شریعت نافذ نہ کرنے والا حکمران اور دائرئہ اسلام!
عراق کے شہر کوفہ کی جامع مسجد میں حضرت علیؓ کے گھر کا دروازہ کھلتا تھا۔ امیر المؤمنین یہیںسے مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے۔ سترہ رمضان کو جب آپ فجر کی نماز پڑھانے گھر کے دروازے سے مسجد میں داخل ہوئے اور انہیں دیکھتے ہی نماز کے قیام کی تکبیر بلند ہوئی تو شبیب ملعون نے تلوار کا وار کر دیا۔ امیرالمؤمنینؓ گر پڑے تو ملعون ابن ملجم مرادی تیزی سے آگے بڑھا،حملہ آور ہوا تو حضرت علیؓ کے سر مبارک اور ماتھے پر تلوار کا وار پڑا۔ حملہ کرتے ہوئے ملعون نے جو جملہ کہا وہ قابل غور ہے۔ کہنے لگا: ''اَلْحُکْمُ لِلّٰہِ لَا لَکَ یَا عَلِیْ وَلَا لِاَصْحَابِکَ‘‘ اے علی حکم اللہ کا ہے، نہ تیرا ہے اور نہ تیرے ساتھیوں کا ہے (تاریخ ابن خلدون ج 2ص 617) قارئین کرام! غور فرمایئے! حضرت علیؓ نبوی راستے پر قائم خلیفہ راشد ہیں۔ ان کی حکمرانی میں کامل طور پر شریعت کا قانون نافذ تھا۔ اس کے باوجود اس دور کے خارجیوں نے ان پر معاذ اللہ، اللہ کی حاکمیت سے نکل جانے کا الزام عائد کر دیا اور کفر کا فتویٰ لگا کر گردن زدنی قرار دے دیا اور پھر شہید کرتے ہوئے اپنے تکفیری اور خارجی نظریے کے حامل نعرے کا اعلان بھی کر دیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ باقی حکمرانوں کی ان کے ہاں کیا حیثیت ہو گی؟ خاص طور پر آج کے مسلم حکمرانوں کو ایسے خارجی لوگ کیا سمجھیں گے، بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اب ہم ان کی گمراہ سوچ کا جائزہ لیں گے کہ کتاب و سنت کی روشنی میں ایسی رائے اور سوچ کی کیا حیثیت ہے؟
سب سے پہلے ہم ان آیات کا ترجمہ لکھ رہے ہیں، جن کو سامنے رکھتے ہوئے خارجی ذہنیت کے لوگ مسلمان حکمرانوں کو کافر قرار دے کر دائرئہ اسلام سے خارج کرتے ہیں اور پھر مرتد ہو جانے کا فتویٰ لگا کر گردن زدنی قرار دیتے ہیں، پھر بغاوت کرتے ہوئے عسکری گروپ تشکیل دیتے ہیں اور حملے کر کے ارتداد کی سزا دیتے ہوئے خوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے قرآن پر عمل کر دیا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں: اور جو لوگ اللہ کے اتارے ہوئے احکامات کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی کافر ہیں۔ (المائدہ: 44) اسی طرح اگلی آیت میں اللہ نے ایسے لوگوں کو ظالم قرار دیا اور پھر اسی سورت کی آیت نمبر 47میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو فاسق قرار دیا۔
قارئین کرام! سورۃ المائدہ جس میں مندرجہ بالا تین آیات موجود ہیں وہاں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں اور مسیحی لوگوں کا تذکرہ کیا ہے اور ان پر اتاری گئی الہامی کتابوں تورات اور انجیل کا ذکر فرمایا ہے۔ ان آیات کی شرح اور تفسیر میں بخاری اور مسلم کی جو احادیث ہیں، مفسرین نے ان کا تذکرہ کیا ہے۔ ہم طوالت کے خوف سے وہ احادیث درج نہیں کر رہے۔ مفسرین نے ان کا ذکر کر کے یہی بتلایا ہے کہ یہودیوںنے رجم کی سزا کو بھی بدل دیا تھا اور قتل کے بدلے میں دیت کی رقم میں بھی امتیاز قائم کر دیا تھا کہ طاقتور اگر کمزور قبیلے کے شخص کو قتل کر دیتا تو دیت یعنی خون بہانے کی رقم آدھی لی جاتی تھی اور اگر کمزور کے ہاتھوں طاقتور قبیلے کا آدمی قتل ہو جاتا تو خون بہا یعنی دیت کی پوری رقم وصول کی جاتی تھی۔ یہ طرزِ عمل تورات میں درج قانون کے صریحاً خلاف تھا لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ایسی تبدیلی کرنے والوں کو کافر، ظالم اور فاسق کہا اور یہ تبدیلی کرنے والے یہودونصاریٰ کے علماء اور حکمران تھے۔ نیز ان کے کفر کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ تو یہ تھی کہ تورات اور انجیل میں حضرت محمد کریمﷺ کا واضح ذکر تھا کہ آپ آخری رسولؐ ہیں، اس کے باوجود ان لوگوں نے تورات اور انجیل کی بات کو نہیں مانا اور اس سلسلے میں بھی تبدیلی اور تحریف کی اور حضورؐ کی نبوت و رسالت کا انکار کر دیا۔ یہ تھا ان کے کفر کا اصلی اور بنیادی سبب۔ چنانچہ اللہ کے رسولؐ کے معروف صحابی حضرت براء بن عازبؓ واضح کرتے ہیں کہ کافر، ظالم اور فاسق قرار دینے والی تینوں آیات کا تعلق ''ہی فِی الْکُفَّارِ کُلِّھَا‘‘ سب کا سب غیر مسلم لوگوں سے ہے۔ (مسند احمد: 18724)
قارئین کرام! مندرجہ بالا تینوں آیات کی تفسیر معلوم کرنے کے لئے جب ہم نے تفسیر ابن کثیر کو دیکھا تو امام ابن کثیر رحمہ اللہ آگاہ فرماتے ہیں کہ بڑے بڑے صحابہؓ جن میں حضرت براء بن عازب، حضرت حذیفہؓ بن یمان اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ جیسے مفسر کہ جن کے فہم قرآن میں اضافہ کے لئے اللہ کے رسولؐ نے دعا فرمائی وہ سب یہی فرماتے ہیں کہ کافر والی آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ بعد کے مفسرین اور موجودہ دور کے نامور مفسرین بھی اپنی تفاسیر میں اسی مؤقف کا اظہار کرتے اور لکھتے نظر آتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ مزید فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کو ماننے سے انکارکر دے اس نے کفر کیا اور وہ حکمران جو اقرار کرتا ہے مگر اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلے نہیں کرتا، تنقید نہیں کرتا، وہ ظالم اور فاسق ہے۔ ثابت ہوا موجودہ حکمران جو شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، تنفیذ نہیں کرتے، وہ گنہگار ہیں۔ ظلم کا ارتکاب تو کرتے ہیں، فسق یعنی گناہ سے دوچار تو ہوتے ہیں مگر مسلمان ہیں۔ خارجی لوگ یا خارجی ذہنیت سے متاثر لوگ جو ایسے گنہگار حکمرانوں کو کافر قرار دیتے ہیں وہ جہالت، لاعلمی اور حماقت کا اظہار کرتے ہیں۔ اور خارجیوں کا طرز عمل یہی ہے کہ وہ مسلمانوں کو گناہوں کی وجہ سے کافر قرار دے دیتے ہیں اور دائرئہ اسلام سے فوراً باہر کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح بخاری میں آگاہ کرتے ہیں کہ وہ آیات جو کافروں سے متعلق ہیں بعض لوگ ان آیات کو مسلمانوں پر لاگو کر دیتے ہیں اسی سے فتنہ پیدا ہوتا ہے۔
قارئین کرام! قرآن و حدیث کے مطابق اسلاف کا طریقہ یہ ہے کہ گناہ گار مسلمان حکمرانوں کو نصیحت کی جائے، ان کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انہیں سمجھایا جائے، اللہ کا خوف دلایا جائے۔ آج کے دور میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پرامن احتجاج کر لیا جائے، کالم اور کتابیں لکھی جائیں، ملاقات کر کے اپنا فرض ادا کیا جائے جیسا کہ قیام پاکستان کے بعد ہمارے علماء کرتے آئے ہیں لیکن کفر کے فتوے لگانا، بغاوت کرنا اور عسکری گروپ بنا کر حملے کرنا یہ خارجیت ہے اور دہشت گردی کی بدترین روش ہے۔ یہ بغاوت ہے اور اسے کچلنا اور اس کی سرکوبی کرنا مسلمان حکمرانوں کی ڈیوٹی ہے، شرعی فریضہ ہے۔ وہ یہ شرعی فریضہ ادا نہ کریں گے تو گناہ گار ہوں گے۔ مسلمانوں کی ریاست، ان کی حفاظت اور جان ومال سب فتنے سے دوچار ہو جائیں گی لہٰذا ضرب عضب بالکل درست فیصلہ ہے۔ اس فیصلے سے خارجی فتنے کا قلع قمع ہوا ہے۔ دنیا میں میاں نوازشریف اور پاک فوج کے سالار راحیل شریف کے کردار کو نیک نامی ملی ہے
- See more at: http://dunya.com.pk/index.php/author/ameer-hamza/2016-01-22/14107/50330002#tab2