Pages

Tuesday, February 25, 2014

Taliban and Deobandi Ulema

علمائے دیوبند اور طالبان
طالبان کو آج ان کی مدد کی ضرورت ہے۔ یہ مدد کیسے کی جا سکتی ہے‘ میں اس ضمن میں چند اقدامات تجویز کرتا ہوں۔
1۔ یہ علما واضح کریں کہ مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے خلاف مسلح جدوجہد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ وہ بتائیں کہ طاقت کے استعمال میں ریاست اور غیر ریاستی مسلح گروہ کی شرعی اور اخلاقی حیثیت ایک نہیں ہوتی۔
2۔ وہ طالبان قیادت سے یہ کہیں کہ وہ ریاست کے خلاف یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کریں۔
3۔ وہ ریاست سے یہ ضمانت حاصل کریں کہ جو ہتھیار پھینک دے گا، اسے جان و مال کا تحفظ ملے گا۔
4۔ وہ ریاست سے یہ مطالبہ کریں کہ حکومت ان لوگوں کی صلاحیت اور ہنر کے مطابق روزگار اور ایک باعزت زندگی گزار نے کے لیے اسباب کی فراہمی میں مدد دے۔
5۔ جو لوگ نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کرنا چاہتے ہیں‘ انہیں یہ حق ہو گا کہ ملک کے آئین اور دستور کے مطابق کوئی سیاسی جماعت بنائیں یا کسی موجود سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں۔
6۔ یہ علما اس امر کا بھی جائزہ لیں کہ اس وقت مدارس کی فکری فضا کیا ہے اور کیا وہ طالبان کے لیے سازگار ہے؟ اگر ایسا ہے تو اسے کیسے بدلا جائے تاکہ مستقبل میں ان رجحانات کو ختم کیا جا سکے۔
میں ان علما کی خدمت میں، اس سے پہلے بھی بارہا یہی بات، باندازِ دیگر عرض کر چکا ہوں۔ میں نے نجی مجالس میں اُن سے یہ سب کچھ کہا اور اپنے کالموں میں بھی لکھا۔ آج جب آثار یہ ہیں کہ ایک فیصلہ کن مرحلہ درپیش ہے تو میری دلی تمنا ہے کہ ہم دونوں اطراف سے انسانی جانوں کو ممکن حد تک بچا لیں۔ اگر میرے لیے ممکن ہوتا تو میں یہی بات طالبان کی قیادت سے براہ راست کہتا۔ میرے پاس دوسرا راستہ یہ ہے کہ میں ان لوگوں سے یہ بات کہوں جن کی سنی جا سکتی ہے۔ علمائے دیوبند چاہیں تو انسانی لہو کی اس ارزانی کو اگر روک نہ سکیں تو کم ضرور کر سکتے ہیں۔ انہیں اگر ملک اور قوم کی نہیں تو اپنے ہم مسلک طالبان کی مدد ضرور کر نی چاہیے۔ اصول وہی ہے جو اللہ کے آخری رسولﷺ نے عطا فرمایا: مسلمان بھائی کی مدد کرو، وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ظالم کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم سے روکا جائے۔
---'----''---'-----------------

علمائے دیوبند کے پاس آخری موقع ہے کہ وہ اپنے ہم مسلک طالبان کی مدد کریں۔ اصول وہی ہے جو اللہ کے رسولﷺ نے عطا فرمایا: مسلمان بھائی کی مدد کرو، وہ ظالم ہو یا مظلوم۔
آثار یہی ہیں کہ ریاست طاقت کے استعمال کا فیصلہ کر چکی۔ ریاست اگر یک سو ہو جائے تو پھر ایک ہی نتیجہ ممکن ہے۔ تاریخ میں کوئی ایک شہادت ایسی نہیں کہ کسی مسلح گروہ نے ریاست پر قابو پایا ہو۔ پاکستان میں اگر آج تک یہ نہ ہو سکا تو اس کا سبب ریاست کا ابہام تھا، طالبان کی طاقت نہیں۔ ریاستی ادارے اپنے بنائے ہوئے جال میں الجھے رہے۔ اب لگتا ہے کہ انہوں نے اس جال کو کاٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اگر 'سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ کے علم بردار پھر متحرک نہ ہوئے تو اس معرکے کا انجام معلوم ہے۔ اب صرف بہادری کی یک طرفہ داستانیں لکھی جا سکتی ہیں یا چند مزید بے گناہوں کے لہو سے ہاتھ رنگے جا سکتے ہیں۔ یہ دونوں انجام میرے لیے اور شاید اس قوم کے لیے تکلیف دہ ہیں۔ میں تو اسامہ کی موت پر بھی اداس ہوا تھا کہ کیسا صاحبِ عزیمت تھا جو 'تعبیر کی غلطی‘ کا نشانہ بن گیا۔ علمائے دیوبند کے پاس آج موقع ہے کہ وہ ان نوجوانوں کو بچا لیں جن کی جوانیاں کسی نیک مقصد کے کام آ سکتی ہیں۔
یہ مقدمہ دم توڑ چکا کہ یہ امریکہ کی لڑائی ہے۔ آج قاتل مسلمان ہیں اور مقتول بھی۔ ہلاک ہونے والے پاکستانی ہیں اور شہدا بھی۔ جس سرزمین پر یہ معرکہ برپا ہے وہ بھی پاکستان ہے۔ امریکہ ایک تماشائی ہے۔ اس کو قاتل سے زیادہ دلچسپی ہے نہ مقتول سے۔ تماشائی کا مزاج یہی ہوتا ہے؛ تاہم اس تماشائی کی تاریخ یہ ہے کہ وہ تماشے کو اپنے مفاد سے جوڑ لیتا ہے۔ اس معرکے کے فریق اگر چاہیں تو تماش بینوں کو مایوس کر سکتے ہیں۔ قوم کو بھی اب ماننا ہوگا کہ یہ پاکستان کی سلامتی اور بقا کی جنگ ہے۔ یہ مقدمہ اب قائم ہو جانا چاہیے کہ فتح ہو یا شکست، دونوں پاکستان کے حصے میں آئیں گے۔ عامۃ الناس کی حد تک یکسوئی لازم ہے۔ قوم کو معلوم ہو جائے کہ امن اس کی ضرورت ہے اور یہ جنگ ہم نے امریکہ کے لیے نہیں، اپنی بقا اور سلامتی کے لیے لڑنی ہے۔
اگر فیصلہ اب تلوار سے ہونا ہے‘ اور یہی اندیشہ ہے‘ تو پھر علمائے دیوبند کو نکلنا اور ان لوگوں کو بچانا ہو گا جو اس کی نذر ہونے والے ہیں۔ ان کو بچایا جا سکتا ہے‘ اگر یہ ریاست کی اتھارٹی کو تسلیم کر لیں۔ اس وقت علمائے دیوبند کا موقف بدقسمتی سے غلطی ہائے مضامین کا مجموعہ ہے۔ ایک غلطی تو ان سے یہ ہوئی کہ انہوں نے دین کی ایک عسکری تعبیر پیش کی۔ طالبان نے جب اسے عملاً اپنا لیا تو انہوں نے سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا۔ انہوں نے خود اُس 'اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کی معیشت کو اسلامی بنانے کا بیڑا اٹھا لیا جسے طالبان اسلامی نہیں سمجھتے۔ لال مسجد جیسے حادثات سے انہیں اس غلطی کا احساس ہوا لیکن انہوں نے رجوع نہیں کیا۔ علما کی اس مصلحت آ میز خاموشی نے انہیں دفاعی جگہ پہ لاکھڑا کیا۔ علما کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمٰن جیسے اکابر جو کچھ نج کی مجالس میں کہتے ہیں، انہیں کبھی عوام میں نہیں کہہ سکے۔ ان علما سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے ریاست اور طالبان میں توازن پیدا کر نے کی کوشش کی۔ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ دونوں کو ایک پلڑے میں رکھنا شرعاً ممکن تھا نہ قانوناً۔ اگر پاکستان کی حکومت جائز ہے تو اس کے خلاف مسلح جدوجہد ناجائز ہے۔ اور اگر یہ کوئی ناجائز حکومت ہے تو ان پر لازم تھا کہ وہ طالبان کے حق میں فتویٰ جاری کرتے اور اعلانیہ ان کا ساتھ دیتے۔ انہوں نے طالبان کو غلط کہا‘ نہ حکومت کو ناجائز۔ ان سے تیسری غلطی یہ ہوئی کہ ایک فیصلہ کن موڑ پر ان کے گروہی اور شخصی مفادات غالب آ گئے۔ مذاکرات کا مرحلہ آیا تو مولانا سمیع الحق نے اسے مو لانا فضل الرحمٰن سے مسلک کی سیاسی قیادت چھیننے کا موقع جانا۔ دوسرے مولانا کچی گولیاں نہیں کھیلے تھے۔ انہوں نے اس عمل سے الگ ہو کر اپنی ساکھ کو بچا لیا کہ ان جیسا زیرک انسان ان مذاکرات کے انجام سے واقف تھا۔ دونوں کی پہلی ترجیح ان کا مفاد بن گئی، طالبان یا پاکستان پس منظر میں چلے گئے۔ اس بحث میں اسلام کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔
اگر علمائے دیوبند دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے اور اُن کی سیاسی
قیادت گروہی و شخصی مفادات سے بلند ہو سکتی تو ان غلطیوں سے بچا جا سکتا تھا۔ جب تک یہ معرکہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان تھا، اس کی نوعیت کچھ اور تھی۔ اس وقت میدان جنگ افغانستان تھا اور اس باب میں علما کو بتانا چاہیے تھا کہ پاکستان کے شہریوں کی ذمہ داری کیا ہے اور کیا وہ اپنے نظمِ اجتماعی سے بغاوت کر سکتے ہیں؟ پھر وہ مر حلہ آیا جب تحریکِ طالبان وجود میں آئی اور اس نے ریاست پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ کیا۔ بدقسمتی سے ان علما نے اس وقت بھی راہنمائی فراہم نہیں کی۔ اب یہ معرکہ حتمی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اب ان علما کو مصلحت کی چادر اتار کر سامنے آنا اور بالخصوص اپنے ہم مسلک طالبان سے مخاطب ہونا ہو گا۔
By Khursheed Nadeem
Dunya.com.pk

Friday, February 7, 2014

Sharia.. Threat or Blessing.. نفاذِ شریعت کی دھمکی؟

نفاذِشریعت کیا کوئی دھمکی ہے جس سے مخالفین کو ڈرانا مقصود ہے؟
شریعت تو انسانوں کے لیے اللہ کی رحمت ہے۔یہ وہ راستہ ہے جو ابن آدم کی دنیاوی زندگی کے لیے آسودگی کا پیغام اوراُخروی زندگی کے لیے نجات کی نویدہے۔نادان دوستی کا یہ کرشمہ ہے کہ اسے یوں بیان کیا جا تا ہے جیسے یہ کوئی سزا ہو۔بدقسمتی سے لوگ دین کی حکمت سے واقف ہیں نہ پیغمبروں کی حکمت عملی سے۔یوں یہ اللہ کے آخری رسولﷺ کے اس ارشاد کے مصداق ہیں جس میں آپؐ نے فرمایا:لوگوں کو خوش خبری سناؤ، انہیں خوف زدہ نہ کرو۔جب سے لوگوں نے دین کو دعوت کی بجائے نظام سمجھنا شروع کیا ہے،انہیں نفاذِ شریعت کی تو فکر ہے، دعوتِ دین کی نہیں۔اسی کا ایک مظہر یہ ہے کہ لوگ معصوم انسانوں کا قتل کرتے اور اپنے تئیں گمان کرتے ہیں کہ وہ نفاذِشریعت کے پیامبر ہیں۔
انسانوں کو دین کی ضرورت کیوں ہے؟پیغمبر کیوں مبعوث ہوتے ہیں؟کیا اس لیے کہ وہ ایک ریاست بنائیں اور اجتماعیت کو اختیار کریں؟ کیا اس لیے کہ وہ ایک معاشرتی نظام ترتیب دیں؟ انسانی سماج کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ سب باتیں انسان کی فطرت میں مو جود ہیں۔ان کے لیے وحی کی ضرورت ہے نہ پیغمبروں کی۔یہ کام تو وہ بھی کرلیتے ہیں جو خدا سے واقف ہیں نہ اس کی وحی سے۔انسان اپنے مادی اور سماجی تقاضوں کا علم فطرت سے سیکھتا ہے۔اللہ کی ساری مخلوقات اسی طرح زندہ رہتی اور اپنی نسل کو بڑھاتی ہیں۔دین انسان کو یہ سکھانے آتا
ہے کہ مادی وجود کے ساتھ اس کا ایک اخلاقی وجود بھی ہے۔یہ اخلاقی وجود اسے دوسری مخلوقات سے ممتاز بنا تا ہے۔انسان کو اس آ زمائش میں مبتلا کیا گیا ہے کہ وہ اس وجود کی تطہیر کرے۔ یہ تطہیر کیسے ہو؟ یہ سکھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر بھیجے ہیں۔ پیغمبروں نے ایک تو اس بات کی خبر دی کہ اخلاقی وجود کی تطہیر اور تزکیے کے ساتھ اس کی اُخروی نجات وابستہ ہے۔اس کے ساتھ انہوں نے اپنا اسوہ پیش کیا کہ یہ تطہیر کیسے ہوگی۔یہی دین کی دعوت ہے اورپیغمبر اسی کے داعی ہوتے تھے۔ اس کا شعور بھی اگرچہ انسان کی فطرت میں مو جود ہے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے اس کی یاد ددہانی کا بھی اہتمام فرما یا ہے۔انسان جب تک ایک فرد ہے،اس کی ذمہ داری اپنے وجود کا تزکیہ ہے۔اگر وہ مل کر ایک اجتماعیت تشکیل دیتے ہیں توپھر ان کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی تطہیر بھی کریں۔ پیغمبر یہی بات کہنے کے لیے بھیجے گئے۔ ان کا کام تذکیر ہے۔ انہوں نے اسی کی یاد دہانی کرائی۔ لوگ مان لیں تو اسی میں ہی ان کی بھلائی ہے اور اگر نہ مانیں توانہیں زبر دستی اس کا پابند نہیں بنا یا جا سکتا۔یہی بات اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسولﷺ کو ارشاد فرمائی:آپ تذکیر کرنے والے ہیں،آپ ان پر داروغہ نہیں۔(الغاشیہ21:88)
مسلمان جب کوئی ریاست قائم کرتے ہیں تویہ ان کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ دین کے ان احکامات کو ریاستی سطح پہ نافذ کریں جن کا تعلق ریاست سے ہے۔اجتماعیت کی دو صورتیں ہوتی ہیں... ایک معاشرہ اور ایک ریاست۔معاشرہ ایک نظامِ اقدار سے قائم رہتا ہے اور ریاست قانون سے۔اقدار وعظ و نصیحت اور شعوری تربیت سے فروغ پاتی ہیں‘ یہ کام جبر سے نہیں ہوتا۔ہرمعاشرے میں سماجی ادارے یہ کام کرتے ہیں۔ہمارے تہذیبی پس منظر میں گھر، مدرسہ،خانقاہ، مسجد اور دوسرے ادارے یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔قانون اس نظامِ اقدار کا پابند اور اس کا عکس ہوتا ہے‘ اس لیے قانون اس وقت تک مو ثر نہیں ہو تا جب تک نظام ِ اقدار مستحکم نہ ہو جائے۔ ہمارے ہاں لوگ ریاست اور سماج کے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے۔وہ سماجی تشکیل کا کام بھی قانون سے لینا چاہتے اور اسے نفاذِ شریعت کا نام دیتے ہیں۔یہ پیغمبروں کی حکمت عملی سے بے خبری کی دلیل ہے۔
اللہ کے آخری رسولؐ نے پہلے ایک سماج بنایا۔ جب ایک نظام ِ اقدار مستحکم ہو گیا تب اللہ تعالیٰ نے قانون نازل کر ناشروع کیا۔مکہ کے تیرہ سال کوئی قانون نہیں اترا۔قرآن مجید کی مکی آیات میں کوئی قانون بیان نہیں ہوا۔شریعت اس وقت نازل ہونا شروع ہوئی جب مدینہ میں مسلم سماج مستحکم ہو گیا۔ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ نے اس کی حکمت بیان فرمائی۔کہا اگر لوگوں سے ابتدا ہی میں یہ کہہ دیا جا تا کہ بدکاری چھوڑ دیں تو وہ کبھی اس پر آ مادہ نہ ہوتے۔تمام اخلاقی معاملات میں اللہ کے رسولؐ کی حکمتِ عملی یہی رہی کہ پہلے سماج کو حساس بنایا‘ اس کے بعد قانون دیا جس کے لیے سماج تیار ہو چکا تھا۔ہمارے ہاں اسلام پسند چو نکہ ریاستی پس منظر(State Paradigm) میں سوچنے کے عادی ہیں، اس لیے نفاذِ شریعت سے ان کی مراد قانون سازی اور ریاستی جبرہوتا ہے۔پاکستان اس کا تجربہ کر چکا۔ یہاں اسلامی قانون سازی کے باب میں کوئی کمی نہیں لیکن سماج کہاں کھڑا ہے، ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔اس ملک میں تیس سال ہوگئے حدود قوانین کو نافذہوئے‘ اب تک عدالتوں کو کوئی ایک گواہ ایسا نہیں مل سکا جو شریعت کے مطابق گواہی دینے کا اہل ہو۔ نتیجہ یہ ہے کہ کسی کو حدود قوانین کے تحت سزا نہیں دی جا سکی۔ سماج جب تیار نہیں ہوتا تو اس میں کوئی قانون نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔دین کے جید علمایہ بات جانتے ہیں۔ مو لا نا مودودی نے لکھاتھاکہ جب سماج اخلاقی طور پر کمزور ہو تو اس میں سزا دینے کی جلدی نہیں کر نی چاہیے بلکہ ایسے سماج میں تو اُن لو گوں کو سر یا خان بہادر کا خطاب دینا چاہیے جو خود کو پاکیزہ رکھتے ہیں۔
جو ذہن دین کو محض نظام سمجھتا ہے، وہ اس بات کو سمجھنے سے معذور ہو تا ہے۔دین ہدایت ہے، دین خیر خواہی ہے۔ دین دراصل دعوت ہے۔جب ہم دین کو دعوت سمجھتے ہیں تو ہمارے اندر داعیانہ مزاج پیدا ہو تا ہے۔یہ مزاج ان لوگوں کے بارے میں خیر خواہی کے جذبات پیدا کرتا ہے جو اس ہدایت سے محروم ہیں‘ جن پر اس ہدایت کے فائدے واضح نہیں۔اس سے وہ پیغمبرانہ سوزپیدا ہوتا ہے جس کے تحت پتھر مارنے والوں کو بھی دعا دی جا تی ہے۔پھر داعی اس خیال میں گھلتا چلا جاتا ہے کہ لوگ جہنم کی طرف بڑھ رہے ہیں اور وہ ان کی ہدایت کے لیے بے چین ہو جا تا ہے۔ آج نفاذِ شریعت کا علمبردارمختلف رائے رکھنے والے کو اپنا حریف سمجھتا ہے۔ وہ ان کے سامنے شریعت کو ایسے پیش کرتا ہے جیسے انہیں دھمکی دے رہا ہے۔ یہ ذہن سماج کی اہمیت سے واقف نہیں ہے اوریہ چاہتا ہے کہ بالجبر اسے شریعت کا پابند بنائے۔اس حوالے سے بھی ہمارے سامنے افغانستان کا تجربہ مو جود ہے۔طالبان نے یہ کام جبر سے کیا۔ان کے جانے کے بعد اگلے دن کابل کے سینماؤں میں اتنا رش ہوا کہ لوگوں نے کھڑکیاں اور دروازے توڑ دیے۔
شریعت ایک خیر ہے‘ یہ کوئی دھمکی نہیں۔نفاذ ِ شریعت کی خواہش بہت محمود ہے لیکن یہ محض قانون اور جبر کا نام نہیں ہے۔یہ ایک داخلی تبدیلی کاناگزیر نتیجہ ہے۔ہماری کوشش اس داخلی تبدیلی کے لیے ہو نی چاہیے۔اس کے بعد سماج خود شریعت کی خواہش کرے گا۔یہ اُسی وقت ہوگا جب ہم دین کو نظام کے بجائے دعوت اور خود کو داروغہ کے بجائے داعی سمجھیں گے۔

http://dunya.com.pk/index.php/author/khursheed-nadeem/2014-02-08/5986/30216157#tab2