Pages

Sunday, January 1, 2023

National Narrative Against Terrorism دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ تاریخی فتویٰ ’’پیغام پاکستان‘‘



National Narrative Against Terrorism

دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ تاریخی فتویٰ ’’پیغام پاکستان‘‘


تمام مسالک کے علماء کے دستخطوں سے تیار کر دہ تاریخی فتویٰ ’’پیغام پاکستان‘‘ کے متفقہ فتویٰ پر ۹۲۸۱ علماء نے دستخط کیے اور اس بات پر اتفاق کیا کہ:
  1. پاکستان میں نفاذ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال ، 
  2. یاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی اسلامی شریعت کی رُو سے ممنوع ہے
  3. خود کش حملے حرام ہیں 
  4. جبکہ ان کے مرتکب اسلام کی رُو سے باغی ہیں
  5. پاکستان کی حکومت یا افواج کے خلاف مسلح کاروائیاں بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں اور یہ شرعاً بالکل حرام ہیں۔

فکری جمود اور انٹلیکچوئیل لاپرواہی : پیغام پاکستان- دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی  کے خلاف پاکستان کے علماء کا متفقہ بیانیہ

National narrative on extremism, terrorism launched:
ڈاؤن لوڈ  اردو 
خود کش حملے اورنفاذ شریعت کے نام پر ریاست کے خلاف مسلح تصادم حرام ہی؛علماء کا فتویٰ طاقت کے بل بوتے پر اپنے نظریات دوسروں پر مسلط کرنا فساد فی الارض ہے، جہاد صرف ریاست کا اختیار ہے، فتویٰ انتہا پسندی، تشدد، فرقہ پرستی اور لسانی تعصبات جیسے عوامل کا قلع قمع ضروری ہے-

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے ادارہ تحقیقات اسلامی کی کاوشوں سے یہ بیانیہ فتوی کی شکل میں جاری ہوا-

جاری متفقہ فتوی و اعلامیہ میں کہا گیا کہ طاقت کے بل بوتے پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنافساد فی الارض کے مترادف ہے اور دینی شعائر اور نعروں کو نجی عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنا قرآن و سنت کی رو سے درست نہیں۔ ’’ پیغام پاکستان‘‘ کی دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جہادکا وہ پہلو جس میں جنگ و قتال شامل ہیں ، اس کو شروع کرنے کا اختیار صرف اسلامی ریاست کا ہے اور سرزمین پاکستان اللہ تعالیٰ کی مقدس امانت ہے جسے کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں۔
علماء و مفتیان دین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ اسلامی ریاست میں پر امن طریقے سے رہنے والے غیر مسلموں کو قتل کرنا جائز نہیں بلکہ گناہ کبیرہ ہے اور اسلام کی رُو سے خواتین کا احترام اور ان کے حقوق کی پاسداری مردوں کے لیے لازم ہے ۔ متفقہ فتوی میں یہ بھی درج ہے کہ مسلح بغاوت میں شرکت یا اس کی حمایت نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی کھلی نا فرمانی ہے۔
مفقہ فتویٰ و اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مختلف مسالک کا نظریاتی اختلاف ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس اختلاف کو علمی اور نظریاتی حدود میں رکھنا واجب ہے۔ متفقہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علماء مشائخ سمیت تمام طبقات ریاست اور افواج کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس ضمن میں پوری قوم ان سے غیرمشروط تعاون کا اعلان کرتی ہے۔
دستاویز میں درج ہے کہ پر امن بقائے باہمی کا فروغ ، پر امن معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے، اس لیے اسلام کے اصولوں کے مطابق جمہوریت ، مساوات، برداشت اور امن و انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل ضروری ہے ۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے غیر مسلم شہری اپنے تہواروں اور اپنی عبادت گاہوں میں اپنے مذاہب کے مطابق عبادت کرنے کا پورا اختیار رکھتے ہیں ۔

اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان کی روشنی میں تشکیل کردہ یہ قومی بیانیہ ہمیں قومی تعمیر کے مراحل تیز رفتاری سے طے کرنے میں مدد دے گا۔ 

انتہا پسندی، تشدد، فرقہ پرستی اور لسانی تعصبات جیسے عوامل قوم کو تقسیم کر رہے ہیں جن کا قلع قمع کرنا ضروری ہے۔ 
وحدت فکر کے ذریعے ہی وحدت عمل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور اسلامی یونیورسٹی و ادارہ تحقیقات اسلامی اس عظیم فریضہ پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
 تخریبی فکر کا مقابلہ کرنے کے لیے تعمیری فکر اور دینی بیانیہ کی ضرورت ہے۔ 

اس بیانیہ کی بھرپور تشہیر کی جائے گی تا کہ یہ ملک کے چپے چپے اور پوری دنیا تک پہنچ جائے۔ قومی بیانیہ کی ترویج اشاعت میں پاکستانی سفارتخانے اہم کردار ادا کریں گے۔
 دہشت گردی کے خلاف ملک کے تمام طبقات متحد ہیں ۔  دہشت گردی اور اسلام میں تضاد ہے کیوں کہ اسلام عمل کا دین ہے اور دہشت گردی تباہی کی طرف لے کر جاتی ہے۔
پوری قوم سول اور ملٹری اداروں کی پشت پر کھڑی ہے تا کہ دہشت گردی کے عفریت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے۔ 
امن و استحکام کے بغیر ترقی نا ممکن ہے اور دوسروں پر سازشوں کے الزامات لگانے کے بجائے ہمیں خود احتسابی کو اپنانا ہو گا۔ 
’ پیغام پاکستان‘‘ کی تشکیل اور رونمائی ایک تاریخی عمل ہے جس سے پوری دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ پاکستانی قوم دہشت گری کو ختم کرنے کے لیے متحد ہے۔
سزا دینے اور کسی بھی قوت کے خلاف اعلان جنگ کرنے کا اختیار صرف اور صرف ریاست کا حق ہے۔ 

متشدد سوچ اور دہشت گردی کے خلاف اس بیانیہ کی اشد ضرورت تھی لیکن اس ضمن میں عملی اقدامات کا کردار کلیدی ہے۔  پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں اوراس بیانیے کو ملک سمیت دنیا بھر کے کونے کونے تک پہنچایا جانا چاہیے۔
اس موقع پر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر ڈاکٹر معصوم یاسین زئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ صدر پاکستان نے قومی ضرورتوں کی بنیاد پر اسلامی یونیورسٹی کو ادارہ تحقیقات اسلامی کے ذریعے مذہبی، سماجی اور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ملکر قومی بیانیہ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی جسے جامعہ نے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ہے۔
اپنی تقریر میں انہوں نے ’’ پیغام پاکستان‘‘ کے اہم نکات کا ذکر کیا اور کہا کہ قومی استحکام اور ترقی کے لیے اس بیانیہ کی تشکیل ایک مسلسل عمل ہے جو قومی تقاضوں کی بنیا د پر آگے بڑھتا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ پیغام پاکستان‘‘ کی ترویج و اشاعت کے لیے تفصیلی منصوبہ بندی کی گئی ہے اس ضمن میں’’دختران وطن‘‘،’’ بین المسالک ہم آہنگی‘‘، ’’بھائی چارہ ‘‘، ’’بین المسالک مکالمہ ‘‘جیسے پراجیکٹ شروع کیے جا رہے ہیں۔
عالمی برادری کو یہ باور کراناچاہتے ہیں کہ پاکستان پر امن ملک ہے اور اس کے امن کو سبو تاژ کرنے والوں کی قبیح سازشیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دی جائیں گی۔
بین المذاہب مکالمہ عصر ِحاضر کی اہم ضرورت ہے۔ قبل ازیں ادارہ تحقیقات اسلامی کے ڈائریکٹر جنرل، ڈاکٹر محمد ضیاء الحق نے ’’پیغام پاکستان‘‘ کی تشکیل کے مراحل اور اس ضمن میں ادارے کے ساتھ تعاون کرنے والے افراد و
دیگر اداروں کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی اور ان کا شکریہ ادا کیا۔

Brief Intro Paigham-e-Pakistan


Paigham-e-Pakistan is a national narrative to counter violence, extremism and terrorism. It was launched and promulgated by more than 5000 Ulemas of all schools of thought. A unanimous FATWA and Joint Declaration was passed by 31 prominent Ulemas on 26 May 2017. The communiqué containing 22 pts resolution was transformed into a comprehensive book (Urdu and English) titled as “Paigham-e-Pakistan”, which was launched on 16 Jan 2018.  The book addresses the imp issues of peaceful Co-existence, Tolerance, Takfir and Jihad in lt of Quran and Sunnah. 
  • پاک فوِج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کہ سکتے ہیں کہ کافی حد تک سرخرو ہو گئی، اگرچہ یہ جنگ مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی کیونکہ دوسرے محاذ پر فکری ، نظریاتی جنگ پاکستان کے انٹلیکچوئیلز ، علماء ، سیاست دانوں، حکمرانوں اور میڈیا نے لڑنی ہے، مگر ان کی ترجیحات مختلف ہیں۔
    فوج دہشت گردوں کو مارتی رہے گی مگر نظریاتی میدان خالی پا کر دشمن نئے دہشت گرد ریکروٹ کرتا رہے گا۔ یہ جنگ کبھی ختم نہ یو گی جب تک بظریاتی محاز پر پاکستان کے انٹلیکچوئیلز ، علماء ، سیاست دانوں، حکمرانوں اور میڈیا اپنا کردار ادا نہ کریں گے۔


    بہاولپور میں ایک استاد کا مزہبی جنونی کے ہاتھون قتل ناحق خبر دے رہا ہے کہ معاشرے میں انتشار فکر کتنا شدید ہو چکا ہے- ایک نیشنل ایکشن پلان ہوتا تھا اور ایک پیغام پاکستان ۔ نیشنل ایکشن پلان پارلیمان نے دیا ، آج اہل سیاست یا میڈیا ہاوسز میں سے کسی کو نیشنل ایکشن کے فکری پہلو یاد ہوں تو حقیقی معنوں میں ایک بریکنگ نیوز ہو گی۔ پیغام پاکستان، سینکڑوں جید علماء کے دستخطوں سے جاری ہوا تھا اور مدارس کے تمام وفاق اس پر متفق تھے۔ معلوم نہیں کہ ان ایک سو اسی جید علماء اور چار وفاقوں میں سے کسی نے کبھی پیغام پاکستان پر بات کرناگورا کی ہو، جمعہ کا کوئی خطبہ یا کسی محفل میں ایک مختصر سا کوئی بیان؟ میڈیا پر چیِخ چیِخ کر چلانے والے انکرز کے منہ بھی اس ٹانک پر بند ہین۔ ایوان صدر میں ایک تقریب سجائی گئی تھی اور خواجہ آصف سے لے کر احسن اقبال تک اہل سیاست قطار اندر قطار وہاں موجود تھے ، اس کے بعد نہ کبھی خود ممنون حسین صاحب نے پیغام پاکستان پر کوئی بات کی نہ اہل سیاست کو یاد رہا کہ اس تقریب کا مضمون کیا تھا۔ سماج کی فکری تہذیب سے بے نیازی کا یہ منطقی نتیجہ ہے جو بہاولپور میں ہمارے سامنے آیا۔ برادر م خورشید ندیم کے ادارہ علم و تحقیق نے پیغام پاکستان کے حوالے سے اگلے روز اسلام آباد میں اہل صحافت کے لیے ایک نشست کا اہتما م کیا جس میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین ڈاکٹر قبلہ ایااز اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ادارہ تحقیقات اسلامی کے ڈائرکٹر جنرل ڈاکٹر ضیاء الحق نے اظہار خیال فرمایا۔ پیغام پاکستان کا مسودہ چونکہ ادارہ تحقیقاتی اسلامی نے تیار کیا تھا اور اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل اسے لے کر چل رہی ہے تو اشتیاق ہوا کہ ان صاحبان علم کی بات سنی جائے ، ان کی خدمت میں کچھ سوال رکھے جائیں ، کیا عجب الجھنیں کچھ دور ہو جائیں۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب اور برادرم خورشید ندیم کا کہنا تھا پیغام پاکستان ایک بیانیہ ہے اب اسے پالیسی بننا چاہیے اور پالیسی یہ تب ہی بن سکتا ہے جب پارلیمان اس کی روشنی میں قانون سازی کرے۔ میرا سوال یہ ہے کہ انہیں کس نے یہ خبر دی کہ پیغام پاکستان ایک بیانیہ ہے؟ بیانیہ تو بہت دور کی بات ، اہل وطن کی غالب اکثریت کو تو شاید معلوم ہی نہ ہو پیغام پاکستان کیا چیز ہے۔نیز یہ کہ اس پیغام پاکستان میں آخر وہ کون سی ایسی نئی چیز ہے جو پاکستان کے آئین اور قانون میں موجود نہیں اور جس پر قانون سازی کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔انسانی جان اور مال کے تحفظ سے لے کر پرائیویٹ آرمی یعنی نجی جہاد تک سب کی ممانعت تو آئین میں ویسے ہی موجود ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ فکری جمود کا شکار معاشرے کیا صرف قانون سازی سے درست ہو سکتے ہیں؟ ایک الجھن یہ ہے کہ جب سینکڑوں جید علماء اس پر دستخط کر چکے اور چاروں وفاق بھی اس پر متفق ہیں تو کیا وجہ ہے انتہا پسندی کو روکنے کے لیے کسی عالم یا کسی مذہبی رہنما نے کبھی پیغام پاکستان کا حوالہ نہیں دیا؟ اگر چاروں وفاق اس پر متفق ہیں تو اسے کسی وفاق کے نصاب کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا؟ اہل مذہب اگر ایک چیز کو درست سمجھتے ہیں اور اس پر دستخط کر چکے ہیں تو اب اس بات کا بر سر منبر کھل کر اظہار کیوں نہیں کرتے؟ کیا فہم دین کے باب میں قوم کی رہنمائی ان کا دینی فریضہ بھی نہیں ہے؟ میری رائے میں پیغام پاکستان کا تعلق قانون سازی سے زیادہ اس سماج کی فکری تہذیب سے ہے۔ جب تک یہ کام نہیں ہو گا انتہا پسندی اور انتشار فکر سے نجات ممکن نہیں۔ بہاولپور میں ایک استاد کا قتل بتا رہا ہے کہ یہاں اہل فکر مدارس کے باب میں متفکر رہے لیکن جدید تعلیمی اداروں کی حالت زیادہ پریشان کن ہے۔ انتشار فکر نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ، اب جدید اور قدیم کی بحث بے معنی ہو چکی ہے۔اس انتشار فکر سے نکلنا ہو گا اور پیغام پاکستان اس کوشش کا ابتدائی اور پہلا با معنی نقش ہے جس میں اداروں کی تطہیر اور تعمیر کی بات بھی کی گئی اور اس کی روشنی میں اگلے مرحلے میں ’ ڈی ریڈیکلائزیشن آف کیمپسز‘ کے منصوبے پر بھی کام شروع ہو چکا ہے۔ آ ئی آر آئی نے مختلف جامعات کے وائس چانسلرز کے ساتھ اس ضمن میں مشاورت شروع کر رکھی ہے۔ معلوم نہیں آگے چل کر یہ کوشش کیا صورت اختیار کرتی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ادارہ تحقیقات اسلامی کی یہ کوشش بہت مبارک ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں۔ جامعات میں مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے جتھے بنا رکھے ہیں ۔ان جتھوں کا ناامہ اعمال ہمارے سامنے ہے۔ ’’ ڈی ریڈیکلائزیشن‘‘ کے اس عمل میں یہ گروہ مزاحمت کریں گے ، یہاں ریاست کو قوت کے ساتھ بروئے کار آنا ہو گا۔لیکن یہ عمل حکیمانہ انداز میں آگے نہ بڑھا تو نقصاندہ بھی ہو سکتا ہے۔توازن کا قائم رہنا ضروری ہے ۔’ڈی ریڈیکلائزیشن ‘ کی یہ کوشش رد عمل میں سیکولر انتہا پسندی کی طرف نہ چلی جائے اس کا خاص خیال رکھنا ہو گا۔کیونکہ اس صورت میں ’ ریڈیکلائزیشن‘ بھی بڑھ جائے گی اور فکری انتشار بھی۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور ادارہ تحقیقات اسلامی نے بھاری پتھر اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ صف نعلین میں کھڑے ہم طالب علم کامیابی کی دعا ہی کر سکتے ہیں ۔ [ماِخوز از تحریر : آصف محمود]
https://salaamone.com/narrative-against-terrorism/