اِس وقت جو صورت حال بعض انتہا پسند تنظیموں نے اپنے اقدامات سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے پوری دنیا میں پیدا کر دی ہے، یہ اُسی فکر کا مولود فساد ہے جو ہمارے مذہبی مدرسوں میں پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے، اور جس کی تبلیغ اسلامی تحریکیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں شب و روز کرتی ہیں۔ اِس کے مقابل میں اسلام کا صحیح فکر کیا ہے؟ اِس کو ہم نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں دلائل کے ساتھ پیش کر دیا ہے۔ یہ درحقیقت ایک جوابی بیانیہ (counter narrative) ہے اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ مسلمانوں کے معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر فساد پیدا کر دیا جائے تو سیکولرازم کی تبلیغ نہیں، بلکہ مذہبی فکر کا ایک جوابی بیانیہ ہی صورت حال کی اصلاح کر سکتا ہے۔ اِس کی تفصیلات کے لیے تو ہماری اِس کتاب ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے، لیکن اِس کا جو حصہ اسلام اور ریاست سے متعلق ہے، اُس کا ایک خلاصہ ہم یہاں پیش کر رہے ہیں:
۱۔ اسلام کی دعوت اصلاً فرد کے لیے ہے۔ وہ اُسی کے دل و دماغ پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ اُس نے جو احکام معاشرے کو دیے ہیں، اُس کے مخاطب بھی درحقیقت وہ افراد ہیں جو مسلمانوں کے معاشرے میں ارباب حل و عقد کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہوں۔ لہٰذا یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے اور اُس کو بھی کسی قرارداد مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اِس کا پابند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اُس میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ یہ خیال جن لوگوں نے پیش کیا اور اِسے منوانے میں کامیابی حاصل کی ہے، اُنھوں نے اِس زمانے کی قومی ریاستوں میں مستقل تفرقے کی بنیاد رکھ دی اور اُن میں بسنے والے غیر مسلموں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ درحقیقت دوسرے درجے کے شہری ہیں جن کی حیثیت زیادہ سے زیادہ ایک محفوظ اقلیت (protected minority) کی ہے اور ریاست کے اصل مالکوں سے وہ اگر کسی حق کا مطالبہ کر سکتے ہیں تو اِسی حیثیت سے کر سکتے ہیں۔
۲۔ جن ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہ اپنی ایک ریاست ہاے متحدہ قائم کر لیں۔ یہ ہم میں سے ہر شخص کا خواب ہو سکتا ہے اور ہم اِس کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی جدوجہد بھی کر سکتے ہیں، لیکن اِس خیال کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ یہ اسلامی شریعت کا کوئی حکم ہے جس کی خلاف ورزی سے مسلمان گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہرگز نہیں، نہ خلافت کوئی دینی اصطلاح ہے اور نہ عالمی سطح پر اِس کا قیام اسلام کا کوئی حکم ہے۔ پہلی صدی ہجری کے بعد ہی، جب مسلمانوں کے جلیل القدر فقہا اُن کے درمیان موجود تھے، اُن کی دو سلطنتیں، دولت عباسیہ بغداد اور دولت امویہ اندلس کے نام سے قائم ہو چکی تھیں اور کئی صدیوں تک قائم رہیں، مگر اُن میں سے کسی نے اِسے اسلامی شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی قرار نہیں دیا، اِس لیے کہ اِس معاملے میں سرے سے کوئی حکم قرآن و حدیث میں موجود ہی نہیں ہے۔ اِس کے برخلاف یہ بات سب نے کہی اور ہم بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا نظم اجتماعی اگر کسی جگہ قائم ہو جائے تو اُس سے خروج ایک بدترین جرم ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اُس کے مرتکبین جاہلیت کی موت مریں گے۔*
۳۔ اسلام میں قومیت کی بنیاد اسلام نہیں ہے، جس طرح کے عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں کسی جگہ یہ نہیں کہا گیا کہ مسلمان ایک قوم ہیں یا اُنھیں ایک ہی قوم ہونا چاہیے، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ’اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ‘** (مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں)۔ قرآن کی رو سے مسلمانوں کا باہمی رشتہ قومیت کا نہیں، بلکہ اخوت کا ہے۔ وہ دسیوں اقوام، ممالک اور ریاستوں میں تقسیم ہونے کے باوجود ایمان کے رشتے سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اِس لیے یہ تقاضا تو اُن سے کیا جا سکتا ہے اور کرنا چاہیے کہ وہ اپنے بھائیوں کے حالات کی خبر رکھیں، اُن کی مصیبتوں اور تکلیفوں میں اُن کے کام آئیں، وہ مظلوم ہوں تو اُن کی مدد کریں، معاشی اور معاشرتی روابط کے لیے اُن کو ترجیح دیں اور اُن پر اپنے دروازے کسی حال میں بند نہ کریں، مگر یہ تقاضا نہیں کیا جا سکتا کہ اپنی قومی ریاستوں اور قومی شناخت سے دست بردار ہو کر لازماً ایک ہی قوم اور ایک ہی ریاست بن جائیں۔ وہ جس طرح اپنی الگ الگ قومی ریاستیں قائم کر سکتے ہیں، اُسی طرح دین و شریعت پر عمل کی آزادی ہو تو غیر مسلم ریاستوں میں شہری کی حیثیت سے اور وطن کی بنیاد پر ایک قوم بن کر بھی رہ سکتے ہیں۔ اِن میں سے کوئی چیز قرآن و حدیث کی رو سے ناجائز نہیں ہے۔
۴۔ دنیا میں جو لوگ مسلمان ہیں، اپنے مسلمان ہونے کا اقرار، بلکہ اُس پر اصرار کرتے ہیں، مگر کوئی ایسا عقیدہ یا عمل اختیار کرلیتے ہیں جسے کوئی عالم یا علما یا دوسرے تمام مسلمان صحیح نہیں سمجھتے، اُن کے اِس عقیدے یا عمل کو غلط قرار دیا جا سکتا ہے، اُسے ضلالت اور گمراہی بھی کہا جا سکتا ہے، لیکن اُس کے حاملین چونکہ قرآن وحدیث ہی سے استدلال کر رہے ہوتے ہیں، اِس لیے اُنھیں غیر مسلم یا کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اِس طرح کے عقائد و اعمال کے بارے میں خدا کا فیصلہ کیا ہے؟ اِس کے لیے قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ دنیا میں اِن کے حاملین اپنے اقرار کے مطابق مسلمان ہیں، مسلمان سمجھے جائیں گے اور اُن کے ساتھ تمام معاملات اُسی طرح ہوں گے، جس طرح مسلمانوں کی جماعت کے ایک فرد کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ علما کا حق ہے کہ اُن کی غلطی اُن پر واضح کریں، اُنھیں صحیح بات کے قبول کرنے کی دعوت دیں، اُن کے عقائد و نظریات میں کوئی چیز شرک ہے تو اُسے شرک اور کفر ہے تو اُسے کفر کہیں اور لوگوں کو بھی اُس پر متنبہ کریں، مگر اُن کے متعلق یہ فیصلہ کہ وہ مسلمان نہیں رہے یا اُنھیں مسلمانوں کی جماعت سے الگ کر دینا چاہیے، اِس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے، اِس لیے کہ یہ حق خدا ہی دے سکتا تھا اور قرآن و حدیث سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اُس نے یہ حق کسی کو نہیں دیا ہے۔
۵۔ شرک، کفر اور ارتداد یقیناًسنگین جرائم ہیں، لیکن اِن کی سزا کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو نہیں دے سکتا۔ یہ خدا کا حق ہے۔ قیامت میں بھی اِن کی سزا وہی دے گا اور دنیا میں بھی، اگر کبھی چاہے تو وہی دیتا ہے۔ قیامت کا معاملہ اِس وقت موضوع بحث نہیں ہے۔ دنیامیں اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم میں اپنی عدالت کے ظہور کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو اُس کی طرف اپنا رسول بھیجتے ہیں۔ یہ رسول اُس قوم پر اتمام حجت کرتا ہے، یہاں تک کہ کسی کے پاس خدا کے حضور میں پیش کرنے کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔ اِس کے بعد خدا کا فیصلہ صادر ہوتا ہے اور جو لوگ اِس طرح اتمام حجت کے بعد بھی کفر و شرک پر اصرار کریں، اُنھیں اِسی دنیا میں سزا دی جاتی ہے۔ یہ ایک سنت الٰہی ہے جسے قرآن نے اِس طرح بیان فرمایا ہے کہ ’’ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کا رسول آ جاتا ہے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔‘‘ *** اِس کی نوعیت بالکل وہی ہے جو اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی اور واقعۂ خضر میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ اِس کا عام انسانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم جس طرح کسی غریب کی مدد کے لیے اُس کی اجازت کے بغیر اُس کی کشتی میں شگاف نہیں ڈال سکتے، کسی بچے کو والدین کا نافرمان دیکھ کر اُس کو قتل نہیں کر سکتے، اپنے کسی خواب کی بنیاد پر ابراہیم علیہ السلام کی طرح اپنے بیٹے کے گلے پر چھری نہیں رکھ سکتے، اُسی طرح کسی شخص کو اُس کے شرک، کفر یا ارتداد کی سزا بھی نہیں دے سکتے، الاّ یہ کہ وحی آئے اور خدا اپنے کسی رسول کے ذریعے سے براہ راست اِس کا حکم دے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اِس کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے۔
۶۔ اِس میں شبہ نہیں کہ جہاد اسلام کا حکم ہے۔ قرآن اپنے ماننے والوں سے تقاضا کرتا ہے کہ اُن کے پاس طاقت ہو تو وہ ظلم و عدوان کے خلاف جنگ کریں۔ قرآن میں اِس کی ہدایت اصلاً فتنہ کے استیصال کے لیے کی گئی ہے۔ اِس کے معنی کسی شخص کو ظلم و جبر کے ساتھ اُس کے مذہب سے برگشتہ کرنے کی کوشش کے ہیں۔ یہی چیز ہے جسے انگریزی زبان میں ’persecution‘ کہا جاتا ہے۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہ حکم اُن کی انفرادی حیثیت میں نہیں، بلکہ بحیثیت جماعت دیا گیا ہے۔ اِس کی جو آیتیں قرآن میں آئی ہیں، وہ اپنی انفرادی حیثیت میں اُن کے مخاطب ہی نہیں ہیں۔ لہٰذا اِس معاملے میں کسی اقدام کا حق بھی اُن کے نظم اجتماعی کو حاصل ہے۔ اُن کے اندر کا کوئی فرد یا گروہ ہرگز یہ حق نہیں رکھتا کہ اُن کی طرف سے اِس طرح کے کسی اقدام کا فیصلہ کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی بنا پر فرمایا ہے کہ مسلمانوں کا حکمران اُن کی سپر ہے، جنگ اُسی کے پیچھے رہ کر کی جاتی ہے۔****
۷۔ اسلام جس جہاد کا حکم دیتا ہے، وہ خدا کی راہ میں جنگ ہے، اِس لیے اخلاقی حدود سے بے پروا ہو کر نہیں کیا جا سکتا۔ اخلاقیات ہر حال میں اور ہر چیز پر مقدم ہیں اور جنگ و جدال کے موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے اُن سے انحراف کی اجازت کسی شخص کو نہیں دی۔ چنانچہ یہ بالکل قطعی ہے کہ جہاد صرف مقاتلین (combatants) سے کیا جاتا ہے۔ اسلام کا قانون یہی ہے کہ اگر کوئی زبان سے حملہ کرے گا تو اُس کا جواب زبان سے دیا جائے گا، لڑنے والوں کی مالی مدد کرے گا تو اُس کو مدد سے روکا جائے گا، لیکن جب تک وہ ہتھیار اٹھا کر لڑنے کے لیے نہیں نکلتا، اُس کی جان نہیں لی جا سکتی۔ یہاں تک کہ عین میدان جنگ میں بھی وہ اگر ہتھیار پھینک دے تو اُسے قیدی بنایاجا ئے گا، اُس کے بعد اُسے قتل نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن میں جہاد کا حکم جس آیت میں دیا گیا ہے، اُس کے الفاظ ہی یہ ہیں کہ ’’اللہ کی راہ میں اُن لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑیں اور اِس میں کوئی زیادتی نہ کرو، اِس لیے کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ ***** نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے دوران میں عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا ہے۔ ****** اِس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اگر جنگ کرنے والوں کے ساتھ نکلے بھی ہوں تو بالعموم مقاتل نہیں ہوتے، زیادہ سے زیادہ لڑنے والوں کا حوصلہ بڑھا سکتے اور زبان سے اُنھیں لڑنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔
۸۔ دور حاضر کے مغربی مفکرین سے صدیوں پہلے قرآن نے اعلان کیا تھا کہ ’اَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ‘،******* (مسلمانوں کا نظم اجتماعی اُن کے باہمی مشورے پر مبنی ہو گا)۔ اِس کے صاف معنی یہ تھے کہ مسلمانوں کی حکومت اُن کے مشورے سے قائم ہو گی۔ نظام مشورے ہی سے وجود میں آئے گا۔ مشورہ دینے میں سب کے حقوق برابر ہوں گے۔ جو کچھ مشورے سے بنے گا، وہ مشورے سے توڑا بھی جا سکے گا۔ جس چیز کو وجود میں لانے کے لیے مشورہ کیا جائے گا، ہر شخص کی راے اُس کے وجود کا حصہ بنے گی۔ اجماع و اتفاق سے فیصلہ نہ ہو سکے تو فصل نزاعات کے لیے اکثریت کی راے قبول کر لی جائے گی۔
یہی جمہوریت ہے۔ چنانچہ آمریت کسی خاندان کی ہو یا کسی طبقے، گروہ یا قومی ادارے کی، کسی حال میں بھی قبول نہیں کی جاسکتی، یہاں تک کہ نظم اجتماعی سے متعلق دینی احکام کی تعبیر و تشریح کے لیے دینی علوم کے ماہرین کی بھی نہیں۔ وہ یہ حق یقیناًرکھتے ہیں کہ اپنی تشریحات پیش کریں اور اپنی آرا کا اظہار کریں، مگر اُن کے موقف کو لوگوں کے لیے واجب الاطاعت قانون کی حیثیت اُسی وقت حاصل ہو گی، جب عوام کے منتخب نمایندوں کی اکثریت اُسے قبول کر لے گی۔ جدید ریاست میں پارلیمان کا ادارہ اسی مقصد سے قائم کیا جاتا ہے۔ ریاست کے نظام میں آخری فیصلہ اُسی کا ہے اور اُسی کا ہونا چاہیے۔ لوگوں کا حق ہے کہ پارلیمان کے فیصلوں پر تنقید کریں اور اُن کی غلطی واضح کرنے کی کوشش کرتے رہیں، لیکن اُن کی خلاف ورزی اور اُن سے بغاوت کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ علما ہوں یا ریاست کی عدلیہ، پارلیمان سے کوئی بالاتر نہیں ہو سکتا۔ ’اَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ‘ کا اصول ہر فرد اور ادارے کو پابند کرتا ہے کہ پارلیمان کے فیصلوں سے اختلاف کے باوجود وہ عملاً اُس کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں۔
اسلام میں حکومت قائم کرنے اور اُس کو چلانے کا یہی ایک جائز طریقہ ہے۔ اِس سے ہٹ کر جو حکومت بھی قائم کی جائے گی، وہ ایک ناجائز حکومت ہو گی، خواہ اُس کے سربراہ کی پیشانی پر سجدوں کے نشان ہوں یا اُسے امیرالمومنین کے لقب سے نواز دیا جائے۔
۹۔ مسلمانوں کی حکومت اگر کسی جگہ قائم ہو تو اُس سے بالعموم نفاذ شریعت کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ تعبیر مغالطہ انگیز ہے، اِس لیے کہ اِس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اسلام میں حکومت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ شریعت کے تمام احکام ریاست کی طاقت سے لوگوں پر نافذ کر دے، دراں حالیکہ قرآن و حدیث میں یہ حق کسی حکومت کے لیے بھی ثابت نہیں ہے۔ اسلامی شریعت میں دو طرح کے احکام ہیں: ایک، جو فرد کو بحیثیت فرد دیے گئے ہیں اور دوسرے، جو مسلمانوں کے معاشرے کو دیے گئے ہیں۔ پہلی قسم کے احکام کا معاملہ خدا اور بندے کے درمیان ہے اور وہ اُس میں کسی حکومت کے سامنے نہیں، بلکہ اپنے پروردگار ہی کے سامنے جواب دہ ہے۔ لہٰذا دنیا کی کوئی حکومت اُسے، مثال کے طور پر، روزہ رکھنے یا حج و عمرہ کے لیے جانے یا ختنہ کرانے یا مونچھیں پست رکھنے اور وہ اگر عورت ہے تو سینہ ڈھانپنے، زیب و زینت کی نمایش نہ کرنے یا اسکارف اوڑھ کر باہر نکلنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتی۔ اِس طرح کے معاملات میں تعلیم و تربیت اور تلقین و نصیحت سے آگے اُس کے کوئی اختیارات نہیں ہیں، الاّ یہ کہ کسی کی حق تلفی یا جان، مال، آبرو کے خلاف زیادتی کا اندیشہ ہو۔ قرآن نے پوری صراحت کے ساتھ واضح کر دیا ہے کہ دین کے ایجابی احکام میں سے یہ صرف نماز اور زکوٰۃ ہے جس کا مطالبہ مسلمانوں کا کوئی نظم اجتماعی، اگر چاہے تو قانون کی طاقت سے کر سکتا ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ اِس کے بعد وہ پابند ہے کہ اُن کی راہ چھوڑ دے اور کوئی چیز اُن پر نافذ کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ******** رہے دوسری قسم کے احکام تو وہ درحقیقت دیے ہی حکومت کو گئے ہیں، اِس لیے کہ اجتماعی معاملات میں وہی معاشرے کی نمایندگی کرتی ہے۔ علما ارباب حل و عقد سے اُن پر عمل کا مطالبہ کریں تو یقیناًحق بجانب ہوں گے اور اپنے منصب کے لحاظ سے اُن کو کرنا بھی چاہیے۔ مگر یہ شریعت پر عمل کی دعوت ہے، نفاذ شریعت کی تعبیر اِس کے لیے بھی موزوں قرار نہیں دی جا سکتی۔
یہ دوسری قسم کے احکام درج ذیل ہیں:
ا۔ مسلمان اپنے حکمرانوں کی رعایا نہیں، بلکہ برابر کے شہری ہوں گے۔ قانون اور ریاست کی سطح پر اُن کے بڑے اور چھوٹے اور شریف اور وضیع کے مابین کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ اُن کے جان و مال اور آبرو کو حرمت حاصل ہو گی، یہاں تک کہ حکومت اُن کی رضامندی کے بغیر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس بھی اُن پر عائد نہیں کر سکے گی۔ اُن کے شخصی معاملات، یعنی نکاح، طلاق، تقسیم وراثت، لین دین اور اِس نوعیت کے دوسرے امور میں اگر کوئی نزاع اُن کے درمیان پیدا ہو جائے گی تو اُس کا فیصلہ اسلامی شریعت کے مطابق ہو گا۔ روز و شب کی نمازوں، ماہ رمضان کے روزوں اور حج و عمرہ کے لیے اُنھیں تمام ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ اُن پر عدل و انصاف کے ساتھ اور ’اَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ‘ کے طریقے پر حکومت کی جائے گی۔ اُن کے قومی املا ک اجتماعی ضرورتوں کے لیے خاص رہیں گے، اُنھیں نجی ملکیت میں نہیں دیا جائے گا، بلکہ اِس طرح نشوونما دی جائے گی کہ جو لوگ معیشت کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں، اُن کی ضرورتیں بھی اِن املاک کی آمدنی سے پوری ہوتی رہیں۔ وہ دنیا سے رخصت ہوں گے تو اُن کی تجہیز و تکفین مسلمانوں کے طریقے پر ہو گی، اُن کا جنازہ پڑھا جائے گا اور اُنھیں مسلمانوں کے قبرستان میں اور اُن کے طریقے پر دفن کیا جائے گا۔
ب۔ نماز جمعہ اور نماز عیدین کا اہتمام حکومت کرے گی۔ یہ نمازیں صرف اُنھی مقامات پر ادا کی جائیں گی جو حکومت کی طرف سے اُن کے لیے مقرر کر دیے جائیں گے۔ اِن کا منبر حکمرانوں کے لیے خاص ہو گا۔ وہ خود اِن نمازوں کا خطبہ دیں گے اور اِن کی امامت کریں گے یا اُن کی طرف سے اُن کا کوئی نمایندہ یہ ذمہ داری ادا کرے گا۔ ریاست کے حدود میں کوئی شخص اپنے طور پر اِن نمازوں کا اہتمام نہیں کر سکے گا۔
ج۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اصلًا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ادارے ہوں گے۔ چنانچہ معاشرے کے صالح ترین افراد اِن اداروں کے لیے کارکنوں کی حیثیت سے منتخب کیے جائیں گے۔ وہ لوگوں کو بھلائی کی تلقین کریں گے اور اُن سب چیزوں سے روکیں گے جنھیں انسان ہمیشہ سے برائی سمجھتا رہا ہے۔ تاہم قانون کی طاقت اُسی وقت استعمال کریں گے، جب کوئی شخص کسی کی حق تلفی کرے گا یا اُس کی جان، مال یا آبرو کے خلاف کسی اقدام کے درپے ہوگا۔
د۔ حکومت اپنے دشمنوں کے معاملے میں بھی قائم بالقسط رہے گی۔ حق کہے گی،حق کی گواہی دے گی اور حق و انصاف سے ہٹ کر کبھی کوئی اقدام نہیں کرے گی۔
ہ۔ ریاست کے اندر یا باہر اگر کسی سے کوئی معاہدہ ہوا ہے تو جب تک معاہدہ باقی ہے، لفظ اور معنی، دونوں کے اعتبار سے اُس کی پابندی پوری دیانت اور پورے اخلاص کے ساتھ کی جائے گی۔
و۔ قتل اور فساد فی الارض کے سوا موت کی سزا کسی جرم میں بھی نہیں دی جائے گی۔ نیز ریاست کا کوئی مسلمان شہری اگر زنا، چوری، قتل، فساد فی الارض اور قذف کا ارتکاب کرے گا اور عدالت مطمئن ہو جائے گی کہ اپنے ذاتی، خاندانی اور معاشرتی حالات کے لحاظ سے وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں ہے تو اُس پر وہ سزائیں نافذ کی جائیں گی جو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی دعوت کو پورے شعور اور شرح صدر کے ساتھ قبول کر لینے کے بعد اِن جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے اپنی کتاب میں مقرر کر دی ہیں۔
ز۔ اسلام کی دعوت کو اقصاے عالم تک پہنچانے کے لیے حکومت کی سطح پر اہتمام کیا جائے گا۔ دنیا کی کوئی طاقت اگر اِس میں رکاوٹ پیدا کرے گی یا ایمان لانے والوں کو جبر و تشدد کا نشانہ بنائے گی تو حکومت اپنی استطاعت کے مطابق اِس رکاوٹ کو دور کرنے اور اِس تشدد کو روکنے کی کوشش کرے گی، اگرچہ اِس کے لیے تلوار اٹھانی پڑے۔*********
۱۰۔ نظم اجتماعی سے متعلق یہ شریعت کے احکام ہیں اور اِس تنبیہ و تہدید کے ساتھ دیے گئے ہیں کہ جو لوگ خدا کی کتاب کو مان کر اُس میں خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، قیامت کے دن وہ اُس کے حضور میں ظالم، فاسق اور کافر قرار پائیں گے۔ ********** تاہم مسلمانوں کے ارباب حل و عقد اگر اِس کے باوجود اِس معاملے میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے یا سرکشی اختیار کر لیتے ہیں تو علما و مصلحین کی ذمہ داری اِس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اُنھیں دنیا اور آخرت میں اِس کے نتائج سے خبردار کریں۔ اُنھیں حکمت کے ساتھ اور موعظۂ حسنہ کے اسلوب میں صحیح رویہ اختیار کرنے کی دعوت دیں، اُن کے سوالات کا سامنا کریں، اُن کے اشکالات دور کریں اور دلائل کے ساتھ اُنھیں بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت کیوں دی ہے؟ اجتماعی زندگی کے ساتھ اُس کا کیا تعلق ہے؟ اُس میں احکام کی بنیاد کیا ہے اور دورحاضر کا انسان اُس کو سمجھنے میں دقت کیوں محسوس کرتا ہے؟ اُس کی تفہیم و تبیین کے لیے ایسے اسالیب اختیار کریں جن سے اُس کی حکمت، معنویت اور اُس کے مقاصد اُن پر واضح ہوں اور اُن کے دل و دماغ پورے اطمینان کے ساتھ اُسے قبول کرنے اور اُس پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار ہو جائیں۔ قرآن میں اُن کا منصب دعوت و انذار بتایا گیا ہے۔ وہ اپنی قوم اور اُس کے ارباب حل و عقد کے لیے داروغہ نہیں بنائے گئے کہ اپنے پیروکاروں کے جتھے منظم کر کے بندوق کے زور پر اُنھیں شریعت کا پابند بنانے کی کوشش کریں۔  [۲۰۱۴ء] 
________
 بخاری، رقم ۷۰۵۳۔ ۷۰۵۴۔
 الحجرٰت ۴۹: ۱۰۔
 یونس ۱۰: ۴۷۔
 بخاری، رقم ۲۹۵۷۔
 البقرہ ۲: ۱۹۰۔
 بخاری، رقم ۳۰۱۵۔ مسلم، رقم ۱۷۴۴۔
 الشوریٰ ۴۲: ۳۸۔
 التوبہ ۹: ۵۔
 اسلام کے مآخذ میں اِن احکام کے دلائل کے لیے دیکھیے، ہماری کتاب ’’میزان‘‘۔
 المائدہ ۵: ۴۴۔۴۷۔
اسلام اور ریاست – ایک فکری مباحثہ مابین غامدی اور علما
22 جنوری 2015 کو پاکستانی اخبار روزنامہ جنگ میں جاوید احمد غامدی صاحب کی جانب سے تحریر کردہ مضمون بعنوان “اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ” شائع ہوا۔ اس مضمون میں انہوں نے مذہب (اسلام) اور ریاست کے باہمی تعلق پر مبنی مروجہ مذہبی بیانیے کے مقابل میں ایک جوابی بیانیہ پیش کیا ہے، جو جیسا کہ عنوان سے ہی ظاہر ہے، متقدمین اور معاصر روایتی علما کے پیش کردہ بیانیے سے بالکل مختلف ہے۔ تاہم یہ جوابی بیانیہ کسی قدر اجمال کا حامل تھا، جو اخباری مقالات میں اختصار کے ضابطے کا ایک ناگزیر لوازمہ ہوتا ہے۔ نتیجتاً، متعدد جلیل القدر علما اور دانشوروں کی جانب سے جوابی مقالات سامنے آئے جو پاکستان کی دیگر اخبارات و رسائل میں چھپے۔ ناقدین میں پاکستان کے نامور علما مفتی تقی عثمانی صاحب، مولانا زاہد الراشدی صاحب، ابتسام الہی ظہیر صاحب، مولانا حنیف جالندھری صاحب، مفتی منیب الرحمن صاحب اور اوریا مقبول جان صاحب، انصار عباسی صاحب وغیرھم جیسے دانشور شامل تھے۔ ان حضرات نے دلائل (اور کہیں جذبات) سے اپنا مؤقف واضح کیا اور غامدی صاحب کے دعاوی میں غلطیوں، کمزوریوں اور الجھنوں کی نشاندہی بھی کی۔ الغرض انہوں نے قدیم بیانیے کو ہی صائب قرار دیا اور اس “جوابی بیانیے” پر اپنے اعتراضات پوری شدت سے بیان کر دیے۔ ان مضامین میں سے منتخب کردہ اعتراضات جو بنیادی نوعیت کے تھے، اور ناقدین کے ہاں مشترک اور تکراری تھے، ان کے جواب میں غامدی صاحب کی جانب سے توضیحی مضامین مزید شائع ہو چکے ہیں۔ 
یہ مباحثہ کوئی عام دینی و فقہی مباحثہ نہیں کہ جس سے عام مسلمان اپنی روایتی بے اعتنائی برت سکیں۔ طالبان، القاعدہ، بوکو حرام، داعش و ISIS،کے اس دور میں کہ جس میں بزعم خود خدائی فوجدار ہماری گردنوں پر پاؤں رکھ کر اسلامی خلافت کے قیام کی حربی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں، ہم سب کے لیے یہ مباحثہ زندگی اور موت کی کشمکش سے کم نہیں۔ کیونکہ اگر روایتی بیانیہ درست ہے تو یہ سب متحارب تنظیمیں شریعت کے ایک مقصود کو حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگی ہوئی ہیں جن سے اگر کوئی غلطی ہو رہی ہے تو وہ بس “طریقہ کار” کی ہے۔ اور اگر غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ درست ہے تو پھر ان سب تنظیموں کی فکری اساس منہدم ہو جاتی ہے، ایک خالص جمہوری معاشرہ ہی شریعت کا مقصود ٹھہرتا ہے اور یہ تمام تنظیمیں ریاست کے خلاف خروج و بغاوت کی مجرم قرار پاتی ہیں۔
چنانچہ موضوع کی حساسیت کی وجہ سے  اسے ایک مستقل باب کی حیثیت ، قارئین کے لیے ایک ایسا دفتر ترتیب ہے  جس میں اس موضوع پر تمام پیش رفت ایک ہی صفحے پر ہر وقت عیاں ہو۔ انفرادی مسائل جو ان مضامین میں دونوں اطراف سے اٹھے ہیں اور اٹھتے رہیں گے، انہیں علیحدہ علیحدہ نقل کر کے ان کا خلاصہ بیان کر دیا جائے، اور جیسے ہی کسی مسئلے کا کوئی نیا قابل ذکر پہلو سامنے آئے، یا کسی معروف ہستی کے قلم سے مزید مواد فراہم ہو، تو اسے بھی فوراً اسی مسئلے کے ذیل میں بیان (update)کر دیا جائے۔ اس طریقے سے ایک طرف تو قارئین کو سوالات اور ان کے جوابات کی دریافت متفرق محلات و مضامین سے خود نہیں کرنی پڑے گی۔ اور دوسری جانب ہر انفرادی مسئلے پر موجود دلائل کا موازنہ نہایت آسان ہو جائے گا۔ پڑھتے جایں >>>>>>

جوابی بیانیہ: مباحثہ

یہ مباحثہ اور تبصرہ اس سائٹ سے لیا گیا ہے :
جلیل القدر علما اور دانشوروں نے اس بیانیے کے اجزا پر اپنی تصنیفات میں جو اہم اعتراضات اٹھائے ہیں، ان کو اجزا کی ترتیب کے اعتبار سے ملاحظہ بھی کرتے ہیں اور ان کے جوابات جو غامدی صاحب کے قلم سے نکلے اور ان پر میرا تبصرہ ذیل میں درج ہے۔ تاہم اعتراضات اور جوابات کا “خلاصہ” یہاں بیان کرنا مقصود ہے تا کہ قارئین کے لیے بحث قابل فہم ہو سکے۔
کیا ریاست کا کوئی مذہب ہوتا ہے؟
ابتسام الہی ظہیر صاحب (26 جنوری 2015): قرآن سے ثابت ہے کہ ریاست کا مذہب سے تعلق ہے۔ سورۂ آل عمران کی آیات 19، “بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہے” اور 85، “جو کوئی بھی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے گا تو اس سے وہ ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا ” واضح کرتی ہیں کہ اسلام فرد اور حاکم دونوں کے لیے لازم ہے۔ پھر سورہ نساء کی آیت 59، “اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو اس کے رسول کی اور ان حکام کی جو تم میں سے ہوں”، سے اور سورہ مائدہ آیات 44، 45 اور 47 سے پتہ چلتا ہے کہ حکمران مسلمانوں ہی میں سے ہوں گے اور ان پر قرآن و سنت کے مطابق فیصلے کرنا لازم ہے۔
جواب از غامدی صاحب: غامدی صاحب نے اپنے مؤقف کو سمجھنے میں جو دقت بعض علما کو پیش آئی اس کو بھانپتے ہوئے ایک مستقل مضمون “ریاست اور حکومت ” کے عنوان سے 21 فروری کو شائع کر دیا۔ اس کا خلاصہ تاریخ اشاعت کی ترتیب سے آگے آ رہا ہے۔ اس میں انہوں نے واضح کیا کہ ریاست اور حکومت میں فرق ہوتا ہے۔ یہ بات تو انہوں نے بھی صراحت کے ساتھ بیان کر دی تھی کہ مسلم حکمرانوں کو تو یہ بات باور کرائی ہی جائے گی کہ وہ قرآن و سنت کے پابند ہوں گے۔ بلکہ انہوں نے تو ان میں سے بعض آیات کا حوالہ بھی دیا تھا اور ان کی رہنمائی میں احکامات پر مبنی ایک فہرست بھی اپنے پہلے ہی مقالے میں شائع کر دی تھی۔
 تبصرہ: جو اعتراضات اٹھائے گئے ہیں وہ غالباً ریاست اور حکومت میں فرق کو ملحوظ رکھے بغیر اٹھائے گئے ہیں۔ چنانچہ جن آیات کا حوالہ محترم ابتسام صاحب نے دیا ہے وہ ریاست اور مذہب کے تعلق پر نہیں بلکہ افراد، چاہے وہ عوام ہوں یا حکمران، اور مذہب کے تعلق پر ہی وارد نظر آتی ہیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو محترم ابتسام صاحب سے استدعا ہے کہ ان آیات کے ریاست پر اطلاق کو واضح فرمائیں۔
رہی بات سورہ نساء کی آیت 59 کی، تو اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جو مسلمان حکمران ہوں گے انہیں قرآن و سنت ہی کے مطابق فیصلے کرنے چاہیيں۔
  1. غامدی صاحب کے اس دعوے کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں جو قرارداد مقاصد درج ہے، یا اس میں جو پابندی عائد کی گئی ہے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا، یہ قطعی طور پر نہ صرف غیر ضروری، بلکہ بے بنیاد خیال پر مبنی ہے۔ قرارداد مقاصد کا بنیادی تصور اللہ تعالی ٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اقرار ہے، اور اسے غیر ضروری اور بے بنیاد قرار دینے کا نتیجہ ریاست کے لیے اس حاکمیت اعلیٰ کے اقرار کو بے بنیاد قرار دینے کے سوا اور کیا ہے؟
  2. یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ”سیکولرازم کی تبلیغ” اور ”مذہبی بیانیہ” کے اس نکتے میں کیا فرق ہوا؟ سیکولرازم بھی یہی کہتا ہے کہ ”ریاست کا دین سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ دین ایک خالص انفرادی معاملہ ہے، وہ بھی یہی کہتا ہے کہ پارلیمان پر کسی دین کی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی، لہٰذا قرارداد مقاصد کی کوئی ضرورت نہیں اور یہی باتیں جناب غامدی صاحب کے اس نکتے میں بھی ارشاد فرمائی گئی ہیں. کیا عنوان بدل دینے سے حقیقت میں کوئی فرق آ جاتا ہے؟
  3. ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ریاست کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے، اور نہ پارلیمان کے فیصلوں کو قرآن و سنت کا پابند کیا جا سکتا ہے، تو ”امرھم شوری بینھم” کا قرآنی اصول اس کے لیے کس بنیاد پر لازم ہو گیا؟ اور یہ بات کس بنیاد پر کہی جا رہی ہے کہ ”اسلام میں حکومت قائم کرنے اور اس کو چلانے کا یہی ایک جائز طریقہ ہے” جبکہ ریاست کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں؟
  4. ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ اگر پارلیمان مغربی ممالک کی طرح ہم جنس شادیوں کا قانون نافذ کر دے، تو کیا قرآن کریم کا باہمی مشاورت کا یہ اصول پھر بھی ”ہر فرد اور ادارے کو پابند کرتا ہے کہ پارلیمان کے فیصلوں سے اختلاف کے باوجود عملاًَ اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں؟” اگر نہیں تو کیوں؟ جبکہ پارلیمان پر کوئی پابندی نہیں کہ وہ قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی نہ کرے؟
جواب از غامدی صاحب:
سوال نمبر i اور ii: غامدی صاحب اپنے ایک مقالے میں پارلیمان کی جو حیثیت بیان فرما چکے ہیں وہ اگر مان لی جائے تو ان کے مطابق سیکولر اور اسلامی ریاست کی تعبیرات غیر متعلق ہو جاتی ہیں۔ اسی مقالے سے یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حاکمیت اعلی کی اس طرح کے اقرار کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی ۔ دیکھیے “نفاذ شریعت” 28 جنوری 2014، یہاں پہ۔
سوال نمبر iii:غامدی صاحب نے اپنے 21 فروری 2015 کو شائع ہونے والے مقالے “ریاست اور حکومت “میں واضح فرمایا ہے کہ ریاست کے ساتھ شریعت کا تعلق کیسے قائم ہوتا ہے۔
سوال نمبر iv:غامدی صاحب نے اس سوال اور اس طرح کے دوسرے سوالوں کے جواب میں 9 مارچ 2015 کو اپنا مقالہ بعنوان “پارلیمنٹ کی بالادستی” شائع کیا۔ جس کے مطابق اس طرح کے فیصلوں سے اختلاف کیا جائے گا، انہیں صحیح نہیں سمجھا جائے گا، مگر عملاً اکثریت کی رائے کو فیصلہ کن مان لیا جائے گا۔
میرا تبصرہ: مفتی تقی صاحب کوئی عام ہستی نہیں بلکہ اس وقت اسلامی دنیا میں شائید ہی کوئی عالم ایسا ہو جو آپ کے کمال و شرف سے بے بہرہ ہو۔ اس لیے میں کوشش کروں گا کہ ان کے تمام اشکالات پر اپنا تبصرہ علیحدہ نقل کر دوں۔ بڑے علما کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنے تلامذہ کی طرف سے آنے والی کسی توضیح کی کاوش پر برہم نہیں ہوتے۔ امید ہے وہ بھی ایسا ہی کریں گے۔
پہلے اعتراض کے جواب میں عرض ہے کہ جمہوریت میں حاکمیت کے حامل عوام ہونے کا جو دعوٰی کیا جاتا ہے وہ خدا کی حاکمیت کے مقابل میں نہیں ہوتا۔ بلکہ حاکمیت کسی خاص شخص، طبقے یا گروہ کی ہے کے مقابل میں کیا جاتا ہے۔ عوام کی حاکمیت کے نتیجے میں پارلیمان بالادست قرار پاتی ہے، اور دوسرے دعوے کے نتیجے میں پارلیمان کے علاوہ کوئی اور ادارہ (جیسے عدلیہ، طبقہ علما یا خاندان)۔چنانچہ، حقیقی حاکمیت اعلی کا اقرار ایک علامتی حیثیت رکھتا ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اگر اس کی بالفعل قانونی حیثیت مراد ہے تو پھر یہ ماننا نا گزیر ہے کہ عدلیہ یا طبقہ علما کو بالادستی حاصل ہے۔ اس لیے محترم تقی صاحب سے گزارش ہے کہ اپنی گفتگو کو ان دو میں سے کسی ایک صورت پر محمول کر کے ہم جیسے طالبعلموں کی رہنمائی فرمائیں۔ جہاں تک غامدی صاحب کے دعوے کا تعلق ہے تو پارلیمان کی بالادستی کے بعد واقعتاً حاکمیت اعلی کا قانونی اقرار بے معنی معلوم پڑتا ہے۔
دوسرے اعتراض پر عرض ہے کہ سیکولرازم صرف یہی نہیں کہتا کہ پارلیمان پر کسی دین کی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی کہتا ہے کہ پارلیمان چاہے بھی تو اپنے مذہبی تصورات کی بنیاد پر اجتماعی قانون سازی نہیں کر سکتا۔ جبکہ غامدی صاحب کا مؤقف اس کے بالکل بر عکس یہ ہے کہ پارلیمان کو پورا حق ہے کہ اپنے اجتماعی مسائل میں اپنے مذہب کے ماننے والوں کے لیے قانون سازی کرے۔
تیسرا اعتراض بھی چونکہ اس وقت کیا گیا تھا جب ریاست اور حکومت کے فرق پر غامدی صاحب کا توضیحی مضمون ابھی شائع نہیں ہوا تھا اس لیے ریاست اور حکومت کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ بہر حال غامدی صاحب کے مطابق حکومت و پارلیمان پر قرآن و سنت کے اتباع کی پابندی ہو گی۔ مگر یہ پابندی “اخلاقی” ہو گی نہ کہ “قانونی”، کیونکہ یہی فطری طریقہ ہے۔ جتنا دین افراد میں ہو گا، اسی کا ظہور منتخب نمائندوں کے ذریعے ہو گا۔ اس اخلاقی پابندی کا جتنا حصہ وہ “قانونی پابندی” میں بدلنا چاہیں گے، پارلیمان کے اجرا سے کر لیں گے۔ مگر اس کی اخلاقی حدود بھی غامدی صاحب نے فہرست بنا کر معین کر دی ہیں۔ ”امرھم شوری بینھم” کا اصول بھی افراد کے لیے اسی اخلاقی و دینی اعتبار سے لازمی ہو گا۔ جس سے رو گردانی کے نتیجے میں وہ اسی طرح اللہ کے حضور جوابدہ ہوں گے جس طرح وہ باقی معاملات میں ہوں گے۔
چوتھے اعتراض پر عرض ہے کہ ایسا قانون بنانے سے بن جائے گا ۔ تاہم اگر اس کا کوئی حصہ فرد سے کسی معصیت کے انجام دینے کا مطالبہ کرے گا تو اس فرد کا اخلاقی و دینی فرض ہو گا کہ ایسے کسی حکم کی تعمیل نہ کرے چاہے اس کے نتیجے میں اسے سزا ہی کیوں نہ بھگتنی پڑے۔ مگر وہ اس قانون کی عمومی تنفیذ کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتا۔ بس اختلاف کر سکتا ہے اور اس کو بدلنے کی کوشش۔
حنیف جالندھری صاحب (31 جنوری 2015): سورہ یوسف آیت 4، “حکم نہیں ہے مگر صرف اللہ کے لیے” اور سورہ اعراف آیت 54، “خبردار، پیدا بھی اللہ نے کیا ہے اور حکم بھی اسی کا چلے گا” واضح کرتی ہیں کہ اللہ خالق ہونے کے ساتھ مذہبی اور سیاسی اقتدار ، دونوں ہی کا سر چشمہ ہے۔ سورہ مائدہ آیت 44، “اور جو لوگ فیصلہ نہ کریں اس قانون کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا ہے تو ایسے لوگ ظالم/فاسق/کافر ہیں” حکمرانوں کو اللہ کے قانون کا پابند کرتی ہے۔ سیرت ابن ہشام میں قبیلہ بنو عامر کے سردار بحیرہ بن فراس کے ایک سوال، “جب آپ کو اپنے مخالفین پر فوقیت اور قبضہ حاصل ہو جائے تو آپ سیاسی اقتدار ہمارے حوالے کر دیں اور مذہبی رہنمائی کے منصب پر خود فائز رہیں”، کے جواب میں جو آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ “اقتدار کا معاملہ اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اور وہ جس کے قبضے میں چاہے رکھے گا” تو اس سے مذہب کے اس محدود خیال، یعنی اقتدار اور مذہبی رہنمائی کے افتراق، کی نفی ہوتی ہے۔ پھر نبی اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین چونکہ دونوں ہی مساند کے حامل تھے اس لیے بھی یہ تفریق بے بنیاد ہے۔ سورہ حج آیت 41 لازم کرتی ہے کہ اگر کسی مسلمان فرد یا گروہ کو اللہ کسی خطہ ارض میں اقتدار عطا فرمائیں تو اس پر فرض ہے کہ وہ اسلام کے اصلاحی نظام کو مملکت کے تمام ذرائع سے عمل میں لائے۔ چنانچہ اسے بھلائیوں کو فروغ دینے اور برائیوں کو مٹانے میں اپنی ساری طاقت خرچ کرنی چاہیے۔ نیز، مذہب اور ریاست کو الگ الگ خانوں میں بانٹنے والوں کے لیے پوری امت کا اجماع معیار ہونا چاہیے۔
تبصرہ: معزز جالندھری صاحب نے جن آیات کا حوالہ دے کر یہ فرمایا ہے کہ اللہ مذہبی اور سیاسی دونوں اقتداروں کا سر چشمہ ہے، تو ان آیات سے تو یہ صاف ظاہر ہے کہ اللہ کی طرف سے مامور کوئی انسان آ کر اگر ہم سے ان دونوں اقتداروں کا مطالبہ کرے اور اللہ اس انسان کی اس حیثیت کی تائید بھی کر دیں، تو اس انسان کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا چاہیے۔ تاہم اس بات کے اقرار و انکار پر چونکہ بحث ہو نہیں رہی اس لیے ان آیات سے موجودہ بحث میں کوئی رہنمائی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اگر محترم جالندھری صاحب نے ریاست اور حکومت کے فرق پر نظر ڈال لی ہے اور پھر بھی سمجھتے ہیں کہ ریاست کے مذہب سے تعلق کے معاملے پر بھی یہ آیات گویا ہیں تو ہم ہمہ تن گوش ہیں۔
سورہ مائدہ آیت 44 کی رو سے حکمران اللہ کے قانون کے پابند ٹھہرتے ہیں، تو اس سے تو غامدی صاحب بھی متفق ہیں، بلکہ انہوں نے اسے اپنے ابتدائی مقالے میں ہی نقل بھی کیا ہے۔ فرق یہ ہے کہ غامدی صاحب کے مطابق یہ اخلاقی پابندی ہے جسے حکمرانوں کو ہمیشہ باور کرانا علما و مصلحین کا کام ہے۔
سیرۃ کے جس واقعے کا حوالہ محترم جالندھری صاحب نے دیا ہے وہ سیاسی اقتدار اور مذہبی رہنمائی کے افتراق کی نفی نہیں کرتا۔ بلکہ ان دونوں مظاہر کا ارتکاز کسی ایک ہی شخص میں ہو سکتا ہے یا نہیں کے جواب میں استعمال ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اگر بحث یہ ہو رہی ہوتی کہ کیا کوئی نبی، رسول یا عالم سیاسی اقتدار کا بھی حامل ہو سکتا ہے تو اس واقعے کو شائید شامل شواہد کر لیا جاتا، اگرچہ مشکل ہی سے۔ نبی اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین میں دونوں حیثیتوں کا ارتکاز بھی بس اسی ضمن کی ایک دلیل بن سکتا ہے۔ نیز یہ بات بھی لائق بیان ہے کہ ایسی روایت جو اپنے ماخذ کی مجموعی ثقاہت کے اعتبار سے ہی محل نظر ہو، اسے دینی مقدمات کے ثبوت میں ثانوی حیثیت سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔
سورہ حج کی آیت کے ضمن میں جالندھری صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے اس سے تو کوئی اختلاف غامدی صاحب نے کیا نہیں، بلکہ باقاعدہ اپنی فہرست میں نقل کیا ہے جو انہوں نے حکمرانوں کی رہنمائی کے لیے مقالے میں شائع کی تھی۔
جالندھری صاحب نے جس اجماع کا ذکر کیا ہے، اگر ایسا اجماع واقعتاً ہے بھی توغامدی صاحب نے اپنے اس مقالے سے اسے قرآن و سنت کے خلاف قرار دے دیا ہے۔ چنانچہ ان کے دعوے کا ابطال قرآن و سنت ہی سے کیا جانا چاہیے۔
غامدی صاحب (ریاست اور حکومت، 21 فروری 2015): ریاست اور حکومت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ علم سیاست کی اصطلاح میں ریاست معاشرے کی سیاسی تنظیم ہے ۔ریاستیں 3 قسم کی ہو سکتی ہیں:
1۔ جن کا تعین اللہ خود کر دے، جیسے عرب اور ایک زمانے تک فلسطین۔ ان کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ اِس کا مذہب اسلام ہے تو یہ تعبیر ہر لحاظ سے قابل فہم ہے۔
2۔ جن کا تعین فاتحین کرتے ہیں۔ ان میں بھی چونکہ حکمران کا مذہب ہی ریاست کا مذہب سمجھا جاتا ہے اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ یہ مسلمان یا مسیحی یا کمیونسٹ ریاستیں ہیں تو اِسے بھی ناقابل فہم قرار نہیں دے سکتے۔
3۔ دور حاضر کی قومی ریاستیں جن کے حدود بین الاقوامی معاہدات سے متعین ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی کسی کا حاکم یا محکوم نہیں ہوتا۔
اس تیسری قسم ہی کے بارے میں میں نے لکھا ہے کہ اِن کا کوئی مذہب نہیں ہو سکتا۔ ریاست پاکستان اِسی نوعیت کی ایک ریاست ہے۔ جس طرح مسلمان اِس کے باشندے ہیں اور ریاست جس طرح مسلمانوں کی ہے، اُسی طرح اُن غیر مسلموں کی بھی ہے جو صدیوں سے یہاں آباد ہیں۔ اسے اگر اکثریت کے زور پر مسلمان یا مسیحی یا ہندو بنانے کی کوشش کی جائے گی تو یہ محض تحکمّ اور استبداد ہو گا۔ یہ حقیقت اِس ریاست کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کو مجلس دستور ساز سے خطاب کرتے ہوئے پوری صراحت کے ساتھ واضح فرمائی تھی۔ اسلام اس طرح کی ریاست کو جائز سمجھتا ہے اور اسے مشرف بہ اسلام کرنے کے لیے ہرگز کوئی حکم نہیں دیتا۔ چنانچہ اُس کے ماننے والے اِس طرح کی قومی ریاستوں میں بھی شہری کی حیثیت سے اور وطن کی بنیاد پر ایک قوم بن کر رہ سکتے ہیں، جس طرح کہ اِس وقت دنیا کی بیش تر ریاستوں میں رہ رہے ہیں۔ اِس میں کوئی چیز اسلام اور اسلامی شریعت سے متصادم نہیں ہے۔
جبکہ حکومت کا لفظ اُن ارباب حل و عقد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو اُس میں نظم و نسق قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوں۔ حکومت 2 طرح کی ہوتی ہے:
1۔ وہ کہ جس میں حکمران کا انتخاب اللہ کرتا ہے۔ نبی ﷺ پر ختم نبوت کے بعد اس کا امکان ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔
2۔ وہ جس میں حکمران کا انتخاب انسان کرتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ اکثریت کی حکومت ہے۔
چنانچہ اس طرح کی حکومت میں اکثریت اگر مسلمانوں کی ہے تو اُن کا جمہوری اور انسانی حق ہے کہ اُن کے دین نے اگر کوئی حکم اجتماعی زندگی سے متعلق دیا ہے تو وہ خود بھی اُس پر عمل پیرا ہوں اور اُس کے ماننے والوں کے تمام معاملات کا فیصلہ بھی اپنی شریعت کے مطابق کریں۔ دور حاضر کی قومی ریاستوں کے ساتھ شریعت کا تعلق اِس مقام پر پہنچ کر اور اِس طریقے سے قائم ہوتا ہے۔ چنانچہ اِسی کے پیش نظر اجتماعی زندگی سے متعلق اِس شریعت کے احکام کی ایک جامع فہرست بھی میں نے مرتب کر کے پیش کر دی ہے اور لکھا ہے کہ مسلمانوں کو یہ احکام اِس تنبیہ و تہدید کے ساتھ دیے گئے ہیں کہ جو لوگ خدا کی کتاب کو مان کر اُس میں خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، قیامت کے دن وہ اُس کے حضور میں ظالم، فاسق اور کافر قرار پائیں گے۔
مفتی منیب الرحمن صاحب (ریاست اور حکومت، 28 فروری 2015): یہ مؤقف ہم نے آج تک کسی صاحب علم کی نہ تحریر میں پڑھا اور نہ تقریر میں سنا کہ خالق ارض و سماء نے پورے روئے زمین میں سے ایک “خطہ حجاز” کو اپنے لیے متعین کر لیا ہو اور باقی کو اپنی عملداری سے آزاد کر دیا ہو۔ سورہ بقرہ آیت 284، انعام آیت 57 اور 62، سورہ یوسف میں ایک سے زیادہ بار اور قرآن میں جا بجا یہ بیان کیا گیا ہے کہ کائنات کی تمام حکومت و ملکیت اسی خدا کی ہے۔ اگر علامہ غامدی صاحب کے بقول اللہ تعالی نے اپنی تشریعی عملداری کے لیے سر زمین حجاز پر ہی قناعت فرما لی، تو باقی سے محاسبہ کس بات کا ہو گا؟
غامدی صاحب قائد اعظم کی تقاریر و بیانات کی غلط تشریح کر رہے ہیں۔ ہماری رائے میں ان کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ اسلامی ریاست میں کسی غیر مسلم کو ترک مذہب پر مجبور نہیں کیا جائے گا، نہ ہی اسے جبراً اسلام میں داخل کیا جائے گا، اسے اپنے مذہب کے مطابق اپنی عبادت گاہ میں عبادت کی آزادی ہو گی، شہری حقوق کے اعتبار سے جان و مال و آبرو کے تحفظ میں مساوی حقوق حاصل ہوں گے، اسے مسلمانوں کی طرح معاش، کاروبار اور تجارت کی آزادی ہو گی، جو قوانین عامہ مسلمانوں پر عائد ہوں گے اور ان کے بھی حقوق و فرائض ہوں گے، اسی کو برابر کے شہری یا شہری حقوق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
تبصرہ: مفتی منیب صاحب پاکستان کے ایک نامور عالم ہیں جو متعدد دینی و حکومتی عہدوں کے حامل بھی ہیں۔ اور ہمارے لیے قابل صد احترام ہیں۔ اس لیے امید ہے کہ وہ بھی اس مباحثے پر میرے تحفظات کو علمی انداز میں ہی لیں گے۔
مفتی صاحب نے غامدی صاحب کے مؤقف کو جن الفاظ میں بیان فرما یا ہے کہ “باقی کو اپنی عملداری سے آزاد کر دیا ہو”، اور پھر آگے اس کی مزید وضاحت ” اپنی تشریعی عملداری کے لیے سر زمین حجاز پر ہی قناعت ” سے فرمائی ہے، بصد احترام یہ ترجمانی محل نظر ہے۔ غامدی صاحب نے اللہ کی تشریعی عملداری کی خطہ حجاز تک تحدید کو نہ صراحت سے کہیں بیان فرمایا ہے اور نہ ہی کنایہ سے۔ ریاست کی تحدید سے تشریعی عملداری کی تحدید کا استنباط درست نہیں۔ پھر جن آیات کا حوالہ مفتی صاحب نے دے کر فرمایا ہے کہ اللہ کی حکومت آسمانوں اور زمین سب پر ہے، تو ہم جیسے عام طالبعلم بھی جانتے ہیں کہ ان آیات میں اللہ کی حقیقی بادشاہت کی بات ہو رہی ہے، نہ کہ اس مجازی حکومت کی جس کی بحث یہاں مطلوب ہے۔ اگر ایسا نہیں تو کوئی شخص دنیا میں کسی خطہ ارض پر کفار و مشرکین کی حکومت کی مثال دے کر ان آیات کو غلط ثابت کر سکتا ہے۔
مفتی صاحب نے قائد اعظم کی تقاریر کی جو تشریح غامدی صاحب نے کی ہے اس سے بھی اختلاف کیا ہے اور صحیح تعبیر کے متعلق اپنی رائے سے آگاہ فرمایا ہے۔ میری رائے میں قائد اعظم کی تقاریر پر اس طرح کی بحثیں عرصۂ دراز سے جاری ہیں اور تمام تر تحقیق کے باوجود بھی ایک ناقابل حل معما بنی ہوئی ہیں۔ میرے نزدیک اس تنازعے کی ایک قابل فہم وجہ ندیم فاروق پراچہ صاحب کے اس مقالے سے سمجھی جا سکتی ہے۔ تاہم مجھے آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکی کہ آخر ان سے حاصل کیا ہو گا۔ اگر قائد اعظم نے کوئی بات شریعت کی رہنمائی میں فرمائی تھی تو وہ شریعت کے ماخذوں سے بلا واسطہ ثابت ہو گی۔ اور اگر کوئی بات شریعت سے متصادم ہو گی تو کیا اسے ہم اس لیے مان لیں گے کہ قائد نے فرمائی ہے؟ اس لیے اس طرح کی دینی بحثوں کو شریعت کے ماخذوں تک ہی محدود رہنا چاہیے۔ اور کسی ماخذ کی اس بحث میں کوئی وقعت نہیں۔
خورشید ندیم صاحب (سوءِ فہم، 11 مارچ 2015):غامدی صاحب کے “جوابی بیانیہ” پر کیے جانے والے بہت سے اعتراضات ان کے متعلق ناقدین کے عمومی سوءِ ظن کے نتیجے میں سوءِ فہم کا مظہر ہیں۔ غامدی صاحب نے اپنے بیانیے میں یہ لکھا ہے کہ اگر کسی ریاست میں زمام کار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے تو وہ ریاستی اور اجتماعی امور میں اللہ اور رسول ﷺ کی ہدایت اور احکامات کے پابند ہیں جو قرآن و سنت میں بیان ہوئے ہیں، اور جو ایسا نہیں کریں گے وہ خدا کے حضور ظالم، فاسق اور کافر قرار پائیں گے۔ اس واضح مؤقف کے باوجود ان کی ہمت کو داد یجیے جو اس بیانیے سے سیکولرزم برآمد کر رہے ہیں۔
  • کیا اسلام کا نظامِ حکومت “خلافت” ہے؟

ابتسام الہی ظہیر صاحب (26 جنوری 2015):خلافت ایک دینی اصطلاح ہے۔ یہ احادیث سے کہیں پہلے ہی قرآن میں بھی موجود ہے۔ سورہ نور کی آیت 55 میں “استخلاف فی الارض” کے الفاظ موجود ہیں۔ پھر متعدد احادیث میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور خلافت راشدہ کا تذکرہ بھی جا بجا ہوا ہے۔
مسلم خلفاء جغرافیائی وسعت کے باوجود پوری اسلامی سلطنت کے بیک وقت امیر رہے۔ عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی رحمۃاللہ علیہ کے متعلق روایات بھی ایک عالمگیر اسلامی سلطنت کے دوبارہ قیام کی پیشنگوئی کرتی ہیں۔
جواب از غامدی: اس موضوع پر اٹھنے والے اعتراضات کے جواب میں غامدی صاحب نے اپنا مضمون “خلافت” کے عنوان سے 4 مارچ کو شائع کیا جس کا خلاصہ تاریخ اشاعت کی ترتیب سے آگے آ رہا ہے۔ اس میں انہوں نے واضح کیا کہ کسی لفظ کا قرآن و حدیث میں آ جانا اس کو دینی اصطلاح نہیں بنا دیتا۔ اس کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کا “اصطلاح” کی حیثیت سے استعمال اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی جانب سے ہوا ہو۔ چنانچہ یہ طے ہے کہ قرآن و حدیث میں اس کے سب استعمالات عربی کے ایک عام لفظ کی حیثیت سے لغوی مفہوم میں ہی ہوئے ہیں۔
تبصرہ: پہلے اعتراض کے جواب میں غامدی صاحب کے مقالے کے بعد تو کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ الّا یہ کہ کوئی مزید وضاحت ابتسام صاحب کی جانب سے سامنے آئے۔
دوسرے اعتراض کا جواب غامدی صاحب نے براہ راست تو دیا نہیں مگر چونکہ ان کے مقالے میں ضمناً مضمر ہے، اس لیے میں اسے کھول دیتا ہوں۔ مسلم خلفاء اور عیسیٰ و مہدی کے ادوار میں اسلامی سلطنت کا عالمگیر ہونا امر واقعی تو ضرور ہو سکتا ہے، مگر اس سے غامدی صاحب کے مؤقف کی نفی تو کسی طرح ممکن نہیں۔ اگر غامدی صاحب کا دعوٰی یہ ہوتا کہ مسلمانوں کی عالمگیر سلطنت کا ہونا خلاف شریعت ہے تو ضرور اس طرح کے دلائل معنی خیز ہوتے۔ مگر ان کا دعوٰی تو یہ ہے کہ یہ شریعت کا کوئی مطالبہ نہیں کہ ایک سے زیادہ سلطنتوں کا ہونا گناہ کا باعث ہو۔
خلافت دینی اصطلاح ہے جو قرآن سے ثابت ہے۔ قرآن کریم نے سورہ بقرہ آیت نمبر 30 میں حضرت آدم علیہ اسلام کے تذکرے میں ارشاد فرمایا ہے کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ اورسورہ ص آیت نمبر 26میں حضرت داؤد علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ” ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔” نیز سورہ نور آیت نمبر 55میں “استخلاف فی الارض” کے الفاظ موجود ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد احادیث ہیں جن میں اسلامی ریاست کے امیر کو خلیفہ کہا گیا ہے۔ اور اس کی حکومت کو خلافت سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ قرآن و حدیث کے ان ارشادات کی بنا پر اسلامی لٹریچر اس اصطلاح سے بھرا ہوا ہے۔ فلسفہ تاریخ کے عبقری عالم ابن خلدونؒ ” خلافت” کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :” لوگوں کو شرعی طرز فکر کے مطابق چلانا جس سے ان کی آخرت کی مصلحتیں بھی پوری ہوں اور وہ دنیوی مصلحتیں بھی جن کا نتیجہ آخرکار آخرت ہی کی بہتری ہوتا ہے”۔قرآن و حدیث کے ان ارشادات اور چودہ سو سال سے اس اصطلاح کے معروف و مشہور بلکہ متواتر ہونے کے باوجود یہ فرمانا کہ خلافت کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے، اس پر تبصرے کے لیے میرے پاس مناسب الفاظ نہیں ہیں ۔
جواب از غامدی صاحب: ان سوالوں کے جواب میں غامدی صاحب نے اپنا مقالہ “خلافت” 4 مارچ کو شائع کیا جس کا خلاصہ تاریخ اشاعت کی ترتیب سے آگے آ رہا ہے۔ اس میں انہوں نے واضح کیا کہ قرآن و حدیث سے جتنے نظائر بھی پیش کیے گئے ہیں ان سب میں خلافت کا لفظ اپنے عمومی لغوی مطالب میں ہی استعمال ہوا ہے، جس کے لیے اسلاف کے مستند تراجم دیکھ لیے جا سکتے ہیں۔ اسلامی لٹریچر بیشک اس سے بھرا پڑا ہو، کسی اصطلاح کے دینی اصطلاح کہلانے کے لیے یہ دکھانا پڑتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے بطور اصطلاح استعمال کیا ہے۔ ابن خلدون کے مقدمے سے یہ بات ثابت نہیں کی جا سکتی۔ نیز اسلاف نے اگر اس کو اپنی اصطلاح بنایا بھی ہے تو خلافت کے ساتھ “راشدہ” اور “علی منہاج النبوۃ” کو مقدر مان کر بنایا ہے۔
تبصرہ: غامدی صاحب جو تمیز “دینی” اصطلاح میں اور “فقہی اصطلاح” یا “علم حدیث کی اصطلاح” یا “علم سیاست کی اصطلاح” میں ہوتی ہے، اسے معروف جان کر فقط خلافت کے “دینی اصطلاح” ہونے کی نفی فرما رہے ہیں۔ اس سے اگر اختلاف کیا جا سکتا ہے تو دو ہی طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ یہ دکھا دیا جائے کہ دینی اصطلاح صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بنانے سے نہیں بنتیں بلکہ امت کے علما کے بنانے سے بھی بن جاتی ہیں۔ یا دوم یہ کہ قرآن و حدیث سے ایسے نظائر پیش کیے جائیں جن میں یہ لفظ بطور اصطلاح استعمال ہوا ہو۔ اگر جو آیات و روایات تقی صاحب نے پیش فرمائی ہیں ان میں یہ بطور اصطلاح استعمال ہوا ہے تو ان سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اس پر مزید کلام کر کے واضح فرمائیں۔
نیز محترم تقی صاحب نے خلافت کے عالمگیر قیام کے مطلوب نہ ہونے پر کوئی کلام نہیں فرمایا، درانحالیکہ یہ ایک بہت بڑا دعوٰی اور اس دور کا ایک مہیب مسئلہ ہے۔ اس لیے تقی صاحب سے یہ بھی التماس ہے کہ اگر ایسا نہیں ہے، اور خلافت کا عالمگیر قیام شریعت کو مطلوب یا کم از کم مندوب ہے، تو ضرور اس کی توضیح فرمائیں۔
غامدی صاحب (خلافت، 4 مارچ 2015):
اِس میں شبہ نہیں کہ خلافت کا لفظ اب کئی صدیوں سے اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ ہرگز کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے۔ دینی اصطلاحات رازی، غزالی، ماوردی، ابن حزم اور ابن خلدون کے بنانے سے نہیں بنتیں اور نہ ہر وہ لفظ جسے مسلمان کسی خاص مفہوم میں استعمال کرنا شروع کر دیں، دینی اصطلاح بن جاتا ہے۔ یہ اللہ اور اُس کے رسولوں کے بنانے سے بنتی ہیں۔ لفظ ‘خلافت’ عربی زبان کا ایک لفظ ہے اور نیابت، جانشینی اور حکومت و اقتدار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
قرآن و حدیث میں ہر جگہ یہ اپنے اِن لغوی مفاہیم ہی میں سے کسی ایک مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ قرآن کی جو آیات ‘خلیفہ’ اور ‘خلافت’ کے الفاظ کو اُن کے ترجمے میں بعینہٖ قائم رکھ کر لوگوں کو یہ باور کرانے کے لیے پیش کی گئی ہیں کہ قرآن نے یہ لفظ کسی خاص اصطلاحی مفہوم میں استعمال کیا ہے، اُنھیں کسی مستند ترجمے یا تفسیر میں دیکھ لینے سے حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ شاہ عبد القادر اور مولانا محمود الحسن کے تراجم پیش خدمت ہیں جن سے واضح ہے کہ ‘نائب’ اور ‘حاکم’ کے الفاظ اِن آیتوں میں ‘خَلِیْفَۃ’ اور ‘اِسْتِخْلَاف’ کا ترجمہ ہیں اور صاف واضح ہے کہ اپنے اندر کوئی دینی مفہوم نہیں رکھتے، الاّ یہ کہ کوئی شخص یہ دعویٰ کرنے کا حوصلہ کر لے کہ عربی زبان کا ہر وہ لفظ جو قرآن میں استعمال کیا گیا ہو، دینی اصطلاح بن جاتا ہے۔
یہی صورت حال احادیث و آثار کی ہے۔
یہی سبب ہے کہ ‘ہدایت یافتہ حکومت’ یا ‘نبوت کے طریقے پر حکومت’، جیسے مدعا کو ادا کرنا مقصود ہو تو اُس کے لیے یہ لفظ تنہا کافی نہیں ہوتا، بلکہ اِس کے ساتھ ‘راشدہ’ اور ‘علیٰ منہاج النبوۃ’ جیسی تعبیرات کا اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے علما نے اِسی طرح کی تعبیرات کو مقدر مان کر خلافت کو ایک اصطلاح بنایا ہے۔
رہی یہ بات کہ دنیا میں مسلمانوں کی ایک ہی حکومت ہونی چاہیے اور یہ اسلام کا حکم ہے تو قرآن سے واقف ہر صاحب علم جانتا ہے کہ وہ اِس طرح کے کسی حکم سے یکسر خالی ہے۔
دو حدیثیں، البتہ اِس کے حق میں پیش کی جاتی ہیں۔ ان کا بھی صحیح مدعا یہ ہے کہ مسلمان اگر اپنی حکومت کے لیے کسی شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لیں اور اِس کے بعد کوئی دوسرا بغاوت کر کے اٹھ کھڑا ہو اور لوگوں کو بیعت کی دعوت دے تو ہر مسلمان کو پہلی بیعت پر قائم رہنا چاہیے۔ نیز یہ کہ اگر دوسرا اپنی حکومت کا اعلان کر دے اور کچھ لوگ اُس کی بیعت بھی کر لیں تو اُس کو قتل کر دیا جائے۔
اِن سے یہ بات کسی منطق سے بھی برآمد نہیں کی جا سکتی کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو دنیا میں ایک ہی حکومت قائم کرنے کا حکم دیا ہے اور اسلام کے داعی اگر کبھی کسی ملک میں لوگوں کی اکثریت کو مشرف بہ اسلام کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اِن احادیث و آثار کی رو سے وہ اپنے ملک میں اپنی الگ حکومت قائم نہیں کر سکتے اور اگر کریں گے تو گناہ گار ہوں گے۔
1۔ یہ بات بحث طلب ہے کہ اگر کوئی دینی اصطلاح مذکورہ بالا بزرگوں کے بنانے سے نہیں بنتی تو خود غامدی صاحب کی ان اصطلاحات کی کیا اخلاقی حیثیت ہے جو انہوں نے قرآن و سنت کے حوالوں سے از خود طے کر لی ہیں۔
2۔ آیات و روایات کے تراجم میں “نائب” وغیرہ کا لفظ تو غامدی صاحب کے نزدیک قابل استدلال ہے، مگر لطف کی بات ہے کہ اصل متن کا لفظ “خلیفہ” در خور اعتنا نہیں۔ چنانچہ مسلمان حکمران اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے صریح ارشادات کے مطابق خلیفہ ہی کہلاتا ہے۔
3۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کو خلیفہ کہا جاتا تھا اور ان کا سرکاری منصب “خلیفۃ رسول اللہ” کا عنوان رکھتا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب کسی نے انؓ کو “خلیفۃ اللہ” کہہ دیا تو انہوںؓ نے فوراً تصحیح کر دی کہ انؓ کا منصب فقط رسول ﷺ کے خلیفہ کا ہے۔ قرآن و حدیث اور ابو بکرؓ کے اس ارشاد ہی کی روشنی میں فقہاء کرام نے خلیفہ کی یہ تعریف بیان کی ہے کہ وہ مسلم حکمران خلیفہ کہلاتا ہے جو مسلمانوں کے اجتماعی امور جناب نبی کریم ﷺ کی نیابت کرتے ہوئے سر انجام دیتا ہے۔
4۔ اس بات پر تعجب ہے کہ غامدی صاحب جس استدلال و استنباط کا حق امت کے چودہ سو سالہ اجماعی تعامل کو کراس کرتے ہوئے آزادانہ طور پر اپنے لیے طلب کر رہے ہیں، اس کا حق غزالی، ابن خلدون، رازی، ماوردی اور ابن حزم نیز جمہور فقہاء امت کے لیے تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔
5۔ امام ولی اللہ دہلوی نے خلافت کا قیام امت مسلمہ کے اجتماعی دینی فرائض میں شامل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی غیر موجودگی میں پوری امت ایک شرعی فریضہ کی تارک اور گناہ گار قرار پاتی ہے۔ اس کی ایک اہم دلیل جو دہلوی صاحب نے بیا ن کی وہ یہ ہے کہ قرآن و سنت کے بہت سے احکامات پر عمل درآمد حکومت کے نظم پر موقوف ہے، جو اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ایک ایسی حکومت موجود ہو جو قرآن و سنت کے احکام کے نفاذ کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہو۔ اور دوسری دلیل یہ بیان فرمائی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد امت کا سب سے پہلا اجماع اسی خلافت کے قیام پر ہوا تھا، بلکہ اسے تو آپ ﷺ کی تجہیز و تکفین پر بھی مقدم کیا گیا تھا۔
6۔ البتہ خلافت کے احیا و قیام کے لیے آج کل کی تحریکات کے طریقہ کار سے ہمیں بھی اختلاف ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے اس کی شرعی حیثیت اور ضرورت و اہمیت سے انکار قرآن و سنت اور مسلمہ علمی روایت کے مطابق نہیں۔
 تبصرہ: حضرت زاہد الرّاشدی صاحب پاکستان کے ایک جلیل القدر اور نامور عالم و محقق ہیں۔ ان کے اعتراضات کے جوابات انتہائی ادب سے غامدی صاحب ہی کی فکر کی روشنی میں ذیل میں درج ہیں۔
1۔ غامدی صاحب کے مطابق جس طرح بزرگوں کے بنانے سے کوئی اصطلاح دینی نہیں ہو جاتی تو یقیناً ان کے بنانے سے بھی نہیں ہو جاتی۔ اگر انہوں نے کوئی اصطلاح بیان کر کے اس کو دینی کہہ دیا ہو، یا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف منسوب کر دیا ہو، تو اسی اصول کا اطلاق ان پر بھی کیا جائے گا۔ مگر میرے علم کی حد تک انہوں نے ایسا کبھی کیا نہیں۔ اگر حضرت کو ایسے کسی حوالے کا علم ہو تو ضرور ہماری تعلیم کو مرحمت فرمائیں۔
غامدی صاحب اس کی توجیہ کے مکلف ٹھہریں گے۔ مگر اصل بات اس بحث میں ہر وقت قارئین کی نظر میں رہنی چاہیے۔ اور وہ یہ کہ ایک اصطلاح وہ ہوتی ہے جو اہل فن کسی خاص مفہوم کی ادائیگی کے لیے معین و اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ دنیا کے ہر علم میں ہوتا ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔ تاہم ایک اصطلاح وہ ہوتی ہے جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ معین و اختیار کرتے ہیں۔ اس دوسری پر بحث چل رہی ہے کہ خلافت کو جس انداز میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بنائی ہوئی ایک خاص مذہبی اصطلاح کہہ کر مسلمانوں کو اس کے قیام کا مکلف ٹھہرا دیا گیا ہے، اس کا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں نہیں۔
2۔ غامدی صاحب نے “نائب” کا لفظ تراجم میں اس لیے دکھایا ہے تا کہ یہ باور کرا سکیں کہ متن میں استعمال ہونے والا “خلیفہ” کا لفظ اپنے اندر لغوی مفہوم سے زیادہ کوئی دینی و مذہبی تعینات و تضمنات نہیں رکھتا۔ اور اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے ترجمے سے نہیں بلکہ ناقدین کے ہاں شان و مرتبت رکھنے والے علماءِ اسلاف کے تراجم پیش کیے ہیں۔ چنانچہ، اس سے یہ نتیجہ نکالنا کے خلیفہ کا لفظ در خور اعتنا نہیں، بصد احترام کسی طرح درست نہیں۔ نیز اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے صریح ارشادات میں اگر مسلمان حکمرانوں کے لیے “خلیفہ” کا لفظ استعمال ہوا ہے تو اس کو بھی کسی قسم کا اختصاص مراد لے کے دینی اصطلاح نہیں کہا جا سکتا۔ اگر مسلمان حکمرانوں کی رعایا کو “رعیت” کہہ دیا ہو، یا ارباب حل و عقد کو “اولو الامر” کہہ دیا ہو، یا مسلمانوں کی حکومت کو “الامر” کہہ دیا ہو وغیرھم۔۔۔۔تو کیا یہ سب دینی اصطلاحات بن جائیں گی؟
3۔ اس بات سے کہ حضرت ابو بکرؓ کو خلیفہ کہا جاتا تھا اس بحث پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر غامدی صاحب کا مؤقف یہ ہوتا کہ کسی مسلم حکمران کو خلیفہ نہیں کہا جا سکتا تو یقیناً یہ دلیل قطعی ہوتی۔ مگر ایسا تو انہوں نے کہا نہیں۔ پھر خود یہ تفصیل جو حضرت ابو عمار صاحب نے پیش فرمائی ہے یہ واضح کر رہی ہے کہ خلیفہ کا لفظ تنہا اس مفہوم پر دلالت کرتا ہی نہیں جو آگے فقہا کے توسط سے انہوں نے بیان فرمایا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو خلیفہ کے ساتھ کسی اضافت کی ضرورت پیش نہ آتی۔ چنانچہ “اللہ” یا “رسول اللہ” کی اضافت یہ ثابت کر رہی ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے بھی خلیفہ اپنے لغوی مفہوم میں ہی سمجھا تھا۔ نیز خلیفہ کی یہ تعریف ” جو مسلمانوں کے اجتماعی امور جناب نبی کریم ﷺ کی نیابت کرتے ہوئے سر انجام دیتا ہو ” ہمارے فقہا نے ضرور معین کی ہو گی، مگر قرآن و سنت سے کسی طرح ہم آہنگ نہیں۔ روایات میں تو یہ لفظ ظالم حکمرانوں کے لیے بھی اور شریعت سے رو گردانی کرنے والے حکمرانوں کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ جو بات غامدی صاحب کہہ رہے ہیں اسے عام قارئین کو سمجھانے کے لیے عرض ہے کہ بالفرض آج قرآن اردو میں نازل ہو رہا ہوتا تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالی حکمران کو “صدر” یا “وزیر اعظم” کے لفظ سے مخاطب فرماتے، یا مسلمانوں سے وعدہ فرماتے کہ انہیں ضرور برصغیر یا پاکستان میں وزارت عظمی یا اقتدار سے سرفراز فرمائیں گے۔ کیا اس سے یہ اصطلاحات دینی ہو جاتیں؟
4۔ جناب زاہد الراشدی صاحب کا یہ دعوٰی، بصد احترام، درست نہیں۔ غامدی صاحب یہ حق اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے علاوہ کسی انسان کے لیے بھی، بشمول اپنے، تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ یہ مطالبہ اگر کہیں ان کی تحریروں میں درج ہے تو حضرت سے مودبانہ گزارش ہے کہ ضرور مطلع فرمائیں۔
5۔ امام ولی اللہ دہلوی کے نزدیک خلافت کا قیام شرعی فریضہ ہونے کے دو دلائل حضرت نے نقل فرمائیں ہیں۔ احتراماً عرض ہے کہ یہ دونوں دلائل محل نظر ہیں۔ پہلا اس لیے کہ قرآن و سنت کہ وہ احکامات جو حکومت کے ذمۂ تنفیذ میں ہیں ان کے مکلف مسلمان اسی صورت میں ہو سکتے ہیں جب حکومت ان کے پاس ہو۔ اس ذمہ داری کے نتیجے میں حکومت حاصل و قائم کرنے کا مکلف بنانا دراصل ترتیب کو الٹنا ہے۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیے کہ مال میں سے زکوٰۃ ادا کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ کہنا کہ اب ہر شخص پر مالدار ہونا واجب ہے تا کہ وہ زکوٰۃ نکال سکے، ظاہر ہے بالکل غلط ہو گا۔ اور دوسری دلیل بھی دراصل ریاست میں افراتفری کے سد باب اور تقریر امن کی ضمانت کے لیے ہر وقت کسی حکمران کے ہونے کی دلیل ہے۔ یعنی، صحابہ کو اس بات کا احساس تھا جو ہر سیاسی بصیرت رکھنے والے انسان کو ہوتا ہے، کہ ایک دن بھی ریاست میں ایسا نہیں گزرنا چاہیے کہ جس میں ریاست کا کوئی حکمران ہی نہ ہو اور اس کے نتیجے میں نقض امن کی صورت پیدا ہو جائے یا انتقال اقتدار میں بے یقینی کی۔ اسی مقصد سے صحابہ نے بجا طور پر اسے تجہیز و تکفین پر فوقیت دی۔ چنانچہ، اس واقعہ کو کسی خاص مفہوم خلافت کی دلیل کے طور پر استعمال کرنا، ظاہر ہے کہ، درست نہیں۔
6۔ غامدی صاحب “خلافت” کی شرعی حیثیت کو قرآن و سنت ہی سے تو چیلنج کر رہے ہیں۔ اگر کسی مقام یا دور میں لوگ کسی دینی مطالبے کو بنیاد بنا کر باہم دست و گریباں ہو جائیں تو کیا اس دور کے علما و مصلحین کا صرف یہ کام ہے کہ جبر وتشدد سے منع فرمائیں یا یہ بھی ان کی منصبی ذمہ داری ہے کہ لوگوں پر یہ واضح کریں کہ وہ مسئلہ جسے دینی مطالبہ سمجھا جا رہا ہے، دینی مطالبہ ہے بھی کہ نہیں؟ اسے مثال سے سمجھیے۔ اس دور میں پاکستان اور دنیا کے اور بہت سے ممالک میں کسی محفل و مجلس کی ابتدا تلاوت قرآن سے ہوتی ہے جس کے لیے عموماً اصل مقرر یا خطیب سے ہٹ کر ایک مستقل قاری مامور ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی گروہ اس بات پر نزاع برپا کر دے کہ صحابہ کے دور سے تو یہ ثابت ہے کہ اصل مقرر بس چند الفاظ میں ذکر خداوندی کر کے اپنی اصل تقریر کی طرف بڑھ جاتا تھا اور کوئی مستقل قاری تلاوت قرآن کے لیے مامور نہیں ہوتا تھا، اور یہ نزاع دنگا فساد تک پہنچ جائے، تو کیا علما و مصلحین کی ذمہ داری بس اتنی ہو گی کہ لوگوں کو تشدد سے روکیں؟ کیا یہ واضح کرنا ان کا فرض منصبی نہیں ہو گا کہ یہ کوئی دینی مطالبہ نہیں کہ لازماً مقرر ہی تلاوت قرآن کرے بلکہ یہ تو فقط ایک صورت تھی جو اس دور کے اعتبار سے اختیار کر لی گئی جسے ہم اپنے دور کے حساب سے تغیر و تبدل کر کے اختیار کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی مطالبہ دینی نہیں۔ الغرض، غامدی صاحب بھی یہی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ خلافت کا قیام کوئی دینی مطالبہ نہیں اور علما کی اکثریت اسے تسلیم کر لیتی ہے، تو اس مسئلے کی عمارت ہمیشہ کے لیے بنیاد سمیت منہدم ہو جائے گی۔ 
اوریا مقبول جان صاحب (11 مارچ 2015 4:00 am, ): (یہ سوالات اوریا صاحب نے اپنی فیس بک وال “Facebook Wall” پر درج فرمائے ہیں)
1۔ کیا آپ نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی ہے کہ :” اللہ تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ وعدہ کر چکا ہے جو ایمان لائے اور اعمال صالح کیے کہ ان کو خلافت سے نوازے گا” اللہ نے پالیمانی نظام اور صدارتی نظام کا وعدہ نہیں کیا بلکہ خلافت کا وعدہ کیا تو کیا قرآن کی اصطلاح شرعی اصطلاح نہیں؟
2۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میرے بعد خلفاء ہوں گے اور تم ان میں سے ہر پہلے آنے والے کی بیعت کرو” اور فرمایا : “جب دو خلفاء کی بیعت کی جائے تو دوسرے کو قتل کرو” یہ بھی فرمایا :” میرے سنت اور میرے خلفاء راشدینؓ کی سنت کو مضبوطی سے تھام لو” مزید فرمایا:”پھر نبوت کے طرز پر خلافت قائم ہو گی:یہ بھی فرمایا :” خلیفہ ہی ڈھال ہو تا ہے جس کی قیادت میں لڑا جا تا ہے اور جس کے ذریعے حفاظت ہو تی ہے” کیا یہ ساری اور دوسری بہت ساری احادیث شرعی اصطلاح نہیں ؟
3۔ کیا رسول اللہ ﷺ نے بعد ابوبکرؓ خلیفہ نہیں بنے ،پھر عمرؓ ،ان کے بعد عثمانؓ ،علی ،عمر بن عبد العزیز ،ہارون الرشید ،معتصم،سب خلفاء نہیں تھے ؟
4۔ کیا امام ابو حنیفہ،شافعی،مالک،احمد بن حبنل۔ماوردی ،شوکانی،سرخسی،ابن تیمیہ ، خطیب بغدادی،ابن خلدون،ابن العربی، الجزائری،قرطبی، بخاری،مسلم،مجدد الف ثانی،شاہ ولی اللہ وغیرہ سینکڑوں علماء نے خلافت کو فرض اور حکمران کے لیے خلیفہ کی اصطلاح استعمال نہیں کی ؟
 تبصرہ: ان سب اعتراضات کا جواب غامدی صاحب اپنے مقالے “خلافت” میں پہلے ہی دے چکے تھے۔ صاف لگتا ہے کہ محترم اوریا صاحب کی نظر سے وہ مقالہ نہیں گزرا ہو گا۔ یہ مقالہ وہ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ بلکہ اگر وہ اوپر کی گئی بحث پر ایک نظر ڈال لیں تو انہیں ان کے جوابات اسی صفحے پر بھی مل جائیں گے۔ اگر ان کے بعد وہ مزید سوالات اٹھانا چاہیں جو نئے یا مختلف زاویے کے حامل ہوں تو جوابات کے لیے ضرور مطلع فرمائیں۔
i۔ امام الجزيری، جو کہ چودھویں صدی ہجری کے معروف عالم ہیں اور ان کی رائے تقابلی فقہ میں مستند مانی جاتی ہے، نے نقل کیا ہے کہ چاروں امام (ابو حنیفہ، مالک، شافعي، احمد،رحمۃ اللہ عليھم) امامت (خلافت) کو ایک فرض سمجھتے تھے اور اس بات پر بھی متفق تھے کہ مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں کہ ایک وقت میں ان کے دو امام (خلیفہ) ہوں، خواہ متفقہ یا متفرقہ طور پر”۔ پھر غزالی، آمدی ، قرطبی، ابن تیمیہ اور حصکفي کے بقول خلافت صرف ایک فرض نہیں بلکہ اہم ترین فرائض میں سے ہے۔ یہ اسلام کا ستون ہے جسے چھوڑا نہیں جا سکتا کیونکہ اس کے بغیر اسلام جامع اور مکمل طور پر نافذ ہی نہیں ہو سکتا۔ لیکن کچھ “جدیدیت”اور “اصلاح”پسند اس نقطہ نظر سے اختلاف کرتے ہیں اور ڈاکٹر غامدی اسی سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے کہنے کے مطابق ایک ہزار سال کا علم و فضل اس موضوع (اور اس کے ساتھ دیگر کئی موضوعات) کو صحیح نہیں سمجھ سکا اور اب وہ لوگ ہی قرآن اور سنت کی صحیح تعبیر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
ii۔ کوئی بھی اصطلاح تین قسم کے معنوں میں سے ایک کی حامل ہو سکتی ہے: لغوی، اصطلاحی یا شرعی۔ شاید غامدی صاحب کا “دينی اصطلاح” کہنے کا مطلب تیسری قسم کے معنی سے ہے۔ شرعی معنی صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالٰی اور رسول اللہﷺ کی جانب سے ہوتے ہیں کیونکہ یہ معنی شریعت بتاتی ہے جس کی بنیاد وحی ہے۔ غامدی صاحب اس بات سے اتفاق کرتے ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ قرآن اور سنت میں لفظ خلافہ کو لغوی معنی یعنی “جاں نشین” کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ در حقیقت یہ لفظ کئی احادیث میں محض “جاں نشینی ” کے معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک مخصوص معنی میں استعمال ہوا ہے جو کہ ایک خاص قسم کی جاں نشینی ہے جس سے عرب کے لوگ اسلام سے قبل آشنا نہ تھے۔ مثال کے طور پر اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ خصوصاً ان لوگوں کا ذکر فرما رہے ہیں جو مسلمانوں پر حکمرانی میں خلفاء کی حیثیت سے ان کے جاں نشین ہوں گے۔ یہاں پر کسی عام جاں نشینی کا ذکر نہیں ہو رہا بلکہ ان جاں نشینوں کا ذکر ہو رہا ہے جو ایک خاص طریقے یعنی بیعت کے ذریعے حکمران بنیں گے اور جو ایک خاص طریقے سے حکمرانی کریں گے یعنی اسلام کے مکمل اور جامع نفاذ کے ذریعے۔
iii۔ اگر رسول اللہ ﷺ کو محض حکمرانوں کے متعلق ہی بات کرنا ہوتی تو وہ لفظ “حکام” ، جس کا واحد حاکم ہے، استعمال کرتے جو کہ عربی زبان میں حکمرانوں کے لئے سیدھا سادہ لفظ ہے۔
iv۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں پر حکمرانی کے حوالے سے آنے والے ادوار کے ذکر میں خاص لفظ “خلافہ” استعمال کیا جیسے کہ اسحدیث میں۔ یہاں پر یہ بات غور طلب ہے کہ تمام ادوار حکمرانی ہی کے ادوار ہیں چاہے وہ کسی ایک قسم کے ہوں یا دوسری قسم کے لیکن ان میں کچھ ادوار کو خصوصاً خلافہ کہا گیا۔ لہٰذ ا خلافہ محض کسی بھی قسم کی حکمرانی کی وضاحت کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کے ایک اپنے مخصوص نظام حکمرانی کی وضاحت کرتا ہے اور یہی وہ واحد طرز حکمرانی ہے جس کی اسلام نے اجازت دی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے صرف اس طرز حکمرانی کا بیان کیا۔ لہٰذا لفظ “خلافہ” اسلامی طرز حکمرانی کو بیان کرتا ہے جس کو یہ معنی شارع نے خود دیا ہے نا کہ کسی عالم یا فقيہ نے، تاہم یہ ایک شرعی یا اسلامی اصطلاح ہے۔
v۔ اگر پھر بھی غامدی صاحب کی دلائل کو قبول کر لیا جائے کہ خلافہ محض مسلمانوں کی ایجاد کردہ ایک “پوليٹيکل سائنس اور سوشيالوجی کی اصطلاح ہے جیسے فقہ، کلام اور حدیث”، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس اصطلاح کو اسلامی حکومت کے لئے کیوں نہیں قبول اور استعمال کر ليتے بالکل ویسے ہی جیسے آپ نے فقہ یا حدیث کی اصطلاح کو قبول بھی کیا اور اسے استعمال بھی کرتے ہیں؟ اس خلافہ کی اصطلاح کے لئے ایک دوسرا طرز عمل کیوں اختیار کیا جائے؟ اور اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ اس اصطلاح کو غیر دینی ثابت کیا جائے؟
vi۔ جہاں تک اس شرعی حکم کی بات ہے کہ صرف ایک ہی خلیفہ ہو سکتا ہے تو اس حوالے سے احادیث بالکل واضح ہیں۔ جیسے یہ اور یہ۔ غامدی صاحب ان احادیث کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ اتفاق یا وحدت برقرار رکھنے کا یہ حکم کسی ایک مسلم ریاست میں رہنے والے مسلمانوں سے متعلق ہے یعنی کہ مسلمانوں کی ایک سے زیادہ ریاستیں ہو سکتی ہیں اور لازماً پھر ایک سے زیادہ حکمران بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ یہ احادیث عام ہیں اور ان میں غامدی صاحب کی بیان کی گئی تشریح کی کوئی تخصیص بیان نہیں کی گئی ۔ اس کے علاوہ اُس وقت جب یہ احادیث بیان کی گئیں تو مسلمانوں کی ایک سے زیادہ ریاستیں موجود ہی نہ تھیں کہ غامدی صاحب کی بیان کی گئی تشریح ممکن بھی ہو سکے۔ رسول اللہ ﷺ صحابہ رضی اللہ عنھم کے ذریعے آنے والے تمام وقتوں کے مسلمانوں سے خطاب فرما رہے تھے۔
vii۔ اپنی تشریح کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ڈاکٹر غامدی اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایک قول میں تبدیلی تک کر دی۔ فرمایا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ، “ریاست کا صرف ایک ہی حکمران ہو سکتا ہے”، جبکہ انہوں نے جس روایت کو بیہقی کی سنن الکبری (نمبر16550) سے نقل کیا ہے اس میں “ریاست” کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہیں کہ، “اس بات کی اجازت نہیں کہ مسلمانوں کے دو حکمران ہوں”، اور بالکل یہی ہمارا موقف ہے۔ اصولِ فقہ میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ “لام الجنس” عمومیت کی علامت ہے، اسی لئے مسلمانوں سے مراد تمام مسلمان ہیں نا کہ چند مسلمان۔
viii۔ غامدی صاحب اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایک سے زیادہ حکمران بہت زیادہ نا اتفاقی اور تفرقے کا باعث ہوں گے۔ لیکن حیرت ہے کہ انہیں مسلمانوں کے پچاس سے زائد غیر مؤثر ممالک میں تقسیم ہونے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
 تبصرہجناب عمر علی صاحب اگرچہ کوئی معروف ہستی تو نہیں، لیکن چونکہ یہ مضمون انہوں نے حزب التحریر پاکستان کی ویب سائٹ پر شائع کیا ہے اس لیے اسے حزب التحریر کے نقطۂ نظر کی حیثیت سے میں نے یہاں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حزب، جیسا کہ قارئین جانتے ہی ہوں گے، “عالمگیر خلافت” کی علم بردار عالمی تحریک ہے۔ “خلافت” ان کا ماوٰی و ملجا ہے اور وہ اس کے قیام کے لیے پورے خلوص و جانفشانی سے بالفعل بر سر پیکار ہیں۔ اس لیے ان کا نقطۂ نظر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اس سے پہلے کہ میں ان سوالوں کے فرداً فرداً جواب تحریر کروں، دو ممتاز پہلو جو ایک طائرانہ نظر میں ہی لوگ دیکھ سکتے ہیں ان کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ ایک، محترم عمر صاحب نے خلافت کے “فرض” ہونے کا دعوٰی تو کیا ہے مگر اس کے لیے ایک دلیل بھی نہ قرآن سے دی ہے اور نہ ہی حدیث سے۔ اور دوم، خلافت کے “دینی اصطلاح” ہونے کی ساری بحث بھی انہوں نے احادیث تک ہی محدود رکھی ہے۔ اس ضمن میں پورے قرآن سے انہوں نے کوئی استشہاد نہیں کیا۔ آئیے، اب جوابات کی طرف چلتے ہیں۔
i۔ غامدی صاحب نے یہ جسارت بڑے سادہ عقلی اور دینی اصول پر کی ہے۔ اور وہ یہ کہ ہمارے اسلاف نے کبھی یہ دعوٰی تو کیا نہیں کہ ان پر وحی آتی ہے اس لیے احتمال خطا گستاخی اور گناہ ہے ۔ انہوں نے تو ہمیشہ دین کے ماخذوں، یعنی قرآن و سنت، ہی سے استنباط کا دعوٰی کیا ہے۔ اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ دونوں ماخذ آج بھی بے کم و کاست اپنی اصلی حالت میں ہمارے پاس بھی موجود ہیں۔ تو ہمارے رب ہی کے سکھائے ہوئے اصول “ھاتو برھانکم” کے مطابق کیا ہم اپنے اسلاف کے نمائندگان سے مطالبہ کر سکتے ہیں کہ اس کی دلیل کیا ہے؟ اور اگر کر سکتے ہیں، تو پھر ہمیں یقیناً یہ حق بھی پروردگار کی طرف سے حاصل ہے کہ ان کے دلائل پر جرح و نقد کر کے اگر اس میں کوئی غلطی ہو تو اسے واضح کر دیں ۔ چنانچہ، اب آگے بڑھنے کا علمی طریقہ فقط ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ جانبین کا استدلال سامنے آئے تا کہ سب مسلمان خود فیصلہ کر لیں کہ کس کی بات زیادہ مدلل ہے۔ حاملین استدلال کی کثرت اور ان کے اعداد و شمار علمی بحث میں کوئی وقعت نہیں رکھتے اور نہ ہی “اربابا من دون اللہ” کا مقام ہی انہیں دیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں میری مؤ‎دبانہ گزارش ہے کہ جن اسلاف کا ذکر فرمایا گیا ہے، انہی کے زندگی بھر کے طریقۂ استدلال پر اگر ایک نظر ڈال لی جائے تو یہ بحث “افراد کی کثرت” کی بجائے آپ سے آپ “دلائل کی موزونیت” تک محدود ہو جائے گی۔ اور جب ہو جائے گی تو پھر یہ دکھانا پڑے گا کہ جسے دینی فرائض میں سے اہم ترین فرض کہا جا رہا ہے اور دین کا ستون بتایا جا رہا ہے، اس کے لیے قرآن و حدیث میں اللہ اور رسول ﷺ کی تقریر کہاں ہے۔ دین کے باقی سب ستونوں کے لیے تو قرآن کے نا قابل تردید صریح نصوص موجود ہیں۔ تو یہ کیسا دین کا ستون ہے کہ جس کے ثبوت کے لیے پورے قرآن سے ایک بھی آیت فراہم نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی صاحب مضمون نے فراہم کی ہے۔ میں جناب عمر صاحب اور حزب التحریر کے لیے غامدی صاحب کے مطالبۂ ثبوت کو بالکل معین کیے دیتا ہوں۔ جیسے احمد دیدات صاحب نصاریٰ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ عیسیٰ کے خدا ہونے جیسے بڑے دعوے کے لیے ایک آیت موجودہ بائبل میں ایسی دکھا دیجیے جہاں عیسیٰ نے غیر مبہم الفاظ میں خود کہا ہو کہ “میں خدا ہوں” یا “میری عبادت کرو”۔ بالکل یہی مطالبہ غامدی صاحب کے دعوے کے ابطال کے لیے میں کر رہا ہوں۔ جو حضرات بھی “خلافت” کو دینی فرض اور ستون بتاتے ہیں، زیادہ نہیں بس ایک آیت قرآن یا قول رسول ﷺ ایسا بتا دیں جس میں اللہ تعالی یا اس کے رسول ﷺ نے غیر مبہم الفاظ میں یہ فرمایا ہو کہ “خلافت قائم کرنا فرض ہے” یا “خلافت قائم نہ کرنا گناہ کا باعث ہے”۔
ii۔ صاحب مضمون سے درخواست ہے کہ پہلے تو ایک تصحیح کر لیں۔ غامدی صاحب نے خلافہ کے بارے میں یہ کہا ہے کہ یہ قرآن و حدیث میں اپنے لغوی معانی میں سے ہی کسی ایک میں استعمال ہوا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ یہ ہمیشہ “جاں نشین” ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ صاحب مضمون نے غامدی صاحب کے اس مؤقف پر حیرت کا اظہار تو کیا ہے مگر مجھے بھی بصد احترام حیرت ہے کہ اس کی نفی کے لیے قرآن سے کوئی استدلال پیش نہیں کیا۔ جس حدیث کا حوالہ محترم عمر صاحب نے دیا ہے اس کی وضاحت غامدی صاحب پہلے ہی کر چکے ہیں۔ تاہم، اس سے جو نتائج صاحب مضمون نے برآمد کیے ہیں، ان پر کلام نہ کرنا دلیل کی بے توقیری شمار نہ ہو جائے اس لیے کچھ کلمات عرض ہیں۔ یہ نتیجہ کہ ” یہ ایک خاص قسم کی جاں نشینی ہے جس سے عرب کے لوگ اسلام سے قبل آشنا نہ تھے “، حدیث کے الفاظ سے تو کسی طرح برآمد نہیں ہوتا۔ روایت میں تو کوئی قرینہ ایسا موجود نہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہو کہ خلیفہ کا لفظ اہل عرب کے لیے کوئی اجنبی لفظ تھا، یا اس کا کوئی خاص استعمال نبی ﷺ فرما رہے تھے، وگرنہ صحابہؓ ضرور پوچھتے کہ “ما الخلافۃ” یا “من ھو الخلیفۃ”۔ سب قارئین خود دیکھ سکتے ہیں کہ صحابہؓ اس لفظ کو بغیر کسی حیرت و تردد کے فوراً قبول کر رہے ہیں۔ پھر بیعت سے کوئی خاص مذہبی مراد لے کے مبینہ “خلافت” کے مفہوم کی دلیل قرار دینا بھی کسی طرح صحیح نہیں۔ بیعت تو عربوں کے ہاں ایک جانا پہچانا تصور تھا۔ نہ یہ اسلام کی ایجاد تھا اور نہ ہی کسی خاص مفہوم خلافت کے لیے ہی لازم۔ نہ اس روایت اور نہ کسی اور روایت میں ہی اس سے کوئی خاص مراد لینا ممکن ہے۔ اور رہا آخری اور سب سے اہم نتیجہ کہ اس روایت میں “خلیفہ” سے مراد ” اسلام کے مکمل اور جامع نفاذ کے ذریعے ” حکمرانی کرنے والے حکمران ہیں، تو یہ بھی نہ ہی صراحتاً حدیث کی عبارت میں درج ہے اور نہ ہی کلام میں مقدر مانا جا سکتا ہے۔ بلکہ کلام کی رو سے تو صاف اشارہ لگتا ہے کہ اسی “خلیفہ” کے لفظ سے نبی ﷺ وہ سارے حکمران بھی مراد لے رہے ہیں جو ظالم و جابر ہوں گے۔ اسی لیے مسلمانوں کو ان کی اطاعت کا پابند یہ کہہ کر کیا جا رہا ہے کہ تمہیں ان کی اطاعت سے ہاتھ کھینچنے کا حق نہیں چاہے وہ ظلم ہی کیوں نہ کریں۔ اس کے لیے وہ اللہ کے ہاں ہی جوابدہ ہوں گے۔ “فَتَكْثُرُ ” کے لفظ سے بھی اسی طرف اشارہ لگتا ہے۔ تاہم، یہی بات جو یہاں اجمال میں کی گئی ہے اور روایات میں کھول کر بھی کر دی گئی ہے۔ محترم عمر صاحب سے التماس ہے صرف کچھ دیر کے لیے مروجہ تعبیر خلافت کا چشمہ اتاریے، اور خالی الذہن ہو کر اس حدیث کو سمجھنے کی ایک کوشش کریں۔ انشآء اللہ مفہوم با آسانی واضح ہو گا اور نبی ﷺ کے قول کی معقولیت بالکل سطح پر ہی پڑی نظر آ جائیگی۔
iii۔ حکام یا اس مفہوم کا کوئی اور لفظ نبی ﷺ تب استعمال فرماتے کہ اگر “خلیفہ” کے لفظ میں کوئی مسئلہ ہوتا۔ یہ بات کہ چونکہ مسلم امہ نے اسے بعد میں اپنی ایک اصطلاح بنا لیا جس سے اب لوگوں کو کوئی اشتباہ لاحق ہو گیا ہے، ماضی میں تو کسی اشتباہ کو لازم نہیں۔ یہ عربی زبان کا ایک معروف لفظ ہے اور قرآن میں بھی جا بجا استعمال ہوا ہے۔ اور ہمارے مفسرین کو اس کے معنی متعین کرنے میں کوئی دقت لاحق نہیں ہوئی۔ رہی یہ بات کہ حکام کا لفظ زیادہ سیدھا سادہ ہے، تو یہ بات بھی درست نہیں۔ جتنا سادہ “حاکم” کا لفظ آپ کو آج لگ رہا ہے، اتنا ہی سیدھا “خلیفہ” کا لفظ نبی ﷺ کے زمانے میں تھا۔ پورے قرآن میں ایک جگہ بھی حکمران کے لیے “حاکم” کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ زبان و بیان کے فن سے ادنی درجے میں بھی واقف شخص یہ جانتا ہے کہ تاریخ کی کروٹوں کے نتیجے میں بعض الفاظ کسی مفہوم کی ادائیگی کے لیے زیادہ موزوں ہو جاتے ہیں اور بعض پہلے سے موزوں الفاظ اپنا اثر محدود کر لیتے یا کھو دیتے ہیں۔ قرآن و حدیث کے الفاظ پر تدبر کے لیے آج کل کے استعمالات کا ادراک کا فی نہیں ہوتا۔ زبان کے قدیم استعمالات تک رسائی ہی قرآن و حدیث کے فہم میں فیصلہ کن ہوا کرتی ہے۔
iv۔اس حدیث پر بھی غامدی صاحب بحث کر چکے ہیں مگر کچھ کلمات عرض ہیں۔ پہلی دلیل کہ چونکہ دو علیحدہ الفاظ، “خلافۃ” اور “ملک”، مختلف ادوار کے لیے استعمال کیے گئے ہیں اس لیے خلافہ ” اسلام کے ایک اپنے مخصوص نظام حکمرانی کی وضاحت کرتا ہے ” ، ایک غلط استدلال ہے۔ اول تو اس لیے کہ خلافہ کا لفظ چونکہ لغوی اعتبار سے عام ہے جبکہ بادشاہت کا لفظ ایک خاص طرز جاں نشینی کے لیے آتا ہے اس لیے یہاں یہ گنجائش پوری طرح موجود ہے، بلکہ واضح ہے، کہ نبی ﷺ نے بادشاہت کے لفظ کو اسی خاص مفہوم ادا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے جو اس سے مراد ہوتا ہے۔ یہ تخصیص خلافت کے لفظ کے بجائے ملک کا لفظ بہتر طریقے سے ادا کر سکتا تھا اور اپنے اس مفہوم میں صریح بھی تھا اسی لیے یہاں لایا گیا ہے۔ اور دوم اس لیے کہ خلافہ کا لفظ تو یہاں پر اکیلے استعمال ہی نہیں کیا گیا ۔ “علی منہاج النبوۃ” کے الفاظ یہاں پر علیحدہ سے اسی لیے لائے گئے ہیں کیونکہ خلافہ کا لفظ اکیلا ان پر دلالت کرنے کے قابل ہی نہیں۔ دوسری دلیل کہ ” یہی وہ واحد طرز حکمرانی ہے جس کی اسلام نے اجازت دی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے صرف اس طرز حکمرانی کا بیان کیا”، بھی بصد احترام ایک بے آہنگ نتیجہ (non sequitur) ہے۔ اول تو اس لیے کہ یہ خبر ہے حکم نہیں۔ بیان واقعہ اور موعود سے مقصود کا استنباط کسی طرح درست نہیں۔ یہ ایک بالکل بدیہی بات ہے۔ اور دوم اس لیے کہ عبارت میں نہ نبی ﷺ خلافت کی اجازت یا حکم دے رہے ہیں اور نہ بادشاہت سے منع کر رہے ہیں۔ بلکہ صاف صریح الفاظ میں جس طرح پہلی طرز حکومت کے لیے یہ الفاظ استعمال فرما رہے ہیں کہ “یہ اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہیں گے اور پھر اٹھا لیں گے جب چاہیں گے” بالکل اسی طرح دوسری کے قیام اور بقا کی نسبت بھی اللہ ہی کی طرف انہی الفاظ میں کر رہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہاں نہ تو جائز و نا جائز کی بحث ہو رہی ہے اور نہ ہی مطلوب و مردود کی۔ اور رہی تیسری اور آخری دلیل کہ شارع نے خود “خلافہ” کو شرعی اصطلاح بنا دیا ہے۔ یہ بات شائید یہ سوچ کر کہی گئی ہے کہ اس میں ” علی منہاج النبوۃ ” ہمیشہ کے لیے داخل ہو گیا ہے، تو یہ بھی زبان و بیان کے کسی اصول کی رو سے درست نہیں۔ جس طرح “جبریۃ” یا “عاضا” کی صفت نے “ملکا” کی تخصیص ہمیشہ کے لیے نہیں کر دی اسی طرح ” علی منہاج النبوۃ ” نے بھی “خلافۃ” کی ابدی تخصیص نہیں کر دی۔ اور جس طرح “ملکا” کوئی دینی اصطلاح نہیں بن گئی اسی طرح “خلافۃ” بھی نہیں بن گئی۔
v۔ غامدی صاحب کو خلافہ کے مسلمانوں کے علم سیاست کی اصطلاح ہونے میں کوئی قباحت نہیں۔ یہ بات انہوں نے خود بھی اپنے مقالات میں کی ہے۔ اس لیے اگر حزب التحریر اور دوسری قسم کی جماعتیں اس لفظ کو مسلمانوں کے اختیار کردہ اسی خاص مفہوم میں استعمال کرنا چاہیں تو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ جب یہ جماعتیں عام مسلمانوں کو اپنے اختیار کردہ مفہوم خلافت کے لیے جدو جہد پر آمادہ کرتی ہیں تو وہ یہی مفہوم قرآن و حدیث میں اس کے سب استعمالات کو پہنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور یہ بتاتی ہیں کہ دیکھو تمہارے پروردگار اور رسول ﷺ نے اس کا تمہیں مکلف بنایا ہے۔ عام مخلص مسلمان یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ واقعی یہ لفظ بعد میں اختیار کردہ مفہوم میں ہی تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے بھی استعمال کیا ہو گا۔ تو یہ تو کوئی چھوٹی بات نہیں! کیا محترم عمر صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ بھلے کوئی دینی اصطلاح “دینی” نہ ہوا کرے، اسے دینی کہہ دینے میں کیا حرج ہے؟ اس میں حرج یہ ہے کہ یہ خود اللہ کے قول کے مطابق پانچ بڑے ترین جرائم میں سے ہے۔ اگر کسی ایسی بات کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کر دی جائے جو انہوں نے نہیں فرمائی تو اس کا ٹھکانہ تو جہنم ہو، مگر ایک دین کے مطلوب کی نسبت یہ جانتے ہوئے کہ وہ دین نہیں ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف کر دی جائے اور پھر کہا جائے کہ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے، اس کے جواب کے لیے میرے پاس مناسب الفاظ نہیں ہیں۔ اور پھر خلافت جیسی عظیم مبینہ دینی اصطلاح ۔۔۔۔۔ جس کے حصول کی خاطر حزب التحریر، طالبان، داعش اور اس طرح کی ان گنت تحریکیں ایک طرف تو مخلص مسلمانوں سے عظیم قربانیوں کا مطالبہ کر رہی ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں ہی کو اس مقصد کے حصول کی خاطر گزند پہنچانے اور تہ تیغ کرنے میں کوئی عار نہ سمجھ رہی ہیں۔۔۔۔۔کیا ایسی دینی اصطلاح کے بارے میں کسی اعتبار سے بھی دینی و لا دینی کی تفریق غیر مفید ہو سکتی ہے؟ پولیٹیکل سائنس اور سو شیالوجی کی اصطلاحات سے اس طرح کے خطرے لاحق کبھی نہیں ہوتے اس لیے ان کے بارے میں غامدی صاحب کو بھی کوئی خاص تردد نہیں۔ اور ایک ضمنی بات بھی اس بحث کا لازمی نتیجہ ہے۔ وہ یہ کہ اگر نہ “خلافت” کوئی دینی اصطلاح ہے اور نہ ہی فرض یا واجب درجے کا کوئی شرعی حکم، تو سب سے پہلے حزب التحریر اور اس طرح کی دوسری جماعتوں کے دفاتر ہی بند ہوں گے۔
vi۔ ان روایتوں میں سے دوسری پہلی کی بھی وضاحت کر رہی ہے اور اس میں محترم عمر صاحب کے اعتراض کا جواب بھی موجود ہے۔ دوسری روایت واضح الفاظ میں کہہ رہی ہے کہ جب مسلمان کسی ایک شخص کی حکومت پر پہلے سے قائم ہوں اور اس حال میں مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی غرض سے کوئی دوسرا حکومت کا دعوٰی لے کر اٹھ کھڑا ہو تو اسے باغی گردانا جائے اور قانون کے مطابق سزاءً قتل کر دیا جائے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ شرط لگانا کہ مسلمان پہلے سے ایک ہی شخص کی حکومت پر متحد ہوں اس احتمال کو پوری طرح قرین قیاس بنا دیتا ہے کہ اگر پہلے سے ہی مسلمان متعدد حکمرانوں کی حکومتوں پر مطمئن ہوں اور اپنی اپنی علیحدہ جغرافیائی حدود میں بغیر کسی نزاع کے رہ رہے ہوں، تو پھر اس کا اطلاق صرف انہی جغرافیائی حدود میں کیا جا سکتا ہے جہاں لوگ ایک ہی حکمران پر مطمئن اور متفق ہوں اور وہاں کوئی نیا حکمران اٹھ کھڑا ہو۔ ان روایتوں کا یہ مفہوم اتنا عام فہم ہے کہ اس دور کا ہر پڑھا لکھا انسان نہ صرف یہ کہ اس مفہوم کو خود اخذ کر سکتا ہے بلکہ ان کی معقولیت پر بھی پوری طرح اطمینان حاصل کر سکتا ہے۔ پھر یہ کہنا کہ چونکہ جب یہ بات کہی گئی تو متعدد ریاستیں موجود نہ تھیں اس لیے یہ حکم اس احتمال کی نفی کر دیتا ہے، کلام کے اصولوں کے بالکل خلاف ہے۔ کلام میں انہی حقیقتوں کی رعایت ملحوظ رکھی جا سکتی ہے جو متکلم کے گرد و پیش میں موجود ہوں اور وہ ان سے واقف ہو۔ ایسے نظریات ، ایجادات اور واقعات جو ابھی وجود پذیر ہی نہ ہوئے ہوں کلام کرتے وقت ان کے عدم احتمال کا فتوی سر تا سر خلاف عقل ہے۔ انسانوں کا کلام اسی طرز پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام سائنسی ایجادات پر شریعت کے ضوابط کا اطلاق کرنے کے لیے اجتہاد و قیاس کیا جاتا ہے درآنحالیکہ جب شریعت نے وہ حکم دیا ہوتا ہے تو یہ چیزیں وجود پذیر ہی نہیں ہوئی ہوتیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ پہلی صدی ہجری میں ہی جب دو اسلامی سلطنتیں وجود پذیر ہو گئیں تو اس وقت امت کے جلیل القدر فقہا نے ان روایات سے وہ ناقص استنباط نہیں کیا جو صاحب مضمون نے کیا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی باتیں ایسی نہیں ہوتیں کہ ان پر اندھے بہرے ہو کر گر جایا جائے اور حکم کی نوعیت سمجھنے کا تکلف نہ کیا جائے (وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآَيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا)۔ چنانچہ میں محترم عمر صاحب سے التماس کرتا ہوں کہ ان روایات کو سطحیت سے نہیں بلکہ تدبر سے دیکھا جائے۔
vii۔ غامدی صاحب نے ریاست کا لفظ تشریح میں ارشاد فرمایا ہے نہ کہ ترجمے میں۔ محترم عمر صاحب اس بات کا اقرار بھی کر رہے ہیں مگر یہ تاثر بھی دے رہے ہیں کہ اس طرح کی تبدیلی تشریحات میں بھی روا نہیں۔ غامدی صاحب نے مقالے کے جس حصے میں اس کا تذکرہ کیا ہے وہاں پورے سیاق سے ظاہر ہے کہ وہ ان تمام روایتوں کے مدعا کی وضاحت کر رہے ہیں جن سے عام طور پر اس طرح کے استدلال کیے گئے ہیں جس طرح کے جناب عمر صاحب نے یہاں بیان فرمائے ہیں۔ اب آئیے اس روایت کے مدعا کی طرف۔ غامدی صاحب نے جن دو روایات کا حوالہ دیا ہے وہ یہاں اوریہاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ جناب عمر صاحب نے دوسری تو بیان کی ہے مگر پہلی کو نہیں چھیڑا درآنکہ دونوں ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ پہلی روایت میں جب انصار کی جانب سے یہ خیال سامنے آیا کہ “منا رجل و منکم رجل” یعنی ایک حکمران انصار سے ہو جائے اور ایک حکمران مہاجرین سے تو اس پر حضرت عمر ؓ نے شدید اعتراض کیا اور کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اور اپنے اعتراض کے لیے کوئی شرعی وجہ نہیں بیان فرمائی بلکہ ایک مسلمہ علمی و عقلی استدلال پیش کیا کہ یہ تو ایک نیام میں دو تلواروں کے مترادف ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عمرؓ یہی کہنا چاہ رہے تھے کہ ایک ہی مقام پر اور ایک ہی رعایا پر دو حکمران کیسے بن سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس مفہوم کے لیے ہی موجودہ دور میں ریاست کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری روایت میں حضرت ابو بکرؓ نے بھی انصار کے اسی خیال کے پس منظر میں تقریر فرمائی۔ اور فرمایا کہ مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ ان کے دو حکمران ہو جائیں۔ اس پس منظر سے ظاہر ہے کہ وہ بھی اصلا اسی خیال کی تردید کر رہے تھے جس کی حضرت عمر ؓ نے تردید کی تھی۔ نہ حضرت عمرؓ اور نہ ہی حضرت ابو بکرؓ کے وہم و گمان میں بھی قومی ریاستوں کی نفی کرنا مقصود تھا۔ محترم عمر علی صاحب نے ابو بکرؓ کے “المسلمین” کے “ال” کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ یہاں تمام مسلمانوں کے لیے آیا ہے تو یہ بات تو بالکل درست ہے۔ مگر غالباً عمر صاحب اس “ال” سے دنیا میں موجود تمام مسلمان مراد یہ کہہ کر لینا چاہ رہے ہیں کہ جنس کے لیے جو “ال” آتا ہے اس کی تحدید نہیں کی جا سکتی۔ اس سے اس جنس کے سب افراد مراد ہونا لازم ہے۔ اصل میں یہ وہ اشکال ہے جو ہمارے مخلص مسلمانوں میں سے بہت سوں کو لاحق ہے۔ وہ جب بھی قرآن یا حدیث میں “ال” یا “کل” استعمال ہوتا پاتے ہیں تو یہ مقدمہ قائم کر لیتے ہیں کہ گرامر کی رو سے اب اس کی کوئی تحدید و تخصیص نا ممکن ہے۔ یہ عربی کلام، بلکہ کسی بھی زبان کے کلام، سے نا واقفیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ زبان و بیان کے اصولوں سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ کلام میں “سب” اور “تمام” کی طرح کے الفاظ آ جانے کے بعد بھی بہت سے ایسے عامل ان کی تحدید کر رہے ہوتے ہیں جو اگرچہ بالصراحت کلام میں موجود نہیں ہوتے مگر ان کا انکار نا ممکن ہوتا ہے۔ یہ عامل کبھی سیاق میں مضمر ہوتے ہیں، کبھی عقلی مسلمات میں، کبھی قائل کی عادت سے مترشح ہوتے ہیں اور کبھی مخاطبین کے فہم میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ قرآن میں متعدد مقامات پر نبی کریم ﷺ کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ ان کے ذریعے اپنے دین کو “سب” ادیان پر غالب کر دے گا۔ صحابہؓ اور مفسرین ان آیات میں “الدین کلہ” کے آ جانے کے باوجود اس وعدے کی تحدید جزیرہ نمائے عرب تک کرتے ہیں، درانحالیکہ یہ الفاظ کہیں موجود نہیں۔ اسی طرح نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ “جو کوئی بھی دین بدلے اسے قتل کر دو” مگر کوئی ذی عقل فقیہ بھی اس کا اطلاق مسلمانوں کے علاوہ کسی پر نہیں کرتا۔ اللہ “الارض” فرماتے ہیں مگر اس سے کئی مقامات پر “پوری زمین” تو کیا “پورا عرب” بھی مراد نہیں ہوتا۔ قرآن “الناس”، “المشرکین” اور “اہل الکتاب” استعمال کرتا ہے مگر اس سے قیامت تک آنے والے انسان، مشرکین اور اہل کتاب تو کیا عرب کے تمام باشندے، مشرکین یا اہل کتاب بھی مراد نہیں لیتا۔ ابو بکرؓ نے بھی “ال” استعمال کرتے ہوئے مخاطبین کے فہم کی رعایت ملحوظ رکھی ہے۔ یعنی مسلمان چونکہ ابھی تک سب ایک ہی ریاست کے باشندے ہیں اس لیے سب مسلمانوں کا ذکر کر دیا ہے۔ یقین جانیے، اگر حضرت ابو بکرؓ کو یہ بتا دیا جاتا کہ آپ کے اس “المسلمین” سے مستقبل میں آنے والے لوگ قومی ریاستوں کی نفی مراد لیں گے تو وہ شائید رو پڑتے۔ غامدی صاحب نے اگر اس مفہوم کی ادائیگی کے لیے ریاست کا لفظ استعمال کیا ہے تو یہ پوری طرح نہ صرف قابل فہم ہے بلکہ کلام میں مقدر کو کھولنے میں مدد گار بھی ہے۔
viii۔ یہ نکتہ چونکہ غامدی صاحب کے نظریے کی نفی یا اثبات دونوں ہی کے لیے مفید نہیں ہے اس لیے اس پر زیادہ کلام کی ضرورت نہیں ۔ بس اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ اگر ایک ہی ریاست کا ہونا تفرقے کے سد باب کو لازم ہوتا تو کم از کم ایک ہی ریاست میں بسنے والے باشندوں کے درمیان کوئی تفرقہ اور نزاع برپا نہ ہوتا، بلکہ مختلف ریاستیں ہی آپس میں دست و گریباں ہوتیں۔
اختتامیہ: آخر میں حزب التحریر اور اس طرح کی دوسری جماعتوں کے مخلص پیروکاروں سے ایک استدعا ہے۔ وہ یہ کہ انہیں چاہیے کہ اپنی جماعتوں کے عہدیداروں سے یہ سوال ضرور کریں کہ کیا مبینہ “خلافت” کے دین کا فرض اور ستون ہونے کے لیے ایک آیت بھی قرآن سے نہیں پیش کی جا سکتی؟ شہادت، نماز، روزہ، زکوۃ اور حج دین کے ستون ہیں۔ اگر ان کے بارے میں قرآن بالکل واضح ہے تو آخر اس ستون ہی کے ساتھ اللہ نے بے اعتنائی کیوں برتی؟ اور میں اوپر بحث میں بیان کیے گئے اپنے مطالبے کو ایک بار پھر دہرا دوں۔ خلافت اگر دینی مطالبہ، بلکہ فرض الہی اور ستون دین ہے، تو پورے قرآن اور ذخیرۂ حدیث سے زیادہ نہیں بس ایک آیت / حدیث ایسی دکھا دیں جس میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے (چلیں، آپ ہی کے مفہوم خلافت کو درست مانتے ہوئے) یہ کہا ہو کہ “خلافت قائم کرنا فرض ہے ” یا “خلافت قائم نہ کرنا گناہ ہے”۔ اگر یہ کوئی بے جا مطالبہ ہے، تو ضرور مطلع فرمائيں۔
  • کیا اسلام میں قومیت کی بنیاد اسلام ہے، اس لیے سب مسلمانوں کی ایک ہی ریاست ہونی چاہیے؟

ابتسام الہی ظہیر صاحب (26 جنوری 2015):غامدی صاحب کی جانب سے مسلمانوں کا ایک قوم بلکہ امت ہونے کی نفی کرنا درست نہیں۔ سورہ حجرات میں مسلمانوں کے گروہوں اور قبائل میں تقسیم ہونے کو جائز قرار دینے کی حیثیت صرف شناخت کی خاطر ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ قرآن میں جا بجا انہیں ایک امت اور ملت کی حیثیت سے ہی پکارا گیا ہے۔ اور سورہ انبیا کی آیت 92 میں تو واضح الفاظ میں تمام انبیا ؑکے مخاطبین کو ایک ہی امت کہا گیا ہے۔
پھر اقبال کے اشعار اور دو قومی نظریہ بھی سب مسلمانوں کے ایک قوم ہونے ہی کی تائید کرتے ہیں۔
جواب از غامدی صاحب: غامدی صاحب نے اس طرح کے اعتراضات کے جواب میں ایک مستقل مقالہ بعنوان “اسلام اور قومیت” 6 مارچ 2015 کو شائع کیا جس کا خلاصہ تاریخ اشاعت کی ترتیب سے آگے آ رہا ہے۔ اس کا لب لباب یہ ہے: میں نے کسی جگہ نہیں کہا کہ مسلمان ایک قوم نہیں ہیں یا نہیں ہو سکتے۔ میں نے جو کچھ عرض کیا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ اسلام کا تقاضا اور اُس کی شریعت کا کوئی حکم نہیں ہے کہ مسلمانوں کی قومیت اسلام ہے، اِس لیے تمام مسلمانوں کو ایک ہی قوم ہونا چاہیے۔ میرے ناقدین جس بات کی تردید کر رہے ہیں، وہ میں نے کہی نہیں اور جو کچھ کہا ہے، اُس کی تردید کے لیے قرآن و حدیث کے نصوص چاہییں اور وہ کسی طرح میسر نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ ایک خالص دینی حکم کو ثابت کرنے کے لیے قائد اعظم کی تقریروں اور علامہ اقبال کے اشعار اور تحریک پاکستان کے واقعات پر اکتفا کر لی گئی ہے۔
 تبصرہ: محترم ابتسام صاحب نے جن آیات کا حوالہ دیا ہے اور فرمایا ہے کہ مسلمان ایک امت و ملت ہیں، ان سے تو کوئی اختلاف نہیں کیا جا سکتا، اور نہ ہی غامدی صاحب نے کیا ہے۔ غامدی صاحب کا مقدمہ یہ تو نہیں تھا کہ مذہب قومیت کے عوامل میں سے ایک عامل نہیں۔ ان کا مقدمہ تو یہ ہے کہ مذہب قومیت کے بہت سے عوامل میں سے ایک عامل ہے۔ اسلام کو باقی عوامل، جیسے رنگ، نسل، زبان، جغرافیہ وغیرہ کی بنیاد پر علیحدہ قوم یا ریاست کے قیام پر کوئی اعتراض نہیں۔ ان آیات سے اگر غامدی صاحب کے مؤقف کی نفی ہوتی ہے، تو جناب ابتسام صاحب سے التماس ہے کہ غامدی صاحب کا جوابی مقالہ پڑھ کر ان آیات سے استشہاد کو واضح فرمائیں۔
مفتی تقی عثمانی صاحب (27 جنوری 2015): غامدی صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ”اسلام میں قومیت کی بنیاد اسلام نہیں ہے جس طرح کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے قرآن و حدیث میں کسی جگہ نہیں کہا گیا کہ مسلمان ایک قوم ہیں، یا انہیں ایک ہی قوم ہونا چاہیے۔” یہ وہی دو قومی نظریہ کا مسئلہ ہے جس کی بنیاد پر قائد اعظم نے پاکستان کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔ یہاں مودبانہ گزارش یہ ہے کہ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں پر لغت یا عرف عام کے مطابق لفظ ”قوم” کا اطلاق درست ہے یا نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ مستقل سیاسی اور اجتماعی وحدت کے لحاظ سے تمام مسلمانوں کو (چاہے وہ کسی رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہوں) غیر مسلموں سے الگ سمجھنا اور اس بنیاد پر ان کے لیے الگ خطہ زمین کا مطالبہ کرنا درست ہے یا نہیں؟ قائد اعظم نے پاکستان کا مطالبہ کرتے ہوئے جو دو قومی نظریہ پیش کیا تھا اور جس کی بنیاد پر آج ہم ایک الگ ملک کی حیثیت سے بیٹھے ہیں، اس کا مطلب یہی تھا، اس دو قومی نظریہ پر بھی یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ مسلمانوں کے لیے ”قوم” کا لفظ استعمال کرنا لغت اور عرف عام کے اعتبار سے درست نہیں ہے،، لیکن ان کا مقصد ”مستقل سیاسی وحدت ” تھا جس کی بنیاد پر اپنے اختیار سے کوئی حکومت قائم کی جائے۔ لغوی اعتبار سے تو تمام انبیاء علیہم السلام کی مخاطب ان کی قومیں ہی تھیں،، لیکن انہوں نے ان کی بنیاد پر کوئی مستقل سیاسی وحدت قائم نہیں کی، اگر کوئی ریاست قائم ہوئی تو وہ وطن اور رنگ و نسل کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسلام کی بنیاد پر ہوئی، جیسے حضرت موسیٰ، حضرت دائودو سلیمان علیہم السلام کی حکومتیں اورخود رسول کریم ﷺ کی مدنی حکومت، البتہ اس میں غیر مسلموں کو تمام شہری اور مذہبی حقوق برابر حاصل تھے۔
جواب از غامدی صاحب: غامدی صاحب نے اس طرح کے اعتراضات کا مفصل جواب ایک مستقل مقالہ بعنوان “اسلام اور قومیت” 6 مارچ 2015 میں شائع کیا، جس کا خلاصہ تاریخ اشاعت کی ترتیب سے آگے آ رہا ہے۔ اس کا لب لباب یہی ہے کہ انہوں نے نہ تو دو قومی نظریے کی مخالفت کی ہے اور نہ ہی قومیت کے لیے مذہب کے شامل عوامل ہونے کی۔
تبصرہ: تقی صاحب کے جو سوالات اوپر نقل ہوئے ہیں ان کا جواب تو اس مقالے میں آ گیا ہے۔ اب تو گیند قابل صد احترام تقی صاحب کے کورٹ میں ہے ۔ تاہم، میں اور میرے جیسے اور طالبعلم چاہیں گے کہ اگر کوئی جواب اب مفتی صاحب کی طرف سے سامنے آتا ہے تو اس نکتے کے ہدف کو سامنے رکھ کر آنا چاہیے۔ وہ یہ کہ کیا مسلمانوں کا مختلف قوموں اور ریاستوں میں تقسیم ہونا شریعت کی رو سے نا جائز ہے؟
غامدی صاحب ( خلاصۂ “اسلام اور قومیت”، 6 مارچ 2015):
رنگ، نسل، زبان، تہذیب و ثقافت اور وطن کی طرح مذہب بھی قومیت کی تشکیل کے عوامل میں سے ایک اہم عامل ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے اِسی بنا پر فرمایا تھا کہ یہاں کے مسلمان بین الاقوامی قانون کے تمام ضوابط کے لحاظ سے ایک الگ قوم ہیں۔ یہ سراسر حقیقت اور ایک امر واقعی کا بیان تھا جس سے کوئی شخص اختلاف نہیں کر سکتا۔ میں نے جو کچھ عرض کیا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ اسلام کا تقاضا اور اُس کی شریعت کا کوئی حکم نہیں ہے کہ مسلمانوں کی قومیت اسلام ہے، اِس لیے تمام مسلمانوں کو ایک ہی قوم ہونا چاہیے۔ میرے ناقدین جس بات کی تردید کر رہے ہیں، وہ میں نے کہی نہیں اور جو کچھ کہا ہے، اُس کی تردید کے لیے قرآن و حدیث کے نصوص چاہییں اور وہ کسی طرح میسر نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ ایک خالص دینی حکم کو ثابت کرنے کے لیے قائد اعظم کی تقریروں اور علامہ اقبال کے اشعار اور تحریک پاکستان کے واقعات پر اکتفا کر لی گئی ہے۔
برصغیر کے مسلمان ایک قوم ہیں، یہ ایک بدیہی حقیقت ہے۔ کوئی شخص اگر یہ کہے کہ مسلمانوں کی مسجد میں منار اور گنبد ہوتے ہیں تو اِس سے کون انکار کرے گا؟ یہ ایک امر واقعی کا بیان ہے، لیکن اگر وہ یہ کہے کہ یہ اسلام کا تقاضا اور اُس کی شریعت کا حکم ہے کہ مسجد میں منار اور گنبد ہونے چاہییں تو اسلام کے ہر عالم کا فرض ہے کہ وہ اِس کی تردید کرے۔
میں نے یہی فرض ادا کیا ہے اور اپنی قوم کے اُن نوجوانوں کے لیے اسلام کے صحیح فکر کی وضاحت کر دی ہے جنہیں یہ کہہ کر دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے اندر عرب، ایرانی اور پاکستانی یا افغانی قو میتوں کا وجود بالکل ناجائز ہے، مسلمانوں کی قومیت اسلام اور اُن کا نظام خلافت ہے جس میں دور حاضر کی قومی ریاستوں کے لیے کوئی گنجائش پیدا نہیں کی جا سکتی، لہٰذا خدا کی زمین کو اِن کے وجود سے پاک کر دینا چاہے۔ چنانچہ جو مسلمان وطنی قومیت کے تصور کو قبول کر کے امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس یا ہندوستان، بلکہ پاکستان میں بھی رہ رہے ہیں، وہ شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کر رہے۔ اسلام کے مآخذ اِس طرح کے کسی حکم سے یکسر خالی ہیں کہ اسلام میں قومیت کی بنیاد بھی اسلام ہی ہے۔
قائد اعظم کا مقدمہ یہ نہیں تھا کہ وطن کی بنیاد پر ہندوؤں کے ساتھ ایک قوم بن کر رہنے کو وہ اسلام اور اسلامی شریعت کی رو سے جائز نہیں سمجھتے، لہٰذا الگ ملک کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اُن کا مقدمہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت، معیشت، معاشرت اور مذہبی روایت کو ہندو اکثریت کے استبداد سے محفوظ رکھنے کے لیے وہ الگ ملک کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اُن کے اِس مطالبے کی بنیاد یہ ہے کہ مسلمان بین الاقوامی قانون کے تمام ضوابط کے لحاظ سے ایک قوم ہیں اور ہر قوم کا یہ حق ہے کہ اپنی اکثریت کے علاقوں میں وہ اپنے لیے الگ ملک کا مطالبہ کرے۔
1۔ مغرب کے تمام علوم اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا میں سب سے طاقتور چیز ثقافت یا طرز معاشرت ہے۔ آدمی صد یاں لگا دیتا ہے لیکن اپنی ثقافت کو نہیں بھولتا، اس ثقافت میں سب سے اہم چیز مادری زبان ہوتی ہے۔ خلفائے راشدین کے زیر تحت جن علاقوں کو فتح کیا گیا وہ سب ایک ہی اسلامی ثقافت میں ڈھل گئے۔ جدید ذرائع ابلاغ بھی ایجاد نہ ہوئے تھے اور مسلم حکمرانوں نے کوئی جبر بھی نہ کیا تھا۔ لیکن غامدی صاحب نے کبھی غور کیا ہے کہ یہ سب کے سب ملک آج عرب ورلڈ کا حصہ ہیں۔ ان کو یاد تک نہیں کہ ان کے آباؤ اجداد کی مادری زبانیں کونسی تھیں۔ یہ ان لوگوں کا کمال تھا جو خالصتاً سید الانبیاء ﷺ کی تربیت سے بہرہ مند ہوئے تھے۔
2۔ قومیں جغرافیے کی لکیریں کھینچنے سے صرف آج کے دور میں بنا کرتی ہیں جنھیں قومی افواج سرحد کی حفاظت کا تصور دے کر ایسے قائم رکھتی ہیں جیسے چڑیا گھر میں جانور۔ اگر یہ قومیں اتنی ہی موثر ہوتیں تو قومی افواج کا تصور نہ ہوتا بارڈر پر پہرے داران ان قومیتوں کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہ وہ اسلامی اخوت ہے جو قوموں کے نسلی، علاقائی اور زبانی امتیازات تک ختم کر دیتی ہے۔ اسی اخوت کی کوکھ سے مسلمانوں کی مرکزیت یعنی خلافت نے جنم لیا۔ حیرت کی بات ہے کہ دین کی تشریح سیدنا ابوبکرؓ سے لے کر حضرت علیؓ تک کے خلفائے راشدین کو معلوم نہ تھی اور میرے جبراً استاد (یعنی غامدی صاحب) کو اب سمجھ آئی کہ خلافت کی مرکزیت دین کا منشاء نہیں ہے۔
3۔ رسول اکرمﷺ کی دو احادیث پوری دنیا کو دو اقوام میں تقسیم کرتی ہیں۔ ایک ”الکفر ملۃ واحدہ” پورا کفر ایک قوم ہے اور دوسرا آپؐ نے مسلمانوں کے بارے میں ایک لفظ استعمال کیا ”جسد واحد” یعنی ایک جسم۔ ایک جسم میں تمام نظام مربوط ہوتے ہیں، ایک اعصابی نظام، ایک انہضام، ایک دل، ایک دماغ۔ اس جسد واحد یا ایک جسم کے دو دماغ نہیں ہو سکتے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب دو خلیفوں میں بیعت ہو جائے تو دوسرے والے کو قتل کر دو۔
4۔ اسی تصور کی نفی کرنے اور اسی جسد واحد کو توڑنے کے لیے ہی تو قومی ریاستیں وجود میں لائی گئیں تھیں۔ لیکن مسلمان دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو ان ریاستوں کی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کے لیے نکلتی ہے۔ اسی تصور جہاد کو ختم کرنے کے لیے ہی تو امت کے تصور کی نفی کی جاتی ہے۔ کیا میرے موصوف استاد نے سورہ نساء کی 75 آیت نہیں پڑھی۔ کیا یہ آیت کافی نہیں کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کی حالت زار اور مسلم امہ کی ذمے داری بیان کرنے کے لیے۔ یہاں مسلم اخوۃ بھی شاید نہ روک سکے لیکن جدید قومی ریاست ضرور آڑے آئے گی۔ اسی لیے یہ تصور مغرب کو بھی بہت پیارا ہے اور میرے استاد کو بھی۔
 تبصرہ: اگرچہ یہ مقالہ چھپا تو 6 مارچ کے اس موضوع پر غامدی صاحب کے توضیحی مقالے کے بعد ہے، مگر اعتراضات کی نوعیت سے صاف واضح ہے کہ جناب اوریا صاحب نے یا تو یہ مقالہ کہیں پہلے ہی لکھ رکھا تھا یا پھر غامدی صاحب کا جوابی مقالہ ان کی نظر سے گزرا نہیں۔ تاہم، ان تمام اعتراضات کا جواب چونکہ توضیحی مقالے میں آ چکا ہے، اس لیے ان کے یہاں جوابات کی چنداں حاجت تو نہیں، مگر پھر بھی کچھ کلمات ہر اعتراض پر میری جانب سے عرض ہیں تا کہ قارئین کو جوابات کی دریافت میں مدد مل سکے۔
1۔ ان تمام تاریخی واقعات و حقائق سے کوئی اختلاف تو غامدی صاحب نے کیا نہیں۔ تاہم یہ بالکل واضح ہے کہ ان سے اتفاق و اختلاف کی صورت میں غامدی صاحب کے مؤقف پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس کو مثال سے سمجھیے۔ قرآن اور نبی اکرم ﷺ کی زبان عربی تھی اور نبی ﷺ کے بعد کے خلفا اور ملوک کی بھی۔ خود اوریا صاحب کے مطابق مفتوحہ علاقے کے لوگوں نے اپنی مادری زبانوں کو بھلا کہ عربی اختیار کر لی۔ یہ تاریخ سے ثابت ہے بلکہ موضوع قرآن بھی ہے۔ مگر کیا ان تاریخی حقائق سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اسلام میں سب مسلمانوں کی ایک ہی زبان ہونی چاہیے جو کہ عربی ہو۔ اردو، فارسی، ہندی، انگریزی وغیرہ کے لیے ہمارے مذہب میں کوئی جگہ نہیں؟ اس لیے ہر محقق پر لازم ہے کہ امور واقعیہ میں اور شریعت کے مطالبات میں فرق روا رکھے۔
2۔ اس نکتے میں بھی محترم اوریا صاحب سے اسی قسم کا افراط ہوا ہے۔ مسلمانوں کی ایک حکومت و خلافت نہیں ہو سکتی یہ غامدی صاحب نے کب فرمایا ہے۔ جو دلیل اوریا صاحب نے دی ہے کہ مسلمانوں کی چونکہ ایک ہی حکومت و خلافت ہوا کرتی تھی اس لیے یہ شریعت کا مطالبہ تھا، تو جیسا کہ پچھلے نکتے میں بیان ہوا، یہ فقط امر واقعیہ ہے جو اس دور کی سیاسی و تمدنی صورتحال میں بالکل فطری طریقے پر ہوا۔ اسے شریعت کا مطالبہ نہیں کہا جا سکتا۔ چنانچہ اگر خلفا نے اپنے دور کے مطابق ایک ہی سلطنت کو قائم کیا تو یہ بھی درست تھا، کچھ ہی عرصے بعد اگر مسلمان دو ریاستوں میں بٹ گئے تو اس پر بھی کوئی شرعی اعتراض اس دور کے جلیل القدر فقہا نے اسی لیے نہیں کیا، اور اگر ہمارے دور میں قومی ریاستیں وجود پزیر ہو گئی ہیں تو اس پر بھی عدم جواز کا کوئی حکم شریعت نے صادر نہیں کیا۔
3۔ محترم اوریا صاحب نے دو روایات کو متفرق قومیتوں کی نفی کے لیے بنائے استدلال بنایا ہے۔ پہلی روایت کا حوالہ تو انہوں نے نہیں دیا مگر مفہوم عرض کیا ہے کہ مسلمان “جسد واحد” ہیں۔ اس مضمون کی مختلف روایات یہاں، یہاں اور یہاں دیکھیے۔ ان روایات کے متن و مفہوم پر ایک نظر ڈالنے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی ایک دوسرے کے لیے، “
تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ”، محبت و ہمدردی کے احساسات کی تمثیل ہیں۔ اس “جسد واحد” کی تمثیل کو نبی اکرم ﷺ کے اپنے بیان کردہ مقصد سے بڑھا کر ایک نئے مفہوم کے لیے استعمال کرنا درایت، بلکہ زبان ہی کے اصولوں کے خلاف ہے۔ عام قارئین اس کو یوں سمجھیں کہ قرآن میں تورات کے حاملین جو علم کے حامل ہونے کے باوجود دین پر عمل پیرا نہیں ہو رہے تھے، ان کو اس گدھے سے تشبیہہ دی گئی ہے جس پر بہت ساری کتابیں لاد دی گئی ہوں۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ چونکہ گدھے کی آواز بڑی بری ہوتی ہے اس لیے ان تورات کے حاملین کی آواز بھی یقیناً بری ہی ہو گی یا ہونی چاہیے، تو اس استدلال کو زبان و بیان کے اصولوں سے واقف ہر شخص غلط ہی کہے گا۔ کیونکہ تشبیہہ جس مناسبت و مماثلت کی بنیاد پر دی جاتی ہے اسی تک محدود ہوتی ہے۔ رہی دوسری روایت تو اس کا صحیح مدعا و مفہوم غامدی صاحب اپنے مقالے “خلافت” میں بیان کر چکے ہیں اور اس کا حوالہ بھی اوپر گزر چکا ہے۔
4۔ جناب اوریا صاحب سے مؤدبانہ التماس ہے کہ غامدی صاحب نے اپنے ابتدائی مقالے میں ہی مسلمان حکمرانوں کے ان ذمہ داریوں کے مکلف ہونے کا نہ صرف ذکر کیا تھا بلکہ اپنی مرتب فہرست میں باقاعدہ اس کو درج بھی کر دیا تھا۔ اس کے بعد تو یہ اعتراض بالکل بے بنیاد ہے۔
  • کیا تکفیر کا حق اللہ اور اس کے رسولوں کے علاوہ کسی کو ہے؟

ابتسام الہی ظہیر صاحب (26 جنوری 2015): علمائے امت غلط عقائد کی بنیاد پر بھی کسی گروہ کو غیر مسلم قرار نہیں دے سکتے، غامدی صاحب کا یہ نظریہ بھی ہر اعتبار سے مذموم ہے۔ اگر اس استدلال کو درست مان لیا جائے تو عقیدۂ ختم نبوت کے منکرین بھی دامن اسلام میں پناہ لینے کے قابل ہو جائیں گے۔ مرزائی (قادیانی) اجماع کے نتیجے میں کافر قرار دیے گئے ہیں۔ اور نبی ﷺ کے قول کے مطابق امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ اجماع سے انحراف کی کوئی گنجائش نہیں۔ پھر سورہ نساء کی آیت 115 کے تحت اہل ایمان اور مومنوں کے راستے سے انحراف بھی جہنم میں لے کے جانے والا ہے اس لیے بھی تمام مکاتب فکر کے جید اور نامور علماء کے اجماع سے انحراف ممکن نہیں۔ غامدی صاحب چونکہ آئین، قانون اور پارلیمان کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں اس لیے کم از کم منکرین ختم نبوت کے بارے میں پارلیمان کے فیصلے کو قبول فرمائیں۔
 تبصرہ: محترم ابتسام صاحب کے اعتراضات سے یہ بالکل واضح ہے کہ انہوں نے غامدی صاحب کے اصل دعوے اور دلیل کے خلاف کوئی دلیل نہیں دی۔ بلکہ اس دعوے کے ایک نتیجے تک پوری بحث محدود کر دی ہے۔ اور اس نتیجے کا بھی قرآن و سنت کے نہیں بلکہ “اجماع” کے خلاف ہونا بنائے استدلال بنایا ہے۔ بہت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ غامدی صاحب کا استدلال یہ ہے کہ کسی شخص کی تکفیر کا حق اللہ کے پاس ہے اور یہ حق اس نے کسی کو بھی نہیں دیا۔ اس کا جواب ظاہر ہے یہی ہو سکتا تھا کہ یہ حق اللہ نے علمائے امت کو بھی دیا ہے اور قرآن یا سنت سے یوں ثابت ہے۔ اس لیے گزارش ہے کہ غامدی صاحب کے اصل دعوے پر بحث فرما کر مسئلہ کو واضح فرمائیے۔
جہاں تک اجماع کی بات ہے، تو اس موضوع پر غامدی صاحب ایک مستقل مضمون لکھ چکے ہیں جو یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اجماع شریعت کے مستقل مصادر میں سے کوئی مصدر نہیں۔ اس کے لیے جو استشہاد سورہ نساء کی آیت 115 اور ایک روایت سے کیا گیا ہے وہ بالکل بے بنیاد ہے۔ ابتسام صاحب چاہیں تو اس کو موضوع بحث بنا سکتے ہیں۔ مگر میرا سوال یہ ہے کہ اجماع میں پناہ لیے بغیر ہمارے علما کے لیے یہ مسئلہ کیا نا قابل دفاع ہے؟
رہی یہ بات کہ غامدی صاحب کو پارلیمان کا فیصلہ تسلیم کر لینا چاہیے تو اس طرح کے اعتراضات اکثر ناقدین نے پارلیمان کے متعلق غامدی صاحب کے مؤقف کو غلط سمجھنے کے نتیجے میں اٹھائے تھے جن کا جواب غامدی صاحب “پارلیمنٹ کی بالادستی” کے عنوان سے 9 مارچ 2015 کو شائع کر چکے ہیں۔
  • کیا ریاست شرک، کفر اور ارتداد کی سزا دے سکتی ہے؟

غامدی صاحب کے نظریے کے اس نکتے پر ابھی تک علما کی جانب سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔ جیسے ہی کوئی جواب آئے گا یہاں شامل کر لیا جائے گا۔
  • جہاد کس مقصد کی خاطر جائز ہے، اور ریاست میں جہادی اقدام کا حق کس کے پاس ہے؟

غامدی صاحب کے نظریے کے اس نکتے پر ابھی تک علما کی جانب سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔ جیسے ہی کوئی جواب آئے گا یہاں شامل کر لیا جائے گا۔
  • اگر جہاد میں صرف مقاتلین کو مارا جا سکتا ہے، تو مقاتلین کی تعریف کیا ہے؟

غامدی صاحب کے نظریے کے اس نکتے پر ابھی تک علما کی جانب سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔ جیسے ہی کوئی جواب آئے گا یہاں شامل کر لیا جائے گا۔
اسلام کا نظام حکومت کیا ہے اور اس میں بالا دست ادارہ کونسا ہے؟
انصار عباسی صاحب، خلاصۂ “پارلیمنٹ کے فیصلوں سے انکار کیوں” (26 جنوری 2015):اگر یہ سچ ہے تو غامدی صاحب سے میرا سوال ہے کہ وہ اپنے اسی مضمون کو پڑھ لیں اور اس بات کا جواب دیں کہ وہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے فیصلوں کو ماننے سے کیوں انکاری ہیں۔
جواب از غامدی صاحب: غامدی صاحب نے اس طرح کے سوالوں کے جواب میں ایک جوابی مقالہ بعنوان “پارلیمنٹ کی بالادستی” مورخہ 9 مارچ 2015 کو شائع کیا جس کا خلاصہ تاریخ اشاعت کی ترتیب سے آگے آ رہا ہے۔ اس کا لب لباب یہی تھا کہ پارلیمنٹ کے فیصلوں پر تنقید اور انہیں جمہوری طریقوں سے بدلنے کی کوشش ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور فقط اسی حق کا استعمال انہوں نے بھی کیا ہے۔ سر تسلیم خم کرنے سے مراد ہے کہ اس کی تنفیذ میں رکاوٹ یا حکم عدولی نہ کی جائے، جو کہ میں نے کبھی نہیں کی۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ پارلیمنٹ کے فیصلوں کو اکثریت کی بنیاد پر لازما صحیح بھی مان لیا جائے۔

مفتی تقی عثمانی صاحب (
27 جنوری 2015)
:غامدی صاحب فرماتے ہیں ”حکومت ان کی (عوام کی) رضا مندی کے بغیر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس ان پر عائد نہیں کرسکے گی، ان کے شخصی معاملات، یعنی نکاح، طلاق، تقسیم وراثت، لین دین اور اس نوعیت کے دوسرے امور اگر ان میں کوئی نزاع ہو تو اس کا فیصلہ اسلامی شریعت کے مطابق ہوگا۔”یہاں پھر کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔
1۔ ایک یہ کہ جب ریاست کا کوئی مذہب نہیں اور اس پر قرآن و سنت یا شریعت کے مطابق قانون سازی کی کوئی پابندی نہیں، تو عدلیہ پر ان احکام میں شریعت ہی کے مطابق فیصلے کرنے کی پابندی کس بنیاد پر ہوگی؟ اگر ان معاملات میں پالیمان شریعت کے بجائے کسی اور قانون کی پابندی کا حکم دے تو اس کے سامنے نکتہ نمبر8کے تحت سر تسلیم کیوں خم نہ کیا جائے؟
2۔ دوسرا سوال یہ ہے یہ جو فرمایا گیا ہے کہ ”ان کی رضامندی کے بغیر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس عائد نہیں کرے گی” ظاہر ہے کہ اس میں عوام کی رضا مندی سے مراد پارلیمان کی مرضی ہے، لہٰذا مذکورہ جملے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ کوئی اور ٹیکس عائد کرنے کے لیے تو پارلیمان کی منظوری درکار ہے،، لیکن زکوٰۃ حکومتی سطح پر عائد کرنے کے لیے پارلیمان کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے، اگر یہی مقصود ہے، تو حکومت پارلیمان کے کسی قانون کے بغیر زکوٰۃ کس بنیاد پر وصول کرے گی اور اس کی اس اتھارٹی کا سرچشمہ کیا ہوگا۔ اگر وہ سرچشمہ قرآن کریم ہے تو کہنا ہوگا کہ قرآن کریم پارلیمان پر بالا دستی رکھتا ہے۔ پھر ریاست کا کوئی مذہب نہ ہونے کا اصول کہاں گیا؟
غامدی صاحب نے پھر یہ بھی فرمایا ہے کہ ”ریاست کا کوئی مسلمان شہری اگر زنا، چوری، قتل، فساد فی الارض اور قذف کا ارتکاب کرے گا اور عدالت مطمئن ہو جائے گی کہ اپنے ذاتی، خاندانی، اور معاشرتی حالات کے لحاظ سے وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں، تو اس پر وہ سزائیں نافذ کی جائیں گی جو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی دعوت کو پورے شعور اور شرح صدر کے ساتھ قبول کر لینے کے بعد ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے اپنی کتاب میں مقرر کر دی ہیں۔ یہاں دو سوال پھر پیدا ہوتے ہیں۔
3۔ ایک یہ کہ کیا ایسی صورت میں پارلیمان اور حکومت پر لازم ہے کہ وہ ایسے مسلمانوں پر یہ قرآنی سزائیں جاری کرے؟ اگر قرآن کریم کے حکم کے تحت لازم ہے تو جب پارلیمان پر قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کی کوئی پابندی نہیں ہے، تو اس پر یہ پابندی کیسے لازم ہوگی کہ وہ قرآنی سزائیں ہی جاری کرے اور ان معاملات میں اپنی طرف سے کوئی اور سزا تجویز نہ کرے، یا ان میں سے کسی جرم (مثلاً زنا بالرضا) کو جائز قرار نہ دے؟
4۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ سزائیں قرآن کریم ہی کی بنیاد پر دی جائیں گی تو کیا قرآن کریم میں کوئی ایسی تفریق ہے کہ یہ سزائیں صرف ان مسلمانوں کے لیے ہیں جو شعور کے ساتھ اسلام کی دعوت کو قبول کریں، اور غیر مسلم چوروں، قاتلوں اور فساد فی الارض پھیلانے والوں کو ان سے مستثنیٰ رکھا جائے، جیسا کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ یہ سزائیں صرف مسلمانوں ہی کے لیے ہوں گی؟
 تبصرہ: یہ سب سوالات و اعتراضات دراصل غامدی صاحب کے مؤقف کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں ہی پیدا ہوئے ہیں۔ ویسے تو میرا گمان ہے کہ غامدی صاحب کے مقالے “اسلام اور ریاست” (جس کا حوالہ اوپر گزر چکا ہے) کے بعد ان سوالات کے جوابات اصولاً آ چکے ہیں، تاہم تقی صاحب اور قارئین کے لیے انہیں بالصراحت یہاں بیان بھی میں کر رہا ہوں۔
1۔ پارلیمان پر قرآن و سنت کے تحت فیصلے کرنے کی “اخلاقی” پابندی ہو گی۔ یہ اسی طرح کی “اخلاقی” پابندی ہے جس طرح کی ہم میں سے ہر انسان پر ہے۔ اس پابندی کا جتنا حصہ پارلیمان چاہے گی اپنے اجرا سے باقی سب اداروں کے لیے “قانونی” طور پر معین کر دے گی۔ علما کی یہ ذمہ داری ہو گی کہ دین کے اجتماعی احکامات پارلیمان پر واضح کریں اور ممبران پر یہ دینی فریضہ ہو گا کہ ان احکامات کی پابندی کريں۔ اگر کسی دینی حکم کے بارے میں ایک سے زیادہ علمی و فقہی تصورات سامنے آئیں تو پارلیمان کے ممبران کی اکثریت کی رائے کے اعتبار سے اس کی کوئی سی بھی صورت وہ اختیار کر سکیں گے ۔ غامدی صاحب نے بھی اسی مقصد کے لیے دین کے تمام اجتماعی احکامات کی فہرست بنا کر دے دی ہے تا کہ اس سے حکمرانوں کی تعلیم ہو سکے۔ تاہم، انہوں نے خود فرمایا ہے کہ علما چاہیں تو دلائل کی بنیاد پر اس فہرست میں کمی و اضافہ کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔ اگر اس اصول کو مان لیا جاتا ہے تو عدلیہ پارلیمان کے فیصلوں کے نتیجے میں شریعت کے ان احکامات کی پابند ٹھہرے گی۔ تاہم، اگر پارلیمان سب کچھ جانتے بوجتے شریعت کے خلاف قانون سازی کرتی ہے تو وہ یقیناً نافذ ہو جائیں گے، مگر ان سے اختلاف اور اس کو بدلنے کی جمہوری کوشش کا حق ہر عالم اور مومن کو حاصل ہو گا۔ اور اگر حکومت مسلمان ہونے کے باوجود “کھلے کفر” کی مرتکب ٹھہرے گی، تو عوام کا یہ حق “بغاوت” پر بھی منتج ہو سکتا ہے مگر اس کے لیے غامدی صاحب چار علمی و عقلی شرائط کے قائل ہیں جو انہوں نے اپنے مضمون “اسلامی انقلاب” میں تفصیل سے بیان کر دیے ہیں۔
2۔ محترم تقی صاحب نے غامدی صاحب کے جملے کی تشریح بصد احترام صحیح نہیں فرمائی۔ ” ظاہر ہے کہ اس میں عوام کی رضا مندی سے مراد پارلیمان کی مرضی ہے “، غامدی صاحب کے مؤقف کی غلط تاویل ہے اور اسی کے نتیجے میں اس اشکال نے جنم لیا ہے۔ پارلیمان اور عوام دو مختلف “اکائیاں” ہیں۔ غامدی صاحب کا کہنا یہ ہے کہ زکوٰۃ کی شرح کے تعین اور وصولی کے لیے پارلیمان عوام کی رضامندی کی محتاج نہیں ہے۔ مگر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس عوام سے ان کی رضامندی کے بغیر وصول نہیں کیا جا سکے گا۔ چنانچہ، زکوٰۃ کی وصولی کے لیے بھی پارلیمان ہی اختیار کا سر چشمہ ہو گی۔ زکوٰۃ اور باقی ہر قسم کے ٹیکس میں یہ فرق ہے جو غامدی صاحب واضح کر رہے ہیں۔ با ایں ہمہ، حکومت کو یہ حق اللہ نے دیا ہے کہ اگر لوگ زکوٰۃ دینے پر عدم رضامندی کا اظہار کريں تو ان سے وصولی کے لیے طاقت کا استعمال کیا جائے ۔ جبکہ یہی معاملہ اگر کسی اور ٹیکس کے معاملے میں پیش آئے اور عوام کی اکثریت اس پر عدم رضامندی کا اظہار کر دیں تو حکومت کو طاقت کے استعمال کا کوئی اختیار نہیں ہو گا، بلکہ ایسے ٹیکس کو منسوخ کر دینا حکومت کے لیے ضروری ہو گا۔
3۔ پارلیمان پر یہ دینی و اخلاقی پابندی ہے کہ وہ قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کرے۔ پارلیمان کے ممبران کے رب نے ان کو اس بات کا مکلف ٹھہرایا ہے اور تاکید کی ہے کہ اس کے بر خلاف طرز عمل پر اللہ کے ہاں وہ کافر، ظالم اور فاسق قرار پائیں گے۔ مگر جو بات تقی صاحب پر غالباً واضح نہیں ہو پا رہی وہ یہ ہے کہ یہ پابندی پارلیمان کی حد تک آئینی اور قانونی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اگر پارلیمان بالادست ادارہ ہو گا تو ظاہر ہے اس کے اوپر کوئی ادارہ نہیں جو اسے اس بات کا بالفعل پابند بنا سکے۔ ہمارے روایتی مذہبی فکر میں غالباً اسی لیے عدلیہ کو بالادست ادارہ تصور کر لیا گیا ہے۔ مگر یہ بھی اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ اس صورت میں پھر عدلیہ کے اوپر کوئی ادارہ نہیں جو اس پر کوئی قانونی پابندی لگا سکے۔ اصل میں بحث کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ جو ادارہ بھی بالادست ہو گا اس پر تمام پابندیاں “دینی و اخلاقی” سے بڑھ کر “قانونی” ہونا محال ہے۔ چنانچہ جو بالادست ادارہ ہو گا وہ اگر قرآن و سنت سے انحراف کر کے کوئی اور سزا تجویز کر دے گا تو وہ لازماً نافذ ہو جائے گی۔
4۔ یہ ایک بالکل جائز سوال ہے مگر اس کی حیثیت اس بحث میں ثانوی ہے۔ غامدی صاحب چونکہ اس اصول کے قائل ہیں کہ اللہ نے اپنے احکامات انہی لوگوں کے لیے تو دیے ہیں جو اس پر ایمان لائیں، یعنی ایمان احکامات پر مقدم ہے، اس لیے غیر مسلم انکے مخاطب نہیں۔ خود ہمارے جلیل القدر اسلاف اور فقہا بھی بہت سی اسلامی سزاؤں کے بارے میں اسی طرح کے خیالات رکھتے ہیں۔ غامدی صاحب کے تفصیلی مؤقف کے لیے ان کی کتاب “میزان” دیکھی جا سکتی ہے۔ تاہم، اگر اس بات کو موضوع بحث بنانا ہو تو ایک علیحدہ عنوان کے تحت اس بحث کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
غامدی صاحب ( خلاصۂ “پارلیمنٹ کی بالادستی”، 9 مارچ 2015):
اسلام اور جمہوریت، دونوں کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ کے فیصلوں کے سامنے عملاً سر تسلیم خم کر دیا جائے۔ اِس کے معنی یہ ہیں اور سیاسی اقدار سے واقف ہر شخص یہی سمجھے گا کہ جو فیصلہ ہو جائے، اُس کے نفاذ میں رکاوٹ نہ پیدا کی جائے، اُس کے خلاف شورش نہ برپا کی جائے، کاروبار حکومت کو اُسی کے مطابق چلنے دیا جائے، اپنے حامیوں کے جتھے منظم کر کے اُن کے ذریعے سے نظم و نسق کو معطل کرنے کی کوشش نہ کی جائے، اُس کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائے جائیں اور لوگوں کو آمادۂ بغاوت نہ کیا جائے، یہاں تک کہ اُس فیصلے کے نتیجے میں اگر حکومت کسی فرد کے خلاف کوئی اقدام کرتی ہے تو اُس کو بھی صبر کے ساتھ برداشت کر لیا جائے۔
اِس میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ یہ کہ مجھے خدا کی نافرمانی کا حکم دیا جائے۔ اِس صورت میں، البتہ میں اُس فیصلے کو عملاً بھی رد کر سکتا ہوں، بلکہ میرا فرض ہے کہ رد کر دوں۔
لیکن اِس طالب علم کی محرومی ہے کہ اِسے یہ بات کبھی معلوم نہ ہو سکی کہ پارلیمنٹ کے فیصلوں سے اختلاف کا اظہار اور جمہوری طریقوں سے اُن کو تبدیل کرانے کی کوشش بھی جرم ہے۔ اِس میں طرفہ یہ ہے کہ یہ معنی میری ہی تحریر سے اور کمال دیانت اور پرہیزگاری کے ساتھ ٹھیک اُسی جملے سے غض بصر کر کے برآمد کر لیے گئے ہیں جو پوری صراحت کے ساتھ اِن کی نفی کر رہا تھا۔
بہرحال، میں واضح کر رہا ہوں کہ پارلیمنٹ کے ہر فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم ہے، لیکن میرا جمہوری حق اور دینی فریضہ ہے کہ اُس میں اگر کوئی غلطی ہے یا کہیں حدود سے تجاوز ہو گیا ہے یا اُس سے کسی کی حق تلفی ہوئی ہے تو اُس پر دلائل کے ساتھ تنقید کروں۔
‘اَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ’ کے اصول کا تقاضا صرف یہ ہے کہ فصل نزاعات کے لیے اکثریت کی راے کو عملاً فیصلہ کن مان لیا جائے۔ اِس کا ہرگز یہ تقاضا نہیں ہے کہ اُس راے کو صحیح بھی مانا جائے اور اُس کی غلطی لوگوں پر واضح کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
  • شریعت کے کونسے احکامات پر عمل کا مطالبہ حکومت قانون کی طاقت سے کر سکتی ہے؟

مفتی تقی عثمانی صاحب (27 جنوری 2015):
پھر جناب غامدی صاحب نے آگے اپنے نکتہ نمبر9 میں فرمایا کہ ”دین کے ایجابی احکام میں سے یہ صرف نماز اور زکوٰۃ ہے جس کا مطالبہ مسلمانوں کا کوئی نظم اجتماعی اگر چاہے تو قانون کی طاقت سے کر سکتا ہے۔ ”نظم اجتماعی” سے ان کی مراد غالباً حکومت ہی ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نماز کو بزور قانون لازمی قرار دے کر بے نمازیوں پر سزا جاری کرے؟ اگر یہ واقعی کوئی قرآن کریم کا حکم ہے کہ نماز کا مطالبہ قانون کی طاقت سے کیا جائے، جیسا کہ انہوں نے فرمایا ہے، تو پھر ”اگر چاہے، کی جو شرط انہوں نے لگائی ہے، اس کا مطلب تو یہی ہے کہ اس قرآنی حکم پر عمل حکومت کی چاہت پر موقوف ہے، لہٰذا اگر وہ نہ چاہے تو اس حکم پر عمل نہ کرے۔ اس صورت میں سورہ احزاب کی اس آیت( نمبر 36) کا کیا مطلب ہو گا جس میں فرمایا گیا ہے ”اور جب اللہ اور اس کا رسول ﷺ کسی بات کا فیصلہ کر دیں تو کسی مومن مرد یا عورت کے لیے یہ گنجائش نہیں ہے کہ انہیں اپنے معاملے میں کوئی اختیار باقی رہے۔”
تبصرہ: محترم مفتی صاحب کے سوال کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ بزور قانون لازمی قرار دینے کا اختیار کیا واقعی کوئی قرآنی حکم ہے؟ اور اگر ہے تو “اگر چاہے” کی شرط کیوں جبکہ سورہ احزاب آیت 36 موجود ہے؟
پہلے کے جواب میں عرض ہے کہ جی ہاں! یہ بالکل واضح قرآنی حکم ہے جو سورہ توبہ آیات 5 اور 11 میں اللہ تعالی نے صریح الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے۔ اور اسی حکم کا حوالہ دے کہ ابو بکر نے مانعین زکوٰۃ کے خلاف علم جہاد بلند کیا تھا۔ تاہم، آیت 5 تو مشرکین عرب کے لیے خاص تھی، مگر آیت 11 کی تعمیم میں کوئی رکاوٹ نہیں، جس سے موجودہ حکومتیں بھی مسلمانوں سے نماز اور زکوٰۃ کا تقاضا بزور قانون کر سکتی ہیں۔
اور دوسرے کے جواب میں عرض ہے کہ سورہ احزاب آیت 36 اور اس موضوع کی اور بہت سی قرآنی آیات اس طرح کی شرائط سے باہم متناقض نہیں ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کے الفاظ اور ان کی نوعیت اکثر خود ہی اس طرح کے استثاءات کے حامل ہوتے ہیں، چنانچہ یہ انہی کا منشا ہوتا ہے کہ ان کا اطلاق اسی طرح کیا جائے۔ چنانچہ، نماز و زکوٰۃ کے متعلق سورہ توبہ کی محولہ بالا آیات کی نوعیت بھی نبی ﷺ کی بعثت عمومی کے مخاطبین کے لیے اس شرط کو لیے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دور حاضر میں سعودی حکومت حکومتی سطح پر زکوٰۃ وصول نہیں کرتی کیونکہ یہ قرآنی حکم فقط “اختیار” کا حامل ہے، “وجوب” کا نہیں۔ اس موضوع کی تفصیل کے لیے غامدی صاحب کی کتاب “میزان” کا متعلقہ باب دیکھا جا سکتا ہے۔
  • حکومت کی شریعت سے رو گردانی کی صورت میں علما و مصلحین کی ذمہ داری اور اقدام کی حد کیا ہے؟

غامدی صاحب کے نظریے کے اس نکتے پر ابھی تک علما کی جانب سے کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔ جیسے ہی کوئی جواب آئے گا یہاں شامل کر لیا جائے گا۔

جوابی بیانیہ: مباحثہ: یہ مباحثہ اور تبصرہ اس سائٹ سے لیا گیا ہے :

https://mymusingsinurdu.wordpress.com/2015/03/24/اسلام-اور-ریاست-ایک-فکری-مباحثہ-مابی-3

اسلام اور ریاست - جاوید احمد غامدی کے نقطہ نظر پر ردعمل
http://www.taemeernews.com/2015/01/Islam-and-state-rejoinder-to-Jawed-Ghamidi-views.html

غنوشی ماڈل، غامدی بیانیہ ، سیاسی اسلام اور تبلیغی جماعت - تجزیات

Nov 5, 2016 - غنوشی ماڈل، غامدی بیانیہ ، سیاسی اسلام اور تبلیغی جماعت. جس طرح مذہب سے سیاست کو الگ رکھنے کی پالیسی ایک اچھی اور ثمر آور کوشش ہے جس ...

اسلام اور ریاست – ایک فکری مباحثہ مابین غامدی اور علما –

Mar 24, 2015 - اور اگر غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ درست ہے تو پھر ان سب تنظیموں کی فکری اساس منہدم ہو جاتی ہے، ایک خالص جمہوری معاشرہ ہی شریعت کا مقصود ...

غامدی صاحب کے جوابی بیانیے پر کچھ گزارشات - سید ظفر احمد ...

Aug 6, 2016 - (معروف اسکالر جاوید احمد غامدی صاحب نے قومی بیانیے کے حوالے سے روزنامہ جنگ میں اپنے کالموں سے ایک بحث کا آغاز کیا تھا، جو سوشل میڈیا ...

غامدی صاحب کاجوابی بیانیہ، تکفیر کے مسئلے پر فکری انتشار ...

Sep 15, 2016 - تکفیر کے جواز کے بارے میں بعض متجددین نے ایک خلطِ مبحث پیدا کر دیا ہے، اسی سلسلے کی ایک کڑی جاویدغامدی صاحب کا ”جوابی بیانیہ“ ...

Khilafat Media - دہشتگردی کو بہانہ بنا کر جاوید احمد غامدی... | Facebook

دہشتگردی کو بہانہ بنا کر جاوید احمد غامدی نے جو "جوابی بیانیہ" پیش کیا ہے اس پر علمی حلقوں میں ایک زبردست بحث جاری ہے۔ لیکن غامدی کا اصل حدف وہ نظریہ ہے...

غامدی صاحب کا "جوابی بیانیہ" اور مسئلۂ... - Harf-e-Neem Guftah ...

غامدی صاحب کا "جوابی بیانیہ" اور مسئلۂ تکفیر: آصف افتخار صاحب کے سوالات تحریر: طارق محمود ہاشمی تعارف: محترم طارق محمود ہاشمی صاحب نے ایک مضمون "غامدی...

عظیم نامہ: غامدی صاحب - جوابی بیانیہ

Apr 1, 2015 - غامدی صاحب کے جوابی بیانیہ پر مبنی حالیہ وڈیو کو ابھی ابھی سنا. پہلی بار ایسا لگا کہ غامدی صاحب اپنے سلجھے ہوئے لہجے سے بھی الجھی ...

غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ اور جناب زاہد صدیق مغل کا نقد (۱)

وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ پیشہ ور مدرِّس ہیں اور ان دنوں NUST اسلام آباد کے شعبہ معاشیات میں معاون پروفیسر ہیں۔ انہوں نے غامدیصاحب کے جوابی بیانیہ کے کچھ ...
...........................