جانتا ہے، وہ مذہب پر تنقید کا حامی ہے، تاہم تنقید اور تضحیک میں فرق قائم کرنا ہوگا۔ اس نے کہا، سات سیکنڈ تک وہ پولیس کا انتظار کرتے رہے، ساتویں سیکنڈ میں اس کا ساتھی اور نویں سیکنڈ میں خود عمر نے لائن کراس کرکے جمپ کیا، اس نے کہا پولیس کے کہنے پر وہ پر اعتماد تھے کہ نوبت یہاں تک نہ آئے گی، اس نے کہا، ہم نے برداشت کیا، وہ تمام نعرے جو اسلام ،پیغمبرِ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس تنظیم نے اس مظاہرے کے موقعے پر لگائے۔ وہ دہرائے نہیں جا سکتے۔ بہرحال ضبط کیا گیا، اس وقت بھی جب مقدس کتاب کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ نو سیکنڈ! اس کا کہنا ہے ہم تب بھی پر اعتماد تھے کہ پولیس پیش قدمی کرے گی۔ وہ مگر آگے نہ بڑھی ،جب تک ہم نہ بڑھے، عمر لکھتا ہے، ہم جارح اور متشدد ہر گز نہیں، البتہ ہم بتانا چاہتے تھے کہ یہ کتاب ہمارے لیے کیا معنی رکھتی ہے، ہر چیز سے بڑھ کر ،ہر چیز سے بیش قیمت۔ اس نے کہا کورٹ میں ہم مقدمہ لڑیں گے، جرمانہ نہیں دیں گے، کہ یہ بنتا نہیں، لیکن اگر سزا بھی ملی تو بھگتیں گے، یہی جمہوری طرزِ عمل ہے۔ عمر کو احساس ہے کہ اس ایک واقعہ سے ناروے میں پناہ گزینوں پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ عمر نے ناروے کے عوام کا شکریہ ادا کیا،جو ان کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ یہ پوری تحریر اہم ہے، پڑھنے اور سیکھنے کےلائق، دراصل عمر نے جس طرح اپنے اس فعل کا مقدمہ لڑا یہ کسی بھی وکیل کی سی مہارت کا مظہر ہے۔ مجھے نہیں معلوم عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے مگر دنیا اس تحریر کے اثرات محسوس کیے بنا نہ رہ سکے گی۔
اچھی بات یہ ہے کہ یہ تحریر انگلش میں ہے،دنیا بھر کے سامنے یہ شاندار مقدمہ پیش کیا گیا ہے، اس میں ہم پاکستانیوں کے لیے بھی سیکھنے کا بہت کچھ ہے۔اس تحریر کا ترجمہ ہو جانا چاہیے، اس وقت اس سے بڑھ کر کوئی کام ضروری نہیں ہو سکتا۔ اس وقت اس معاملے میں پاکستانیوں کی اس تحریر سے بڑھ کر کسی چیز سے رہنمائی نہیں کی جا سکتی۔
(نوٹ: مکمل تحریر کا لنک کمنٹ میں دے دیا گیا ہے۔) منقول
https://dialoguetimes.com/why-i-did-this-omer-dabaa/ 

This is straight terrorism, the Holocaust Denial is a crime to pretect sentiments of 20 million Jews but Quran blasphemy is  allowed by Norway police disregarding sentiments of 1.5 billion Muslims. This is racism, bigotry, terrorism ....  
----------------------------

اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾
ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔ (سورة الحجر 15 آیت: 9)

قرآن کی حفاظت کا ذمہ الله نے لیا ہے … کفار جو کچھ بھی کر لیں سوائے ذلت و رسوائی کے ان کو کچھ نہ ملے گا - اگر آج بھی تمام دنیا کی تمام کتابیں ختم ہو جائیں تو لاکھوں حفاظ قرآن جو کہ1.5ارب مسلمانوں کے ہر شہر گاوں میں ہر عمر کے لوگوں بچوں نوجوانوں بوڑھوں پر مشتمل ہیں بیٹھ کر ہر گاووں شہر میں قرآن لکھ لیں گے- دنیا میں قرآن کی لاکھوں کاپیاں وجود میں آ جائیں گی … ایسا دعوای کوئی کتاب نہیں کر سکتی -- یہ صرف ایک معمولی ثبوت ہے کلام الله کا ---
یہ جو کفارما یوس ہو کر گھٹیا حرکتیں کر تے ہیں یہ ہماری آزمائش ہے کہ ہم قرآن سے اپنی محبت کا اظھار کیسے کرتے ہیں … اصل محبت، قرآن کی تعلیمات پر عمل ہے … شروع کریں >>>

Related :

Jihad, Extremism