Pages

Sunday, December 1, 2019

Politics of Religion & Extremism must be Avoided مولانا فضل الرحمٰن


Molana Fazlur Rahman is power hungry crook,  opportunist and a greedy religious politician. [all these traits are normal among politicians but he has more of them].  He has been dreaming to be Prime Minister of Pakistan since long. He is ready to to go to any extent to fulfill this egocentric dream.
تاریخی طور پر علماء سیاست اور طاقت و حکمرانی میں عمل دخل سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھتے تھے اور ان کی توجہ دین کی تعلیم و تبلیغ پر رہی- مگر آج کل پاکستان میں علماء سیاست میں داخل ہو کر تنقید کا نشانہ بنتے ہیں اور اپنےلیے دین اسلام کو ڈھال کے طور پر استمال کرتے ہیں.علماء کی ساکھ   (credibility) خراب ہوتی ہے، لوگ ان کی درست مذہبی باتوں پر بھی دھیان دینا چھوڑ دیتے ہیں، یہ اسلام کے ساتھ زیادتی ہے.... مزید آخر میں ......

The story of of his request to the US Ambassador to help him to become the Prime Minister is well known. He told earlier to “the powers to be”, to make him PM,  once reminded that due to his extremists and religious tilt he may not be acceptable to the international establishment particularly USA, he responded that, should he be given an opportunity, he will come up to the expectations of everyone including USA, would do whatever is expected. Once cautioned that his followers who had been listening to his anti American speeches would tear him apart.  Molana replied that it should be left to him, he knows how to handle those fools!
After 2018 elections Molana has been cut to size in politics, this is first time that he is out of power. It is difficult for him to reconcile with this reality. He is instrumental in in using main opposition parties to give tough time to the government and establishment. The two main political parties are finding it difficult to defend their leadership from corruption cases, hence its a mutually beneficial political arrangement. Molana is too pleased to be the coordinator opportunist. Use of religious card by Molana was not well received by main political parties especially PPP.
Molana is so desperate for power that, he is is mobilizing and using young Madrissa students for political gains. 
He is using religion as a tool to defame the PM and government. He is is falsely accusing the PM and the government to be Qadiani and pro Qadiani. This is a very serious allegation it should not be taken lightly as we know that religious motivation leads to extremism and terrorism. This is Takfeer, [False accusation of Kufr to a Muslims, falls back upon the accuser]. People are very sensitive to Qadiani issue, slander is religiously incorrect and a grave sin.
Similarly the concept of Takfeer was used br TTP and other terror groups. Pakistan has already lost over 70000 lives and suffered a loss of over 125 billion dollars.
The enemy across the border and Anti Pakistan forces look forward for religious extremists to use them as tool to create unrest in Pakistan. The case of of Iraq, Syria, Yemen is just fresh. ISI/ Daesh was used as a tool very effectively to destabilize those countries. 
Pakistan army is the biggest hurdle to the nefarious designs of Anti Pakistan forces. We cannot afford another religiously motivated unrest in the country.  
Previously we experienced long March and Dharna by Molana Tahir Ul Qadri which was tactfully handled by Zardari government. But there is lot of difference here, Maulana Fazlur Rahman is not Maulana Tahir Ul Qadri.  
Molana Fazlur Rahman is very shrewd politician who has been in power in KPK, Balochistan and part of Federal Government.  He has representation at National and provincial assemblies.  He is a politician with active and strong base in political and religious fields. He should not be taken lightly. In desperation he can go to any extent. His recent Anti Pakistan and anti Army speeches indicate his state of mind.
There is a need to watch him very carefully and to handle him politically with tact,  avoiding any bloodshed which he desires.  We don't need another Lal Masjid or Takfiri Taliban Part II.

http://takfiritaliban.blogspot.com


نمود اور بقا کے لیے قوموں کو ایک کم از کم اتفاقِ رائے درکار ہوتاہے ۔ قومی دفاع کے معاملات پر آباد ی کے تمام طبقات یک زبان ہوتے ہیں ۔ افغانستان سے تابوت امریکہ پہنچتے ہیں تو کوئی اخبار اس کی تصویر چھاپتا ہے اور نہ کوئی مبصر ٹی وی پہ واویلا کرتا ہے-
قومی سلامتی سے متعلق کوئی بھی تجزیہ شائع کرنے سے پہلے نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ اجازت طلب کرتے ہیں-
بھارت میں پریس بظاہر آزاد ہے لیکن خارجہ پالیسی پہ خامہ فرسائی کرنے والے احتیاط کی آخری حدود کو ملحوظ رکھتے ہیں ۔ مستقل طور پر باہم الجھتی رہنے والی کوئی قوم اس دشمن کا سامنا کیسے کرسکتی ہے ، جو اسے صفحہ ء ہستی سے مٹا دینے کے درپے ہے ۔

حضرت مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد کا گھیرائو کرنے کی تیاریوں میں ہیں ۔ ۔حضرت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ العالی کا ایجنڈا صرف یہ ہے کہ کسی بھی قیمت پر اس پارٹی کی حکومت اکھاڑ پھینکی جائے ، جس نے انہیں سیاسی میدان سے تقریباًبے دخل کر دیا ہے ۔ یہ وہی صاحب ہیں ، امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن سے جنہوں نے کہا تھا کہ وزیرِ اعظم بننے میں ان کی مدد کی جائے ۔ ڈیڑھ عشرے قبل دلّی کے دورے پر تشریف لے گئے تو تجویز کیا کہ ایک گول میز کانفرنس بلا کر پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کی کنفیڈریشن بنا دی جائے ۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے تاویل کرنے کی کوشش کی تو سیکرٹری جنرل منور حسن نے احتجاج کی آواز بلند کی ۔ پارٹی کو ان کا دفاع کرنے سے روک دیا ؛ہرچند کہ پختون خواہ کی حکومت میں وہ ان کے حلیف تھے ۔ اسی ہنگام کابینہ کے ایک اجلاس میں جنرل پرویز مشرف نے بتایا کہ جنابِ مولانا کو بھارتی حکومت سے نقد داد ملی ہے ۔ مذہبی امور کے وزیر محمود غازی مرحوم اس دنیا سے چلے گئے لیکن مشرف کابینہ کے کچھ ارکان اب بھی دادِ سیاست دے رہے ہیں ۔ حکومت سے نجات پانے کی بے تابانہ خواہش میں حضرت مولانا اب ختمِ نبوت کا رڈ برتنے پہ اتر آئے ۔ مخالفین سوال کرتے ہیں کہ قادیانیوں کے باب میں نرم گوشہ تو ان کے حلیف نواز شریف نے دکھایا تھا حلف کی عبارت میں ترمیم انہوں نے کی تھی ۔ قادیانیوں کو بھائی انہوں نے کہا تھا ۔ اپنے بازوئے شمشیر زن رانا ثناء اللہ کو ان کی دلجوئی کا حکم آنجناب نے دیا تھا ۔ تب ان کی غیرتِ ایمانی کیوں نہ جاگی (ہارون رشید ، دنیا نیوز)

Related :

Jihad, Extremism


    -----------------------
     مذہبی سیاست کی حقیقت

    تاریخی طور پر علماء سیاست اور طاقت و حکمرانی میں عمل دخل سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھتے تھے اور ان کی توجہ دین کی تعلیم و تبلیغ پر رہی- مگر آج کل پاکستان میں علماء سیاست میں داخل ہو کر تنقید کا نشانہ بنتے ہیں اور اپنےلیے دین اسلام کو ڈھال کے طور پر استمال کرتے ہیں.علماء کی ساکھ   (credibility) خراب ہوتی ہے، لوگ ان کی درست مذہبی باتوں پر بھی دھیان دینا چھوڑ دیتے ہیں، یہ اسلام کے ساتھ زیادتی ہے.

    آپﷺ نے فرمایا میرے بعد جھوٹ بولنے اور ظلم کرنے والے بادشاہ ہوں گے جو ان کے جھوٹ کو تسلیم کرے اور ان کے ظلم میں ان کی طرفداری نہ کرے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں ۔ ( تفسیر ابن کثیر 18:45)

    وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دینی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)

    ” تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو او ر میرے غضب سے بچوباطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو”  (قرآن٤٢- ٢:٤١)

    “تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے؟  (قرآن٢:٤٤)

    ٱتَّخَذُوٓا۟ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَٰنَهُمْ أَرْبَابًۭا

    ” انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو الله کے سوا رب بنا لیا ہے..” (سورۃ التوبہ،آیت 31)

    اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ اَفَاَنۡتَ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِ وَکِیۡلًا ﴿ۙ۴۳﴾

    کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے کیا آپ اس کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں؟ [سورة الفرقان (25) آیات (43)]

    بدترین علماء
    وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یُوْشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہۤ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہ، مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السْمَآءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)

    ” اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔” (بیہقی)

    یہ حدیث اس زمانہ کی نشان دہی کر رہی ہے جب عالم میں اسلام تو موجود رہے گا مگر مسلمانوں کے دل اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہوں گے، کہنے کے لئے تو وہ مسلمان کہلائیں گے مگر اسلام کا جو حقیقی مدعا اور منشاء ہے اس سے کو سوں دور ہوں گے۔ قرآن جو مسلمانوں کے لئے ایک مستقل ضابطۂ حیات اور نظام علم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی زندگی کے لئے راہ نما ہے۔ صرف برکت کے لئے پڑھنے کی ایک کتاب ہو کر رہ جائے گا۔ چنانچہ یہاں ” رسم قرآن” سے مراد یہی ہے کہ تجوید و قرأت سے قرآن پڑھا جائے گا، مگر اس کے معنی و مفہوم سے ذہن قطعاً نا آشنا ہوں گے، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی ہوگا مگر قلوب اخلاص کی دولت سے محروم ہوں گے۔

    مسجدیں کثرت سے ہوں گی اور آباد بھی ہوں گی مگر وہ آباد اس شکل سے ہوں گی کہ مسلمان مسجدوں میں آئیں گے اور جمع ہوں گے لیکن عبادت خداوندی، ذکر اللہ اور درس و تدریس جو بناء مسجد کا اصل مقصد ہے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہوگا۔

    اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)

    افتراق کی سبب دو چیزیں ہیں، عہدہ کی محبت یا مال کی محبت۔ سیدنا کعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا:

    ”ماذئبان جائعان أرسلا في غنم بأفسد لھا من حرص المرء علی المال و الشرف لدینہ” دو بھوکے بھیڑئیے ، بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور عہدہ کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دہ ہے۔   (الترمذی:۲۳۷۶ وھو حسن)

    منافق کی نشانیاں
    عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِیہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ کَانَتْ فِیہِ خَصْلَۃٌ مِنْہُنَّ کَانَتْ فِیہِ خَصْلَۃٌ مِنْ النِّفَاقِ حَتَّى یَدَعَہَا إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَإِذَا عَاہَدَ غَدَرَ وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ. [صحیح البخاری:340 الإیمان، صحیح مسلم:58 الإیمان]

    ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چار خصلتیں ہیں، جس شخص میں وہ پائی جائیں گی وہ خالص منافق ہو گا، اور جس کے اندر ان میں سے کوئی ایک خصلت ہو گی اس میں نفاق کی ایک خصلت پائی جائے گی حتی کہ اسے ترک کر دے، [ وہ خصلتیں یہ ہیں ]

    (١)جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے 

    (٢) جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے 

    (٣) جب کوئی عہد کرے تو بے وفائی کرے اور

    (٤) جب جھگڑا کرے تو ناحق چلے۔

    [صحیح البخاری:340 الإیمان، صحیح مسلم:58 الإیمان]

    جھوٹے ظالم ،خائین ، احمق حکمرانوں کے مددگاروں کو رسول اللہ ﷺ کی تنبیہ!

    مسند احمد میں ہے کہ حضرت کعب بن عجرہ (رض) سے آپ نے فرمایا :

    اللہ تجھے بیوقوفوں کی سرداری سے بچائے حضرت کعب نے کہا یا رسول اللہ ﷺ وہ کیا ہے؟

    فرمایا وہ میرے بعد کے سردار ہوں گے جو 

    میری سنتوں پر نہ عمل کریں گے 

    نہ میرے طریقوں پر چلیں گے

    پس جو لوگ ان کی جھوٹ کی تصدیق کریں اور ان کے ظلم کی امداد کریں وہ نہ میرے ہیں اور نہ میں ان کا ہوں

    یاد رکھو وہ میرے حوض کوثر پر بھی نہیں آسکتے

    اور جو ان کے جھوٹ کو سچا نہ کرے اور ان کے ظلموں میں ان کا مددگار نہ بنے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں یہ لوگ میرے حوض کوثر پر مجھے ملیں گے  ۔۔۔۔۔ (ماخوذ از تفسیر ابن کثیر 1:76)

    اور اللہ کا فرمان ہے:

    مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا (قرآن 4:85)

    مفہوم : جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے


    تاریخی طور پر علماء سیاست اور طاقت و حکمرانی میں عمل دخل سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھتے تھے اور ان کی توجہ دین کی تعلیم و تبلیغ پر رہی- مگر آج کل پاکستان میں علماء سیاست میں داخل ہو کر تنقید کا نشانہ بنتے ہیں اور اپنےلیے دین اسلام کو ڈھال کے طور پر استمال کرتے ہیں.علماء کی ساکھ   (credibility) خراب ہوتی ہے، لوگ ان کی درست مذہبی باتوں پر بھی دھیان دینا چھوڑ دیتے ہیں، یہ اسلام کے ساتھ زیادتی ہے.