Pages

Thursday, October 31, 2019

مسلح اسلامی تحریکیں اور ریاستی نظام...ڈاکٹرحسن عسکری in Armed Rebellious Groups in Muslim world



11ستمبر 2001ء کو رونما ہونے والی دہشت گردی کو گیارہ سال گزر چکے ہیں۔ اس عرصہ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں دہشت گردی کا نیا واقعہ نہیں ہوا لیکن باقی دنیا کے متعلق یہ بات نہیں کہی جا سکتی ۔ دنیا میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ امریکہ اور کچھ دوسرے ممالک نے انتہا پسندی اور دہشت گردی میں ملوث تنظیموں اور افراد کیخلاف کارروائیاں کیں اور کچھ کو غیر موثر کیا لیکن انتہا پسندی اوردہشت گردی کے رجحانات کا خاتمہ نہ ہو سکا۔
انتہا پسندانہ مذہبی اور معاشرتی سوچ بدلنے اورتشدد اور دہشت گردی کو استعمال کرنے والی تحریکیں اور تنظیمیں غیر ریاستی ہیں جو کہ مسلمان اکثریت والے ممالک یا ایسے ممالک میں سرگرم ہیں جہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی موجود ہے ۔ یہ تحریکیں ایک مذہبی اور سیاسی ایجنڈے کے حوالے سے کام کرتی ہیں اور اسلام کی ایک مخصوص سوچ اور توضیح کے علم بردار ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ اپنے آپ کو صحیح اسلام کا علم بردار تصور کرتے ہوئے جبر اور قوت سے اپنی ترجیحی اسلامی سوچ کونافذ کرنے کو درست سمجھتی ہیں۔ ان تحریکوں کے قائدین غیر مسلم اور مسلم حکومتوں اور افراد کے خلاف مسلح جدوجہد کو درست سمجھتے ہیں جو ان کے خیال میں اسلام اور ان کی جدوجہد کے مخالف ہیں۔ان تحریکوں کے دو نشانے ہیں ۔اول وہ مغربی ممالک اور حکومتیں خصوصاً امریکہ جن کو وہ اسلام اور مسلمانوں کا دشمن سمجھتے ہیں ۔
دوم : ان تحریکوں نے اسلامی ممالک کی ان حکومتوں اور شہریوں کو نشانہ بنایا ہے جنہیں وہ امریکہ کا حمایتی تصور کرتی ہیں ۔ ان تحریکوں کی متحرک قیادت کی یہ کوشش بھی ہے کہ وہ اپنی مرضی کا اسلام نافذ کریں اور جو لوگ ان کی اسلامی سوچ کو قبول نہیں کرتے ان کے خلاف تشدد کا استعمال جائز سمجھتا جاتا ہے ۔
یہ تحریکیں نہ صرف امریکہ اور مغرب کی مخالف ہیں بلکہ ان کی کوشش ہے کہ اسلامی ممالک میں اپنی عملداری کو بڑھایا جائے اور علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم کرکے اس حکومت وقت کو چیلنج کیا جائے جو ان کی بالادستی کو قبول نہیں کرتی ۔اگر امریکہ اسلامی ممالک خصوصاً افغانستان اور پاکستان سے نکل جائے تو ان تحریکوں کا صرف ایک مقصد حاصل ہوتا ہے ۔ دوسرے مقصد کا حصول باقی رہ جاتا ہے وہ یہ کہ علاقے اور حکومت پر قبضہ کرکے اپنی مرضی کا اسلام نافذ کیا جائے ۔ لہٰذا امریکہ کے افغانستان سے چلے جانے اور پاکستان میں امریکی کردار کے محدود ہونے کے بعد بھی مسلح اسلامی تحریکیں افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں پر اپنی بالادستی قائم کرنے کے لئے جدوجہد کو جاری رکھیں گی اسی طرح یمن، سومالیہ، سعودی عرب اور دیگر عرب ریاستوں میں یہ تحریکیں حکومت وقت کو دباؤ میں رکھنے کے لئے سرگرم رہیں گی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں انتہا پسندانہ اسلامی تحریکوں کا سلسلہ 2014ء کے بعد بھی جاری رہے گا اور متعلقہ اسلامی ممالک میں اندرونی امن اور استحکام کے مسائل موجود رہیں گے ۔
ان تحریکوں کی مذہبی اور سیاسی سوچ اسلام کے سلفی اور وہابی مکتبہ فکر سے متاثر ہے ۔ بعض اسلامی ممالک جیسے پاکستان، ہندوستان اور افغانستان میں ان مکاتب فکر سے متاثر مقامی مکاتب فکر بھی سرگرم نظر آتے ہیں ۔
جو تحریکیں مسلح جدوجہد میں مصروف ہیں وہ قوت کے استعمال کو درست سمجھتی ہیں لیکن ان مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے بہت سے علماء اور عام لوگ تشدد اور جبر کے استعمال کو درست نہیں سمجھتے آخر الذکر افراد ان تحریکوں کے طریقہ کار سے اختلاف کرنے کے باوجود ان کے مقاصد یعنی ایک مخصوص انداز کے سخت گیر اسلامی نظام سے ہمدردی رکھتے ہیں ۔
امریکہ اور مختلف اسلامی ریاستوں کی کوششوں کے باوجود مسلح اسلامی تحریکوں پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ مستقبل قریب میں ان تحریکوں پر کنٹرول ممکن نہیں ہو گا۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ تحریکیں کسی ایک جگہ سے کنٹرول نہیں ہوتیں اور نہ ہی ایک قیادت کے ماتحت کام کرتی ہیں ۔ ان تحریکوں کے آپس میں روابط ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے سے تعاون بھی کرتی ہیں لیکن یہ تمام تحریکیں ایک وحدانی اکائی نہیں ہیں ۔ یہی وجہ ہے بعض مقامی تحریکوں میں جھگڑے بھی ہوتے ہیں ان تحریکوں کے طریقہ کار میں مقامی صورتحال کی وجہ سے فرق ہوتا ہے۔ ان میں سے کچھ تحریکیں زیر زمین ہوتی ہیں خصوصاً وہ جو مسلح جدوجہد میں مصروف ہوتی ہیں یا یہ تحریکیں اپنے لئے ”محفوظ خطے “قائم کرتی ہیں جن پر مقامی ریاستی حکام کا عمل دخل محدود ہوتا ہے یا بالکل نہیں ہوتا ۔ ان تحریکوں اور تنظیموں کی قیادت اپنے محفوظ علاقوں میں موثر انتظامیہ کے طور پر کام کرتی ہے جس میں متعلقہ تحریک یا تنظیم کے مسلح کارکن مقامی مذہبی رہنما اور کچھ مصلحت پسند افراد شامل ہوتے ہیں ۔
جب تک یہ تحریکیں محفوظ علاقے نہ بنائیں مسلح جدوجہد کے چلنے کا امکان نہیں ہوتا اس قسم کے محفوظ علاقے کسی ملک کی سرزمین کے ان حصوں میں قائم کئے جاتے ہیں جہاں متعلقہ ریاستی اداروں کی عمل داری نہ ہو یا ریاستی ادارے ایک پالیسی کے تحت ان کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ان تحریکوں کے قائم رہنے کی کئی اور وجوہات ہیں ۔
اول : ریاستی اداروں کی حکمرانی کی کمزوریوں کی وجہ سے بہت سے اسلامی ممالک انتظامی، معاشرتی اور اقتصادی بحران کا شکار ہیں ۔ ان ممالک کی حکومتیں انسانی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہیں جس کی وجہ سے ریاستی اداروں پر لوگوں کا اعتماد بہت کم ہے ۔ اس ناکامی کی وجہ سے ان حکومتوں کے لئے کافی مشکل ہے کہ وہ اسلامی تحریکوں کی اپیل کو غیر موثر کردیں ۔
دوم : ان ممالک میں تیس سال سے کم عمر کے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے ان کے لئے عملی زندگی کے آغاز کے مواقع بہت محدود ہیں لہٰذا ان نوجوانوں میں حکومتی اداروں اور سیاسی عمل سے عدم وابستگی کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے ۔ ان حالات میں انہیں اسلام کے علاوہ کوئی ایسا نظریاتی فریم ورک نہیں ملتا جس کی طرف وہ متوجہ ہوں ۔ کچھ نوجوان ان تحریکوں سے منسلک ہو جاتے ہیں لیکن زیادہ تر ان تحریکوں سے علیحدہ رہتے ہوئے ان کی حمایت کرتے ہیں ۔ اس طرح ان اسلامی تحریکوں کو معاشرے میں پذیرائی اور حمایت حاصل رہتی ہے ۔
سوم : اسلامی ممالک میں بڑھتے ہوئے امریکہ مخالف جذبات نے بھی ان تحریکوں کی حمایت میں اضافہ کیا ہے ۔ امریکہ اور مغرب کی دہشت گردی کے خاتمہ کی پالیسی نے کئی ممالک خصوصاً افغانستان اور پاکستان میں عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں (خصوصاً نوجوانوں ) کی توجہ مختلف اسلامی تحریکوں کی طرف ہو گئی ہے ۔
چہارم : اسلامی ممالک میں بہت سی وجوہات کی بنا پر مذہبی قدامت پسندی کو فروغ ملا ہے اور بہت سے لوگ ملکی معاملات اور خارجہ پالیسی کو خالصتاً مذہبی انداز میں دیکھتے ہیں ۔ اس وجہ سے باقی دنیا کی طرف منفی رجحانات کو فروغ ملا ہے ۔ مغربی دنیا سے دو طرفہ بنیادوں پر تعلقات چلانا کافی مشکل ہو گیا ہے ۔ اس محدود بین الاقوامی سوچ اور مذہبی قدامت پسندی کے فروغ کی وجہ سے بھی مسلح اسلامی تحریکوں کے لئے ہمدردی میں اضافہ ہوا ہے ۔یہ مسلح اور ریڈیکل اسلامی تحریکیں کئی اسلامی ممالک کی حکومتوں کو چیلنج کرسکتی ہیں ۔ تشدد اور دہشت گردی سے خوف وہراس اور غیر یقینی صورتحال پیدا کر سکتی ہیں لیکن آج کے جدید دور میں ریاستی نظام چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔
وہ اسلامی ممالک جہاں یہ تحریکیں سرگرم ہیں ایک ایسے مشکل دور سے گزر رہے ہیں جس کاخاتمہ عنقریب نظر نہیں آتا ۔ یہ تحریکیں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوں گی اور نہ ریاستی نظام کو سکون سے چلنے دیں گی۔ اس طرح اسلامی دنیا اندرونی خلفشار اور سیاسی اور مذہبی کشمکش کا شکار رہے گی۔ ان مشکلات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مغربی ممالک اسلامی ممالک پر سفارتی اور اقتصادی دباؤ قائم رکھ سکیں گے ۔
http://search.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=21755