Pages

Monday, January 21, 2013

Prohibit Evil by Force: برائی کو طاقت سے روکنا


سوال: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، یعنی ’نیکی کا حکم دینا‘ اور ’برائی کو روکنا‘ دینی طبقات کے نزدیک ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ اس میں بھی برائی [منکر] کو بزورِ قوت روکنے کا مسئلہ زیادہ اہم ہے، اور اسی طرح یہ بات بھی کہ برائی کو روکنے کا یہ حق کسے حاصل ہے اور یہ کب جائز ہوتا ہے؟
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ حق فقط اہل اقتدار کو حاصل ہے، یعنی یہ حکومت کی ذمہ داری میں شامل ہے، افراد کی ذمہ داری نہیں ہے، کیونکہ اگر یہ حق افراد کے پاس ہو تو معاشرے میں فساد رُونما ہو سکتا ہے۔کچھ دوسرے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ برائی کو روکنا ہر مسلمان کے فرائض میں شامل ہے۔ ان کی دلیل یہ صحیح حدیث رسولؐ ہے: ’’تم میں سے کوئی منکر کو دیکھے تو اُسے اپنے ہاتھ کی طاقت سے بدل دے۔ اگر کوئی یہ طاقت اپنے اندر نہ رکھتا ہو تو وہ اپنی زبان سے کام لے۔ اور اگر کوئی اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو وہ اپنے دل میں اسے برا سمجھے اور یہ ضعیف ترین ایمان ہے۔‘‘ (مسلم، عن ابی سعید الخدریؓ)
سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قوی ترین ایمان پر قادر ہے تو وہ اس کے ضعیف ترین درجے پر کیوں راضی ہو جائے؟یہ وہ رجحان ہے جو انجام اور نتائج کی پروا کیے بغیر برائی کو روکنے کے حوالے سے بعض جذباتی نوجوانوں میں پایا جاتا ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ چونکہ اہل اقتدار اور حکومت خود برائی کا ارتکاب کرتی ہے، یا اس کی پشت پناہی کرتی ہے، حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھیراتی ہے، یا فرائض کو ساقط کرتی ہے، یا حدود سے تجاوز کرتی ہے، یا حق سے دشمنی رکھتی ہے اور باطل کو رواج دیتی ہے، تو ایسی صورتِ حال میں افراد پر فرض ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔ اس کوشش میں اگر افراد کوئی نقصان اٹھاتے ہیں تو وہ اللہ کی خاطر ہوگا، اگر قتل کر دیے جائیں گے تو فی سبیل اللہ شہادت ہو گی اور حدیث رسولؐ کے مطابق وہ سید الشہداء حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب کی ہمسایگی میں جگہ پائیں گے۔
دونوں طرف کے ان دلائل کی بنا پر بہت سے لوگوں خصوصاً غیرت مند دین پسند نوجوانوں کے لیے یہ معاملہ کچھ الجھ سا گیا ہے۔ جو لوگ پہلے موقف کے قائل ہیں کہ برائی کو روکنے کا اختیار اہل اقتدار کے پاس ہے،عموماً وہ لوگ ہیں جن کو ’سرکاری علما‘ کہا جاتا ہے اور عوام میں اُن کی بات کو کوئی اہمیت اور وزن حاصل نہیں ہوتا، جب کہ دوسرا گروہ جو برائی کو بزورِ قوت روکنے کا قائل ہے، یہ سب وہ نوجوان ہیں جن کو انتہا پسند، جذباتی اور شریعت کا ظاہری مفہوم لینے کا الزام دیا جاتا ہے۔
گزارش ہے کہ صحیح راے کی نشان دہی کریں۔ ہو سکتا ہے دونوں ہی درست ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں درست نہ ہوں، بلکہ تیسری راے درست ہو جو اِن کے علاوہ ہو۔
جواب: نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا فریضہ اسلام کے بنیادی فرائض میں سے ہے۔ یہ وہ فریضہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کی فضلیت کے دو بڑے اسباب میں سے ایک قرار دیا ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰلِ عمرٰن۳:۱۱۰)، اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
قرآنِ مجید کی نظر میں مؤمنوں کی اساسی صفات یہ ہیں:
اَلتَّآءِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآءِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ (التوبہ ۹:۱۱۲) اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے، اس کی بندگی بجا لانے والے، اس کی تعریف کے گن گانے والے، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے۔
قرآنِ مجید نے جس طرح نیکی کا حکم دینے والوں اور برائی سے روکنے والوں کی تعریف کی ہے، اسی طرح اُن لوگوں کی مذمت بھی کی ہے جو نیکی کا حکم نہیں دیتے اور برائی سے نہیں روکتے :
لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَoکَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ ط لَبِءْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ o(المائدہ۵: ۷۸۔ ۷۹)، بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اُن پر داؤدؑ اور عیسیٰؑ ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہو گئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے، انھوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا، برا طرزِ عمل تھا جو انھوں نے اختیار کیا۔
مذکورہ آیت کے مطالعے کی روشنی میں مسلمان صرف انفرادی حیثیت ہی میں صالح انسان نہیں ہوتا جو اچھے کام کرتا ہے، برائی سے بچتا ہے اور اپنے ایک خاص دائرے میں زندگی گزارتا ہے، نہ اُسے یہ فکر ہو کہ خیر کا دائرہ سمٹ رہاہے اور اُسے بے وقعت بنایا جا رہا ہے، نہ اُسے یہ پریشانی ہو کہ برائی اُس کے اردگرد پھیل رہی ہے اور پرپرزے نکال رہی ہے___ بلکہ ہرمسلمان اپنی ذات میں ایسا صالح انسان ہوتا ہے جس کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ وہ اوروں کی بھی اصلاح کرے۔ اسی بات کو قرآنِ مجید کی مختصر سورت سورۂ عصر میں بیان کیا گیا ہے: ’’زمانے کی قسم، انسان درحقیقت خسارے میں ہے، سواے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے‘‘(العصر۱۰۳:۱۔۳)۔ جو مسلمان دنیا و آخرت میں خسارے سے دوچار ہو جائے اس کے لیے نجات ممکن نہیں۔ نجات اگر مسلمان کا مقدر بن سکتی ہے تو صرف اسی صورت میں جب وہ حق اور صبر کی تلقین کا فریضہ ادا کرے اور یہی وہ چیز ہے جس کو ’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘ کا بھی نام دیا گیا ہے۔ مسلمان اُمت مسلمہ میں حق و خیر کا محافظ اور نگران ہے۔
مسلم معاشرے میں برائی صرف اِسی صورت میں ہوتی ہے، جب معاشرہ غفلت کا شکار ہوجائے یا ضعف اور انتشار سے دوچار ہو جائے۔ ایسی صورتِ حال میں یہ معاشرہ نہ قائم رہ سکتا ہے اور نہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو محفوظ بھی خیال نہیں کر سکتااور اپنے ان دگرگوں حالات کی بنا پر کسی قانون کے نفاذ سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔
برائی، مسلم معاشرے میں غیر مقبول عنصر کے طور پر ہی زندہ رہ سکتی ہے۔ جیسے پھانسی یا عمر قید کے سزا یافتہ مجرم کی کیفیت ہوتی ہے۔ وہ ماوراے عدالت اور معاشرے سے چھپ چھپا کر زندگی گزارتا اور نقل و حرکت کرتا ہے۔ لہٰذا مسلمان سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ برائی کے سامنے اس وقت تک مزاحمت کرے اور اُسے روکے، جب تک اس کا ایسے علاقے سے خاتمہ نہیں ہو جاتا جو علاقہ برائی کو پسند کرنے والوں کا نہیں بلکہ مسلمانوں کی سرزمین ہے۔
مذکورہ حدیثِ رسولؐ کا مطلب بالکل واضح ہے کہ برائی کو روکنا ہر اُس مسلمان کا حق بلکہ فریضہ ہے جو اُسے دیکھ لے۔ اس بات کے فرض اور واجب ہونے کی دلیل حدیث میں مذکور لفظ ’مَن‘ ہے یعنی مَنْ رَأیٰ ’’جو بھی دیکھے‘‘ عام الفاظ ہیں۔ یہ الفاظ ہر اُس شخص کے لیے ہیں جو برائی کو دیکھے، وہ شخص حاکم ہو یامحکوم۔ رسول ؐاللہ نے تو تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے یہ بات فرمائی ہے، یعنی مَنْ رَأیٰ منکم ’’تم میں سے جو شخص بھی برائی کو دیکھے‘‘۔ آپؐ نے اس میں سے کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا، صحابہ کرامؓ سے لے کر قیامت تک آنے والی امت مسلمہ کی تمام نسلیں اس میں شامل ہیں۔ یہ ’برائی کو دیکھنے والا‘ امت کا رہنما، سربراہ اور حاکم بھی ہو سکتا ہے اور عوام میں سے کوئی فرد بھی ہو سکتا ہے۔ ان میں سے جو بھی برائی کو دیکھے وہ طاقت کے مطابق اسے روکنے کی کوشش کرے۔

برائی کو روکنے کی شرائط
برائی کو روکنے کے حوالے سے مسلم فرد یا مسلم جماعت کو جن لازمی شرائط کا خیال رکھنا واجب ہے اور جن کی طرف حدیث کے الفاظ اشارہ کرتے ہیں وہ شرائط حسب ذیل ہیں:
* حرام اور متفقہ منکر: پہلی شرط یہ ہے کہ وہ برائی متفقہ طور پر حرام کاموں میں شامل ہو، یعنی وہ برائی حقیقتاً’منکر‘ ہو۔ اس سے مراد وہ برائی ہے جس کو اولاً ہاتھ کی طاقت سے، پھر زبان سے اور پھر دل سے روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ حدیث میں مذکور لفظ ’منکر‘ [برائی] کا اِطلاق صرف اس ’حرام‘ کے اوپر ہی کیا جاتا ہے جس کو چھوڑنے کا شارع نے تاکیدی حکم دیا ہو، جب کہ اس حرام کا ارتکاب کرنے والا عذابِ الٰہی کا مستحق بھی ٹھیرتا ہو، اور پھر اس حرام کا تعلق منع کیے گئے حرام کاموں کا ارتکاب کرنے سے ہو یا انجام دیے جانے والے امورکو چھوڑ دینے سے۔ اس منکر کا تعلق محرماتِ صغیرہ [چھوٹے حرام امور] سے ہو یا محرماتِ کبیرہ [بڑے حرام امور] سے۔ اگرچہ محرماتِ صغیرہ کے بارے میں تساہل سے کام لیا جاتا ہے، لیکن محرماتِ کبیرہ کے متعلق ایسا تساہل نہیں پایا جاتا، خصوصاً اس وقت جب ان ’منکرات‘ کا مرتکب ان کا عادی بھی نہ ہو۔ قرآنِ حکیم میں ہے:
اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآءِرَ مَا تُنْھَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ نُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلًا کَرِیْمًا(النساء۴:۳۱)، اگر تم اُن بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمھیں منع کیا جا رہا ہے تو تمھاری چھوٹی موٹی برائیوں کو ہم تمھارے حساب سے ساقط کر دیں گے اور تم کو عزت کی جگہ داخل کریں گے۔
رسولِ کریمؐ نے فرمایا: پانچ نمازیں، جمعہ سے اگلے جمعہ تک اور رمضان سے اگلے رمضان تک کے درمیانی عرصے کے گناہوں کو محو کر دیتی ہیں، اگر تم کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرو تو (مسلم، عن ابی ہریرہؓ)۔ لہٰذا مکروہ افعال کا ارتکاب اور مسنون اور مستحب اعمال کو ترک کر دینے کا فعل ’منکر‘ میں داخل نہیں ہے۔ ایک سے زیادہ صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے کہ ایک شخص نے نبیؐ سے فرائضِ اسلام کے بارے میں پوچھا تو آپؐ نے اس کے سامنے نماز، روزہ، زکوٰۃ کے فرائض بیان کیے۔ یہ شخص ہر فرض کے ذکر کے بعد آپؐ سے پوچھتا تھا کہ کیا اس کے علاوہ بھی کچھ میرے اوپر فرض ہے؟ آپؐ اُسے جواب دیتے: ’’اگر تم نفلی طور پر کچھ کرنا چاہو تو کر سکتے ہو‘‘۔۔۔ رسولؐ اللہ اپنی بات سے فارغ ہوئے تو اُس شخص نے کہا: اللہ کی قسم یا رسول اللہ! میں نہ اس سے کچھ زیادہ کروں گا اور نہ اس میں کوئی کمی کروں گا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ’’اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ نجات پا گیا‘‘۔ یا آپؐ کے الفاظ تھے: ’’اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ جنت میں داخل ہو گیا‘‘ (بخاری، مسلم، عن طلحہ بن عبید اللہؓ)۔ایک دوسری حدیث کے الفاظ ہیں: ’’جو شخص کسی جنتی آدمی کو دیکھ کر خوش ہونا چاہے وہ اس آدمی کو دیکھ لے‘‘(بخاری ، مسلم، عن ابی ہریرہؓ)۔ لہٰذا ضروری ہے کہ یہ ’منکر‘ جس کو روکنے کا مسئلہ درپیش ہو، وہ حرام کے درجے میں آتا ہو اور شریعت کی رو سے حقیقتاً ’منکر‘ ہو۔ شریعت کے ٹھوس اور واضح الفاظ یا قطعی قواعد و ضوابط سے اس کا ’منکر‘ ہونا ثابت ہو۔ اس ’منکر‘ کا منکر ہونا محض راے اور اجتہاد سے ثابت نہ ہوتا ہو کیونکہ راے اور اجتہاد درست بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی۔ یہ زمانے، مقام، اور حالات و رواج کے بدلنے سے بدل جاتے ہیں۔
اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس برائی کے ’منکر‘ ہونے پر سب کا اتفاق ہو۔ ایسے امور جن کے بارے میں قدیم یا جدید علماے اجتہاد کا اختلاف ہو، یعنی اس امر کے جائز ہونے اور ممنوع ہونے کے بارے میں علما متفق نہ ہوں، تو یہ اُس ’منکر‘ کے دائرے میں داخل نہیں جس کو ہاتھ کی قوت سے روکنا، خصوصاًانفرادی سطح پر روکنا واجب ہے۔
تصویر، آلات یا غیر آلات کی موسیقی، عورت کا چہرے اور ہتھیلیوں کو نہ چھپانا، عورت کا عدالتی امور کے مناصب پر تقرر، ایک ہی دن روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا معاملہ جو مطالع کے اختلاف کی وجہ سے سامنے آتا ہے، چاند کو آنکھ سے مشاہدہ کرنا یا ریڈار اور کیلنڈر وغیرہ کی مدد سے یہ حساب قائم کرنا وغیرہ ایسے امور اور مسائل ہیں جن کے بارے میں قدیم اور جدید فقہا کا طول طویل اختلاف موجود ہے۔ ان امور میں کسی مسلمان فرد یا مسلمان جماعت کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ کسی ایک راے کو اختیار کر کے دوسروں کو سختی کے ساتھ اس پر مجبور کرے۔
یہاں تک کہ جمہور اکثریت کی راے اقلیت کی راے کو ساقط اور بے اعتبار نہیں کر سکتی خواہ مخالفت میں صرف ایک فرد ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ وہ فرد اہل اجتہاد میں سے ہو، یعنی اس کے اندر مجتہدانہ صفات اور صلاحیتیں موجود ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے اور عہد میں ایک راے متروک ہوتی ہے، لیکن کسی دوسرے عہد میں اس کا رواج ہو جاتا ہے۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی فقیہ کی راے کو اس کے دور میں ضعیف قرار دیا گیا اور بعد میں کوئی پیدا ہوا جس نے اس راے پر دلائل قائم کیے اور اس کو صحیح اور قوی کے مقام پر لا کھڑا کیا۔ پھر یہی راے قابل اعتماد قرار پائی اور اسی کی بنیاد پر فتوے دیے جانے لگے۔
طلاق اور خاندانی معاملات میں امام ابن تیمیہؒ کی آرا کا معاملہ ایسا ہی ہے۔ انھیں زندگی بھر ان آرا کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وفات کے بعد بھی صدیوں اُن کی راے کے خلاف مزاحمت ہوتی رہی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کے پھیلنے کے اسباب پیدا فرمائے اور یہی آرا بہت سے اسلامی ممالک میں فتویٰ، عدالت اور قانون سازی کے شعبوں میں سند قرار پائیں۔
وہ ’منکر‘ جس کو طاقت سے روکنا واجب ہے، اس کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ثابت اور بین ’منکر‘ ہو۔ مسلمان ائمہ کا اس کے ’منکر‘ ہونے پر اتفاق ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا روکنا شر کے لامتناہی سلسلے کا باعث نہ بن جائے۔ لہٰذا جو شخص بھی برائی کو روکنے کے بارے میں راے رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کو آمادہ کرے کہ وہ اس برائی کو طاقت سے روک دیں۔
بعض اسلامی ممالک میں جوشیلے اور جذباتی نوجوانوں کے گروپ بنے ہوئے ہیں تاکہ اُن دکانوں کی توڑ پھوڑ کریں جو بچوں کے کھلونے اور گڑیائیں فروخت کرتی ہیں۔ ان نوجوانوں کا خیال ہے کہ یہ کھلونے اور گڑیائیں بت ہیں اور مجسمے کی شکلیں ہیں جو کبائر میں بھی سب سے اُوپر کا درجہ رکھتے ہیں۔
جب ان نوجوانوں سے کہا جاتا ہے کہ قدیم علما نے بچوں کے کھلونوں کی اجازت دی ہے کیونکہ ان میں تو ’صورت‘ [تصویر] کی توہین اور اس کی تعظیم کی نفی ہے___ اس پر نوجوانوں کا جواب ہوتا ہے کہ یہ راے تو قدیم کھلونوں کے بارے میں تھی۔ اب تو تصویر کی کامل تر صورت سامنے آ گئی ہے، جس میں کھلونا آنکھیں کھول سکتا اور بند کر سکتا ہے۔جب ان نوجوانوں سے یہ کہا گیا کہ بچہ تو ان کھلونوں کو دائیں، بائیں پھینکتا ہے، ان کا بازو توڑ دیتا ہے، ٹانگ الگ کر دیتا ہے، وہ تو انھیں تعظیم و احترام یا تقدس نہیں دیتا، تو ان نوجوانوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔
اسی طرح کئی اسلامی ممالک میں بعض نوجوانوں نے رمضان کا چاند نظر آ جانے پر ہوٹلوں، جوس کی دکانوں اور قہوہ خانوں کو جبراً بند کرانے کی کوشش کی۔ ان جذباتی نوجوانوں کا خیال تھا کہ رمضان شروع ہو چکا لہٰذا اب کھلے عام کھانا پینا جائز نہیں۔
ایسا ہی واقعہ مصر میں بھی عیدالفطر کے موقع پر پیش آیا تھا، جب دینی حلقوں نے مختلف دلائل کی بنیاد پر یہ کہا تھا کہ شوال شروع نہیں ہوا۔ مطلع ابرآلود ہونے کے سبب اس رات چاند کی رؤیت ممکن نہیں تھی، لہٰذا مصر میں چاند دکھائی نہ دیا۔ مگر بعض حلقوں نے چاند نظر آ جانے کا اعلان کر دیا، تو کچھ نوجوانوں نے اصرار کیا کہ وہ روزہ چھوڑ دیں گے اور قوم کی اکثریت اور حکومت کے علی الرغم عیدمنائیں گے۔ اس موقع پر امن فورسز کے ساتھ تصادم ہو گیا جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔
میری راے میں یہ لوگ درج ذیل وجوہات کی بنا پر خطا کے مرتکب ہوئے ہیں:
۱۔ فقہا کی آرا چاند کی رؤیت پر اعتماد کرنے کے حوالے سے مختلف ہیں۔ ان میں سے کسی نے ایک شہادت کو کافی سمجھا ہے، کسی نے دو شہادتوں کا مطالبہ کیا ہے اور کسی نے صاف مطلع میں جم غفیر کی شہادت کی شرط عائد کی ہے۔ ان میں سے ہر کسی کے اپنے دلائل اور اپنا زاویۂ نظر ہے۔ لہٰذا لوگوں کو بغیر کسی قوت نافذہ کے ایک طریقے پر مجبور کرنا جائز نہیں۔
۲۔اسی طرح ان فقہا کا اختلافِ مطالع کے اعتبار اور عدم اعتبار کے مسئلے میں بھی اختلاف ہے۔ متعدد فقہی مذاہب کی راے یہ ہے کہ ہر علاقے کی رؤیت اپنی ہے۔ کسی ایک علاقے کے لیے کسی دوسرے علاقے کی رؤیت پر عمل کرنا لازمی نہیں ہے۔ یہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور ان کے موافقین کا مذہب ہے۔ جیسا کہ یہ مسلم میں حضرت کریبؓ کی حدیث سے معروف ہے۔
۳۔ اختلافی امور میں حکمران یا قاضی کا حکم اختلاف کا خاتمہ کر دیتا ہے اور قوم کے لیے اس کا حکم ماننا لازمی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس طرح کے مسائل میں جب مقتدر قانونی قوتیں کسی امام کے قول یا اجتہاد کو اختیار کر لیں تو ان کی پیروی فرض اور قوم کے اندر فرقہ بازی ممنوع ہو جاتی ہے۔
میں نے اپنے بعض فتاویٰ میں کہا ہے کہ اگر ہم رمضان کا روزہ شروع کرنے اور عید منانے کے معاملے میں تمام مسلمانوں کی وحدت کو ممکن نہیں بنا سکتے تو کم سے کم ایک علاقے یا ملک کے لوگ تو اپنے شعائر میں اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ اُن کے لیے یہ صورتِ حال قابل قبول نہیں ہونی چاہیے کہ ایک ملک کے لوگ دو حصوں میں بٹے رہیں۔ ایک حصہ روزے سے ہو اور دوسرا روزے کے بغیر۔ لیکن مخلص نوجوانوں کی اس اجتہادی غلطی کا علاج گولی نہیں ہے، بلکہ صبر و تحمل کے ساتھ اُنھیں بات سمجھانا ہے۔

* منکر کا ظاہری ارتکاب: دوسری شرط یہ ہے کہ منکر کا ارتکاب ظاہری ہو، خفیہ نہ ہو، یعنی اس منکر کا ارتکاب ظاہر اور دیکھا جا سکنے والا ہو۔ اگر کوئی شخص اسے لوگوں کی نظروں سے چھپائے رکھتا ہے اور اپنے بند دروازے کے اندر ایسا کرتا ہے تو کسی کے لیے اس کے بارے میں نگرانی کے آلات یا خفیہ تصویری کیمروں یا منکر کے ارتکاب کے شک میں اس کے گھر پر چھاپہ مارنا جائز نہیں ہے۔
یہ وہ نکات ہیں جن کی نشان دہی حدیث کے یہ الفاظ کرتے ہیں: مَنْ رَأی مِنْکُم مُنْْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہٗ۔۔۔ ’’جو تم میں سے کسی منکر کو دیکھے وہ اُسے بدل دے۔۔۔‘‘ یعنی روکنے کا حکم منکر کے دکھائی دینے اور مشاہدے میں آ سکنے سے مشروط ہے۔ منکر کے بارے میں کسی سے صرف سن لینے کی شرط نہیں لگائی گئی۔
ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ اسلام اس شخص پر سزا کو نافذ نہیں کرتا جو ’منکر‘ کا ارتکاب چھپ چھپا کر کرے، علی الاعلان نہ کرے۔ اسلام اس کا حساب آخرت میں اللہ پر چھوڑ دیتا ہے۔ دنیا میں اس کے اُوپر کسی کو کوئی اختیار نہیں، سواے یہ کہ وہ خود اپنے جرم کو ننگا کر دے اور اپنا پردہ ظاہر کردے۔
عذابِ الٰہی کے بارے میں تو یہاں تک ہے کہ جس شخص کے جرم پر اللہ کی طرف سے پردہ پڑا ہوا ہے اور وہ خود بھی اُسے ظاہر نہیں کرتا تو ایسے مجرمین کی سزا میں تخفیف کر دی جائے گی۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے: ’’میری پوری امت کو معاف کیا جا سکتا ہے مگر معصیت کا علی الاعلان ارتکاب کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ خفیہ منکرات کے بارے میں کسی کو کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ خفیہ منکرات میں سرفہرست قلبی معصیات: ریاکاری، نفاق، کبر، حسد، بخل اور غرور وغیرہ ہیں۔ اگرچہ دین نے ان گناہوں کو کبیرہ قرار دیا ہے، لیکن یہ اُس وقت کبیرہ بنتے ہیں جب ظاہری عمل میں ڈھل کر سامنے آ جائیں، اور ایسا اس لیے ہے کہ ہمیں ظاہری صورتِ حال پر راے دینے اور خفیہ صورتِ حال کو اللہ پر چھوڑ دینے کا حکم ہے۔
حضرت عمرؓ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اس سلسلے کے عمدہ واقعات میں سے ہے۔ یہ واقعہ امام غزالیؒ نے احیاء علوم الدین میں ’الامر بالمعروف و النہی عن المنکر‘ کے تحت بیان کیا ہے۔
حضرت عمرؓ دیوار پھلانگ کر ایک آدمی کے گھر میں چلے گئے اور اُس آدمی کو ناپسندیدہ حالت میں دیکھاتو اسے ڈانٹ ڈپٹ کی۔ آدمی نے کہا: امیر المومنین! اگر میں نے ایک پہلو سے اللہ کی نافرمانی کی ہے، تو آپ نے تین پہلوؤں سے نافرمانی کی ہے۔ امیر المومنین نے پوچھا: وہ کیسے؟ آدمی نے کہا: اللہ نے فرمایا ہے: وَلَا تَجَسَّسُوا (الحجرات۴۹:۱۲) ’’تجسس نہ کرو‘‘، جب کہ آپ نے تجسس کیا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا (البقرہ ۲:۱۸۹) ’’گھروں میں اُن کے دروازوں سے داخل ہو‘‘،جب کہ آپ دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے ہیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: لَا تَدْخُلُوْا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوا وَتُسَلِّمُوْا عَلآی اَہْلِہَا (النور۲۴:۲۷) ’’اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھروالوں کی رضا نہ لے لو اور گھروالوں پر سلام نہ بھیج لو، جب کہ آپ نے سلام نہیں کیا۔۔۔ آدمی کے اس جواب پر حضرت عمرؓ نے آدمی کو توبہ کرنے کی شرط پر چھوڑ دیا۔ (احیا علوم الدین،ج۷، ص ۱۲۱۸،طبع الشعب، القاہرہ)

* منکر کو روکنے کی طاقت: تیسری شرط یہ ہے کہ منکر کو روکنے کی بالفعل طاقت رکھتا ہو۔ گویا منکر کو روکنے والا ذاتی طور پر یا اپنے ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ مل کر بالفعل یہ طاقت رکھتا ہو کہ منکر کو قوت سے روک سکے۔ اس کے پاس مادی اور معنوی طور پر یہ قوت ہو کہ وہ آسانی کے ساتھ منکر کا ازالہ کر سکے۔
یہ شرط بھی زیر بحث حدیث کے ان الفاظ سے ماخوذ ہے فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانہٖ ’’جو طاقت نہ رکھتا ہو وہ زبان سے روکے‘‘ یعنی جو شخص برائی کو اپنے ہاتھ کی قوت سے نہیں روک سکتا وہ اس کام کو ان لوگوں کے لیے چھوڑ دے جو اس کی طاقت رکھتے ہیں۔ وہ خود صرف زبان و بیان پر ہی اکتفا کرے اور وہ بھی اگر اس کے بس میں ہو تو۔
یہ کام غالباً ہر صاحبِ اختیار اپنے دائرۂ اختیار میں کر سکتا ہے۔ خاوند اپنی بیوی، باپ اپنی اولاد، سرپرست اپنے زیر سرپرستی افراد، کسی ادارے کا سربراہ اپنے ادارے کے اندر اور امورِحکومت کے ذمہ داران اپنی ذمہ داری اور اتھارٹی کے حدود اور اپنے اختیار کے حدود میں رہتے ہوئے کر سکتے ہیں۔ کیونکہ بعض اشیا و امور کا فیصلہ ذمہ دارانِ حکومت کے بس میں بھی نہیں ہوتا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کا معاملہ اس مسئلے میں بہت واضح مثال ہے، یعنی وہ موروثی نظام سے ہٹ کر عنانِ حکومت کو مسلمانوں کی شوریٰ میں نہیں لوٹا سکے۔
ہم نے اس شرط کے آغاز میں ’مادی و معنوی‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ خاوند کا اپنی بیوی پر یا باپ کا اپنی اولاد پر اختیار اس لیے نہیں ہے کہ وہ مادی قوت کا مالک ہوتا ہے، بلکہ اس بنا پر ہے کہ اس کا ایک احترام اور ہیبت ہوتی ہے جو اس کی بات کو منواتی اور اس کے حکم کو نافذ کرتی ہے۔
* فتنہ وفساد کا خدشہ: چوتھی شرط یہ ہے کہ کسی بڑی برائی کے پیدا ہونے کا خدشہ نہ ہو۔گویا ’منکر‘ کو طاقت سے روکنے یا اسے ختم کرنے کے نتیجے میں کوئی بڑی برائی پیدا ہو جانے کا ڈر نہ ہو، کہ یہ فعل ایسے فساد کا باعث بن جائے جس میں بے گناہوں کا خون بہہ جائے، حرمتیں پامال کی جائیں، مال و دولت لوٹ لی جائے اور آخری نتیجہ یہ نکلے کہ برائی اپنے قدم مزید مضبوط کر لے اور ظالم و متکبر زمین میں ظلم و فساد کا بازار گرم کر دیں۔
علما نے اسی بنا پر اس ’منکر‘ پر خاموشی کو جائز ٹھیرایا ہے جس کو روکنے کے نتیجے میں اُس سے بھی بڑی برائی پیدا ہونے کا ڈر ہو۔ یہاں کم تر ضرر کے ارتکاب اور کم تر شر کے اختیار کا اصول نافذ ہوتا ہے۔ اس بارے میں صحیح حدیث بھی موجود ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا: ’’اگر تمھاری قوم سے تمھیں پہنچنے والے شر کا مجھے خوف نہ ہو تو میں کعبہ کو ابراہیمی بنیادوں پر استوار کر دوں‘‘۔
قرآنِ مجید میں بھی اس نکتے کی تائید میں واقعہ موجود ہے۔ حضرت موسیٰؑ جب اپنے رب سے وعدے کے مطابق ۴۰راتیں گزارنے کے لیے قوم سے دور چلے گئے تو اُن کی غیر موجودگی میں یہودی جادوگر سامری نے قوم کو سنہری بچھڑے کے فتنے میں مبتلا کر دیا۔ حضرت موسیٰؑ کے شریک نبوت بھائی حضرت ہارون ؑ نے قوم کو وعظ و نصیحت کی مگر وہ باز نہ آئے اور سامری کے پیچھے چل پڑے۔ کہنے لگے: لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْہِ عٰکِفِیْنَ حتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰی(طٰہٰ۲۰:۹۱)، ’’ہم تو اِسی کی پرستش کرتے رہیں گے جب تک کہ موسٰی ؑ ہمارے پاس واپس نہ آ جائے۔‘‘
جب حضرت موسٰی ؑ میعاد پوری کر کے واپس آئے اور قوم کو اس ’بچھڑے کی عبادت‘ جیسی بدترین برائی میں مبتلا دیکھا تو بھائی کو اُن کی سستی اور عدم توجہی پر زَدوکوب کرنے لگے۔ اُن کی داڑھی پکڑ لی اور شدت غضب میں کہا:
قَالَ یٰھٰرُوْنُ مَا مَنَعَکَ اِذْ رَاَیْتَھُمْ ضَلُّوْٓا۔ اَلَّا تَتَّبِعَنِ اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ۔ قَالَ یَبْنَؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَ لَا بِرَاْسِیْ اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ وَ لَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ(طٰہٰ۲۰: ۹۲۔۹۴)، ’’موسٰی ؑ (قوم کو ڈانٹنے کے بعد ہارون کی طرف پلٹا اور) بولا ’’ہارونؑ ، تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے تمھارا ہاتھ پکڑا تھا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی‘‘؟ ہارونؑ نے جواب دیا ’’اے میری ماں کے بیٹے، میری داڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آ کر کہے گا: تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا‘‘۔
اس واقعے میں حضرت ہارون ؑ کے عمل سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انھوں نے اپنے بڑے بھائی حضرت موسٰی ؑ کی غیر موجودگی میں قوم کی وحدت اور یک جہتی کو محفوظ رکھنا مقدم سمجھا اور خیال کیا کہ بھائی کے آ جانے پر باہمی سوچ بچار کے بعد دیکھیں گے کہ حزم و احتیاط اور حکمت و دانائی کے متقاضی اس خطرناک موقف سے کس طرح نپٹنا ہے۔
یہ چار شرائط ہیں___ جو شخص بھی برائی کو ہاتھ کی قوت سے یا دوسرے الفاظ میں ناگزیر مادی قوت سے روکنا چاہتا ہو اس پر ان شرائط کو پورا کرنا فرض ہے۔

جب منکر کا ارتکاب حکومت کر رہی ہو
منکر کو روکنے کے مسئلے میں ایک مشکل یہ بھی کھڑی ہو جاتی ہے کہ جب صاحبِ قوت اور صاحبِ اختیار، یعنی حکومت ہی برائی کی مرتکب ہو تو پھر افراد اور جماعتیں اُس منکر کو کیسے روکیں جس میں حکومت ملوث ہو یا حکومت اس کی پشت پناہی کر رہی ہو؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ افراد اور جماعتیں پہلے اتنی قوت کی مالک بنیں جو برائی کو روک سکے۔ عہد حاضر میں تین طاقتوں میں سے ایک کے ذریعے ہی یہ ممکن ہے۔ وہ حسب ذیل ہیں:

۱۔ مسلح افواج: یہ وہ طاقت ہے جس کا سہارا عہد حاضر کے بہت سے ملک لیتے ہیں۔ خصوصاً تیسری دنیا میں اپنے حکم نافذ کرنے، سیاست کا سکہ بٹھانے اور اپنے مخالفین کو آتش و آہن کے ذریعے خاموش کرنے کے لیے اسی قوت سے کام لیتے ہیں۔ ان حکومتوں کے نزدیک مناسب، محفوظ اور معقول راستہ دلیل و منطق اور بات چیت کا نہیں بلکہ قوت کا ہے۔ یہ قوتیں جس کے ساتھ ہوں گی اس کے لیے قومی دھارے کے رخ کو بدلنا یا روک دینا ممکن ہو گا۔ اس کا مظاہرہ ماضی قریب میں بہت سے ممالک میں کیا گیا اور آئے روز کہیں نہ کہیں ہوتا رہتا ہے۔
۲۔ پارلیمنٹ: مروّجہ جمہوری نظام حکومت میں غالب اکثریت رکھنے والی پارلیمنٹ کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ قانون بنا بھی سکتی ہے اور تبدیل بھی کر سکتی ہے۔ خالص حقیقی جمہوری نظام کے تحت یہ اکثریت جس کو بھی حاصل ہو جائے اس کے لیے ممکن ہے کہ وہ قانون سازی کے بعد اس کو نافذ کر کے اُن تمام منکرات کو روک سکتی ہے جو اُسے نظر آئیں۔ پھر کسی وزیر، سربراہِ حکومت، یا سربراہِ ریاست کے بس میں نہیں ہوتا کہ وہ پارلیمنٹ کے سامنے ’نہ‘ کہے۔

۳۔ قومی سطح کی فیصلہ کن عوامی قوت: یہ عوام کی ملکی سطح کی ایسی فیصلہ کن قوت ہوتی ہے جسے اجتماع سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ جب یہ قوت حرکت میں آ جائے تو کسی میں ہمت نہیں ہوتی کہ اس کا سامنا کرے یا اس کا راستہ روکے۔ یہ قوت اپنی تندی اور تیزی میں ٹھاٹھیں مارتے سمندر یا سب کچھ بہالے جانے والے سیلاب کی مانند ہوتی ہے کہ کوئی شے، حتیٰ کہ مسلح قوتیں بھی اس کے سامنے ٹھیر نہیں سکتیں۔ یہ مسلح قوتیں بھی تو اسی کا حصہ ہوتی ہیں اور یہ عوام ان قوتوں کے افرادِ خاندان، باپ، بیٹے اور بھائی ہی تو ہوتے ہیں۔
جس کے پاس ان تینوں قوتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو، اس کے لیے لازم ہے کہ صبر سے کام لے، دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرے، اور روابط کو بڑھانے پر توجہ دے۔ یہاں تک کہ وہ ان قوتوں میں سے کسی ایک کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ جب تک اُسے یہ طاقت حاصل نہیں ہو جاتی وہ اپنی زبان اور قلم، دعوت اور تعلیم، رہنمائی و توجہ اور نصیحت و مشورے کے ذریعے منکر کی روک تھام کا فریضہ ادا کرے، اور اس وقت تک یہ فریضہ ادا کرتا رہے جب تک کہ راے عامہ کو برائی کے انسداد پر یکسو اور یک زبان نہ کر لے جو برائی کے خاتمے کا مطالبہ کرے۔ پھر وہ صاحبِ ایمان آیندہ نسل کی ایسی تربیت کرے کہ وہ برائی کے انسداد کی اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائے۔ اس نکتے کی طرف حضرت ابو ثعلبہ خشنیؓ کی روایت کردہ حدیث میں اشارہ موجود ہے۔ حضرت ابو ثعلبہ خشنیؓ نے رسولؐ اللہ سے قرآنِ مجید کی اس آیت کے بارے میں پوچھا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ (المائدہ۵:۱۰۵) ،اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنی فکر کرو، کسی دوسرے کی گمراہی سے تمھارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خود راہِ راست پر ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جواب دیا: تم ایک دوسرے کو اس وقت تک نیکی کی طرف بلاتے اور برائی سے منع کرتے رہو جب تک تم طمع و لالچ کی پیروی، خواہشات کا اتباع، دنیا ہی کو سب کی ترجیح، اور صاحبِ راے کو اپنی راے کے فریب میں مبتلا نہ دیکھ لو۔ اس وقت تم اپنے اوپر ہی توجہ مرکوز رکھو اور عوام کو چھوڑ دو۔ تمھارے بعد ایسے حالات آنے والے ہیں جن میں صبر کرنے والے کی مثال انگارے کو ہتھیلی میں پکڑنے والے شخص کی مانند ہوگی۔ ان حالات میں دین پر عمل کرنے والے کے لیے ۵۰آدمیوں جتنا اجر ہے جو تمھارے جیسے عمل کریں‘‘۔ (ترمذی)
یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ ابوداؤد نے بھی اسے ابن مبارک کے حوالے سے روایت کیا ہے۔ ابن ماجہ، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے عتبہ بن ابی حکیم سے روایت کیا ہے۔ بعض روایات میں ’’تم ایسے امور دیکھو جن کو روکنے کی طاقت نہ ہو‘‘ کے الفاظ بھی ہیں۔

’منکر‘ کے ازالے میں نرمی کی ضرورت
یہاں ایک اور مسئلہ بھی ہے جس کو ہم فراموش نہیں کر سکتے، اور وہ یہ ہے کہ منکر کے ازالے میں نرمی، اور اس کے مرتکب لوگوں کو معروف کی دعوت دینے کی ضرورت ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس نرمی کی وصیت کر رکھی ہے اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کر دی کہ اللہ تعالیٰ ہرمعاملے میں اس کو پسند کرتا ہے، اور یہ نرمی جس معاملے میں بھی آ جائے اُسے حسن عطا کر دیتی ہے اور جس معاملے سے نکل جائے اُسے بدنما بنا دیتی ہے۔
اس سلسلے میں بیان کیا گیا ایک واقعہ امام غزالیؒ نے احیاء علوم الدین میں ذکر کیا ہے کہ ایک آدمی مامون الرشید کے پاس آیا تاکہ اسے نیکی بدی کے بارے میں وعظ و نصیحت کرے۔ آدمی نے بات شروع کی تو اس کی گفتگو میں شدت آتی گئی اور اس نے مامون کو ’اے ظالم‘، ’اے فاجر‘ کے الفاظ کہہ کر مخاطب کیا۔ مامون بڑا سمجھ دار اور حلیم الطبع تھا۔ اس نے آدمی کا جواب اُسے سزا کی صورت میں نہ دیا جیساکہ حکمرانوں کا وتیرہ ہوتا ہے، بلکہ کہا: کچھ نرمی سے کام لو۔ اللہ تعالیٰ نے تجھ سے بہتر شخص کو نبی بنا کر مجھ سے بدتر لوگوں کی طرف بھیجا، اور اُسے نرمی کا حکم دیا۔ حضرت موسٰی ؑ اور ہارون ؑ کو جو دونوں تجھ سے بہتر ہیں، فرعون کی طرف مبعوث کیا جو مجھ سے بدتر ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے دونوں پیغمبروں سے کہا:
اِذْھَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی oفَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی (طٰہٰ۲۰:۴۳،۴۴) ، جاؤ تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔
غور کیجیے کہ اس آیت میں حرف امید (لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی) شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے، اس کے باوجود استعمال کیے کہ فرعون کی سرکشی اور باغیانہ روش کا بھی دوسری جگہ تذکرہ بھی کیا (اِنَّہٗ طَغٰی اُس نے سرکشی کی)۔ ان حروف امید کا یہاں استعمال اس بات کی دلیل ہے کہ داعی کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اپنے مخاطبین کے بارے میں امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دے، خواہ وہ کفر و ظلم کے راستے پر ہی چل رہے ہوں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلسل نرمی اور شائستگی کے ساتھ دعوت دے نہ کہ سختی و شدت کے ساتھ لوگوں کو حق کی طرف بلائے۔

جزوی برائیوں کا انسداد مرض کا علاج نہیں
میں یہاں اس بات سے آگاہ کرناضروری سمجھتا ہوں جو مسلمانوں کی اصلاح کے عمل میں مصروف لوگوں کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے پسماندگی، مغربی استعمار، آمروں اور سیکولر حکومتوں کے ادوار میں جس ٹوٹ پھوٹ سے دوچار ہوئے ہیں، اس تخریب کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ ان اثرات کو ختم کرنے کے لیے جزوی برائیوں کا ازالہ کافی نہیں ہے۔ مثلاً رقص و سرود کی محفلیں، عورتوں کا راستوں میں اظہار زینت کے ساتھ آنا جانا، آڈیو ویڈیو کیسٹوں کی فروخت وغیرہ اگرچہ نامناسب ہیں، جائز نہیں ہیں، مگر صرف انھی برائیوں کے خاتمے سے معاشرے کی اصلاح ناممکن ہے۔ معاملہ ان سے بھی بڑا اور عظیم ہے جو کامل، وسیع تر اور گہری بنیادوں پر تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے___ ایسی تبدیلی جو افکار و تصورات، اقدار و معیارات، اخلاق و اعمال، آداب و روایات اور قوانین و ادارہ جات سب کا احاطہ کرتی ہو۔
اس سے پہلے مسلسل تعلیم، دائمی تربیت اور بہترین نمونوں کے ذریعے لوگوں کا اندر سے تبدیل ہونا ضروری ہے۔ جب لوگ اپنے آپ کو تبدیل کر لیں گے تو اس کے اہل قرار پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مسلّمہ قانون کے مطابق انھیں تبدیل کر دے، یعنی: اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ (الرعد۱۳:۱۱) ’’ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔ 
علامہ یوسف القرضاوی
(ترجمہ: ارشاد الرحمٰن، بحوالہ qaradawi.net)