Pages

Thursday, January 3, 2013

شدت پسندی اِن ایکشن

    
قابلِ بحث نظریے کے طور پر شدت پسندی ایک بات مگر دوسری طرف اس کی بربریت اور خوں ریزی ہے۔

اس ضمن میں سن دو ہزار بارہ کے آخری لمحات کی دو مثالیں، جو خاص طور پر اس کی خوں ریزی سے متعلق ہیں۔

پاکستانی طالبان نے بائیس مغوی اہلکاروں کے سر قلم کیے اور نائیجریا میں بوکو حرام کے حملہ آوروں نے بڑی تعداد میں مرد و خواتین اور بچوں کے گلے کاٹ دیے۔

طالبان ہوں یا بوکو حرام، دونوں ہی اسلام کی سر بُلندی کی سوچ پر عمل پیرا ہونے کے دعویدار ہیں۔

 ان دونوں کے درمیان بہت بڑا فاصلہ حائل ہے مگر ان کے تقابل کی بات یہ ہے پوری دنیا میں کتنے سارے مسلمان اسلامی تعلیمات پر کس قدر سخت گیر رویہ اپناتے جارہے ہیں۔

 کھیل ایک منطق پرہونا چاہیے۔

حتیٰ کہ اگر طالبان یہ سمجھتے تھے کہ لیویز اہلکار ‘کافر’ ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے آنکھوں کے سامنے اپنی موت کے مستحق ہیں، بالخصوص حالیہ مثال کی روشنی میں، تو پھر وہ کس اسلامی قانون کے تحت  غیر مسلم جنگی قیدی کے قتل کا جواز پیش کریں گے؟

 وہ اسی پر بس کرنے والے نہیں تھے۔ انہوں نے نہ صرف اس بہیمانہ عمل کی لرزہ خیز وڈیو کو بطور پیغام تیار کیا، جس میں وہ مقتولین کے جسموں کے ساتھ ایسے کھڑے ہیں جیسے فاتح کھلاڑی فتح کی ٹرافی لیے ہو۔

یہاں تک کے ان کا کٹّر دشمن امریکا بھی گوانتانامو بے میں طالبان قیدیوں پر کیے گئے اپنے جسمانی تشدد کو چھپانے کو ترجیح دیتا ہے۔

وہ سید احمد بریلوی ہوں، مولانا مودودی یا پھرمکمل طور پر دیوبند مکتبہ فکر، برصغیر کے کسی سرکردہ علما نے طے شدہ شرعی اصولوں کی روشنی میں، کبھی بھی اس طرح کے قتلِ عام کی حمایت نہیں کی۔

پاکستان میں جنگی قیدیوں کو قتل کرنے کی یہ روایت افغانستان سے آئی ہے جہاں بعض غیر ملکی عسکریت پسندوں نے سوویت جنگی قیدیوں کو قتل کردیا تھا۔

تاہم یہ ایک منفرد واقعہ تھا مگر پھر بھی مرکزی دھارے کے کسی بھی عسکریت پسند گروہ نے اس عمل کو بطور پالیسی اپنانے کا اعلان نہیں کیا۔

اسکول، مسجد، مزار، ہسپتال، مذہبی اجتماعات، امن جرگہ یا پھر میت جلوس ہو۔۔۔ طالبان کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی پر بھی حملہ کرسکتے ہیں اورایسا کرتے ہوئے کسی سے نہیں ڈرتے۔

نائیجریا میں بوکوحرام گروہ ‘مغربی تعلیم’ کا مخالف ہے مگر انہوں نے اس کے خلاف جو طریقہ کار اپنایا وہ نہایت بہیمانہ اور بربریت سے بھرپور وہ عمل ہے جو کبھی قرونِ وسطی کے زمانے میں مروج تھا۔

پاکستان کے لیے یہ نہایت شرم کا مقام ہے مگر سول سوسائٹی نے اس پر چپ سادھ رکھی ہے اور جہاں تک مرکزی دھارے کے جیّد علما کا تعلق ہے تو انہوں نے اس جانب سے نظریں چرا لی ہیں۔

 ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جنہوں نے اس بربریت کی اجازت دی تو دوسرے ان سے خوف زدہ ہیں۔