Pages

Monday, October 13, 2014

Islamic Thought & Terrorism انتہا پسندی اور ہمارا رد ِ عمل

Uگرچہ ترکی کے صدر اردوان داعش کے خلاف کارروائی کے لیے امریکی کولیشن فورسز کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں، لیکن داعش کے جنگجو عراق اور شام کو تاراج کرتے ہوئے اب ترکی کی سرحد پر کھڑے ہیں۔ اس دوران امریکی میڈیا میں بھی ایک تنازع جنم لے رہا ہے۔ گزشتہ دنوں بل مہر(Bill Maher) کے ایک بہت زیادہ دیکھے جانے والے شو میں شرکا کے درمیان گرما بحث چھڑ گئی۔ کچھ کا کہنا تھا کہ داعش کے نظریات مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں جبکہ دوسروں نے اس کی سختی سے تردیدکرتے ہوئے کہا کہ اسلام کا ان قاتلوں اور لٹیروںسے کوئی تعلق نہیں۔ 
افسوس کہ جس دوران اسلامی دنیا کو شدید نظریاتی آزمائش کا سامنا ہے، مشرق ِو سطیٰ کے اسلامی حکمرانوںنے اس طرح چپ کی چادر تان لی جیسے ان کی ذرا سی لب کشائی سے داعش کے تیس ہزار سفاک جنگجو ان پر چڑھ دوڑیں گے۔وہ داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کے لیے امریکی کولیشن فورسز کے ساتھ تعاون تو کررہے ہیں لیکن اُنہیں مسلمانوں کی نظریاتی رہنمائی کی توفیق نہیں ہو رہی۔ یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ جب امت کو فکری رہنمائی کی ضرورت تھی تورہنمائی کے دعویدارغائب ہو گئے۔ یہ کتنی افسوس ناک صورت ِحال ہے کہ دہشت گردوں کے نظریات کو کھل کر غیر اسلامی قرار دینے والا بھی کوئی سامنے نہیں آرہا۔ 
امریکہ کے کچھ انتہا ئی سوچ رکھنے والے اسلام دشمن گروہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں اگر بل مہر اور سام ہیرس جیسے مذہب دشمن افراد اسلام کے خلاف جذبات کو ہوادے رہے ہیں۔ وہ ان داعش کے قاتلوں کے نظریات کو اسلامی نظریات ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس دوران، جبکہ اسلام پر حملہ کیا جارہاہے، مسلم دنیا کی آواز کہاں گم ہوگئی ہے؟اسلامی دنیا کی متعدل آوازیں داعش کی مذمت کرتے ہوئے بل مہر جیسے افراد کا منہ بند کیوں نہیں کردیتیں؟جس دوران اسلامی دنیا سکوت کی تصویر بنی ہے، نیویارک ٹائمز کو سلام کہ جس نے مسلسل دو دن ایڈیٹوریل صفحے پر ایسے مضامین شائع کیے جن میں کالم نگاروںنے ثابت کیا تھا کہ داعش اور اسلام کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں۔ 
اگرچہ بل مہر نے اسلام کو ایک مافیا قراردیا لیکن طمانیت کی بات یہ ہے کہ صدر اوباما نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ داعش اور دیگر جنگجو گروہ اسلام کی نمائندگی نہیںکرتے۔ اکیڈیمی ایوارڈ یافتہ اداکار بن افلک(Ben Affleck) نے بن مہر کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان پر نسل پرستی کا الزام لگا یا اور کہا کہ وہ مسلمانوں کی دشمنی میں سوچ سمجھ سے محروم ہوچکے ہیں۔ رضا اسلان (Reza Aslan) جو کہ ایک ایرانی نژاد امریکی مصنف اور سکالر ہیں ، نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ انتہا پسندوںکے نظریات کے مقابلے میں اسلام کے اصل نظریات اجاگر کریں۔ مسٹر اسلان نے اسلام دشمن عناصر کو انتہا پسند قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اصل اسلام کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے حالانکہ یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے۔ 
پاکستان کے معاملات پر بہت قریب سے نظر رکھنے والے نیویارک ٹائمز کے کالم نگار نکولاس کرسٹوف بھی اس پروگرام میںبن مہر کے مہمان تھے ۔ اُنھوں نے بھی اسلام کا دفاع کرتے ہوئے بن افلک کی حمایت کی۔ بعد میں کالم لکھتے ہوئے مسٹر کرسٹوف نے کہا کہ اسلام عدم برداشت کا مذہب نہیں ، بلکہ یہ پہلا مذہب ہے جس نے عورتوں کا سماجی درجہ بلند کرتے ہوئے ان کے حقوق کا تحفظ کیا ۔ اُنھوں نے لکھا۔۔۔''تاریخ پر غیرجانبداری سے نظر رکھنے والا کوئی شخص بھی یہ آسانی سے جان سکتا ہے کہ اسلام تشدد پسند مذہب نہیں ہے۔ یہ عیسائی، نازی، کمیونسٹ ،ہندو، مائو اوربدھ مذہب کے ماننے والے ہیں جنھوں نے وسیع پیمانے پر قتل ِ عام کیا ۔‘‘اسلام کے دامن پر قتل ِعام کا کوئی دھبہ نہیں ہے۔ 
ہم مسٹر کرسٹوف کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اُنھوں نے جرات سے کام لے کر اسلام کا دفاع کیا۔ دوسری طرف مسلمان سکالرز کو یا تو اس کی توفیق نہیںیا پھر وہ اتنے بزدل ہیں کہ کھل کر اپنے عقیدے کا ہی دفاع نہیں کرسکتے۔ نکولاس کرسٹوفر نے یہ بھی کہا کہ اسلام فوبیا سے بچنے کی ضرورت ہے تاکہ مسلمان خود کو نسل پرستی کا شکار نہ سمجھیں۔ تیرھویں صدی میں فرانس میں پوپ کا یہ جملہ کون بھول سکتا ہے جب عیسائیوں کے مذہبی پیشوا نے بیس ہزار کتھار افراد(Cathar) ، جن میں آدمی بھی تھے اور عورتیں اور بچے بھی، کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ اُنھوںنے کہا۔۔۔''ان سب کو قتل کردو، اچھے برے کی تمیز خداخود کرلے گا۔‘‘کرسٹوف نے مزید لکھا کہ اسلام کو مسخ کرتے ہوئے اسے تشدد پسند اور تنگ نظر مذہب ثابت کرناخوفناک غلطی ہے۔ اُنھوںنے کہا کہ انتہا پسندوں کے خلاف مسلمان بھی کھڑے ہیں۔ اُنھوںنے ملالہ اور مختاراں مائی کا بھی حوالہ دیا۔ 
تاہم یہ تنازعہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ بن افلک اور کرسٹوف کی طرف سے اسلام کے دفاع نے فاکس نیوز اور اسلام دشمن نظریات رکھنے والے دیگر چینلز کو مشتعل کردیا۔ اُنھوںنے اسلام اور مسلمانوں پر تنقید کی توپوں کے دہانے وا کردیے۔ نائن الیون کے بعد بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ میں اُس وقت امریکہ میں ہی تھی اور میں نے وہ وقت دیکھا ہے جب ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد امریکی مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوگیا تھا۔ایسا لگتا تھا کہ ہم قرون ِ وسطیٰ میں جی رہے ہیں۔ اتنی مذہبی تنگ نظری حالیہ تاریخ میں دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ اُس وقت رسول ِ اکرمﷺ کا فرمان ِ اقدس یاد آتا تھا۔۔۔''ایک وقت آئے گا جب تمھارے ہاتھوں میں مذہب دہکتے ہوئے کوئلوں یا سمندر کی لہروں کی طرح ہوجائے گا۔ ‘‘ ایسا لگتا تھا کہ امریکہ میں وہ وقت آگیا ہے۔ بہت سے انتہا پسند، جیسا کہ جیری فلویل اور بلی گراہم شعائر ِ اسلام پر حملے کررہے تھے۔ وہ اپنے پیروکاروں کو مسلمان شہریوں پر حملے کرنے پر اکسارہے تھے۔ 
آج تیرہ سال بعد ایک مرتبہ پھر داعش کے حوالے سے مسلمان امت آزمائش کا شکار ہے۔ آج ہم پر اغیار حملہ آور نہیں بلکہ مسلمانوں کے روپ میں ہی قاتلوں کا ایک ٹولہ عراق اور شام میں قتل وغارت کا بازار گرم کرتے ہوئے دیگر اسلامی ممالک کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آج کوئی صلیبی جنگ نہیں ہونے جارہی۔ ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ کنفیوژن سے بچتے ہوئے یک زبان ہوکر ان کی مذمت کرنی ہے اور اپنے عقیدے کا تحفظ کرنا ہے۔ دنیا دل سے جانتی ہے کہ اسلام تشدد پسند مذہب نہیں ہے، لیکن ہم کس تذبذب کا شکار ہیں؟ ہم آگے بڑھ کر دہشت گردی کے خلاف کیوں نہیں بولتے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج اسلام کا دفاع ایک اداکار اور ایک غیر مسلمان لکھاری کررہے ہیں جب کہ اسلامی دنیا نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ یہ بات ہم پاکستانیوں کو فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ داعش طالبان سے مختلف گروہ ہے۔ طالبان کے مقابلے میں عسکری قوت کام دے رہی ہے، لیکن داعش کے خلاف نظریات کی جنگ لڑنا فوج کا کام نہیں۔ اس کے لیے اہلِ فکر کو سامنے آنا پڑے گا۔ یہ سجدے میں گرنے کا نہیں، قیام کا وقت ہے۔ 
Anjum  Niaz