Pages

Tuesday, September 11, 2012

گیارہ برس گزر گئ 9/11 Eleven years after

گیارہ برس گزر گئے۔ کامل گیارہ برس!!
دنیا کی تاجداری اور اقوام عالم پر سواری کا خواب دیکھنے والے امریکہ کے دل و دماغ میں خودشناسی کا کوئی شائبہ اور خود احتسابی کی ذرا سی رمق بھی ہوتی تو وہ گراؤنڈ زیرو پر روایتی تقریب کو ایک بھرپور جائزے کے لئے استعمال کرتا اور اپنے آپ سے پوچھتا کہ نیویارک کے دو بلند میناروں کے ملبے سے سر اٹھانے والے کروسیڈ نے دنیا کی واحد سپر پاور کے عارض و رخسار کتنے نکھارے اور اس کی پیشانی پر کتنے بدنما دماغ چھوڑ گیا؟ لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر عہد کے فرعونوں کے لئے کچھ سزائیں تجویز کر دی ہیں۔ ان سزاؤں میں سے ایک سزا یہ بھی ہے کہ خودسر اور خدا فراموش قبیلوں کی آنکھوں پہ پٹیاں بندھ جاتی ہیں، ان کے کان قوت سماعت سے محروم کر دیئے جاتے ہیں اور ان کے دلوں پر مہریں لگا دی جاتی ہیں۔ میں امریکی عوام کو خلائی مخلوق کہا کرتا ہوں۔ نائن الیون کے کوئی ایک سال بعد جنوبی ایشیاء سے جن چھ صحافیوں کو خصوصی دعوت پر امریکہ بلایا گیا، ان میں میں بھی شامل تھا۔ تب مجھے اس سادہ و بے نیاز خلائی مخلوق کی بے خبری کا اندازہ ہوا تھا جسے اس کے عیار حکمران ہمیشہ بے خبر رکھتے اور اپنے مکروہ عزائم کے لئے اس کے ذہن مسخ کرتے رہتے ہیں۔
گزشتہ روز صدر بارک اوباما نے کسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ ”اب وہ پیسہ جو جنگوں پر خرچ نہ ہونے کے باعث بچے گا، ہم قرضوں کی ادائیگی، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار کی فراہمی اور سڑکوں، پلوں، اسکولوں اور رن ویز کی تعمیر پر خرچ کریں گے۔ دو جنگوں کے بعد، جن میں ہزاروں امریکیوں کی جانیں گئیں اور دس کھرب ڈالر سے زائد کا خرچہ ہوا، وقت آگیا ہے کہ ہم امریکہ میں قومی تعمیر نو کے عمل کا آغاز کریں“۔
اوباما جنگی مہم جوئی کے خلاف تھا۔ بالخصوص عراق پر فوج کشی کے خلاف عوامی مظاہروں کی قیادت کرتا رہا۔ وہ ”تبدیلی“ کے نعروں کی گونج میں واشنگٹن کے قصر سفید میں داخل ہوا اور پھر اس کے سیاہ فام بدن کی رگوں میں دوڑتا سرخ لہو بھی سفید ہوتا چلا گیا۔ امریکہ کے سابقہ حکمرانوں کی طرح وہ بھی منافقت، دوغلہ پن اور دہرے معیارات کی حیا باختہ راہوں پہ دوڑتا چلا گیا۔ آج بھی وہ تیس کروڑ کے لگ بھگ امریکی عوام سے جھوٹ بول رہا ہے۔ امریکہ کی براؤن یونیورسٹی کے واٹسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اسٹیڈیز کی تحقیقاتی رپورٹ کو اب دنیا بھر میں ایک معتبر حوالے کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق افغانستان، عراق اور پاکستان کی مہم جوئی پر امریکہ37کھرب ڈالر پھونک چکا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ جنگوں کے اختتام کے بعد بھی جنگی اخراجات کا سلسلہ جاری رہے گا اور یہ رقم 44کھرب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ اوباما خلائی مخلوق کو یہ بھی نہیں بتا رہا کہ امریکہ پر بیرونی قرضوں کا حجم 160کھرب ڈالر سے بڑھ چکا ہے جو اس کی مجموعی قومی پیداوار کے سو فیصد سے زائد ہے۔ اوباما اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری خیال نہیں کرتا کہ نائن الیون سے لے کر اب تک 117 کھرب ڈالر کے قرضے لینا پڑے۔ اوباما کی حق گوئی یہ بتانے کی اجازت بھی نہیں دے رہی کہ گزشتہ گیارہ سالوں کے دوران امریکہ کو اوسطاً ہر سال 10کھرب ڈالر کے قرضے مانگنا پڑے۔ اوباما عوام سے یہ حقیقت بھی چھپائے ہوئے ہے کہ ہر امریکی اوسطاً پانچ ہزار ڈالر سے زائد کا مقروض ہوچکا ہے۔ اوباما کو یہ بتانے کا حوصلہ بھی نہیں ہو رہا کہ امریکی بجٹ کا خسارہ سو فیصد سے بڑھ چکا ہے یعنی اخراجات پورے کرنے کے لئے ہر سال حکومت کو مجموعی قومی آمدنی کے برابر قرضہ لینا پڑتا ہے۔ اوباما یہ بھی نہیں بتا رہا کہ جب اس نے جنوری 2009ء میں صدارت کا حلف اٹھایا تو امریکی قرضے106کھرب ڈالر تھے جن میں اوسطاً ساڑھے تیرہ کھرب سالانہ کے حساب سے54کھرب ڈالر کا اضافہ ہوچکا ہے۔ اوباما یہ بتانے سے بھی گریزاں ہے کہ امریکہ میں تعلیم، صحت، انفرا اسٹرکچر اور تعمیر و ترقی کے منصوبوں پر کیا گزری۔ اوباما یہ بھی نہیں بتا رہا کہ افغانستان کی جنگ گزشتہ گیارہ برس سے اوسطاً ہر روز ایک امریکی نگل رہی ہے۔ اوباما یہ بھی نہیں بتانا چاہتا کہ امریکی کروسیڈ اندازاً سوا دو لاکھ انسانوں کا لہو پی چکا ہے۔ اوباما کو یہ بتانے کا حوصلہ بھی نہیں کہ گونتانامو، ابوغریب، بگرام، قلعہ جنگی اور دنیا بھر میں پھیلی اذیت گاہوں کی انسانیت سوز کہانیاں امریکہ کے بارے میں کیا تاثر قائم کر رہی ہیں۔ اوباما یہ بتانے سے بھی گریز کر رہا ہے کہ گیارہ برس کے دوران امریکہ سے نفرت کرنے والوں کی تعداد تین گنا ہوگئی ہے اور اوباما خلائی مخلوق کو دنیا بھر کے در و دیوار پہ لکھی اس حقیقت سے بھی آگاہ نہیں کر رہا کہ ویتنام کے بعد امریکی رعونت ایک اور شرمناک شکست سے دوچار ہوچکی ہے۔
نائن الیون کی واردات آج تک ایک بھید بھری کہانی ہے پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل، نائن الیون کمیشن بھی شواہد کی کڑیاں ملا سکا نہ کسی سازشی یا مجرم کا تعین کرسکا۔گیارہ برس سے سوالات گردش کر رہے ہیں اور کسی طرف سے کوئی ٹھوس جواب نہیں مل رہا۔ سوالات اٹھانے والوں میں خود امریکیوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ عالمی شہرت یافتہ صحافی رابرٹ فسک کا کہنا ہے ”میں واقعی مسلسل تبدیل ہوتے سرکاری موقف سے پریشان ہوں، میں ان عمومی سوالوں کا ذکر نہیں کر رہا کہ پنٹاگون پر حملہ کرنے والے طیارے کے اجزاء مثلاً انجن وغیرہ کہاں غائب ہو گئے!پنسلوانیا کی فلائٹ93کی تحقیقات میں شامل سرکاری افسران کے منہ کیوں سی دیئے گئے ہیں؟ میں تو ٹوئن ٹاورز کے بارے میں صرف سائنسی نقطہ نظر سے سوال کرتا ہوں مثلاً یہ درست ہے کہ تیل زیادہ سے زیادہ 820 ڈگری سینٹی گریڈ حرارت پیدا کرتا ہے تو پھر ٹوئن ٹاورز کے دو فولادی بیم کیسے پگھل کر ٹوٹ گئے جنہیں پگھلنے کے لئے 1480 سینٹی گریڈ حرارت چاہئے؟ یہ سب کچھ صرف آٹھ دس سیکنڈ کے دوران ہوگیا اور تیسرے ٹاور، ورلڈ ٹریڈ سینٹر بلڈنگ7یاساطن برادرز بلڈنگ کی کہانی کیا ہے جو پانچ بج کر بیس منٹ پر صرف 6.6سیکنڈ کے اندر خود اپنے قدموں پر ڈھیر ہوگئی؟ یہ اتنی عمدگی کے ساتھ کیوں کر زمیں بوس ہوگئی جبکہ اسے کسی طیارے نے چھوا تک نہیں…میں سازشی کہانیوں پر یقین کرنے والا نہیں لیکن دنیا کے ہر شخص کی طرح مجھے بھی پتہ چلنا چاہئے کہ نائن الیون کی اصل کہانی کیا ہے کیونکہ اس سے اس احمقانہ جنوبی جنگ کا شعلہ بھڑکا جسے ”وار آن ٹیرر“ کا نام دیا گیا “۔ رابرٹ فسک ہی نہیں، اس طرح کے سوالات لاکھوں کروڑوں انسانوں کی زبانوں پر ہیں لیکن امریکہ گنگ ہے۔ ایک غیر مصدقہ، مبہم، ذومعنی، غیر مربوط اور شاید خود ساختہ سی ٹیپ کو اسامہ بن لادن کے اعتراف گناہ“ کی شہادت کے طور پر کافی جان لیا گیا ہے۔
پاکستان میں لاپتہ ہوجانے والے افراد کے حوالے سے اقوام متحدہ کا ایک وفد اسلام آباد آچکا ہے۔ اچھا ہے، انسانی حقوق کی اس سنگین خلاف ورزی کا نوٹس لیا جانا چاہئے لیکن اقوام متحدہ اسی حساسیت کا مظاہرہ امریکہ کے حوالے سے کیوں نہیں کر رہا؟ کوفی عنان نے ستمبر 2004ء میں کہا تھا کہ “ ہمارے نقطہ نظر اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی رو سے عراق جنگ خلاف قانون ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سوا لاکھ انسانوں سے زائد کا لہو پی جانے والی اس سفاک جنگ کے منصوبہ سازوں کے بارے میں اقوام متحدہ نے کیا کیا؟ امن کے نوبل انعام یافتہ اور انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے شہرت رکھنے والے پادری آرچ بشپ ڈسمنڈ ٹوٹو (Desmond Tutu) نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں مطالبہ کیا ہے کہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ چلنا چاہئے۔ آرچ بشپ کی کوئی نہیں سنے گا کہ اقوام متحدہ بھی دراصل قصر سفید کی کنیز بن چکی ہے۔ اس کے سارے قوانین اور ضابطے اسلامی ممالک کے لئے مخصوص ہوکر رہ گئے ہیں۔
اگرچہ اسے انتہا پسندی، دقیانوسیت بلکہ دہشت گردی کی حمایت خیال کیا جائے گا لیکن گھنی داڑھیوں، بھاری پگڑیوں اور لمبی عباؤں والی اس مخلوق کو یاد کر لینے میں بھی کوئی ہرج نہیں جو گیارہ برس سے پچاس ممالک کی ڈیڑھ لاکھ فوج کے سامنے سینہ سپر ہے۔ جس کے پاس گھسی پٹی بندوقوں اور زائد المیعاد راکٹوں کے علاوہ اگر کچھ ہے تو صرف اپنے اللہ پر لازوال ایمان اور یہ اعتماد کہ وہ حق پر ہیں۔ دنیا کی کوئی اور قوم اسی جوانمردی کے ساتھ امریکہ کی قیادت میں جنگ آزما، جدید جنگی ہتھیاروں سے لیس اتنے بڑے لشکر بے اماں کا مقابلہ کرتی تو اس کے قصیدے لکھے جاتے، اس کے ہیروز پہ فلمیں بنتیں، اس کے جانبازوں پہ نظمیں تخلیق ہوتیں لیکن افغانستان میں گیارہ برس سے وقت کے فرعون کا مقابلہ کرنے اور اس کے عزائم کو خاک میں ملا دینے والوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی جنگ کو محض قومیت کا لبادہ پہنانے کے بجائے اسلام کا نام لیتے ہیں اور ان کے چہروں پرگھنی داڑھیاں اور ان کے سروں پر بھاری پگڑیاں ہیں اور وہ لمبی عبائیں پہنتے ہیں۔