Pages

Monday, November 11, 2013

​ امریکہ کیوں تحریک طالبان سے امن کے خلاف ہے ?Why USA is against peace with Pakistani Taliban

ہمارے میڈیہ کے بیشتر مبصرین بڑے سادہ لوح ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ امریکہ کی سوچ وہی ہے جو ان کے خیال میں اس کی سوچ ہے اور یہ بدلتی بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے  کہ امریکہ کی سوچ اس کی اپنی ہوتی ہے اور وہ حالات کے ساتھ بدل بھی جاتی ہے۔ مبصرین کا ایک اور مسئلہ بھی ہے، جس کی بنا پر بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں۔ پورا سچ کوئی نہیں بول رہا ہوتا کیوں کہ ہر ایک کا اپنا اپنا ایجنڈہ ہے۔
سوچنے کی اصل بات یہ ہے کہ امریکہ کیوں ڈرون حملے بند نہیں کر رہا۔ ظاہر ہے کہ وہ تحریک طالبان کو کمزور کرنے کے لیئے اس کے لیڈروں کو چن چن کر قتل کر رہا ہے۔ حکیم اللہ محسود کے پیشرو اور جانشین دونوں اس کی زد میں آتے رہے اور آتے رہیں گے۔
پہلے مختصر طور پر تحریک طالبان کا پس منظر۔ تحریک طالبان امریکہ اور ہندوستان کا مشترکہ منصوبہ تھا۔ مقصد یہ تھا کہ پہلے "اسلامی امارت وزیرستان" بنائی جائے۔ پھر اسے باقی فاٹا تک پھیلایا جائے۔ اس کے بعد پورے صوبہ کو شامل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس طرح جو ملک وجود میں آئے اس کا نام "پختون خوا" رکھا جائے۔ اسے ہندوستان اور افغانستان فوری طور پر تسلیم کر لیں۔ امریکہ بھی عملی طور پر ساتھ دے۔ اس طرح وہ افغانستان سے نکل کر وہاں مستقل طور پر بیٹھ جائے گا اور پھر امریکہ اور ہندوستان مل کر تمام ہمسایہ ممالک (ایران، وسطی ایشیا، روس، چین اور پاکستان) میں اپنے اپنے مفادات کے لیئے مداخلت کرتے رہیں۔
امریکہ نے افغانستان میں پائوں جماتے ہی عوامی نیشنل پارٹی سے کہا کہ وہ شمال مغربی سرحدی صوبہ کا نام بدل کر "پختون خوا" رکھوائے، جو بعد میں نئے ملک کا نام بن جائے گا۔ (علیحدگی کے لیئے نام پہلا قدم ہوتا ہے۔ عوامی لیگ نے 1956 کے آئین کے مسودہ پر بحث کے دوران "مشرقی پاکستان" کا نام "بنگلہ دیش" رکھنے کے لیئے ترمیم پیش کی تھی۔)
امریکہ تحریک طالبان پاکستان کو پیسہ اور اسلحہ دینے لگا اور ہندوستان دہشت گردی کی تربیت دینے اور منصوبہ بندی کرنے میں لگ گیا۔ جب سوات پر طالبان کا قبضہ ہو گیا تو دونوں ملکوں کو اپنا مقصد پورا ہوتا نظر آیا۔ ان کا اندازہ ٹھا کہ فوج صورت حال سے نبٹ نہیں سکے گی اور نہ ہی سوات کے بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگ واپس جا سکیں گے۔ جلد ہی سندھ دریا کے شمال میں سارا علاقہ ان کے کنٹرول میں آ جائے گا۔ صوبہ میں عوامی نیشنل پارٹی نے طالبان کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی سے گریز کیا۔ (پارٹی کو اسی لیئے حکومت دلائی گئی تھی۔)
امریکہ کا اب کیا منصوبہ ہے؟
امریکہ کی خصوصیت ہے کہ کسی منصوبہ کی ناکامی پر پالیسی بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتا۔ جب ہماری فوج نے نہ صرف سوات سے طالبان کو نکال دیا بلکہ لاکھوں افراد کو تھوڑی سی مدت میں ان کے گھروں میں بحال کر دیا تو امریکہ کو یقین ہو گیا کہ فوج کے ہوتے ہوئے "پختون خوا" کا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ دوسری طرف، اسے نظر آیا کہ تحریک طالبان افغان طالبان اور بچی کھچی القاعدہ کی مدد کر رہی ہے تو وہ اس کا دشمن ہو گیا۔ صورت حال یوں بنی کہ امریکہ کھلم کھلا تحریک طالبان کو ختم کرنے کے لیئے کوشش کرنے لگا۔ ڈرون حملوں کا آغاز بھی اسی لیئے ہوا۔
تاہم ہندوستان بدستور جہاں تک ہو سکا اپنے وسائل سے تحریک کی مدد کرتا رہا، کہ نیا ملک نہ سہی لیکن دہشت گردی سے پاکستان کو کمزور تو کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی جمیعت علماء اسلام (فضل الرحمان گروپ) اور دوسرے ایجنٹوں کے ذریعہ مذہبی لوگوں کو قائل کرنے لگا کہ تحریک طالبان کامیاب ہو گئی تو پاکستان ان کی خاہش کے مطابق اسلامی ملک بن جائے گا۔ سیکولر حکومتوں سے نالاں بہت سے سادہ لوح افراد پراپیگنڈہ کا شکار ہو گئے۔ مذہبی جماعتوں سے خّوف زدہ حکومتیں تحریک کے خلاف کاروائی سے گریز کرتی رہیں۔ فوج کے مصلحت کوش سربراہ نے بھی عالم بے عمل ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کوئی کاروائی نہ کی، حالانکہ دہشت گردوں نے نہ صرف بہت سے فوجی ٹھاکانوں بلکہ جی۔ ایچ۔ کیو۔ تک پر حملے کیئے۔ سیاسی لوگ کہتے ہیں کہ پرویز مشرف نے فاٹا میں فوج بھیجی اور ڈرون حملوں کی بھی غیررسمی طور پر اجازت دی۔ لیکن یہ سوال نہیں کرتے کہ جنرل کیانی نے چھ سال میں دونوں فیصلے منسوخ کیوں نہ کیئے۔ غلط فیصلہ ہو گیا تو کیا اسے واپس لینا ممکن نہیں تھا؟
تحریک طالبان کیوں ڈرون حملے بند کرانے کے لیئے کوشاں ہے؟
تحریک طالبان کو ہماری فوجی کاروائیوں سے کہیں زیادہ نقصان ڈرون حملوں سے ہو رہا ہے۔ جہاں ہماری فوج نہیں پہنچ سکتی وہاں ڈرون اس کے سرکردہ افراد کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے مختلف گروہوں کے سربراہ ایک دوسرے سے نہ مل سکتے ہیں اور نہ ان کے درمیان رابطہ آسان ہے۔ طالبان اتنے پریشان ہیں کہ مذاکرات کے لیئے ان کی سب سے اہم شرط ہے کہ ڈرون حملے بند کرائے جائیں۔
تحریک طالبان کو نظر آ رہا ہے کہ امریکہ کے چلے جانے کے بعد ہندوستان بھی ہاتھ کھینچ لے گا۔ جب ایک طرف نہ پیسہ ملے گا اور نہ اسلحہ اور دوسری طرف اوپر سے ڈرون اور نیچے سے فوج انھیں نشانہ بنائے گی تو کب تک بچیں گے۔ چنانچہ بیشتر طالبان چاہتے ہیں کہ گھروں کو چلے جائیں۔ البتہ کچھ گروپ اغوا برائے تاوان اور دوسرے جرائم کے سہارے زندہ رہنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ اگر انھیں مقبوضہ کشمیر میں داخل کرا دیا جائے تو وہ وہاں وہی کچھ ہندوستان کے خلاف کریں گے جو ہمارے خلاف کر رہے ہیں۔ ہندوستان کی فلمی زبان مں "پیسہ لے کر سالہ کچھ بھی کرے گا۔"
تحریک طالبان کے ہندوستان کے زیراثر گروہوں کی امن کی خاہش بھی ایک چال ہے۔ ان کی بڑی شرائط دیکھیں: ڈرون حملے بند کیئے جائیں، فوج فاٹا سے نکل جائے اور مذاکرات آئیِن کے تحت نہ ہوں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انھیں نئے سرے سے جتھہ بندی اور منصوبہ بندی کے لیئے مہلت مل جائے تاکہ وہ الگ ملک کے لیئے کوشش کرتے رہیں۔
امن کے بدلہ ہمیں کیا ملے گا؟
کچھ بھی نہیں! بس کچھ طالبان گھروں کو چل دیں گے، بغیر ہتھیار ڈالے۔ خود کش حملوں کے ختم ہونے کی بھی ضمانت نہ ہوگی کیوں کہ کچھ گروپ ہندوستان کی سرپرستی میں دہشت گردی جاری رکھ سکتے ہیں۔
پھر سیاست کار کیوں امن کے لیئے بے چین ہیں؟ وہ چاہتے ہیں کہ بغیر کچھ کیئے امن ہو جائے۔ انھیں احساس نہیں کہ باغیوں سے کبھی مذاکرات نہیں کیئے جاتے اور نہ ان کی امن کی پیشکش قبول کی جاتی ہے۔ سری لنکا میں 30 سال تک تامل باغیوں کے خلاف کاروائی ہوتی رہی۔ اس وقت ختم ہوئی جب بغاوت کا پوری طرح خاتمہ ہو گیا۔
اگر کبھی کوئی امن معاہدہ ہو بھی گیا، جس میں بیشتر گروپ شامل ہوں، تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ تحریک طالبان دہشت گردی اور خودکش حملے بند کر دے گی اور دوسری طرف حکومت کسی قسم کی فوجی کاروائی نہیں کرے گی۔
امریکہ کیا چاہے گا؟
یہ "بقاء باہمی" امریکہ کو قبول نہیں ہوگی۔ وہ جاتے ہوئے حکومت طالبان کے حوالہ نہیں کرے گا (گو انھیں حکومت میں شریک بنانے کی کوشش کر سکتا ہے) ممکن ہوا تو اپنی کچھ فوج بھی چھوڑ جائے گا۔ امن کی صورت میں اسے خطرہ رہے گا کہ تحریک طالبان افغان طالبان کو ہر قسم کی مدد دیتی رہے گی، جس سے اس کے لیئے مشکلات پیدا ہوتی رہیں گی۔ چنانچہ امریکہ چاہتا ہے کہ امن مذاکرات نہ ہوں بلکہ ہماری فوج بھرپور کاروائی کرے اور تحریک طالبان کو پوری طرح کچل دے۔ ہماری فوج بھی اس کی ہم خیال لگتی سسہے۔ اس طرح امریکہ کا مقصد پورا ہو جائے گا اور ہمیں دہشت گردی سے نجات مل جائے گی۔ نہ امن معاہدہ ہوگا اور نہ ڈرون حملے بند ہوں گے۔ البتہ سیاست کار شور مچاتے رہیں گے، خاص طور پر فرقہ ورانہ جماعتوں کے۔
الله حافظ!
محمّد عبد الحمید 
مصنف، "غربت  کیسے مٹ سکتی ہے" (کلاسک پبلشر، لاہور)
"دنیا" میں میرے کالموں کے لیئے www.mahameed-dunya.blogspot.com