Featured Post

National Narrative Against Terrorism دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ تاریخی فتویٰ ’’پیغام پاکستان‘‘

National Narrative Against Terrorism دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ تاریخی فتویٰ ’’پیغام پاکستان‘‘ تمام مسالک ک...

Tuesday, December 24, 2013

ردِّ بدعات ومنکرات Bidah, Prohibition of Inovations in Islam

خانہ ساز تاریخ کی ستم ظریفی بلکہ سنگدلی یہ ہے کہ ان پر شرک وبدعت اور فروغِ منکرات کی پھبتی کسی گئی، طَعن وتَشنیع کا نشانہ بنایا گیا، لیکن یہ سب اِتِّہامات واِلزَامات محض مفروضوں کی بنیاد پر عائد کیے گئے ، نہ کوئی حوالہ دیا گیا اور نہ ہی اُن کے فتاویٰ اور تصانیف کو پڑھنے کی کوشش کی گئی۔ بقولِ شاعر ؎

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے

امام احمد رضا قادری نَوَّراللہ مَرقدَہٗ کثیرالجہات،جامع العلوم اورجامع الصفات شخصیت تھے۔ وہ اپنے عہد کے عظیم مُفسِّر ، محدِّث ، فَقِیہ ،مُتَکلّم، مؤرّخ اور مُصلح تھے

اہلسنت وجماعت کو قبوری، قبر پرست اور قبروں کو سجدہ کرنے والے کہا جاتارہا ہے ،امام احمد رضاقادری لکھتے ہیں:''مسلمان ! اے مسلمان!اے شریعتِ مصطفوی کے تابعِ فرمان! جان کہ سجدہ حضرتِ عزّتِ جلّ جلالہٗ کے سوا کسی کے لیے نہیں ، اس کے غیر کو سجدۂ عبادت تو یقیناً اجماعاً شرکِ مہین وکفر مبین اور سجدۂ تَحِیَّۃ (تعظیمی) حرام وگناہِ کبیرہ بالیقین ، اِس کے کفر ہونے میں اِختلافِ عُلمائِ دین، ایک جماعتِ فُقہاء سے تکفیر منقول‘‘۔
سجدۂ عبادت تو بہت دور کی بات ہے ، اُنہوں نے سجدۂ تعظیمی کے حرام ہونے پر قرآن وسنت کی نُصوص سے استدلال کرکے ''اَلزُّبْدَۃُ الزَّکِیَّہ فِی حُرْمَۃِ السَّجْدَۃِ التَّحِیََّۃ‘‘ کے نام سے ایک باقاعدہ رسالہ لکھا ۔ امام احمد رضانے فقہِ حنفی کے مُسلّمہ فتاویٰ واَئِمَّۂ اَحناف کے حوالے سے لکھا:''عالموں اور بزرگوں کے سامنے زمین چُومنا حرام ہے اور چُومنے والا اور اِس پر راضی ہونے والا دونوں گناہگار ، کیونکہ یہ بت پرستی کے مُشابِہ ہے‘‘۔ مزید لکھتے: ہیں '' زمین بوسی حقیقۃً سجدہ نہیں کہ سجدے میں پیشانی رکھنا ضرور ہے ، جب یہ اس وجہ سے حرام اور مُشابِہِ بت پرستی ہوئی کہ صورۃً قریبِ سجود ہے ، تو خود سجدہ کس درجہ سخت حرام اور بت پرستی کا مُشابہ ِ تامّ ہوگا ، وَالْعَیَاذُبِاللّٰہ تَعَالٰی ‘‘ ۔ 
مزید لکھتے ہیں:'' مزارات کو سجدۂ (تعظیمی) یااس کے سامنے زمین چومنا حرام اور حدِّ رکوع تک جھکنا ممنوع ‘‘، اولیائِ کرام کے مزارات کی بات تو چھوڑیے ،وہ لکھتے ہیں :'' زیارتِ روضۂ انور سیدِ اطہر ﷺ کے وقت نہ دیوارِ کریم کو ہاتھ لگائے، نہ چُومے، نہ اُس سے چمٹے، نہ طواف کرے، نہ زمین کو چومے کہ یہ سب بدعتِ قبیحہ ہیں‘‘۔ شَرحِ لُباب کے حوالے سے لکھا:'' رہا مزار کو سجدہ، تووہ حرامِ قطعی ہے، تو زائر جاہلوں کے فعل سے دھوکہ نہ کھائے بلکہ علمائِ باعمل کی پیروی کرے ، مزار کو بوسے میں (علماء کا )اختلاف ہے اور چُھونا، چِمٹنا اِس کے مثل،اَحوَط(یعنی شریعت کا محتاط ترین حکم) منع اور عِلّت(یعنی ممانعت کا سبب ) خلافِ ادب ہونا‘‘۔ فقہی حوالے کے ساتھ مزید لکھا:'' مزار کو سجدۂ (تعظیمی) تو درکنار، کسی قبر کے سامنے اللہ عزّ وجل کو سجدہ جائز نہیں،اگر چہ قبلے کی طرف ہو (یعنی یہ بت پرستی کے مشابہ ہے)، قبرستان میں نماز مکروہ ، کہ اس میں کسی قبر کی طرف رُخ ہوگا اور قبر کی طرف نماز مکروہ ہے ، البتہ قبرستان میں مسجد یا نماز کی جگہ بنی ہو تو اس میں حرج نہیں ہے۔ قبر کی اونچائی کی بابت ان سے سوال ہواتولکھا:''خلافِ سنت ہے، میرے والدِ ماجد، میری والدۂ ماجدہ اور بھائی کی قبریں دیکھیے، ایک بالشت سے اُونچی نہ ہوںگی‘‘۔
امام احمد رضاقادری سے مزاراتِ اولیاء کرام کے طواف کی بابت سوال ہواتو اُنہوں نے لکھا:''بلاشبہ غیرکعبۂ مُعَظّمَہ (بشمول روضۂ رسول)کا طوافِ تعظیمی ناجائز ہے اورغیر خداکو (تعظیماً ) سجدہ ہماری شریعت میں حرام ہے اور بوسۂ قبر میں علماء کو اختلاف ہے اورمحتاط ترین قول ممانعت کاہے،خصوصاً مزاراتِ طیّبہ اولیائے کرام کہ ہمارے علماء نے تصریح فرمائی کہ کم ازکم چار ہاتھ کے فاصلے پرکھڑاہو،یہی ادب ہے،پھر تَقبِیل(چومنا) کیسے مُتصَوّر ہوسکتاہے، یہ وہ ہے جس کا فتویٰ عوام کودیاجاتاہے اور تحقیق کا مقام دوسراہے‘‘ ۔
امام احمد رضا سے سوال ہواکہ بعض وظائف میں آیات اور سورتوں کو مَعکوس (اُلٹ) کرکے پڑھنا کیساہے ؟اُنہوں نے فرمایا:''حرام اور اَشدّ حرام ،کبیرہ اور سخت کبیرہ (گناہ )،کفرکے قریب ہے،یہ تودرکنارسورتوں کی صرف ترتیب بدل کر پڑھنا ،اِس کی نسبت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : کیاایسا کرنے والا ڈرتانہیں کہ اللہ اس کے قلب کو اُلٹ دے ،چہ جائیکہ آیات کو بالکل معکوس (اُلٹ ) کرکے مُہمل(بے معنیٰ) بنادینا‘‘۔
آج کل جاہل پیرومُرشِد بنے ہوئے ہیں،دین کے علم سے بے بہرہ ہیں،اپنی جہالت کا جواز اِس طرح کی باتیں بناکر پیش کرتے ہیں کہ طریقت باطنی اور روحانی اَسرارورمُوزکا نام ہے،علماء توصرف الفاظ اورظاہرکو جانتے ہیں،اُن کے دل نورسے خالی ہیں،گویا طریقت اور شریعت کو ایک دوسرے کی ضد قراردیتے ہیں،امام احمد رضا قادری نے لکھا: ''شریعت اصل ہے اورطریقت اُس کی فرع،شریعت مَنبع ہے اورطریقت اس سے نکلاہوا دریا،طریقت کی جدائی شریعت سے مُحال ودشوارہے،شریعت ہی پرطریقت کا دَارومَدَارہے ،شریعت ہی اصل کاراورمَحَکّ ومعیار ہے،شریعت ہی وہ راہ ہے جس سے وصول اِلَی اللہ ہے ،اس کے سوا آدمی جوراہ چلے گا، اللہ تعالیٰ کی راہ سے دور پڑے گا ،طریقت اس راہ کا روشن ٹکڑا ہے،اِس کا اُس سے جداہونا محال ونامناسب ہے۔طریقت میں جوکچھ منکشف ہوتاہے،شریعتِ مُطہرہ ہی کے اِتّباع کا صدقہ ہے،جس حقیقت کو شریعت رَد فرمائے،وہ حقیقت نہیں،بے دینی اورزَندقہ ہے‘‘۔امام احمد رضا قادری سے پوچھاگیا کہ ایک شخص شریعت کا عامل نہیں ہے،اَحکامِ شریعت کا تارک ہے،اُس کا مُؤاخَذہ کیاجائے توکہتاہے:''اَحکامِ شریعت تووصول الی اللہ کا ذریعہ ہیںاورمیں تو واصل ہوچکا ہوں،یعنی منزلِ حق پرپہنچا ہواہوں،لہٰذا میں اب اَحکام کا مُکلّف(جواب دہ ) نہیں ہوں،اُنہوں نے امام الصوفیاء حضرت عبدالوہاب شعرانی اورسیّدُ الطائفہ جنید بغدادی رحمہما اللہ تعالیٰ کے حوالے سے بتایاکہ:''ہاں! واصل (پہنچاہوا)توضرور ہے مگر جہنم میں‘‘۔مزید لکھتے ہیں: '' صوفیائے کرام فرماتے ہیں :صوفیِ بے علم مسخرۂ شیطان اَست۔ وہ جانتاہی نہیں شیطان اُسے اپنی باگ ڈور پر لگالیتاہے،حدیث میںارشاد ہوا:'' بغیر فقہ کے عابد بننے والا ایساہے جیسے چکی میں گدھا ‘‘ کہ محنتِ شاقّہ کرے اورحاصل کچھ نہیں ‘‘۔
لغت میں بدعت ہرنئی چیزکو کہتے ہیں اوراصطلاح شرع میں ''دین میں ایسی چیز اختراع کرناجس کی اصل دین میں نہ پائی جائے،بدعت ہے،یعنی ہروہ چیز جوکسی دلیلِ شرعی کے مُعارِض (مُتصادم) ہو،بدعت ِ شرعیہ ہے‘‘۔
امام احمد رضا سے سوال ہواکہ کیا فلاحِ آخرت کے لیے مُرشِد ضروری ہے،اُنہوں نے جواب میں لکھا کہ یہ ضروری نہیں ہے،ایک مُرشِد عام ہوتاہے،فلاح ظاہر ہو یا فلاحِ باطن ،اس مُرشِد سے چارہ نہیں،جواس سے جداہے،بلاشبہ کافر ہے یا گمراہ اور اس کی عبادت تباہ وبرباد۔اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرمایا: عوام کارہنما۔۔۔کلامِ عُلماء ، علماء کا رہنما۔۔۔ کلامِ اَئِمَّہ ،اَئِمَّہ کا رہنما۔۔۔ کلام ِرسول اور رسول اللہ کا رہنما۔۔۔ کلام اللہ عَزَّوَجلّ ۔ شیخ ایصال اور مُرشِد کامل کے لیے انہوں نے چارکڑی شرائط بیان کی ہیںجن پر لفظاً ومعناً پورااترنا ہرایک کا منصب نہیں ہے ۔اس لیے اُنہوں نے بیعت کا معنی ومفہوم،بیعت کی اقسام ثلاثہ یعنی بیعتِ برکت،بیعتِ ارادت اور بیعتِ منفعت اوران کی تفصیل اوراَحکام بیان کیے ہیں،جن کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ماہِ صفرالمظفرکے آخری بدھ کے بارے میں لوگوں میں رائج رسومات کی بابت لکھتے ہیں:''آخری چہارشنبہ کی کوئی اصل نہیں،نہ اس دن صحت یابی حضور سید عالم ﷺ کا کوئی ثبوت بلکہ مرض اقدس جس میں وفات مبارکہ ہوئی،اس کی ابتدا اسی دن سے بتائی جاتی ہے اورایک حدیث مرفوع میں آیاکہ ''ابتدائی اِبتَلائے سیدنا ایوب علیہ الصلوٰۃ والسلام اِسی دن تھی اور اسے نَحِس سمجھ کر مٹی کے برتن توڑدینا گناہ اور مال کا ضائع کرناہے۔ بہرحال یہ سب باتیں بے اصل وبے معنی ہیں‘‘۔ 
پیرزادہ علامہ سید محمد فاروق القادری رحمہ اللہ تعالیٰ نے ''فاضلِ بریلوی اوراُمورِ بدعات‘‘کے عنوان سے ایک گرانقدرکتاب تالیف مرتب کی ہے،علمی ودینی ذوق رکھنے والوں کواس کا بغورمطالعہ کرنا چاہیے۔

Monday, December 9, 2013

جہاد اور جماعت اسلامی Jihad, Modudi and Jamat Islami


سید منور حسن کے اس دھماکہ خیز بیان کے بعد کہ ریاست کے باغی حکیم اللہ محسود کو شہید کی حیثیت حاصل ہے‘ ایک بلاوجہ کی بحث چھڑ گئی۔ مناسب ہوتا کہ سید صاحب اپنے دلخراش بیان سے رجوع فرما لیتے۔ لیکن جماعت اسلامی کا زیادہ تر ریکارڈ یہی ہے کہ یہ عوام الناس کے عمومی رحجان کے خلاف موقف اختیار کرتی ہے اور پھر اکثریت کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے کبھی عوام میں مقبولیت حاصل نہیں ہوئی اور اس نے کبھی کوئی الیکشن نہیں جیتا ۔ سید صاحب نے ایک ایسے وقت میں تکلیف دہ بیان جاری کیا جب کہ پاک فوج اپنے وطن اور عوام کی حفاظت کے لئے باغیوں اور عوام دشمنوں کے خلاف برسرپیکار ہے اور پاکستان میں سرگرم دہشت گردوں کی سب سے بڑی تنظیم کے سربراہ کی امریکی ڈرون کے حملے میں ہلاکت کو شہادت قرار دے ڈالا۔ اس بات کا موقع محل سے کوئی تعلق نہیں۔ عوام اپنی فوج اور ریاست کے باغیوں کے بارے میں واضح خیالات رکھتے ہیں۔ انہیں ایک نئی بحث میں الجھانے کا مطلب صرف ایک ہو سکتا ہے کہ بے گناہ شہریوں کی شہادتوںاور وطن کی حفاظت کے لئے عوام کے اندر جو یکجہتی پائی جاتی ہے‘ اس کی جگہ انتشار پھیلایا جائے اور ظاہر ہے انتشار کا فائدہ ہمیشہ دشمن اٹھاتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان محمد نوازشریف کو داد دینا پڑے گی کہ فوج کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر سید صاحب نے جو زخم لگایا تھا‘ انہوں نے بلاتاخیر اس پر مرہم رکھنے کے لئے شہدا کی یادگار پر پھول چڑھائے اور دعا مانگی۔ جنرل کیانی ان کے ساتھ تھے۔ وزیراعظم کی اس بروقت حاضری نے لاکھوں شہیدوں کے پسماندگان اور ساتھیوں کے شکستہ دلوں کو پھر سے مضبوط کیا۔ ان کے ماند پڑتے حوصلوں کو تقویت دی اور اسلام کے نام پر گمراہی پھیلانے کی جو کوشش کی جا رہی تھی‘ اسے مٹی میں ملا دیا۔ نوازشریف کے بروقت اقدام نے اس زہریلے بیان کے اثرات ماند کر دیئے‘ جو محض دلوں کو دکھانے کے اذیت پسندانہ طرزعمل کا نتیجہ تھا۔ یہاں پر مجھے قاضی حسین احمد بہت یاد آئے۔ جماعت اسلامی کی زندگی میں اگر اسے کبھی منتخب ایوانوں میں قابل ذکر نشستیں ملیںیا شریک اقتدار ہونے کا وقت آیا‘ تو یہ سارے واقعات قاضی حسین احمد مرحوم کے زمانے میں ہوئے۔ وہ ہمیشہ عوامی رحجانات کا لحاظ رکھتے۔ شدید مخالفانہ بیانات کے جواب میں انتہائی شائستگی سے کام لیتے۔ یہاں تک کہ جو مولانا فضل الرحمن آج جماعت اسلامی سے دوردور رہتے ہیں‘ ان کے ساتھ متحدہ محاذوں میں شامل رہے اور مخلوط حکومتوں میں بھی شرکت کی۔ اب میں ایک تاریخی انٹرویو کا حوالہ پیش کروں گاجو سید ابوالاعلیٰ مودودی نے 17اگست 1948ء کو دیا تھا۔ جب قائد اعظمؒ حیات تھے۔ یہ انٹرویو جماعت اسلامی کے ترجمان سہ روزہ ’’کوثر‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ کل ایک کالم میں اس کا سرسری سا ذکر آیا۔ آج میں ریاست کے باغیوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے بارے میں مولانا مودودی مرحوم کے خیالات نقل کر تے ہوئے ان کے جانشینوں کو کچھ یاد دلانا چاہتا ہوں۔ مولانا سے سوال ہوا تھا کہ ’’ایک ذمہ دار خطیب نے آپ پر الزام عائد کیا ہے کہ آپ نے کشمیر میں شہید ہونے والوں کی موت کوحرام قرار دیا اور انہیں جہنمی کہا۔ کیا واقعتا ایسا ہے؟‘‘ جواب تھا’’یہ بات میں نے کبھی نہیں کہی۔ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ جب تک حکومت پاکستان نے حکومت ہند کے ساتھ معاہدانہ تعلقات قائم کر رکھے ہیں‘ پاکستانیوں کے لئے کشمیر میں‘ ہندوستانی فوجوں سے لڑنا ازروئے قرآن جائز نہیں۔ میرے اس قول کو لے کر ایک منطقی ہیرپھیر کے ذریعے یہ نتیجہ نکال لیا گیا ہے کہ جب ایسا کرنا جائز نہیں‘ تو جو لوگ وہاں لڑ کر مارے جاتے ہیں‘ وہ ضرور حرام موت مرتے ہیں اور جہنمی ہیں۔ پھر اپنے نکالے ہوئے اس نتیجے کو زبردستی مجھ پر تھوپ دیا گیا کہ یہ میرا قول ہے۔یہ دراصل تکفیر بازوں کا پرانا حربہ ہے کہ کسی شخص کی کہی ہوئی اصل بات پر اگر لوگوں کو اشتعال نہ دلایا جا سکے‘ تو اس میں سے ایک دوسری بات خود نکال کر‘ اس کی طرف منسوب کر دی جائے۔ درآنحالیکہ اس نے وہ بات نہ کہی ہو۔مثلاً ایک گروہ کے نزدیک‘ ایک چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور دوسرے کے نزدیک نہیں ٹوٹتا۔ اب بڑی آسانی سے اول الذکر گروپ پر تھوپ دیا جا سکتا ہے کہ وہ موخرالذکر گروہ کے تمام لوگوں کی نمازوں کو باطل قرار دیتا ہے۔ اس طرح کھینچ تان سے کام لے کر بارہا مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑایا جا چکا ہے اور مجھے افسوس ہے کہ فتنہ پردازی کا یہ فن اب تک تازہ ہے۔ (تازہ کیا؟ نشوونما پا کر پاکستان میں انتشار کو مسلسل فروغ دے رہا ہے۔ ناجی)سیدھی سی بات یہ ہے کہ میں اس معاملے میں اپنی ایک رائے رکھتا ہوں اور دلائل کے ساتھ اسے ظاہر کر دیتا ہوں۔ دوسرے علما کچھ اور رائے رکھتے ہیں اور وہ بھی اپنی رائیں بیان کر دیتے ہیں۔ اب جسے میری رائے پر اطمینان ہو‘ وہ اس پر عمل کرے اور جسے دوسرے علما کے فتوے پر بھروسہ ہو‘ وہ اس پر عمل کر لے۔ کسی کی عاقبت کے متعلق پیش گوئی کرنا اور کسی کو جنت اور کسی کو دوزخ بانٹنا میرا کام ہے اور نہ کسی دوسرے عالم کا۔ یہ خدا کا کام ہے کہ وہ اپنے جس بندے کو چاہے جنت دے دے اور جسے چاہے دوزخ میں جگہ دے۔ میں کسی مسئلے پر جس حد تک اظہار رائے کر سکتا ہوں‘ وہ صرف اس قدر ہے کہ ایساکرنا شرعاً صحیح ہے یا نہیں اور اپنی رائے پر بھی مجھے اصرار نہیں ہو گا کہ ضرور اسی کو مانا جائے۔ اگر کوئی عالم دین دیانتداری کے ساتھ اس رائے سے اختلاف رکھتا ہو اور خود عمل کرے یا اس کے فتویٰ پر کوئی دوسرا شخص عمل کر دے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ البتہ میں جس سچ چیز کو صحیح سمجھتا ہوں‘ اس پر خود عمل کرتا ہوں اور دو سروں کو وہی رائے دے سکتا ہوں اور جب تک اس کے خلاف کوئی دلیل مجھے مطمئن نہ کر دے‘ اپنی رائے دیانتاً واپس نہیں لے سکتا۔ اجتہادی مسائل میں علما کا قدیم سے یہی طریقہ چلا آ رہا ہے اور کبھی کسی ذمہ دار عالم نے اپنی اجتہادی رائے کے متعلق ایسا اصرار نہیں کیا کہ جو لوگ کچھ دوسری رائے رکھتے ہیں‘ ان کے عمل کوباطل قرار دیں اور ان کے جنتی یا جہنمی ہونے کا پیشگی فیصلہ صادر کریں۔‘‘(یہی سید منور حسن نے کیا ہے۔ انہوں نے خدائی اختیار استعمال کرتے ہوئے‘ ایک دہشت گرد کو شہید قرار دے دیا‘ جس کا مقام جنت ہوتا ہے اور پاک فوج کے جانیں قربان کرنے والے سپاہیوں اور افسروں کو شہادت کا درجہ دینے سے انکار کر دیا۔ناجی) یہاں پر آ کر مولانا سے دریافت کیا گیا کہ آپ کے متعلق یہ بات کہی جاتی ہے کہ’’ آپ جہاد کشمیر کو جہاد ہی نہیں مانتے۔ اگر ایسا ہے تو آپ کی رائے کی بنیاد کیا ہے؟‘‘ مولانا نے فرمایا ’’میں بارہا اس بات کو واضح کر چکا ہوں کہ کشمیر کے لوگوں کو اپنی مدافعت کے لئے لڑنے کا پورا حق حاصل ہے اور ان کی لڑائی جہاد کے حکم میں ہے۔ اب جو لوگ کوئی غلط بات مجھ سے منسوب کرتے ہیں۔ وہ خود اس کے ذمہ دار ہیں۔‘‘ مولانا سے پوچھا گیا کہ ’’آپ کے متعلق اس بات کا بھی عام چرچا کیا جا رہا ہے کہ آپ کشمیری مجاہدین کو مدد دینے کے خلاف ہیں۔ چنانچہ اس طرح کی باتوں سے پاکستانیوں میں بھی اور آزاد قبائل میں بھی بہت بددلی پھیلائی جا رہی ہے؟‘‘ مولانا کا جواب تھا ’’آزاد قبائل کے جو لوگ پاکستان کے شہری نہیں ہیں۔ وہ قطعاً کسی ایسے معاہدے کے پابند نہیں جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہے۔ وہ اگر کشمیری مجاہدین کی امداد کے لئے جائیں‘ تو ان کو حق پہنچتا ہے اور ان کا اسلامی فرض ہے کہ وہ‘ ان کی مدد کریں۔ البتہ انہیں یہ کام حسن نیت کے ساتھ کرنا چاہیے اور اسلامی حدود کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔رہا پاکستان کے لوگوں کی طرف سے امداد کا سوال‘ تو میں نے اس معاملے میں جو کچھ رائے ظاہر کی ہے‘ وہ جنگی امداد کے متعلق ہے اور جنگی امداد میں صرف دو چیزیں آتی ہیں۔ ایک اسلحہ فراہم کرنا۔ دوسرا لڑنے کے لئے آدمی بھیجنا۔ یہ دو قسم کی مدد دینا میں اس وقت تک جائز نہیں سمجھتا‘ جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ دونوں حکومتوں کے درمیان کسی طرح کے معاہدانہ تعلقات نہیں تھے یا اب نہیں رہے۔ان دو قسم کی اعانتوں کے سوا ہم آزاد کشمیر کے لوگوں اور ان کی مدد کرنے والوں کو غلہ‘ کپڑا‘ دوائیں‘ مرہم پٹی کا سامان‘ طبی امداد کے لئے ڈاکٹر اور تیماردار سب کچھ بھیج سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر وہ پاکستان میں آکر اسلحہ خریدیں تو ان کے ہاتھ وہ بھی فروخت کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں خود جماعت اسلامی بھی خاموشی کے ساتھ کچھ نہ کچھ کر رہی ہے اور یہ چیز اصولاً معاہدانہ تعلقات کے خلاف نہیں ہے۔‘‘ 

مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے انٹرویو کی بنیاد پر لکھے گئے کالم کی پہلی قسط آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ دوسری قسط کی ابتدا انہی کے الفاظ سے کر رہا ہوں۔’’ذاتی طور پر میری اور بحیثیت مجموعی جماعت اسلامی کی مستقل پالیسی یہ ہے کہ ہم اپنے اصل مقصد یعنی نظام اسلامی کے قیام کے سوا کسی اور مسئلے کو اپنی جدوجہد کا محور نہیں بناتے۔ دوسرے مسائل اگر پیش آتے ہیں‘ تو ان پر زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی کیا جاتا ہے کہ ہم اپنے نزدیک جو کچھ حق سمجھتے ہیں‘ اس کو بیان کر دیتے ہیں۔‘‘ جماعت اسلامی نے شہادت کے مسئلے پر اپنے موجودہ امیر کے دفاع میں جو بیان جاری کیا ہے‘ اسے بانی جماعت کے مندرجہ بالا الفاظ کی روشنی میں پڑھئے اور آپ کو بانی جماعت اور اس کی موجودہ قیادت کا فرق معلوم ہو جائے گا۔ اب میں جہاد کشمیر کے حوالے سے مولانا کے مزید کچھ خیالات پیش کرتا ہوں۔ ’’سوال: کہا جا رہا ہے کہ آپ نے اور آپ کی جماعت نے جہاد کشمیر کو کمزور کرنے کے لئے ایک مستقل معرکہ شروع کر رکھا ہے اور اس سے محاذ کشمیر کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں خلل آ رہا ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ شرعاً آپ کے لئے ایسی مہم جاری کرنا لازم ہے؟ جواب:یہ مہم جاری کرنے کا الزام قطعاً بے بنیاد ہے۔ میں نے تو ایک شخص کے اصرار پر ایک پرائیویٹ صحبت میں محض اپنی رائے ظاہر کر دی تھی۔ اس کے بعد اس رائے کو پھیلانے کی پوری مہم ان لوگوں نے خود اپنے ذمے لے لی‘ جنہیں کشمیر کو بچانے کی اتنی فکر نہیں جتنی مجھے بدنام کرنے کی فکر ہے۔ ذاتی طور پر میری اور بحیثیت مجموعی جماعت اسلامی کی مستقل پالیسی یہ ہے کہ ہم اپنے اصل مقصد یعنی نظام اسلامی کے قیام کے سوا کسی اور مسئلے کو اپنی جدوجہد کا محور نہیں بناتے۔ دوسرے مسائل اگر پیش آتے ہیں تو ان پر زیادہ سے زیادہ بس اتنا ہی کیا جاتا ہے کہ ہم اپنے نزدیک جو کچھ حق سمجھتے ہیں‘ اس کو بیان کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد اس کی تبلیغ اور اس کے لئے کوئی جدوجہد نہ میں خود کرتا ہوں اور نہ جماعت کے لوگ۔ میں نے پچھلے چند مہینوں میں متعدد تقریریں کی ہیں جنہیں ہزاروں آدمیوں نے سنا ہے اور کوئی سامع یہ شہادت نہیں دے سکتا کہ مسئلہ کشمیر کے متعلق میں نے کچھ بھی اظہار رائے کیا ہو۔ صرف لائل پور میں چند الفاظ مجبوراً اس لئے کہے تھے کہ مجمع عام میں مجھ سے سوال کیا گیا اور میں نے جب کہا کہ سائل صاحب نجی صحبت میں مجھ سے آ کر دریافت کر لیں‘ تو اصرار کیا گیا کہ مجمع عام ہی میں جواب دیا جائے۔ جماعت کے دوسرے لوگوں کے متعلق میں نے پوری طرح تحقیق کر لیا ہے کہ انہوں نے نہ بطور خود اس مسئلہ کو کسی کے سامنے چھیڑا ہے‘ نہ کہیں اس کی تبلیغ کی ہے لیکن اس کا کیا علاج کیا جائے؟ جب ہم نظام اسلامی کی دعوت پیش کرنے کے لئے لوگوں کے سامنے جاتے ہیں تو فتنہ پسند لوگ جان بوجھ کر خود اس سوال کو چھیڑتے ہیں۔ معذرت کی جائے تو اصرار کرتے ہیں اور جب مجبوراً جواب دیا جائے تو الزام عائد کرتے ہیں کہ تم نے اس کے لئے مہم شروع کر رکھی ہے‘ حالانکہ مہم خود ان لوگوں نے شروع کر رکھی ہے‘ جو اخبارات میں اور خطبوں اور تقریروں میں اس سوال کو چھیڑتے چلے جا رہے ہیں۔ سوال:یہ بات آپ کے علم میں آ چکی ہو گی کہ تقریر و تحریر کے ذریعے عام طور پر کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کوئی معاہدانہ تعلقات نہیں ہیں اور اس بات کے کہنے والوں میں بعض پبلک اہمیت رکھنے والے حضرات بھی شامل ہیں۔ نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قرآن کی جس آیت سے آپ نے استدلال کیا ہے اس میں لفظ ’’میثاق‘‘ آیا ہے دوسری طرف عدم محاربہ (Non Aggression) کے معاہدے یا حلیفانہ (Alliance) کے لئے استعمال ہوتا ہے نہ کہ چند اشیا کے تجارتی تبادلے کے سمجھوتوں کے لئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر آپ کس بنا پردونوں کے درمیانہ معاہدانہ تعلقات ہونے کی رائے رکھتے ہیں؟ جواب:میں جس بنا پر یہ رائے رکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ اولاً دونوں حکومتوں کی پیدائش ہی ایک معاہدے کے ذریعے سے ہوئی ہے جو برطانوی حکومت کی پیش کردہ تجویز کو قبول کر کے مسلمانوں اور ہندوئوں کے نمائندوں نے باہم طے کیا تھا۔ اس معاہدے میں یہ بات آپ سے آپ شامل تھی کہ دونوں مملکتیں ایک دوسرے کی دشمن اور ایک دوسرے کے خلاف برسرجنگ نہیں ہیں‘ بلکہ پرامن طریقے سے ملک کی تقسیم پر متفق ہو رہی ہیں۔ اس کے بعد دونوں حکومتوں کے درمیان فوراً سفارتی تعلقات قائم ہو گئے اور ہائی کمشنروں کا تبادلہ ہوا۔ سفارتی تعلقات ہمیشہ سے حالت جنگ (STATE OF WAR) کے نہ ہونے کی دلیل سمجھے جاتے رہے ہیں اور آج بھی سمجھے جاتے ہیں۔ پھر دونوں حکومتوں کے درمیان مالی اور تجارتی معاملات اور مہاجرین کے مختلف مسائل‘ اغوا شدہ عورتوں کی بازیافت اور کرنسی کے معاملات کے متعلق مسلسل سمجھوتے ہوتے رہے ہیں اور یہ تمام سمجھوتے اس بات کی دلیل ہیں کہ ان کے درمیان حالت جنگ قائم نہیں ہے ۔ دنیا کی کوئی قوم بھی کسی دوسری قوم سے مالی اور تجارتی لین دین اس حالت میں نہیں کرتی جبکہ وہ اسے اپنے خلاف برسرجنگ سمجھتی ہو۔ اس کے بعد ابھی اپریل 1948ء میں دونوں حکومتوں کے درمیان کلکتے کا معاہدہ ہوا ہے‘ جس میں اور مسائل پر سمجھوتہ کرنے کے ساتھ اس امر پر بھی سمجھوتہ طے ہوا تھا کہ دونوں حکومتیں اپنے اپنے ملک کے اخبارات کو ہدایات کریں گی کہ وہ کوئی ایسی بات شائع نہ کریں جس سے یہ معنی نکلتے ہوں کہ ان دونوں کے درمیان جنگ ناگزیر ہے یا اعلان جنگ ہونا چاہیے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ دونوں حکومتیں باہم مصالحانہ تعلقات رکھتی ہیں اور انہیں جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں اس سمجھوتے کا حوالہ دیتے ہوئے پنڈت نہرو کی معاندانہ تقریروں کے خلاف حکومت پاکستان نے احتجاج کیا ہے کہ یہ تقریریں میثاق کلکتہ کی اسپرٹ(یہاں کچھ بے ربطی ہے میں قیاساً تین الفاظ شامل کر رہا ہوں)’’ کے خلاف ہیں‘‘۔ شکایت کی بنیاد ہی یہ ہے کہ ریاستوں کے متعلق تقسیم کے معاہدے ہیں لہٰذا جو بات طے ہوئی تھی‘ اس کی رو سے ریاست جونا گڑھ پاکستان میں شرکت کی دستاویز پر دستخط کرنے کے بعد پاکستان کاحصہ ہو چکی ہے اور اس کی پروا نہ کرتے ہوئے انڈین یونین نے اس پر زبردستی قبضہ کیا ہے۔ آخر انڈین یونین کے اس فعل کو بدعہدی قرار دینے کے سوا کیا کہا جاتا؟کہ دونوں کے درمیان کوئی معاہدانہ تعلق تھا جس کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ یہ ساری باتیں بھی اگر کسی کے نزدیک معاہدے کی تعریف میں نہ آتی ہوں تو وہ اپنی رائے کا مختار ہے۔ میں اب تک یہی سمجھتا ہوں کہ دونوں حکومتوں کے درمیان ایسے معاہدانہ تعلقات ہیں جن کو قائم رکھتے ہوئے ہم انڈین یونین کے خلاف شرعاً کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’’میثاق‘‘ کا اعلان صرف اس معاہدے پر ہوتا ہے جس میں عدم محاربہ کی تصریح ہو یا جس میں باہم حلیفانہ تعلق کا عہدوپیمان ہو‘ وہ نہ قرآن سے کوئی دلیل پیش کر سکتے ہیں‘ نہ لغت عرب سے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے اور انبیاء سے جو اقرار لئے تھے ان کے لئے لفظ ’’میثاق‘‘ ہی کو استعمال کیا ہے۔ آخر ان دونوں میں سے کون سا مفہوم ان مواقع پر مراد ہے؟‘‘ قارئین!آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ نصف صدی میں میرا تعلق اس مکتبہ فکر سے رہا ہے‘ جو پاکستان کو ترقی پسند‘ خوشحال اور مستحکم ملک کی حیثیت میں دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ میرا شعبہ صحافت رہا اور جتنی میری بساط تھی‘ اس کے مطابق مندرجہ بالا مقاصد حاصل کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرتا رہا۔ اسی مکتبہ فکر کی سیاست میں بھی حصہ لیا مگر میں زندگی میں اپنے خوابوں کی تعبیر نہیں دیکھ پایا۔ مستقبل قریب میں بھی اس کی امید نہیں۔ مولانا مودودیؒ ایک دوسری طرز فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے لئے ایک ایسی معاشرت چاہتے تھے‘ جس میں وہ اپنی دینی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ اسی مقصد کے لئے انہوں نے اپنی جماعت قائم کی لیکن خواب ان کے بھی پورے نہ ہوئے۔ پاکستان کا خواب قائد اعظمؒ نے دیکھا تھا۔ جغرافیائی اعتبار سے تو ان کا خواب پورا ہو گیا ۔ لیکن وہ پاکستان میں کیسا نظام حیات چاہتے تھے؟ اس کی انہوں نے کبھی جامع تعریف نہیں کی اور نہ ہی اس موضوع پر کوئی مکمل تحریر چھوڑی۔ نتیجہ یہ ہے کہ قائداعظمؒ کا نام لینے والے اپنے اپنے خیالات کو ان سے منسوب کر کے‘ اپنا اپنا نظریہ پاکستان پیش کرتے رہتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی اکثریت اپنے نظریئے کے مطابق خطے کو علیحدہ کر کے پاکستان سے الگ ہو گئی۔ باقی ماندہ پاکستان میں رہنے والوں نے اپنے اپنے ذہن کے مطابق قیام پاکستان کے جداجدا مقاصد مرتب کر رکھے ہیں۔ کاش! قائد اعظمؒ زندگی میں پاکستان کو ایک دستور دے جاتے یامسلم لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی میں اتفاق رائے سے نئی ریاست کو چلانے کے لئے متصورہ نظام کے بنیادی نکات رہنما اصولوں کی صورت میں مرتب کر لیے جاتے‘ جن پر نئی ریاست کے امور کو چلانا مقصود ہوتا۔ ان میں سے کوئی بھی کام نہ ہوا۔ اس موضوع پر پھر کبھی لکھوں گا۔ مولانا مودودی سے جس موضوع پر زیربحث انٹرویو لیا گیا‘ وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ نئی نسل کے لئے میں مکمل انٹرویو روزنامہ ’’دنیا‘‘ کے سنڈے میگزین میں شائع کر رہا ہوںتاکہ یہ تاریخی دستاویز زیادہ لوگوں کے ہاں محفوظ ہو جائے۔
By Nazir Naji
http://dunya.com.pk/index.php/author/nazeer-naji/2013-11-15/5015/62691861#tab2
http://e.dunya.com.pk/magazine/index.php?e_name=LHR&m_date=2013-12-01

Aljihad Fil Islam By Syed Abulala Maududi Pages: 600

Idara Tarjuman ul Quran http://tazkeer.org/scan/?itemid=1664
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
Who can declare Jihad?
1) Just as punishments of amputation of hands and flogging despite being unmistakable injunctions of the Qur'an cannot be implemented by individuals, similarly Jihad cannot be done by people on their own. In both cases, an Islamic State is a precondition. However, while people are willing to accept the condition of the State for the implementation of punishment, they are not willing to accept the condition for the purpose of Jihad. What he says is that if the leader of the Jihad movement cannot be given the right to enforce Islamic punishments on his soldiers on committing crimes, how can he be allowed to lead them to fight and risk their lives?

2) The scholar also claims that the understanding that an Islamic State with an Amir is a necessary condition for doing jihad is an understanding which almost all earlier scholars agreed to. This is so because it was realised by the scholars that the permission to do Jihad, like in the case of punishments, was given to the prophet, Allah's mercy be on him, and his companions only after he had migrated to Madina where he was able to create an Islamic State. It is only in the recent times that there has emerged a tendency amongst religious leaders to lead people in Jihad without the power of the State.

3) If the condition of Islamic state is not recognised and it is conceded that any well-meaning Muslim leader can declare Jihad against the enemies, then there is a potential danger of the creation of conditions of utter chaos and bloodshed in the name of Jihad. One religious group may consider another as worthy of being fought against. In fact, many of such groups have sometimes shown the tendency of doing 'Jihad' against fellow Muslim groups as well, because they don't consider those others as Muslims. Most of the killings in the Sunni-Shia disputes take place in the name of Jihad. This tendency has not only led to unnecesary bloodshed, it has also badly damaged the good name of Islam, because many people blame Islam for whatever is going on in the name of Jihad.

I find all these arguments of the scholar convincing and worthy of our attention. I therefore am inclined to believe that even if Muslims of the present times are being subjected to difficulties by non-Muslims, they should endure them patiently and continue to live as good Muslims. This attitude is likely to bring many non-Muslims closer to Islam. If matters go beyond limits, they should either migrate to an Islamic State or urge that state to declare Jihad against the tyrant rulers who are causing hardship for Muslims. However, under no circumstances should stray groups of Muslims resort to armed struggle for independence. They can, however, defend themselves with arms if attacked by the enemy.
Views: 1405
http://www.khalidzaheer.com/qa/255
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

Who Can Declare Jihad?


Muhammad Munir 


Department of Law, International Islamic University, Pakistan

April 14, 2012

Research Papers, Human Rights Conflict Prevention Centre (HRCPC) Vol. XII. no. 1-2 (2012), pp. 1279-1294. 

Abstract:      

Non-state Islamic actors are engaged in their war against the West, Muslim states, and in some cases against their own states. Among the propaganda campaign raised by these Jihadis for winning support of fellow Muslims is that jihad can be declared by any jihadi group within a Muslim state and there is no need for the head of such a Muslim state for such a declaration. How does Islamic law look at the complex relations between jihadis operating from within a Muslim state and whether the state might be blamed for their attacks and other activities outside such a state? This paper explains relationship between jihadi groups inside a Muslim state which has necessary military and political authority but which has not given any explicit permission to such groups to operate. It is concluded that classical Islamic law does not authorize the operations of jihadi groups without the permission of the Imam. In addition, under Islamic law such a state is responsible for the acts of jihadi groups operating from its territory.
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~