Pages

Tuesday, November 1, 2016

فتنہ اور مسلمانوں کے قتال کی ممانعت: Killing of Muslims Prohibited on pretext of Finah

فتنہ اور مسلمانوں کے قتال کی ممانعت:
ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ آیت " وان طائفتان من المومنین اقتتلو الخ،" کو پیش نظر رکھ کر آپ اس وقت کی باہمی جنگ میں شرکت کیوں نہیں کرتے؟
"وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ"049:009﴾
"اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے پس وہ رجوع لائے تو دونوں فریق میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے "(الحجرات 49:9)
 آپ نے فرمایا تم لوگوں کا یہ طعنہ اس سے بہت ہلکا ہے کہ میں کسی مومن کو قتل کر کے جہنمی بن جاؤں جیسے فرمان الٰہی ہے ومن یقتل مومنا متعمدا الخ، اس نے کہا اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ فتنہ باقی ہو تب تک لڑائی جاری رکھو ۔ آپ نے فرمایا یہی ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیا ۔ اس وقت مسلمان کم تھے، انہیں کافر گرفتار کر لیتے تھے اور دین میں فتنے ڈالتے تھے یا تو قتل کر ڈالتے تھے یا قید کر لیتے تھے ۔ جب مسلمان بڑھ گئے وہ فتنہ جاتا رہا ۔ اس نے جب دیکھا کہ آپ مانتے نہیں تو کہا؛
 اچھا حضرت علی اور حضرت عثمان کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں؟ 
 آپ نے فرمایا حضرت عثمان کو اللہ نے معاف فرمایا لیکن تمہیں اللہ کی وہ معافی بری معلوم ہوتی ہے ۔ حضرت علی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے اور آپ کے داماد تھے، یہ ہیں آپ کی صاحبزادی ، یہ کہتے ہوئے ان کے مکان کی طرف اشارہ کیا ۔ 
 ابن عمر ایک مرتبہ لوگوں کے پاس آئے تو کسی نے کہا کہ اس فتنے کے وقت کی لڑائی کی نسبت جناب کا کیا خیال ہے ؟ 
 آپ نے فرمایا جانتے بھی ہو فتنے سے کیا مراد ہے؟
  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کافروں سے جنگ کرتے تھے، اس وقت ان کا زور تھا، ان میں جانا فتنہ تھا، تمہاری تو یہ ملکی لڑائیاں ہیں اور روایت میں ہے کہ حضرت ابن زبیر کے زمانے میں دو شخص حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں وہ آپ کے سامنے ہے آپ حضرت عمر کے صاحبزادے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں ۔ آپ کیوں میدان جنگ میں نہیں اترے؟ 
  فرمایا اس لئے کہ اللہ نے ہر مومن کا خون حرام کر دیا ہے انہوں نے کہا کیا فتنے کے باقی رہنے تک لڑنا اللہ کا حکم نہیں؟ 
  آپ نے فرمایا ہے اور ہم نے اسے نبھایا بھی یہاں تک کہ فتنہ دور ہو گیا اور دین سب اللہ ہی کا ہو گیا ، اب تم اپنی اس باہمی جنگ سے فتنہ کھڑا کرنا اور غیر اللہ کے دین کے لئے ہو جانا جاہتے ہو ۔ ......
ایک صحیح رویت میں ہے کہ حضرت اسامہ ایک شخص پر تلوار لے کر چڑھ گئے جب وہ زد میں آ گیا اور دیکھا کہ تلوار چلا جاہتی ہے تو اس نے جلدی سے لا الہ الا اللہ کہدیا لیکن اس کے سر پر تلوار پڑ گئی اور وہ قتل ہو گیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعہ کا بیان ہوا تو آپ نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کیا تو نے اسے اس کے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کیا ؟ 
تو لا الہ الا اللہ کے ساتھ قیامت کے دن کیا کرے گا؟ 
حضرت اسامہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ تو اس نے صرف اپنے بچاؤ کیلئے کہا تھا ۔ آپ نے فرمایا کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟ بتا کون ہو گا جو قیامت کے دن لا الہ الا اللہ کا مقابلہ کرے ۔ بار بار آپ یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے دل میں خیال آنے لگا کہ کاش کہ میں آج کے دن سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا؟
 پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ اب بھی باز نہ رہیں تمہاری مخالفت اور تم سے لڑائی نہ چھوڑیں تو تم یقین مانو کہ اللہ تعالٰی تمہارا موالا، تمہارا مالک، تمہارا مددگار اور ناصر ہے 
 (تفسیر ابن کثیر)

Related :

Jihad, Extremism